معصومین علیھم السلام صفات و اسماء اللہ عزوجل کے مظھر ھیں
اھل تشیع کی معتبر روایات کےمطابق آئمہ اھلبیت علیھم السلام مختلف مقامات و کرامات کےمالک ھیں جوکہ خداوندتعالی کی عبودیت و بندگی کےسبب سےانہیں ملےھیں بےشک انسان اطاعت الھی میں جتنی جستحوکرےگا اتناھی اس کےوجودمیں فضائل خداوندی کا اضافہ ہوگا
مثلا یہ کہ انبیاء یا آئمہ اھلبیت علیھم السلام جوکہ ایسےکمالات رکھتےھیں تواس کا مطلب یہ ھرگزنہیں کہ وہ مقام خداوندی تک پھنچ گئےھیں یاخداوندتعالی ان کےوجودمیں حلول کرگیاھےبلکہ اس معنی میں ھے
کہ قرب خداوندی کی وجہ سےخداوندتعالی نےان کو اتنی فضیلت دی ھےکہ بعض معجزات کو ان کےوجودسےظاھرکرتاھےیا ان کو بعض امور کی انجام کا اذن دیتاھے
(خداوندتعالی کا کسی کےجسم میں حلول کرنایاخداوندتعالی کا کسی کےجسم میں اتحادکرنا اسلامی نقطہ نظر سےممنوع ھے_عقائد استدلالی ج 1 ص 157 )
البتہ نظریہ حلول یااتحاد کی ابتداء مسیحیت سےشروع ھوئی جوکہ معتقدہیں خداوندنےحضرت عیسی یاحضرت مریم علیھماالسلام میں حلول کیامخصوصا انجیل یوحنا میں یہ بات مذکورھے
بعض شیعہ وسنی ممکن ھےکم علمی کی وجہ سےاس عقیدےکےقائل ھوں لیکن جمھور شیعہ نےاس عقیدہ کی سختی سےرد کی ھے
مثال کےطورپر
علامہ حلی.رح_ کشف المراد ص 100
ملاصدرا_ المشاعرہ ج 1 ص 53 + شواھدالربوبیہ ص 161
محمدحسین طباطبائی _نھایہ الحکمہ ج1 ص 275
مکارم شیرازی _تفسیرنمونہ ج 1 ص 164
سیدمحمدحسین حسینی طھرانی_امام شناسی ج 17 ص 244
مختصر یہ کہ مذھب اھل تشیع روایات اھلبیت علیھم السلام کےمطابق کسی طورپر بھی حلول تشبیہ و اتحاد کا قائل نہیں ھے
وصوفیانہ عقائدکا قطعا طورپر انکارکرتاھے
قرآن پاک میں ھر اچھی صفت و ھرفعل کی نسبت خداوندتعالی کی طرف دی گئی ھے دوسری طرف قرآن پاک میں انبیاء کا مردےزندہ کرنابیمار کو شفادیناامور میں تصرف کرنافرشتوں کاکائنات کےامور کی تدبیرکرنابھی واضح الفاظ کےساتھ موجودھے
مگر اس فرق کےساتھ کہ خداوندتعالی کی قوت و اقتدار ذاتی ھے
جبکہ انبیاء واولیاء کی طاقت یاتصرف اسی قدرت خداوندی کےتحت ھے
دوسرےالفاظ میں انبیاء واولیاء اسماء وصفات خداوندی کےمظھرہیں
اسی طرح روایات معصومنی واقوال علماء میں موجودھے کہ آئمہ اھلبیت علیھم السلام اسماء وصفات خداوندی کےمظھرکامل ھیں
یہاں پر ھم ایک جاھلانہ شبہ کا ازالہ کرناضروری سمجھتےھیں
بعض عمامہ پوش جاھل مولوی
اس نظریےکو شرک و کفر سےتشبیہ دیتےھوئےاپنےھی ھم مسلک حضرات کو مشرک کہتےھیں جبکہ اس نظریےکی وجہ ان کی صفات خداوندی کی تفصیل سےجھالت ھے
لہذا ھم ایک سادہ شیعہ مومن کی مشکلات کو مدنظر رکھتےھوئےمختصرا ان امور کی وضاحت کرتےھوئے ان کی جھالت سےپردہ اٹھاتےھیں تاکہ شیعہ عقائد بھی محفوظ رہ سکیں اورتمام مومن ان نجف و ایران میں نان اکٹھاکرنےوالےجاھل مولویوں کی شرارت وجھالت سےبھی واقف ھوسکیں
صفات خداوندتعالی کی دو قسمیں ھیں
1.صفات ذاتی
2.صفات فعلی
صفات ذاتی خداوندتعالی کی وہ صفات ھیں جوکسی بھی دوسرےوجود کو نظرمیں لیےبغیر فقط خداوندتعالی کی ذات کیلیےثابت ھیں مثال کےطورپرحی وعالم ھوناقادر(اسفارجلد6صفحہ 106+133=آموزش عقائدص 72)
صفت فعلی
صفات فعلی وہ صفات ھیں جو خداوندتعالی کےمخلوق کےرابطہ کےطورپر اس کی ذات پاک سےانتزاع پاتی ھیں مثال کےطورپر
لطیف کریم خالق رازق شافی رحمان رحیم
صفات ذات مطلق طورپر خداوندتعالی سےمتعلق ھیں اور ان کا مظھر ذات خداوندی کےسوااور کوئی نہیں ھےمثال کےطورپر حی ھوناعالم ھوناقادر ھونافقط اس ذات پاک کی صفات ھیں
اورآئمہ اھلبیت وانبیاء علیھم السلام بھی صفات ذاتی خداوندکےمظھرنہیں ھیں بلکہ صفات فعلی خداوندکےمظھرھیں
بلکہ آئمہ اھلبیت علیھم السلام صفات فعلی خداوندتعالی کےمظھرکامل ھیں جس کاذکرقرآن پاک میں بھی موجودھے
