Monday, June 20, 2016

فرزندعمر عبداللہ ابن عمر نمازتراویح باجماعت نہیں پڑھتےتھے اھل سنت کتاب سےصحیح حدیثیں



فرزندعمر عبداللہ ابن عمر نمازتراویح نہیں پڑھتےتھے اھل سنت کتاب سےصحیح حدیث🌻
🌸تراویح کا بدعت ھونا اس قدر ثابت و محکم ھےکہ فرزند حضرت عمر عبداللہ ابن عمر نمازتراویح نہیں پڑھتےتھے
🍀بخاری کےاستاد نے کتاب مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت نقل کی ھےکہ ابن عمر صحیح و سالم ھوتےتھے
پھربھی نمازتراویح میں شرکت نہیں کرتےتھے
🍀وھابی محقق نےسند روایت کو صحیح کہاھے
🔲🔲حدَّثَنَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: ثنا ابْنُ نُمَیْرٍ، قَالَ: ثنا عُبَیْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ کَانَ لَا یَقُومُ مَعَ النَّاسِ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ قَالَ: وَکَانَ سَالِمٌ، وَالْقَاسِمُ لَا یَقُومُونَ مَعَ النَّاسِ.
👈 اسامه : اسناده صحیح👉
📚مصنف ابن ابی شیبه،ج۳،ص۳۵۹،ح ۷۷۹۷ ط الفاروق الحدیثه
🌟نیزامام بدرالدین العینی نےبھی اس روایت کو اپنی کتاب
نخب الافکارمیں نقل کیاھے

📗نخب الافکار ج 5 ص 469 کتاب الصلاہ


Friday, June 3, 2016

حضرت امام خميني (رح) کے مختصر حالات زندگی


حضرت امام خميني (رح) کے مختصر حالات زندگی

پیدائش
سید روح اللہ الموسوي الخميني 20 جمادي الثاني 1320 ہجري (بمطابق 1 مہر 1281 ہجري شمسي 24 ستمبر 1902 عيسوي) کو ايران کے مرکزی صوبے کے شہر خمين کے ایک علمی خاندان ميں قدم رکھا۔ وہ اپنے آباؤ اجداد کے اخلاق حسنہ کے وارث تھے جنہوں نے اپنے آپ کو نسل درنسل لوگوں کي ہدايت ورہنمائي اور معارف الہيہ کے حصول و ترویج کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ يہ وہ گھرانہ تھا جو عام وہحرت اور جہاد جيسے اعلي مفاہيم سے مکمل طور پر آشنا تھا۔ امام خميني کے پدر بزرگوار آيت اللہ سيد مصطفي ـ جو آيت اللہ العظمي ميرزاي شيرازي کے ہم عصر تھے ـ نجف اشرف ميں اسلامي و ديني تعليمات کے اعلي مدارج طے کرنے کے بعد درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے اور پھر اس کے بعد ايران واپس آ گئے اور شہر خمين ميں تبليغ اور لوگوں کي ہدايت و رہنمائي ميں مصروف ہوگئے۔

ابتدائی زندگی
حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کي ولادت کو ابھي پانچ ماہ سے زيادہ کا عرصہ نہيں گزرا تھا کہ حکومت وقت کے ايجنٹوں نے ان کے والد بزرگوارکي ندائے حق کا جواب بندوق کي گوليوں سے ديا اور انھيں شہيد کرديا۔
اس طرح حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ انتہائي کمسني کے عالم سے ہي رنج يتيمي سے آشنا اور مفہوم شہادت سے مانوس ہوگئے۔ انھوں نے اپني بچپن اور لڑکپن اپني والدہ محترمہ ہاجرہ خاتون کے دامن شفقت ميں گزارا۔ محترمہ ہاجرہ خاتون خود بھي اہل علم وتقوي کے حامل گھرانے سے تعلق رکھتي تھيں اور صاحب زبدۃ ‏‏‏‌‌التصانيف آيت اللہ خوانساري کي اولادوں ميں سے تھيں۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے اپني پھوپھي محترمہ صاحبہ خانم کے دامن ميں پرورش پائي جوايک دليراورباتقوي خاتون تھيں۔ ليکن ابھي آپ پندرہ سال کے تھے کہ آپ ان دونوں شفيق اور مہربان ہستيوں کے سايہ عاطفت سے محروم ہو گئے۔

قم کي جانب سفر
جب تيرہ سو چاليس ہجري قمري میں آيت اللہ العظمي شيخ عبدالکريم حائري يزدي نے قم کي جانب ہجرت کي تو اس کے کچھ ہي عرصے کے بعد حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ بھي قم کي جانب روانہ ہوگئے اور بڑي ہي تيزي کے ساتھ ديني اور حوزوي علوم حاصل کئے اور درجہ اجتہاد پر فائزہوئے۔ اس زمانے ميں آپ نے حوزوي دروس جن اساتذہ سے حاصل کئے ان ميں مرحوم آقا ميرزا محمد علي اديب تہراني، مرحوم آيت اللہ سيد محمد تقي خوانساري، مرحوم آيت اللہ سيد علي يثربي کاشاني، اور زعيم حوزہ علميہ قم آيت اللہ العظمي حاج شيخ عبدالکريم حائري يزدي رضوان اللہ عليہم کا نام قابل ذکر ہے۔ آيت اللہ العظمي حائري يزدي کي رحلت کے بعد حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے ديگر مجتہدين کے ہمراہ کوشش کي کہ آيت اللہ العظمي بروجردي حوزہ علميہ قم کي زعامت قبول کرليں اور ان کي يہ کوشش کامياب بھي ہوئي اور آيت اللہ العظمي بروجردي حوزہ علميہ قم کے زعيم کي حيثيت سے بروجرد سے قم تشريف لے آئے۔ اس وقت تک حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کو حوزہ علميہ ميں فقہ و اصول اور فلسفہ و عرفان ميں ايک اعلي سطح کے مدرس اور مجتہد کي حيثيت سے لوگ پہچاننے لگے تھے۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے برسہا برس حوزہ علميہ قم کے مختلف مراکز جن ميں مدرسہ فيضيہ،مسجد اعظم،مسجد محمديہ، مدرسہ حاج ملاصادق اورمسجد سلماسي شامل ہيں فقہ و اصول فلسفہ و عرفان اور درس اخلاق ديتے رہے۔ عراق ميں قيام کے دوران حوزہ علميہ نجف اشرف ميں بھي چودہ برس تک مسجد شيخ اعظم انصاري ميں علوم اہل بيت کے پياسوں کو عاليترين سطحوں پر سيراب کرتے رہے۔ آپ نے نجف اشرف ميں ہي پہلي بار اسلامي حکومت کا نظريہ اور اصول پيش کئے جو آپ کے ولايت فقيہ کے سلسلے ميں دئے جانے والے دروس کے دوران انتہائي مدلل اندازميں سامنے آئے۔

حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ جہاد و شہادت کے محاذ پر
اللہ کي راہ ميں جہاد کا جذبہ آپ کے اندر بدرجہ اتم موجود تھا۔ آپ نے ظلم وستم کے خلاف جدوجہد لڑکپن سے ہي شروع کردي اور اس جدوجہد کو آپ کي علمي اورمعنوي ترقي کےساتھ ساتھ عروج حاصل ہوتا رہا اور پھر ايران کے سماجي اور اسلامي دنيا کے سياسي حالات نے اس جذبہ کو اوربھي پروان چڑھايا۔ 1340-41 (62۔ 1961) ميں صوبائي اور ضلعي کونسلوں کي تشکيل کے دوران عوامي اور علماء کي تحريک ميں بھرپورکردار ادا کرنے کا موقع فراہم ہوا اس طرح علماء اور عوام کي ملک گيرتحريک ايراني عوام کي جدوجہد کي تاريخ ميں ايک نئے باب کا آغازثابت ہوئي۔
پندرہ خرداد کوشروع ہونے والي يہ تحريک دو اہم خصوصيات اپنے اندر لے کر اٹھي ايک حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کي واحد قيادت اور دوسرے اس تحريک کا اسلامي تشخص، چنانچہ آگے چل کر اس تحريک کو ايران کے اسلامي انقلاب سے جانا اور پہچانا جانے لگا۔
حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ جو پہلي عالمي جنگ کے موقع پر صرف بارہ سال کے تھے اپني يادوں کو بيان کرتے ہوئے فرماتے ہيں۔
مجھے دونوں ہي عالمي جنگيں ياد ہيں۔ ميں چھوٹا تھا مگر مکتب جاتا تھا اور سابق سويت يونين کے فوجيوں کو خمين ميں آتے جاتے ديکھتا تھا پہلي جنگ عظيم کے دوران ہميں حملوں کا نشانہ بنايا جاتا تھا۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ ايک مقام پر مرکزي حکوت سے وابستہ بعض زمينداروں( خوانين ) اور راہزنوں کا نام بھي ليتے ہيں جو لوگوں کے مال واسباب لوٹتے اور حتي ان کي عزت و ناموس پر بھي حملے کرتے تھے۔ آپ فرماتے ہيں کہ ميں تو لڑکپن ہي سے جنگ کي حالت ميں تھا۔ ہم زلقي اور رجب علي جيسے زمينداروں (خوانين) کے ظلم ستم کا شکا ر تھے۔ ہمارے پاس بھي بندوقيں تھيں اور ميں شايد تازہ سن بلوغ کو پہنچا تھا اور کمسن تھا، ہمارے علاقے ميں مورچے بنائے گئے تھے اور يہ لوگ (خوانين) حملہ کرکے لوٹ مار کرنا چاہتے تھے، ہم اس علاقے ميں جا کر مورچوں کا جائزہ ليتے۔