اب ھم قرآن پاک سےثابت کرتےھیں کہ غیر خداوندمیں صفات فعلی کاھوناممکن ھے
سورہ آل عمران کی آیت نمبر49 میں حضرت عیسی علیہ السلام خالق ھونےکی صفت کو اپنےلیےاستعمال کرتےھوئےفرماتےھیں کہ میں تمہارےلیےمٹی سےپرندےکی ھیئت بناؤں گااوراس میں پھونک ماروں گاتووہ میری بنائی ھوئی ھیئت خداوندتعالی کےاذن سےپرندہ بن جائےگی
پھرفرماتےھیں میں پیدائشی اندھےاور برص کےمریضوں کوٹھیک کروں گااور جوکچھ تم گھروں میں کھاتےھواس کی بھی خبردوں گا
وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِيٓ إِسْرَآئِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ أَنِّيٓ أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنائے گا اور وہ ان سے کہے گا کہ میں تمھارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناؤں گا اور اس میں کچھ دم کردوں گا تو وہ حکهِ خدا سے پرندہ بن جائے گا اور میں پیدائشی اندھے اور َمبروص کا علاج کروں گا اور حکهِ خدا سے مفِدوں کو زندہ کروں گا اور تمہیں اس بات کی خبردوں گا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا گھر میں ذخیرہ کرتے ہو- ان سب میں تمہارے لئے نشانیاں ہیں اگر تم صاحبانِ ایمان ہو(٤٩)
آل عمران - 49
خالق ھوناخداوندتعالی کی صفت فعلی ھےجوقرآن پاک میں حضرت عیسی علیہ السلام کیلیےاستعمال ھوئی ھےلہذا اس سےکوئی مشرک نہیں ھوتاکیونکہ اس منبع و قدرت خداوندتعالی کی ذات گرامی ھےاورحضرت عیسی۔ع نےخداکی اجازت سےپرندےکوخلق کیا
نیزاسی طرح ملائک حکم خداوندی سےکائنات کےامور کی تدبیرکرتےھیں
فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا
پھر امور کا انتظام کرنے والے ہیں(٥)
النازعات - 5
اصل خالق ومدبرکائنات خداوندکی ذات ھےلیکن اس کی اجازت سےملائک کائنات کےامور کی تدبیرکرتےھیں
اب دیکھتےھیں کہ کیاآئمہ اہلبیت علیھم السلام کیلیےبھی قرآن پاک میں صفات خداوندی کاذکرھواھے
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
یقینا تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر رؤف و رحیم ہے(١٢٨)
التوبة - 128
خداوندتعالی نےرسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ کیلیےرؤف و رحیم کی صفت کاذکرکیاھےجوکہ صفت فعلی خداوندھے
لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ۖ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
جن لوگوں کو آخرت پرایمان نہیں ہے ان کی مثال بدترین مثال ہے اور اللہ کے لئے بہترین مثال ہے کہ وہی صاحب هعزّت اور صاحب هحکمت ہے(٦٠)
النحل - 60
سورہ نحل کی اس آیہ شریفہ میں مثل الاعلی کا ذکر ھےمثل کامعنی علامہ محمدحسین نےتفسیرالمیزان میں صفت کیاھےیعنی صفات اعلی
اورروایات اھلبیت علیھم السلام میں ھےکہ آئمہ اھلبیت علیھم السلام مثل الاعلی ھیں اوران روایات کو بزرگ محدثین نےنقل کیاھےجن کی بات ھرشیعہ قبول کرتاھےالبتہ اب جولوگ ھربات ھرروایت کےذکرپرکہتےھیں کہ کتب اربعہ سےدکھاؤتوان کو توضرورھی قبول کرناچاھیےاگراب بھی بہانےبنائےجائیں توواضح ھےکہ وہ شخص مقصرھےکیونکہ جوھرروایت پرکہتاھےکتب اربعہ سےدکھاؤ تواب کتب اربعہ کی بات بھی قبول نہیں تومقصرھوا
کیونکہ اس میں فضیلت اھلبیت کوقبول کرناکاملکہ ھی نہیں ھے
ان روایات کاذکرجن میں آئمہ اھلبیت علیھم السلام کو مثل الاعلی کہاگیاھے
علامہ بحرانی اپنی تفسیر برھان میں شیخ صدوق.رح سےنقل کرتےھوئےلکھتےھیں کہ
رسول خدا نےمولا علی علیھماالسلام سےمخاطب ھوکرفرمایا
یاعلی
توحجت اللہ ھےتوباب اللہ ھےتوھی اللہ کی طرف جانےوالاراستہ ھےتوھی خبرعظیم ھےتوصراط مستقیم ھےاور توھی مثل الاعلی ھے
99-/11320 _7- ابْنُ بَابَوَيْهِ،قَالَ:حَدَّثَنَا حَمْزَةُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ(عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ)بِقُمْ فِي رَجَبٍ سَنَةَ تِسْعٍ وَ ثَلاَثِينَ وَ ثَلاَثِمِائَةٍ،قَالَ:حَدَّثَنِي أَبِي،قَالَ:
أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ،فِيمَا كَتَبَ إِلَيَّ فِي تِسْعٍ وَ ثَلاَثِمِائَةٍ،قَالَ:حَدَّثَنِي أَبِي،عَنْ يَاسِرٍ الْخَادِمِ،عَنْ أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى الرِّضَا(عَلَيْهِ السَّلاَمُ)،عَنْ أَبِيهِ،عَنْ آبَائِهِ،عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ(عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ)،قَالَ:«قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ)لِعَلِيٍّ(عَلَيْهِ السَّلاَمُ): يَا عَلِيُّ،أَنْتَ حُجَّةُ اللَّهِ،وَ أَنْتَ بَابُ اللَّهِ،وَ أَنْتَ الطَّرِيقُ إِلَى اللَّهِ،وَ أَنْتَ النَّبَأُ الْعَظِيمُ، وَ أَنْتَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ،وَ أَنْتَ الْمَثَلُ الْأَعْلَى.
البرهان في تفسير القرآن جلد : 5 صفحه : 565
معصومین علیھم السلام کا خداوندتعالی کےاسماء الحسنی ھونا
وَلِلَّهِ الْأَسْمَآءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِيٓ أَسْمَآئِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور اللہ ہی کے لئے بہترین نام ہیں لہذا اسے ان ہی کے ذریعہ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں بے دینی سے کام لیتے ہیں عنقریب انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا(١٨٠)
الاعراف - 180
اس آیت کی تفسیرکرتےھوئے امام صادق علیہ السلام قسم کھاتےھوئے فرماتےھیں
خدا کی قسم ھم خداوندتعالی کےوہ اسماء حسنی ھیں کہ خداوندکسی کی عبادت قبول نہیں کرتامگر ھماری معرفت کےذریعے
99-/4091 _4- مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ:عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَشْعَرِيِّ،وَ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى،جَمِيعاً،عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ،عَنْ سَعْدَانَ بْنِ مُسْلِمٍ،عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ،عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ(عَلَيْهِ السَّلاَمُ) ،فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ: وَ لِلّٰهِ الْأَسْمٰاءُ الْحُسْنىٰ فَادْعُوهُ بِهٰا ،قَالَ:«نَحْنُ-وَ اللَّهِ-اَلْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى الَّتِي لاَ يَقْبَلُ اللَّهُ مِنَ الْعِبَادِ [1] إِلاَّ بِمَعْرِفَتِنَا»
الاصول الکافی جلد 1 صفحہ 351
البرھان فی تفسیرالقرآن جلد 1 صفحہ 144
رسول خدا.ص کارؤف و رحیم ھونامعصومین علیھم السلام کامثل الاعلی ھونا اسماء حسنی ھونا سب روایات و آیات سےثابت ھےاور یہ سب خداوندتعالی کی صفات فعلی ھیں جو آئمہ معصومین میں موجودہیں اور آئمہ ان کامظھرکامل ھیں
صفات فعلی میں سےرازق ھونابھی ھے ھم امام صادق علیہ السلام کی روایت سےرسول خدا.ص کےوجودمبارک میں رازق ھونےکی صفت فعلی دکھاتےھیں
امام صادق (ع) کی گواہی کے مطابق اللہ بھی رازق رسول اللہ (ص) بھی رازق
ایک بار ابو حنیفہ حضرت امام جعفر صادق (ع) کیساتھ کھانا کھا رھا تھا_ جب کھانا کھا چکے تو امام (ع) نے فرمایا
الحمدللہ رب العالمین ھذا منک و من رسولک
رب العالمین کا شکر ھے کہ یہ روزی تیری طرف سے اور تیرے رسول کی طرف سے ہے
ابو حنیفہ نے کہااے ابو عبداللہ آپ نے اللہ کے ساتھ (رسول اللہ ص کو)شریک ٹهہرایا ہے؟
تو آپ (ع) نے فرمایا: مقام افسوس ھے کہ اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ھے: وما نقموا الا ان اغنھم اللہ و رسولہ من فضلہ
(التوبہ 74)