تين اسفند 1299 ہجري شمسي (1921 ) کو رضاخان کي بغاوت نے جو ناقابل انکار شواہد وثبوت اورتاريخي اسناد کي بنياد پر برطانيہ کي حمايت سے انجام پائي اورجس کي منصوبہ بندي بھي خود برطانيہ نےکي تھي اگرچہ سلطنت قاجاريہ کا خاتمہ کرديا اورکسي حد تک زمينداروں(خوانين ) کي طوائف الملکي ختم ہوگئي ليکن اس کے عوض ايک آمر شہنشاہ تخت نشين ہوا اور اس کے زيرسايہ ايران کي مظلوم قوم کي تقدير پر ہزار خاندان مسلط ہوگۓ اور پہلوي خاندان کي آل اولاد زمينداروں (خوانين) اور راہزنوں کي جگہ لے بيٹھے، ان حالات ميں علماء نے جن پر آئييني انقلاب کے واقعات کے بعد انگريزوں کي آلہ کار حکومت کي يلغار تھي اور دوسري طرف وه مغرب زدہ اور نام نہاد روشن خيال افراد کا نشانہ بن رہے تھے اسلام کے دفاع اور اپني بقا کے لئے کوششيں شروع کرديں۔
امام رح قم شهر ميں
آيت اللہ العظمي حاج شيخ عبدالکريم حائري نے اس وقت قم کے علماء کي دعوت پر اراک سے قم کے لئے ہجرت کي اور اس کے کچھ ہي عرصے کے بعد حضرت امام خميني رحمتہ اللہ نے جو اپني غيرمعمولي صلاحتيوں کي بدولت خمين اور اراک کے حوزہ علميہ ميں مقدماتي اورسطوح (درس خارج سے پہلے کے دروس) کو پايہ تکميل تک پہنچا چکے تھے قم کے لئے ہجرت کي اورعملي طورپر قم کے نئےديني مرکزکي تقويت کے لئے بھرپورطريقے سے حصہ ليا اور ديکھتے ہي ديکھتے آپ کا شمار قم کي چند گني چني علمي شخصيات ميں ہونے لگا اور آپ فقہ واصول اور فلسفہ وعرفان کے ايک جيد عالم کي حثيت سے معروف ہوگئے۔
10بہمن 1315 ہجري شمسي ( 30 جنوري 1937 ) کو آيت اللہ العظمي حايري کي رحلت کے بعد حوزہ علميہ قم کا وجود خطرہ خطرے ميں پڑ گيا چنانچہ حوزہ علميہ قم کے بہي خواہ علماء نے فورا چارہ انديشي شروع کردي۔ اس دوران آٹھ برسوں تک آيت اللہ العظمي حجت، آيت اللہ العظمي سيد صدرالدين صدر اور آيت اللہ العظمي سيد محمد تقي خوانساري رضوان اللہ عليہم نے اس ديني مرکز کي سر پرستي فرمائي۔ اس دوران بالخصوص رضاخان کي حکومت کے خاتمے کے بعد مرجعيت عظمي يعني ايک بزرگ مرجع کے سامنے آنے کا ماحول سازگارہوگيا۔
آيت اللہ العظمي بروجردي ايک عظيم علمي شخصيت تھے جو مرحوم آيت اللہ العظمي حايري کے مناسب جانشين بن سکتے تھے اور حوزہ علميہ قم کي زعامت بھي سنبھال سکتے تھے۔ چنانچہ يہ بات آيت اللہ حايري کے شاگردوں اورخاص طورپر حضرت امام خميني رحمتہ اللہ کي طرف سے آيت اللہ بروجردي کے سامنے رکھي گئي اور حضرت امام خميني رحمتہ اللہ نے آيت اللہ بروجردي کو بروجرد سے قم تشريف لانے اور حوزہ کي زعامت قبول کرنے کے لئے راضي کرنے کي بھرپورکوشش کي۔ اس دوران حضرت امام خميني رحمتہ اللہ نہايت باريک بيني کے ساتھ معاشرے اور حوزہائے علميہ پر گہري نظر رکھے ہوئے تھے اور حالات حاضرہ کے بارے ميں کتابوں اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور ساتھ ہي تہران آتے جاتے رہتے اور آيت اللہ مدرس جيسي عظيم علمي اور سياسي شخيصتوں سے کسب فيض کيا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ يہ سمجھ گئے تھے کہ آئييني انقلاب اور خاص طورپر رضاخان کے برسر اقتدار آنے کے بعد کي ذلت آميز صورت حال سے نجات کا واحد راستہ حوزہ علميہ کي بيداري اور علماء کے ساتھ عوام کا معنوي رابطہ ہے۔
امام کی حکومت وقت کی غلط پالیسیوں پر کھلی تنقید
حضرت امام خميني رحمتہ اللہ نے اپنے مقدس اور الہي مشن کي خاطر 1328 ہجري شمسي( 1950۔ 1949 ) ميں آيت اللہ مرتضي حايري کے تعاون سے حوزہ علميہ کے بنيادي ڈھانچے ميں اصلاح کا پروگرام تيار کرکے آيت اللہ العظمي بروجردي کو پيش کيا۔اس پروگرام کا حضرت امام خميني رحمتہ اللہ کے شاگردوں اور بيدار مغز طلبہ نے بھرپورخيرمقدم کيا اوراس کي زبردست حمايت کي۔ 16 مہر 1341( 8 اکتوبر 1962 ) کو صوبائي ضلعي کونسلوں کا بل امير اسداللہ کي کابينہ ميں پاس ہوا جس کي بنياد پر انتخابات ميں حصہ لينے کے لئے اميدوار کے مسلمان ہونے، قرآن کريم کے ذريعہ حلف اٹھانے، رائےدہندگان اور خود اميدوار کے لئے مرد ہونے کي شرط ختم کردي گئ البتہ خواتين کے انتخابات ميں حصہ لينے کي آزادي کچھ ديگر مقاصد پر پردہ ڈالنے کے لئے تھي۔
پہلي دوشرطوں کو ختم کرنے کا مقصد بہائي عناصر کوملک کے معاملات ميں مکمل طورپر دخيل کرنے کو قانوني شکل دينا تھا کيونکہ شاہ کے لئے امريکہ کي حمايت کي شرط يہ تھي کہ ايران اسرائيل کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے اور ايران کے تين اہم اداروں يعني انتظاميہ، مقننہ اورعدليہ ميں سامراجي مسلک بہائيت کے پيروؤں کي موجودگي اسرائيل کے ساتھ ايران کے تعلقات ميں فروغ کويقيني بنا سکتي تھي البتہ حکومت نے اس بل کے تعلق سےحالات کا اندازہ لگانے ميں سخت غلطي کي۔ چنانچہ اس بل کي منظوري کي خبر شائع ہوتے ہي حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نےقم اورتہران کے بزرگ علماء کے ہمراہ صلاح ومشورہ کرنے کے بعد بھرپور احتجاج کيا۔
شاہي حکومت کے عزائم سے پردہ ہٹانے اوراس حساس صورت حال ميں علماء اور حوزہ علميہ کي خطير ذمہ داريوں کا احساس دلانے ميں حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے بہت ہي اہم کردارادا کيا۔ شاہ اور وزيراعظم اسداللہ علم کے نام علماء اور حوزہ علميہ کے خطوط اور کھلے مراسلوں نے پورے ملک ميں شاہي حکومت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاجي لہردوڑا دي۔ شاہ اور وزيراعظم کے نام حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کے ٹيلي گراموں کا لب ولہجہ بہت ہي تند اور انتباہي تھا۔ ايک ٹيلي گرام ميں حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ فرماتےہيں کہ ميں تمھيں ايک بار پھر نصيحت کرتا ہوں کہ خداوند متعال کي اطاعت اور بنيادي آئيين کي پيروي کرواور قرآن، علماء قوم اور مسلمان زعماء کے احکام کي خلاف ورزي اور بنيادي آئيين سے سرپيچي کے برے انجام سے ڈرو اور جان بوجھ کر اور بلاسبب مملکت کو خطرے ميں مت ڈالو بصورت ديگر علماء اسلام تمھارے بارے ميں اپنے نظريہ بيان کرنے سے گريزنہيں کريں گے۔
بہرحال صوبائي اورضلعي کونسلوں کا ہونا ايراني قوم کے لئے ايک اچھا اور خوشگوار تجربہ تھا۔ خاص طور پر اس لئے کہ اس واقعے ميں ايراني قوم نے ايک ايسي شخصيت کو پہچان ليا جو امت مسلمہ کي قيادت کے لئے ہرلحاظ سے مناسب اور اہل تھي۔

امام کا شاہ کے انقلاب سفيد کو انقلاب سياہ قرار دینا
صوبائي اورضلعي کونسلوں کي تشکيل ميں ناکامي کے باوجود شاہ پر امريکہ کے مجوزہ نام نہاد اصلاحي پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے واشنگٹن کا دباؤ جاري رہا۔ شاہ نے دي ماہ 1341 ہجري شمسي (1963۔1962 ) کو انقلاب سفيد کے نام پر چھ نکاتي پروگرام کا اعلان کيا اور اس سلسلے ميں ريفرنڈم کرائے جانے کي خواہش ظاہر کي۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نےايک بار پھر ميدان ميں آ گئے اور اس سلسلے ميں حکمت عملي تيار کرنے کے لئے علماء قم کا اجلاس بلايا۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کي تجويز پر شاہ کے اقدامات کے خلاف بطوراحتجاج عيد نوروز نہ منانے کا فيصلہ کيا گيا۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے اس سلسلے ميں جو اعلاميہ جاري کيا اس ميں شاہ کے انقلاب سفيد کو انقلاب سياہ سے تعبير کيا گيا اور کہا گيا کہ شاہ کے يہ سارے اقدامات امريکہ اور اسرائيل کے مفادات کي تکميل کے لئے ہيں۔
شاہ نے امريکہ کو يہ اطمينان دلا رکھا تھا کہ ايراني عوام اس پروگرام کے حق ميں ہيں۔ شاہ کے خلاف علماء کا احتجاج اس کے لئے کافي مہنگا ثابت ہو رہا تھا۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ شاہ کي پرواہ کئے بغير کھلے عام شاہ کو اسرائيل کا اتحادي قرارديتے تھے اوراس کے ظالمانہ اقدامات کي مذمت کرتے ہوئے لوگوں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کي دعوت ديتے تھے۔ آپ نے بارہ فروردين 1342 (1 اپريل 1963 ) کو اپنے ايک خطاب ميں علماء قم ونجف اور ديگراسلامي ملکوں کے علماء کي طرف سے شاہ کےظالمانہ اقدامات پر اختيارکي گئي خاموشي پر کڑي تنقيد کي اور فرمايا کہ آج خاموشي کا مطلب ظالم وجابرحکومت کا ساتھ دينا ہے۔
حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے اس کے اگلے دن يعني 13 فروردين 1342 (2 اپريل 1963) اپنا مشہور ومعروف اعلاميہ جاري کيا جس کاعنوان تھا شاہ سے دوستي يعني تباہي وبربادي ميں شرکت۔
حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کے کلام ميں حيرت انگيزتاثيراور مخاطبين پر آپ کي باتوں کے گہرے اثر کا راز صحيح فکر، مضبوط نظريئے اور عوام کے ساتھ صداقت ميں تلاش کرنا چاہئے۔ چنانچہ لوگ بھي آپ کے فرمان پر ہمہ وقت اپني جان قربان کرنے کو تيار رہتے تھے۔1342 (1964۔1963 )ہجري شمسي کا نيا سال عيد نوروزکے بائيکاٹ سے شروع ہوا اور مدرسہ فيضيہ کے مظلوم طلبہ کے خون سے رنگين ہوا۔ شاہ امريکہ کي مرضي کےاصلاحي پروگرام کو نافذ کرنے پر مصرتھا اور حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ اس سازش سے لوگوں کو آگاہ کرنے اورعوام کو امريکہ کي مداخلت اور شاہ کي خيانت کےمقابلے ڈٹ جانے پر راضي کر رہے تھے۔

امام (رح) کی علماء کو ہجرت نجف کے فیصلے پر نصیحت
چودہ فروردين 1342(3 اپريل 1963 ) آيت اللہ العظمي حکيم نے نجف اشرف سے ايران کے علماء کے نام اپنے ٹيلي گرام ميں فرمايا کہ سب کے سب ايک ساتھ نجف اشرف کي طرف ہجرت کريں۔ يہ تجويزعلماء کي جان کي حفاظت اور حوزہ کے تقدس کو بچانے کے لئے پيش کي گئي تھي ليکن حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے اپني جان کي پرواہ کئے بغير آيت اللہ العظمي حکيم کے ٹيلي گرام کا جواب ارسال کرديا جس ميں کہا گيا تھا کہ علماء کا ايک ساتھ نجف چلا جانا اور حوزہ (قم کے ديني مرکز) کو خالي چھوڑ دينا مناسب نہيں ہے۔
حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے 12ارديبہشت1342 (1922۔1921 ) شہدائے فيضيہ کے چہلم کي مناسبت سے اپنے ايک پيغام ميں غاصب اسرائيل کے خلاف اسلامي ممالک کا ساتھ دينے کے لئے علماء اور ايراني عوام سے اپيل کي اور شاہ اوراسرائيل کے درميان ہوئے معاہدوں کي مذمت کي.

امام خمینی رح کی پندرہ خرداد(4جون) کي تحريک
1342 ہجري قمري (1922۔1921 ) کا محرم جو خرداد کےمہينے سے مصادف تھا آن پہنچا۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے اس مہينے کو شاہ کي ظالم حکومت کے خلاف عوامي تحريک ميں تبديل کرديا۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے عاشورہ کي شام مدرسہ فيضيہ ميں انتہائي تاريخي خطاب کيا جو پندرہ خرداد (چارجون) کي تحريک کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے اپنے اسي خطاب ميں بلند آواز کے ساتھ شاہ کوخطاب کرتے ہوئے فرمايا تھا کہ ميں تجھے نصيحت کرتا ہوں کہ اس طرح کے کاموں سے باز آ جا۔ تجھے بيوقوف بنايا جا رہا ہے۔ ميں نہيں چاہتا کہ ايک دن اگر لوگ چاہيں کہ تو چلا جا تو سب لوگ تيرے جانے پر شکرادا کريں … اگر تجھے ڈکٹيٹ کرکے پڑھنےکو کہا جاتا ہے تو تو اس پر ذراغورکر… سن لے ميري نصيحت … شاہ اور اسرائيل کے درميان ايسا کيا رابطہ ہے کہ ساواک (شاہ کي خفيہ پوليس) کہتي ہے کہ اسرائيل کے بارے ميں کچھ مت بولو… کيا شاہ اسرائيلي ہے ؟
شاہ نے تحريک کو کچلنے کا حکم جاري کيا۔ سب سے پہلے چودہ خرداد (3جون) کي شام کو حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کے بہت سے ساتھيوں کو گرفتارکيا گيا اور پھر پندرہ خرداد (چارجون) کو صبح ساڑھے تين بجے تہران سے آئے ہوئے سيکڑوں کمانڈوز نے حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کے گھر کا محاصرہ کرليا اور جس وقت آپ نمازشب ميں مشغول تھے آپ کوگرفتارکرليا گیا۔
خوفزدہ شاہي کمانڈوز انتہائي سراسيمگي کے عالم ميں آپ کو قم سے تہران منتقل کرنے کے بعد آپ کو فوجي افسروں کي جيل ميں بند کرديتے ہيں تاہم اسي دن شام کو قصر نامي جيل ميں منتقل کرديا جاتا ہے۔ پندرہ خرداد (چارجون) کي صبح ہي تہران سميت مشہد شيراز اور ديگرشہروں ميں حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کي گرفتاري کي خبر تيزي کے ساتھ پھيل گئي اور قم ميں بھي يہي صورت حال پيدا ہوگئي۔ شاہ کے سب سے قريبي ساتھي جنرل حسين فردوست نے اپني سرگذشت ميں پندرہ خرداد (چارجون)کي تحريک کوکچلنے ميں امريکہ کے کہنہ کار سفارتي اور خفيہ اہلکاروں کے اقدامات اور قريبي تعاون نيز عين اس موقع پر شاہ، دربار، فوج اور ساواک کے سربراہ واعلي افسران کے خوف وہراس کا ذکر کیا ہےاور اسکي خوبصورت منظر کشي کی ہے کہ شاہ اور اس کے جنرل کس طرح ديوانہ وار اس تحريک کو کچلنے کا حکم جاري کر رہے تھے۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کو پندرہ دنوں تک قصر جيل ميں رکھنے کے بعد عشرت آباد کي فوجي چھاؤني ميں منتقل کرديا کيا۔