انہیں اس بات پر غصہ ھے کہ اللہ اور اسکے رسول نے اپنے فضل سے انہیں دولت سے مالا مال کیا ھےدوسری جگہ فرمایا: اگر یہ لوگ اللہ اور رسول (ص) کے دیئے ھوئے پر خوش رھتے اور کہ دیتے کہ ھمارے لیئے اللہ کافی ھے عنقریب اللہ اپنے فضل سے ھمیں بہت کچھ دیگا اور اسکا رسول بھی اور ھم اللہ کی طرف توجہ رکھتے ھیں
(التوبہ 59)
ابو حنیفہ نے تعجب کے لہجے میں کہا: گویا یہ آیت میں نے قرآن میں پڑھی ہی نہیں ابو حنیفہ نے جب کہا کہ میں نے آج تک یہ آیات پڑهی ہیں نہ سنی ہیں
تو اس کے جواب میں امام نے فرمایا کہ تم نے پڑهی بهی ہیں اور سنی بهی لیکن تمهارے اور تم جیسوں کہ بارے میں اللہ فرماتا ہے کہ ام علی قلوب اقفالها (سورہ محمد 24)کہ ان کے دلوں پہ تالے لگے ہوئے ہیں
پهر فرمایا کہ
کلا بل ران علی قلوبهم بما کانوا یکسبون.(سورہ المطففین آیہ 14 )
ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دلوں پہ زنگ لگ گئے ہیں
كنز الفوائد للكراجكي : ج 2 ص 36 ـ 37
بحار الاَنوار : ج 10 ص 216 ح 17 وج 47 ص 240 ح 25
آج کےجاھل عمامہ پوش ابو حنیفہ پر بھی تعجب ھے جسے یہ آیات قرآن میں نظر نہیں آتی
خذاوندتعالی نےخاص طورپر آئمہ اھلبیت علیھم السلام کو تصرف عطاکیاجن کےبارےمیں فرمایا
میرےسارےاسماء بہترین ھیں اور مثل الاعلی ھیں
آئمہ علیھم السلام خداوندتعالی کی صفات واسماء کےمظھرکامل ھیں
اب ھم علامہ مجلسی .رح کی زبانی مثل الاعلی و اسماء حسنی کی تفسیربیان کرتےھیں
علامہ مجلسی مثل الاعلی کی تفسیربیان کرتےھوئےفرماتےھیں
خداوندتعالی نےاپنےنور کی مثال آیت نور میں آئمہ علیھم السلام کاذکرکرکےدی ھےاور مثل حجت و صفت کےمعنی میں ھےپس آئمہ اھلبیت حجت خداہیں اور خداوندتعالی کی صفات کےمالک ہیں
و المثل الأعلى" أي: مثل الله نوره تعالى بهم في آية النور، و الأفراد لأنه مثل بجميعهم مع أن نورهم واحد، و المثل أيضا يكون بمعنى الحجة و الصفة، فهم حجج الله و المتصفون بصفاته كأنهم صفاته على المبالغة، كما قال سبحانه" وَ لِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلى [2]" و قال تعالى" وَ لَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلى فِي السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ
ملاذ الأخيار في فهم تهذيب الأخبار المؤلف : العلامة المجلسي الجزء : 9 صفحة : 252
علامہ مجلسی.رح بحارالانوار میں اسی روایت کو نقل کرتےھوئے کہ آئمہ علیھم السلام کاذکرخداوندتعالی نےآیت نور میں کیاھےاور آئمہ حجج اللہ ھیں اور اللہ عزوجل کی صفات کےمالک ھیں
والمثل الاعلى أي مثل الله نوره تعالى بهم في آية النور ، والافراد لانه مثل بجميعهم مع أن نورهم واحد ، والمثل ايضا يكون بمعنى الحجة والصفة ، فهم حجج الله والمتصفون بصفاته
بحار الأنوار - ط مؤسسةالوفاء نویسنده : العلامة المجلسي جلد : 102 صفحه : 136
مومنین کرام آپ نےمذکورہ مطالب کامطالعہ کیاھم نےصفات خداوندی کومختصرطورپر آپ کی خدمت میں پیش کی کہ خداوند کی صفت دوقسم کی ھیں اول صفات ذاتی اوردوم صفات فعلی جبکہ صفات ذاتی فقط ذات خداوندتعالی کی ذات سےمخصوص ھیں جبکہ صفات فعلی عباداللہ میں ہوتی ھیں اورآئمہ اھلبیت علیھم السلام اس کےمظھرکامل ھیں جبکہ آیات وروایات سےھم نےدلائل بھی آپ کی خدمت میں پیش کیےھیں حضرت عیسی۔ع کاقرآن میں پرندےکوخلق کرکےخالق کالفظ استعمال کرنااورقرآن پاک میں ھی رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ کورؤوف و رحیم کہاجانااورآئمہ اھلبیت علیھم السلام کو اسماء حسنی و مثل الاعلی کہاجانایہ سب اس بات کی دلیلیں ھیں کہ خداوندتعالی کی صفات فعلی کا غیرخداکےوجودمیں پایاجاناعین ممکن ھےجبکہ علامہ مجلسی.رح جیسےعظیم محدث کےاقوال بھی ھم نےنقل کیےاورثابت ھواکہ اس عقیدےسےکوئی کافرمشرک نہیں ھوتا
اھل تشیع کی معتبر روایات کےمطابق آئمہ اھلبیت علیھم السلام مختلف مقامات و کرامات کےمالک ھیں جوکہ خداوندتعالی کی عبودیت و بندگی کےسبب سےانہیں ملےھیں بےشک انسان اطاعت الھی میں جتنی جستحوکرےگا اتناھی اس کےوجودمیں فضائل خداوندی کا اضافہ ہوگا
مثلا یہ کہ انبیاء یا آئمہ اھلبیت علیھم السلام جوکہ ایسےکمالات رکھتےھیں تواس کا مطلب یہ ھرگزنہیں کہ وہ مقام خداوندی تک پھنچ گئےھیں یاخداوندتعالی ان کےوجودمیں حلول کرگیاھےبلکہ اس معنی میں ھے
کہ قرب خداوندی کی وجہ سےخداوندتعالی نےان کو اتنی فضیلت دی ھےکہ بعض معجزات کو ان کےوجودسےظاھرکرتاھےیا ان کو بعض امور کی انجام کا اذن دیتاھے
(خداوندتعالی کا کسی کےجسم میں حلول کرنایاخداوندتعالی کا کسی کےجسم میں اتحادکرنا اسلامی نقطہ نظر سےممنوع ھے_عقائد استدلالی ج 1 ص 157 )
البتہ نظریہ حلول یااتحاد کی ابتداء مسیحیت سےشروع ھوئی جوکہ معتقدہیں خداوندنےحضرت عیسی یاحضرت مریم علیھماالسلام میں حلول کیامخصوصا انجیل یوحنا میں یہ بات مذکورھے
بعض شیعہ وسنی ممکن ھےکم علمی کی وجہ سےاس عقیدےکےقائل ھوں لیکن جمھور شیعہ نےاس عقیدہ کی سختی سےرد کی ھے
مثال کےطورپر
علامہ حلی.رح_ کشف المراد ص 100
ملاصدرا_ المشاعرہ ج 1 ص 53 + شواھدالربوبیہ ص 161
محمدحسین طباطبائی _نھایہ الحکمہ ج1 ص 275
مکارم شیرازی _تفسیرنمونہ ج 1 ص 164
سیدمحمدحسین حسینی طھرانی_امام شناسی ج 17 ص 244
مختصر یہ کہ مذھب اھل تشیع روایات اھلبیت علیھم السلام کےمطابق کسی طورپر بھی حلول تشبیہ و اتحاد کا قائل نہیں ھے
وصوفیانہ عقائدکا قطعا طورپر انکارکرتاھے
قرآن پاک میں ھر اچھی صفت و ھرفعل کی نسبت خداوندتعالی کی طرف دی گئی ھے دوسری طرف قرآن پاک میں انبیاء کا مردےزندہ کرنابیمار کو شفادیناامور میں تصرف کرنافرشتوں کاکائنات کےامور کی تدبیرکرنابھی واضح الفاظ کےساتھ موجودھے
مگر اس فرق کےساتھ کہ خداوندتعالی کی قوت و اقتدار ذاتی ھے
جبکہ انبیاء واولیاء کی طاقت یاتصرف اسی قدرت خداوندی کےتحت ھے
دوسرےالفاظ میں انبیاء واولیاء اسماء وصفات خداوندی کےمظھرہیں
اسی طرح روایات معصومنی واقوال علماء میں موجودھے کہ آئمہ اھلبیت علیھم السلام اسماء وصفات خداوندی کےمظھرکامل ھیں
یہاں پر ھم ایک جاھلانہ شبہ کا ازالہ کرناضروری سمجھتےھیں
بعض عمامہ پوش جاھل مولوی
اس نظریےکو شرک و کفر سےتشبیہ دیتےھوئےاپنےھی ھم مسلک حضرات کو مشرک کہتےھیں جبکہ اس نظریےکی وجہ ان کی صفات خداوندی کی تفصیل سےجھالت ھے
لہذا ھم ایک سادہ شیعہ مومن کی مشکلات کو مدنظر رکھتےھوئےمختصرا ان امور کی وضاحت کرتےھوئے ان کی جھالت سےپردہ اٹھاتےھیں تاکہ شیعہ عقائد بھی محفوظ رہ سکیں اورتمام مومن ان نجف و ایران میں نان اکٹھاکرنےوالےجاھل مولویوں کی شرارت وجھالت سےبھی واقف ھوسکیں
صفات خداوندتعالی کی دو قسمیں ھیں
1.صفات ذاتی
2.صفات فعلی
صفات ذاتی خداوندتعالی کی وہ صفات ھیں جوکسی بھی دوسرےوجود کو نظرمیں لیےبغیر فقط خداوندتعالی کی ذات کیلیےثابت ھیں مثال کےطورپرحی وعالم ھوناقادر(اسفارجلد6صفحہ 106+133=آموزش عقائدص 72)
صفت فعلی
صفات فعلی وہ صفات ھیں جو خداوندتعالی کےمخلوق کےرابطہ کےطورپر اس کی ذات پاک سےانتزاع پاتی ھیں مثال کےطورپر
لطیف کریم خالق رازق شافی رحمان رحیم
صفات ذات مطلق طورپر خداوندتعالی سےمتعلق ھیں اور ان کا مظھر ذات خداوندی کےسوااور کوئی نہیں ھےمثال کےطورپر حی ھوناعالم ھوناقادر ھونافقط اس ذات پاک کی صفات ھیں
اورآئمہ اھلبیت وانبیاء علیھم السلام بھی صفات ذاتی خداوندکےمظھرنہیں ھیں بلکہ صفات فعلی خداوندکےمظھرھیں
بلکہ آئمہ اھلبیت علیھم السلام صفات فعلی خداوندتعالی کےمظھرکامل ھیں جس کاذکرقرآن پاک میں بھی موجودھے