جیل سے رہائی کے بعد پھر سے تحریک کی کامیابی کے لۓ پرعزم
تحريک کے رہبر اور عوام کے وحشيانہ قتل عام کے بعد بظاہر پندرہ خرداد 1342(5 جون 1963 ) کي تحريک کچل دي گئي۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے قيد کے دوران شاہ کي خفيہ پوليس کے اہلکاروں کے ايک بھي سوال کا جواب نہيں ديا اور فرمايا کہ ايران کي حکومت اور عدليہ غيرقانوني ہے۔ 18 فروردين 1343( 7 اپريل 1964) کي شام کو کسي پيشگي اطلاع کے بغير حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کو آزاد کرديا گيا اور قم میں ان کے گھر پہنچا ديا گيا۔عوام کو جيسے ہي حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کي رہائي کي اطلاع ملي پورے شہر ميں خوشي کي لہر دوڑگئ اورمدرسہ فيضہ سميت قم شہر کے گوشہ وکنارميں کئي دنوں تک جشن منايا گيا۔ پندرہ خرداد کے دن، شہدا کي پہلي برسي کے موقع پر حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ اورديگر مراجع کرام کے مشترکہ بيان ميں شہداء کو خراج عقيدت پيش کيا گيا اورحوزہ علميہ قم نے بھي ايک علیحدہ بيان جاري کرکے پندرہ خرداد کے واقعہ کي ياد ميں اس دن عام سوگ منانے کا اعلان کيا۔
حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے چار آبان 1343 (26 اکتوبر 1964) کو اپنا انقلابي بيان جاري کيا اور اس ميں تحرير فرمايا کہ دنيا کوجان لينا چاہئے کہ ايراني عوام اور پوري دنيا کے مسلمان آج جس طرح کي بھي مشکلات اور مصائب ميں گھرے ہيں اس کا باعث امريکہ اور بيروني طاقتيں ہيں، مسلمان اقوام کو بيروني طاقتوں سے عام طور پر اور امريکہ سے خاص طورپر نفرت ہے… يہ امريکہ ہے جو اسرائيل اور اس کے اتحاديوں کي حمايت کرتا ہے… يہ امريکہ ہے جو اسرائيل کومضبوط بنا رہا ہے تاکہ عرب مسلمان بے گھر ہوجائيں۔
کيپچوليشن بل کے خلاف حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کےانکشاف کےباعث اسي سال آبان( نومبر) کے مہينے ميں ايک اور تحريک کا آغاز ہو گيا۔

آپ (رح) کی جلاوطنی کا آغاز
13 آبان 1343 (4 نومبر 1964) کي صبح کو ايک بار پھر مسلح کمانڈوز نے جو تہران سے قم پہنچے تھے حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کے گھرکا محاصرہ کرليا اورحيرت کي بات يہ کہ ان کو اسي وقت گرفتارکيا گيا جس وقت ايک سال پہلے انہيں گرفتارکيا گيا تھا اس وقت بھی آپ نمازشب ميں مشغول تھے۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کوگرفتارکرکے سخت پہرے ميں مہرآباد ہوائي اڈے پر منتقل کرديا گيا اور پھر وہاں سے ايک فوجي طيارے کے ذريعہ جو پہلے سے تيارکھڑا تھا آپ کو ترکي جلاوطن کرديا گيا اور پھر اسي دن شام کو شاہ کي خفيہ پوليس ساواک نے يہ خبر اخبارات ميں شائع کي کہ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کو ملکي سالميت کے خلاف اقدام کرنے کي وجہ سے جلاوطن کرديا گيا۔
اس خبرکے شايع ہوتے ہي پورے ملک ميں گھٹن کے ماحول کے باوجود احتجاجي مظاہروں،عام ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگيا۔ دوکانيں اورتجارتي مراکزبند اور عوامي، سياسي اور مذھبي حلقوں کي جانب سےعالمي اداروں اور مراجع تقليد کو احتجاجي مراسلے اور ٹيليگرام بھيجنے کا سلسلہ شروع ہوگيا۔ اس دوران ديني مراکز اور مدارس ميں دروس بھي بند رہے۔ ترکي ميں حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کي جلاوطني کي مدت گيارہ مہينے تھی۔ اس درميان شاہي حکومت نے انتہائي سختي کے ساتھ انقلابي عناصرکو کچلنے ميں کوئي کسرنہيں چھوڑي اور حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کي عدم موجودگي ميں امريکہ کي مرضي کي اصلاحات پر تيزي کے ساتھ عمل کرنا شروع کرديا۔ ترکي ميں حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کي اجباري جلاوطني سے حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کو يہ بہترين موقع ملا کہ آپ نے اپني معروف فقہي کتاب تحريرالوسيلہ کي تدوين کا کام شروع کيا۔

آپ (رح) کی عراق روانگی اور قیام
تيرہ مہر 1343(5 اکتوبر 1964) کو امام خميني (رح) اپنے بڑے بيٹے آيت اللہ الحاج آقا مصطفي خميني کے ہمراہ ترکي سے عراق بھيج دئے گئے۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ بغداد پہنچنے کے بعد کاظمين، سامرا اور کربلا ميں آئمہ اطہارعلہيم السلام اور شہدائے کربلا کي زيارت کے لئے روانہ ہوگئے اور ايک ہفتے کے بعد اپني قيام گاہ يعني نجف اشرف پہنچے۔نجف اشرف ميں آپ کے تيرہ سالہ قيام کا زمانہ ايک ايسے عالم ميں شروع ہوا کہ اگرچہ بظاہر ايران اور ترکي کي طرح بندش اور گھٹن نہيں تھي ليکن دشمن کے محاذ کي طرف سے مخالفتوں، آپ کے راستے ميں رکاوٹوں اور طعنہ زني کا سلسلہ شروع ہو گيا اور نہ صرف کھلے دشمنوں بلکہ عالم نما نام نہاد اور دنيا پرست علماء کي طرف سے حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کے خلاف اقدامات اور بيان بازياں اس قدر وسيع پيمانے پر اور اذيت ناک تھيں کہ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے اپنے تمام تر صبر و تحمل کے باوجود جس کے لئے آپ شہرت رکھتے تھے بارہا ان برسوں کو اپني جدوجہد کے انتہائي سخت اورتلخ ترين ادوار سے تعبير کيا۔ ليکن ان ميں سے کوئي بھي مصائب و آلام آپ کو آپ کے مشن سے باز نہ رکھ سکے۔
حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنے دروس خارج فقہ کا سلسلہ آبان ماہ 1344(نومبر1965) ميں نجف اشرف ميں واقع مسجد شيخ انصاري ميں شروع کيا جو عراق سے پيرس کے لئے آپ کي ہجرت تک جاري رہا۔
آپ کے دروس خارج کو کيفيت و کميت کے اعتبار سے نجف اشرف ميں دئے جانے والے ديگر دروس خارج ميں اعلي ترين دروس ميں شمار کيا جاتا تھا۔
حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے نجف اشرف پہنچتے ہي ايران ميں عوام اور اپنے انقلابي ساتھيوں کے نام خطوط اور بيانات ارسال کرکے انقلابيوں سے اپنے روابط کو برقرار رکھا اور انہيں ہر مناسبت پر پندرہ خرداد کي تحريک کے مقاصد کو آگے بڑھانے کي تلقين فرماتے۔

حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے جلد وطني کے برسوں ميں تمام مصائب و مشکلات کے باوجود کبھي بھي اپني جد وجہد سے ہاتھ نہيں کھينچا اور اپني تقريروں اور پيغامات کے ذريعہ لوگوں کے دلوں ميں کاميابي و فتح کي اميد زندہ رکھي۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے 19 مہر 1347 کو فلسطيني تنظيم الفتح کے نمائندے سے اپني گفتگو ميں عالم اسلام کے مسائل اور ملت فلسطين کے جہاد کے بارے ميں اپنے موقف اور نظريات کي تشريح فرمائي اور اپنے اسي انٹرويو ميں فرمايا کہ زکوۃ کي رقومات ميں سے کچھ حصہ فلسطيني مجاہدين سے مختص کرنا واجب ہے۔ 1348 ہجري شمسي ميں ايران کي شاہي حکومت اور عراق کي بعثي حکومت کے درميان دونوں ملکوں کي آبي حدود کے مسئلے پر اختلافات شدت اختيار کر گئے عراقي حکومت نے عراق ميں موجود ايرانيوں کي ايک بڑي تعداد کو بدترين حالات ميں عراق سے نکال ديا۔

عراق کي حکمراں بعثي حکومت نے اس بات کي بہت زيادہ کوشش کي کہ وہ ايران کي شاہي حکومت سے امام خميني (رح) کي دشمني سے فائدہ اٹھائے۔ امام خميني (رح) کي چار برسوں تک تدريس، سعي و کوشش نے لوگوں بالخصوص طلباء ميں آپ کے ذريعہ پيدا کي گئي آگاہي و بيداري سے کسي حد تک حوزہ علميہ نجف کے ماحول کو بدل ديا تھا اور 1348 تک ايران کے اندر انقلابيوں کے علاوہ خود عراق، لبنان اور ديگر اسلامي ملکوں ميں بھي امام خميني کے بيشمار مخاطبين پيدا ہوگئے تھے جو آپ کي تحريک کو اپنے لئے نمونہ اور آئيڈيل سمجھتے تھے۔

حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ اور ( 1350۔ 1356 ) جد جہد کا تسلسل " 1350 کے دوسرے نصف ميں عراق کي بعثي حکومت اور شاہ کے درميان اختلافات اور بھي شدت اختيار کرگئے اور عراق ميں موجود ايرانيوں کو وہاں نکالا جانے لگا اور بہت سے ايراني بے گھر کئے جانے لگے۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے عراقي صدر کے نام اپنے ايک ٹيلي گرام ميں عراقي حکومت کے ان اقدامات کي سخت مذمت کي۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے اس صورتحال ميں خود بھي عراق سے نکلنے کا فيصلہ کيا ليکن بغداد کے حکام نے ان حالات ميں حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کے عراق سے چلے جانے کے بعد کے نتائج کو بھانپ ليا اور انہيں عراق سے نکلنے کي اجازت نہيں دي۔
پندرہ خرداد 1354 ہجري شمسي کو قم کے مدرسۂ فيضيہ ميں ايک بار پھر انقلابي طلباء نے ايک شاندار احتجاجي اجتماع منعقد کيا اور يہ اجتماع تحريک کي شکل اختيار کرگيا۔ دو دنوں تک جاري اس ايجيٹيشن کے دوران درود بر خميني (رح) اور مرگ بر سلسلہ پہلوي، خميني (رح) زندہ باد، پہلوي حکومت مردہ باد کے نعرے گونجتے رہے۔

ملک میں رائج کیلنڈر میں تبدیلی اور آپ کی مخالفت
اس سے پہلے چھاپہ مار تنظيموں کے افراد جو بکھر چکے تھے اور اسي طرح انقلابي، مذہبي اور سياسي شخصيات شاہي حکومت کي جيلوں ميں تھے۔شاہ نے مذہب مخالف اپني پاليسيوں کو جاري رکھتے ہوئے اسفند 1354 ہجري شمسي کو ملک کي سرکاري تاريخ کو بيہودہ طريقے سے پيغمبر اسلام (ص) کي ہجرت کے آغاز کے بجائے ہخامنشي شاہوں کي سلطنت کے آغاز سے تبديل کردي۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے اپنے سخت رد عمل ميں فتوي جاري فرمايا کہ بے بنياد شہنشاہي تاريخوں کو استعمال کرنا حرام ہے۔اس موہوم تاريخي مبدا اور آغاز سے بطور کیلنڈراستعمال کرنے کي مخالفت کے فتوے کا ايران کے عوام نے اسي طرح سے خير مقدم کيا جس طرح سے رستا خيز پارٹي کي حرمت کے فتوي کا خير مقدم کيا تھا اور يہ دونوں ہي شاہي اقدامات شاہ کے لئے ذلت و رسوائي کا سبب بنے اور شاہي حکومت نے مجبور ہو کر 1357 ہجري شمسي ميں شاہنشاہي تاريخ سے پسپائي اور اسے ختم کرنے کا اعلان کيا۔

امام خمینی انقلاب اسلامی کے بعد
آپ کی قوم کوآزادی کے لۓ جدوجہد کرنے کی اپیل
1356 ميں اسلامي انقلاب کا عروج اور عوامي تحريک امام خميني (رح) نے جو دنيا اور ايران کے حالات پر انتہائي گہري نظر رکھے ہوئے تھے ہاتھ آتے موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھايا اور آپ نے مرداد ماہ 1356 ميں اپنے ايک پيغام ميں اعلان فرمايا اب ملکي اور غيرملکي حالات اور شاہي حکومت کے جرائم کے عالمي اداروں اور غير ملکي اخبارات ميں بھي منعکس ہونے کي بنا پر علمي ثقافتي حلقوں، محب وطن شخصيتوں، ملک و بيرون ملک ايراني طلباء اور اسلامي انجمنوں کو جہاں جہاں بھي ہوں يہ چاہیے کہ اس موقع سے فورا" فائدہ اٹھائيں اور کھل کر ميدان ميں آجائيں۔ يکم آبان 1356 کو آيت اللہ حاج آقا مصطفي خميني کي شہادت اور ايران ميں ان کے ايصال ثواب کے لئے منعقد مجالس اور پرشکوہ تعزيتي جلسے ايران کے حوزہ ہاي علميہ اور مذہبي حلقوں کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئے۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے اسي وقت انتہائي حيران کن طريقے سے اس واقعہ کو خداوند عالم کے الطاف خفيہ سے تعبير کيا۔ شاہي حکومت نے روزنامہ اطلاعات ميں حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کي شان ميں اہانت آميز مقالہ شائع کرکے آپ سے انتقام لينے کي کوشش کي۔اس مقالے کي اشاعت کے خلاف 19 دي ماہ 1356 کو قم ميں ہونے والا احتجاجي مظاہرہ جاري انقلابي تحريک کو مہميز دينے کا باعث بنا، اگرچہ اس احتجاجي مظاہرے کے دوران متعدد انقلابي طلباء شہيد اور زخمي ہوئے۔ شاہ اس احتجاجي مظاہرے ميں طلباء کا قتل عام کرنے کے بعد احتجاج کے بھڑکے ہوئے شعلوں کو خاموش نہيں کرسکا۔

حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کي عراق سے پيرس ہجرت
نيويارک ميں ايران اور عراق کے وزرائے خارجہ کي ملاقات ميں حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کو عراق سے نکالنے کا فيصلہ کيا گيا۔ دو مہر 1357 ہجري شمسي کو بعثي حکومت کے کارندوں اور سيکورٹي اہلکاروں نے نجف ميں حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کے گھر کا محاصرہ کرليا۔اس خبر کے پھيلتے ہي ايران، عراق اور ديگر ملکوں کے مسلمانوں ميں شديد غم و غصہ کي لہر دوڑ گئي۔12 مہر کو حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نجف سے کويت کي سرحد کي جانب روانہ ہوئے۔ کويت کي حکومت نے ايران کي شاہي حکومت کي ايماء پر آپ کو کويت کے اندر آنے کي اجازت نہيں دي۔اس سے پہلے لبنان يا شام ميں حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ رح کی ہجرت کي باتيں گردش کررہي تھيں ليکن آپ نے اپنے بيٹے (حجۃ الاسلام حاج سيد احمد خميني ) سے مشورہ کرنے کے بعد پيرس جانے کا فيصلہ کيا اور 14 مہر کو آپ پيرس پہنچ گئے اور دونوں کے بعد پيرس کے مضافاتي علاقے نوفل لوشاتو ميں آپ ايک ايراني کے گھر ميں رہائش پذير ہوگئے۔ اليزہ پيلس کے عہديداروں نے فرانس کے صدر کا يہ پيغام حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کو پہنچايا کہ انہيں کسي بھي طرح کي سياسي سرگرميوں کي اجازت نہيں ہے۔آپ نے بھي اپنے سخت ردعمل ميں فرمايا کہ اس طرح کي بندشيں ڈيموکريسي کے دعوؤں کے منافي ہيں اور اگر ميں مجبور ہوا کہ اس ائيرپورٹ سے اس ائيرپورٹ اور ايک ملک سے دوسرے ملک (مسلسل) ہجرت کرتا رہوں پھر بھي اپنے مقاصد سے ہاتھ نہيں کھينچوں گا۔ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے دي ماہ 1357 ميں انقلابي کونسل تشکيل دي۔

شاہ کا ملک سے فرار ہونا اور امام (رح) کی آمد کی خبریں
شاہ بھي سلطنتي کونسل کي تشکيل اور بختيار کي حکومت کے لئے اعتماد کا ووٹ لينے کے بعد 26 دي ماہ 1357 کو ملک سے فرار ہوگيا۔ شاہ کے فرار کي خبر تہران شہر اور پھر پورے ايران ميں پھيل گئي اور لوگ يہ خبر سن کر جشن منانے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے۔
بہمن ماہ 1357 کے اوائل ميں حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کي وطن واپسي کي خبريں نشر ہونے لگيں۔ جو بھي سنتا خوشي سے اس کي آنکھيں اشکبار ہوجاتيں۔ لوگوں نے 14 برسوں تک انتظار کيا تھا۔ امام خميني (رح) کے چاہنے والوں کو آپ کي جان کي سلامتي کے بارے ميں بھي تشويش تھي کيونکہ ابھي تک شاہ کي آلۂ کار حکومت نے پورے ملک ميں ايمرجنسي لگا رکھي تھي۔

امام (رح) کی وطن واپسی
حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے اپنا فيصلہ کرليا اور ايراني قوم کے نام اپنے پيغامات ميں فرمايا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان تقدير ساز اور فيصلہ کن ايام ميں اپنے عوام کے درميان رہيں۔ بختيار کي حکومت نے جنرل ہايزر کي ہم آہنگي سے ملک کے تمام ہوائي اڈوں کو غير ملکي پروازوں کے لئے بند کرديا تھا۔ مگر بختيار کي حکومت نے بہت جلد پسپائي اختيار کرلي اور عوام کے مطالبات کے سامنے وہ گھٹنے ٹيکنے پر مجبور ہوگيا۔ بالآخر امام خميني (رح) 12 بہمن 1357 ہجري شمسي مطابق يکم فروري 1979 کو 14 چودہ برسوں کي جلا وطني کے بعد فاتحانہ انداز ميں ايران واپس تشريف لائے۔ ايراني عوام نے آپ کا ايسا عديم المثال اور شاندار تاريخي استقبال کيا کہ مغربي خبر رساں ايجنسياں بھي اس کا اعتراف کئے بغير نہ رہ سکيں اور خود مغربي ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ تہران ميں چاليس سے ساٹھ لاکھ افراد نے امام خميني (رح) کا والہانہ استقبال کيا۔

خرداد کا پندرویں دن سنه 1368 ه-ش
حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کي رحلت، وصال يار فراق ياران
حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ نے مشن، نصب العين، نظريات اور وہ تمام باتيں جو لوگوں تک پہنچاني تھيں سب کچھ پہنچا ديا تھا اور عملي ميدان ميں بھي اپني تمام ہستي اور پورا وجود الہي اہداف و مقاصد کي تکميل کے لئے وقف کرديا تھا۔ اب خرداد 1368 کے نصف مطابق چار جون 1989 کو آپ اپنے کو اس عزيز ہستي سے ملاقات کے وصال کے لئے آمادہ کر رہے تھے کہ جس کي رضا و خوشنودي حاصل کرنے کے لئے اپني پوري عمر مبارک صرف کردي تھي اور ان کا قامت رعنا سوائے اس عظيم کے ہستي کے حضور کسي بھي طاقت کے سامنے خم نہيں ہوا اور ان کي آنکھوں نے اس محبوب ذات کے سوا کسي اور کے لئے اشک ريزي نہيں کي تھي۔
حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے عرفاني اشعار و غزليں سب کي سب محبوب کے فراق کے درد و غم اور وصال محبوب کي تشنگي کے بيان سے ہي عبارت تھيں اور اب حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے لئے وہ عظيم اور ان کے شيدائيوں کے لئے وہ جانکاہ لمحہ آن پہنچا۔آپ نے خود اپنے وصيت نامے ميں فرمايا ہے : پرسکون دل، مطمئن قلب، شاد روح اور پر اميد ضمير کے ساتھ خدا کے فضل و کرم سے بہنوں اور بھائيوں کي خدمت سے رخصت ہوتا ہوں اور ابدي منزل کي جانب سفر کرتا ہوں اور آپ لوگوں کي مسلسل دعاؤں کا محتاج ہوں اور خدائے رحمن و رحيم سے دعا کرتا ہوں کہ اگر خدمت کرنے ميں کوئي کمي يا قصور و تقصير رہ گئي ہو تو مجھے معاف کر دے اور قوم سے بھي يہي اميد کرتا ہوں کہ وہ اس سلسلے ميں کوتاہي اور کمي کو معاف کرے گي اور پوري قوت، اور عزم و ارادے کے ساتھ آگے کي سمت قدم بڑھائے گي۔
حيرت کي بات يہ ہے کہ حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ نے اپني ايک غزل ميں اپني رحلت سے کئي سال قبل يہ شعر کہا تھا :