اب ھم قرآن پاک سےثابت کرتےھیں کہ غیر خداوندمیں صفات فعلی کاھوناممکن ھے
سورہ آل عمران کی آیت نمبر49 میں حضرت عیسی علیہ السلام خالق ھونےکی صفت کو اپنےلیےاستعمال کرتےھوئےفرماتےھیں کہ میں تمہارےلیےمٹی سےپرندےکی ھیئت بناؤں گااوراس میں پھونک ماروں گاتووہ میری بنائی ھوئی ھیئت خداوندتعالی کےاذن سےپرندہ بن جائےگی
پھرفرماتےھیں میں پیدائشی اندھےاور برص کےمریضوں کوٹھیک کروں گااور جوکچھ تم گھروں میں کھاتےھواس کی بھی خبردوں گا
وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِيٓ إِسْرَآئِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ أَنِّيٓ أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنائے گا اور وہ ان سے کہے گا کہ میں تمھارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناؤں گا اور اس میں کچھ دم کردوں گا تو وہ حکهِ خدا سے پرندہ بن جائے گا اور میں پیدائشی اندھے اور َمبروص کا علاج کروں گا اور حکهِ خدا سے مفِدوں کو زندہ کروں گا اور تمہیں اس بات کی خبردوں گا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا گھر میں ذخیرہ کرتے ہو- ان سب میں تمہارے لئے نشانیاں ہیں اگر تم صاحبانِ ایمان ہو(٤٩)
آل عمران - 49
خالق ھوناخداوندتعالی کی صفت فعلی ھےجوقرآن پاک میں حضرت عیسی علیہ السلام کیلیےاستعمال ھوئی ھےلہذا اس سےکوئی مشرک نہیں ھوتاکیونکہ اس منبع و قدرت خداوندتعالی کی ذات گرامی ھےاورحضرت عیسی۔ع نےخداکی اجازت سےپرندےکوخلق کیا
نیزاسی طرح ملائک حکم خداوندی سےکائنات کےامور کی تدبیرکرتےھیں
فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا
پھر امور کا انتظام کرنے والے ہیں(٥)
النازعات - 5
اصل خالق ومدبرکائنات خداوندکی ذات ھےلیکن اس کی اجازت سےملائک کائنات کےامور کی تدبیرکرتےھیں
اب دیکھتےھیں کہ کیاآئمہ اہلبیت علیھم السلام کیلیےبھی قرآن پاک میں صفات خداوندی کاذکرھواھے
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
یقینا تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر رؤف و رحیم ہے(١٢٨)
التوبة - 128
خداوندتعالی نےرسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ کیلیےرؤف و رحیم کی صفت کاذکرکیاھےجوکہ صفت فعلی خداوندھے
لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ۖ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
جن لوگوں کو آخرت پرایمان نہیں ہے ان کی مثال بدترین مثال ہے اور اللہ کے لئے بہترین مثال ہے کہ وہی صاحب هعزّت اور صاحب هحکمت ہے(٦٠)
النحل - 60
سورہ نحل کی اس آیہ شریفہ میں مثل الاعلی کا ذکر ھےمثل کامعنی علامہ محمدحسین نےتفسیرالمیزان میں صفت کیاھےیعنی صفات اعلی
اورروایات اھلبیت علیھم السلام میں ھےکہ آئمہ اھلبیت علیھم السلام مثل الاعلی ھیں اوران روایات کو بزرگ محدثین نےنقل کیاھےجن کی بات ھرشیعہ قبول کرتاھےالبتہ اب جولوگ ھربات ھرروایت کےذکرپرکہتےھیں کہ کتب اربعہ سےدکھاؤتوان کو توضرورھی قبول کرناچاھیےاگراب بھی بہانےبنائےجائیں توواضح ھےکہ وہ شخص مقصرھےکیونکہ جوھرروایت پرکہتاھےکتب اربعہ سےدکھاؤ تواب کتب اربعہ کی بات بھی قبول نہیں تومقصرھوا
کیونکہ اس میں فضیلت اھلبیت کوقبول کرناکاملکہ ھی نہیں ھے
ان روایات کاذکرجن میں آئمہ اھلبیت علیھم السلام کو مثل الاعلی کہاگیاھے
علامہ بحرانی اپنی تفسیر برھان میں شیخ صدوق.رح سےنقل کرتےھوئےلکھتےھیں کہ
رسول خدا نےمولا علی علیھماالسلام سےمخاطب ھوکرفرمایا
یاعلی
توحجت اللہ ھےتوباب اللہ ھےتوھی اللہ کی طرف جانےوالاراستہ ھےتوھی خبرعظیم ھےتوصراط مستقیم ھےاور توھی مثل الاعلی ھے
99-/11320 _7- ابْنُ بَابَوَيْهِ،قَالَ:حَدَّثَنَا حَمْزَةُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ(عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ)بِقُمْ فِي رَجَبٍ سَنَةَ تِسْعٍ وَ ثَلاَثِينَ وَ ثَلاَثِمِائَةٍ،قَالَ:حَدَّثَنِي أَبِي،قَالَ:
أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ،فِيمَا كَتَبَ إِلَيَّ فِي تِسْعٍ وَ ثَلاَثِمِائَةٍ،قَالَ:حَدَّثَنِي أَبِي،عَنْ يَاسِرٍ الْخَادِمِ،عَنْ أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى الرِّضَا(عَلَيْهِ السَّلاَمُ)،عَنْ أَبِيهِ،عَنْ آبَائِهِ،عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ(عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ)،قَالَ:«قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ)لِعَلِيٍّ(عَلَيْهِ السَّلاَمُ): يَا عَلِيُّ،أَنْتَ حُجَّةُ اللَّهِ،وَ أَنْتَ بَابُ اللَّهِ،وَ أَنْتَ الطَّرِيقُ إِلَى اللَّهِ،وَ أَنْتَ النَّبَأُ الْعَظِيمُ، وَ أَنْتَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ،وَ أَنْتَ الْمَثَلُ الْأَعْلَى.
البرهان في تفسير القرآن جلد : 5 صفحه : 565
معصومین علیھم السلام کا خداوندتعالی کےاسماء الحسنی ھونا
وَلِلَّهِ الْأَسْمَآءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِيٓ أَسْمَآئِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور اللہ ہی کے لئے بہترین نام ہیں لہذا اسے ان ہی کے ذریعہ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں بے دینی سے کام لیتے ہیں عنقریب انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا(١٨٠)
الاعراف - 180
اس آیت کی تفسیرکرتےھوئے امام صادق علیہ السلام قسم کھاتےھوئے فرماتےھیں
خدا کی قسم ھم خداوندتعالی کےوہ اسماء حسنی ھیں کہ خداوندکسی کی عبادت قبول نہیں کرتامگر ھماری معرفت کےذریعے
99-/4091 _4- مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ:عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَشْعَرِيِّ،وَ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى،جَمِيعاً،عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ،عَنْ سَعْدَانَ بْنِ مُسْلِمٍ،عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ،عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ(عَلَيْهِ السَّلاَمُ) ،فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ: وَ لِلّٰهِ الْأَسْمٰاءُ الْحُسْنىٰ فَادْعُوهُ بِهٰا ،قَالَ:«نَحْنُ-وَ اللَّهِ-اَلْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى الَّتِي لاَ يَقْبَلُ اللَّهُ مِنَ الْعِبَادِ [1] إِلاَّ بِمَعْرِفَتِنَا»
الاصول الکافی جلد 1 صفحہ 351
البرھان فی تفسیرالقرآن جلد 1 صفحہ 144
رسول خدا.ص کارؤف و رحیم ھونامعصومین علیھم السلام کامثل الاعلی ھونا اسماء حسنی ھونا سب روایات و آیات سےثابت ھےاور یہ سب خداوندتعالی کی صفات فعلی ھیں جو آئمہ معصومین میں موجودہیں اور آئمہ ان کامظھرکامل ھیں
صفات فعلی میں سےرازق ھونابھی ھے ھم امام صادق علیہ السلام کی روایت سےرسول خدا.ص کےوجودمبارک میں رازق ھونےکی صفت فعلی دکھاتےھیں
امام صادق (ع) کی گواہی کے مطابق اللہ بھی رازق رسول اللہ (ص) بھی رازق
ایک بار ابو حنیفہ حضرت امام جعفر صادق (ع) کیساتھ کھانا کھا رھا تھا_ جب کھانا کھا چکے تو امام (ع) نے فرمایا
الحمدللہ رب العالمین ھذا منک و من رسولک
رب العالمین کا شکر ھے کہ یہ روزی تیری طرف سے اور تیرے رسول کی طرف سے ہے
ابو حنیفہ نے کہااے ابو عبداللہ آپ نے اللہ کے ساتھ (رسول اللہ ص کو)شریک ٹهہرایا ہے؟
تو آپ (ع) نے فرمایا: مقام افسوس ھے کہ اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ھے: وما نقموا الا ان اغنھم اللہ و رسولہ من فضلہ
(التوبہ 74)
انہیں اس بات پر غصہ ھے کہ اللہ اور اسکے رسول نے اپنے فضل سے انہیں دولت سے مالا مال کیا ھےدوسری جگہ فرمایا: اگر یہ لوگ اللہ اور رسول (ص) کے دیئے ھوئے پر خوش رھتے اور کہ دیتے کہ ھمارے لیئے اللہ کافی ھے عنقریب اللہ اپنے فضل سے ھمیں بہت کچھ دیگا اور اسکا رسول بھی اور ھم اللہ کی طرف توجہ رکھتے ھیں
(التوبہ 59)
ابو حنیفہ نے تعجب کے لہجے میں کہا: گویا یہ آیت میں نے قرآن میں پڑھی ہی نہیں ابو حنیفہ نے جب کہا کہ میں نے آج تک یہ آیات پڑهی ہیں نہ سنی ہیں
تو اس کے جواب میں امام نے فرمایا کہ تم نے پڑهی بهی ہیں اور سنی بهی لیکن تمهارے اور تم جیسوں کہ بارے میں اللہ فرماتا ہے کہ ام علی قلوب اقفالها (سورہ محمد 24)کہ ان کے دلوں پہ تالے لگے ہوئے ہیں
پهر فرمایا کہ
کلا بل ران علی قلوبهم بما کانوا یکسبون.(سورہ المطففین آیہ 14 )
ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دلوں پہ زنگ لگ گئے ہیں
كنز الفوائد للكراجكي : ج 2 ص 36 ـ 37
بحار الاَنوار : ج 10 ص 216 ح 17 وج 47 ص 240 ح 25
آج کےجاھل عمامہ پوش ابو حنیفہ پر بھی تعجب ھے جسے یہ آیات قرآن میں نظر نہیں آتی
خذاوندتعالی نےخاص طورپر آئمہ اھلبیت علیھم السلام کو تصرف عطاکیاجن کےبارےمیں فرمایا
میرےسارےاسماء بہترین ھیں اور مثل الاعلی ھیں
آئمہ علیھم السلام خداوندتعالی کی صفات واسماء کےمظھرکامل ھیں
اب ھم علامہ مجلسی .رح کی زبانی مثل الاعلی و اسماء حسنی کی تفسیربیان کرتےھیں
علامہ مجلسی مثل الاعلی کی تفسیربیان کرتےھوئےفرماتےھیں
خداوندتعالی نےاپنےنور کی مثال آیت نور میں آئمہ علیھم السلام کاذکرکرکےدی ھےاور مثل حجت و صفت کےمعنی میں ھےپس آئمہ اھلبیت حجت خداہیں اور خداوندتعالی کی صفات کےمالک ہیں
و المثل الأعلى" أي: مثل الله نوره تعالى بهم في آية النور، و الأفراد لأنه مثل بجميعهم مع أن نورهم واحد، و المثل أيضا يكون بمعنى الحجة و الصفة، فهم حجج الله و المتصفون بصفاته كأنهم صفاته على المبالغة، كما قال سبحانه" وَ لِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلى [2]" و قال تعالى" وَ لَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلى فِي السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ
ملاذ الأخيار في فهم تهذيب الأخبار المؤلف : العلامة المجلسي الجزء : 9 صفحة : 252
علامہ مجلسی.رح بحارالانوار میں اسی روایت کو نقل کرتےھوئے کہ آئمہ علیھم السلام کاذکرخداوندتعالی نےآیت نور میں کیاھےاور آئمہ حجج اللہ ھیں اور اللہ عزوجل کی صفات کےمالک ھیں
والمثل الاعلى أي مثل الله نوره تعالى بهم في آية النور ، والافراد لانه مثل بجميعهم مع أن نورهم واحد ، والمثل ايضا يكون بمعنى الحجة والصفة ، فهم حجج الله والمتصفون بصفاته
بحار الأنوار - ط مؤسسةالوفاء نویسنده : العلامة المجلسي جلد : 102 صفحه : 136
مومنین کرام آپ نےمذکورہ مطالب کامطالعہ کیاھم نےصفات خداوندی کومختصرطورپر آپ کی خدمت میں پیش کی کہ خداوند کی صفت دوقسم کی ھیں اول صفات ذاتی اوردوم صفات فعلی جبکہ صفات ذاتی فقط ذات خداوندتعالی کی ذات سےمخصوص ھیں جبکہ صفات فعلی عباداللہ میں ہوتی ھیں اورآئمہ اھلبیت علیھم السلام اس کےمظھرکامل ھیں جبکہ آیات وروایات سےھم نےدلائل بھی آپ کی خدمت میں پیش کیےھیں حضرت عیسی۔ع کاقرآن میں پرندےکوخلق کرکےخالق کالفظ استعمال کرنااورقرآن پاک میں ھی رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ کورؤوف و رحیم کہاجانااورآئمہ اھلبیت علیھم السلام کو اسماء حسنی و مثل الاعلی کہاجانایہ سب اس بات کی دلیلیں ھیں کہ خداوندتعالی کی صفات فعلی کا غیرخداکےوجودمیں پایاجاناعین ممکن ھےجبکہ علامہ مجلسی.رح جیسےعظیم محدث کےاقوال بھی ھم نےنقل کیےاورثابت ھواکہ اس عقیدےسےکوئی کافرمشرک نہیں ھوتا