 سالہا مي گذرد حادثہ ہا مي آيد
انتظار فرج از نيمہ خرداد کشم
امام خمینی کے ارتحال کا دن
13 خرداد 1368 ہجري شمسي مطابق 3 جون 1989 کي رات 10 بجکر بيس منٹ کا وقت محبوب سے وصال کا لمحہ تھا۔ وہ دل دھڑکنا بند ہوگيا جس نے لاکھوں اور کروڑوں دلوں کو نور خدا اور معنويت سے زندہ کيا تھا۔اس خفيہ کيمرے کي مدد سے جو حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے چاہنے والوں نے اسپتال ميں نصب کررکھا تھا آپ کي علالت، آپريشن اور لقائے حق کے لمحات سبھي کو ريکارڈ کيا۔ جس وقت ان ايّام ميں بھي حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے معنوي اور پرسکون حالات کے محض چند حصوں کي متحرک تصويريں ٹيلي ويژن سے نشر ہوئيں لوگوں کي حيرت کي انتہا نہ رہي اور دلوں پر يہ تصويريں اتنا گہرا اثر چھوڑ گئيں کہ جن کا بيان و توصيف ممکن نہيں مگر يہ کہ کوئي خود اس موقع پر ہي موجود رہ کر ہي ان معنوي کيفيات کو درک کرے۔ آپ کے ہونٹ مسلسل ذکر خدا ميں متحرک تھے۔ زندگي کي آخري راتوں ميں اور اس وقت جب آپ کے کئي آپريشن ہوچکے تھے اور عمر بھي 87 برس کي تھي، ہاتھوں ميں گلوکوز کي بوتليں وصل تھيں تب بھی آپ نماز شب (تہجد) بجا لاتے اور قرآن کي تلاوت کرتے۔
عمر کے آخري لمحات ميں آپ کے چہرے پر غير معمولي اور روحاني و ملکوتي اطمينان و سکون تھا اور ايسے معنوي حالات ميں آپ کي روح نے ملکوت اعليٰ کي جانب پرواز کي۔ جب حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي رحلت جانگداز کي خبر نشر ہوئي گويا ايک زلزلہ آ گيا۔ لوگوں ميں ضبط کا يارانہ رہا اور پوري دنيا ميں وہ لوگ جو حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ سے محبت کرتے تھے سب رو دئے اور ايران سميت پوري دنيا ميں حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے چاہنے والوں ميں نالہ و شيون کا شور تھا۔ کوئي بھي اس عظيم سانحہ کے پہلوؤں اور عوام کے جذبات کو بيان کرنے کي سکت و توانائي نہيں رکھتا۔ ايراني عوام اور انقلابي مسلمان بجا طور پر اس طرح کا سوگ اور غم منا رہے تھے اور غم و اندوہ کے اس طرح کے جذباتي مناظر خلق کررہے تھے۔ اپنے رہبر و قائد کو آخري رخصت اور انہيں الوداع کہنے کے لئے سوگواروں کا امڈتا ہوا اتنا بڑا سيلاب تاريخ نے اپني آنکھوں سے کبھي بھي نہيں ديکھا تھا۔ان سوگواروں نے ايسي ہستي کو الوداع کہا تھا کہ جس نے ان کي پائمال شدہ عزت کو دوبارہ بحال کرديا تھا جس نے ظالم و جابر شاہوں، اور امريکي و مغربي ليڈروں کے ہاتھوں کو ان کي سرزمينوں کی طرف بڑھنے سے روک ديا تھا ۔ جس نے اسلام کو دوبارہ زندہ کرديا تھا۔ مسلمانوں کو عزت و وقار عطا کيا تھا۔اسلامي جمہوري نظام قائم کيا تھا۔ وہ دنيا کي جابر اور شيطاني طاقتوں کے مد مقابل اٹھ کھڑے ہوئے اور دس برسوں تک بغاوت و کودتا جيسي سينکڑوں سازشوں اور ملکي و غير ملکي آشوب و فتنہ کے مقابلے ميں ثابت قدمي کا مظاہرہ کيا اور آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران مسلح افواج کي کمان سنبھالي۔ جس محاذ پر مد مقابل ايسا دشمن تھا جس کي مشرق و مغرب کي دونوں بڑي طاقتيں ہمہ جانبہ حمايت کررہي تھيں۔ ليکن آج لوگوں کا محبوب قائد، مرجع تقليد اور حقيقي اسلام کا منادي ان سے جدا ہوگيا تھا۔

شايد جو لوگ ان مفاہيم کو درک نہيں کرسکے اور يہ سارے واقعات ان کي سمجھ سے بالاتر ہيں۔ اگر حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي تدفين اورجنازے کي تصويريں اور ويڈيو فلميں ديکھيں اور حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي رحلت کي خبر سن کر آپ کے دسيوں چاہنے والوں اور شيدائيوں کي حرکت قلب اچانک رک جانے اور ان کي موت واقع ہوجانے اور اس سانحہ کي تاب نہ لانے کے واقعات سنيں اور تشييع جنازے کے دوران شدت غم سے سينکڑوں بيہوش سوگواروں کو لوگوں کے ہاتھوں اسپتالوں اور طبي مراکز تک پہنچائے جانے کے مناظر تصويروں اور فلموں ميں ديکھيں تو ان کي تشريح کرنے سے عاجز رہ جائيں۔ ليکن جنہيں عشق کي معرفت ہے اور جنہوں نے عشق کا تجربہ کيا ان کے لئے يہ ساري باتيں اور واقعات کو سمجھ لينا کوئي مشکل نہيں ہے۔ حقيقت ميں ايران کے عوام حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے عاشق تھے اور انہوں نے آپ کي پہلي برسي کے موقع پر کتنا خوبصورت نعرہ انتخاب کيا تھا خميني سے عشق تمام خوبيوں اور اچھائيوں سے عشق ہے۔

بہرحال چودہ خرداد 1368 مطابق چار جون 1989 کو مجلس خبرگان رہبري (رہبر کا انتخاب کرنے والي کونسل ) نے اپنا اجلاس تشکيل ديا اور حضرت آيۃ اللہ العظميٰ خامنہ اي کے توسط سے حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کا وصيت نامہ پڑھے جانے کے بعد کہ جس ميں دو گھنٹے لگے حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي جانشين اور رہبر انقلاب اسلامي کے تعين پر تبادلۂ خيال شروع ہوا اور کئي گھنٹوں کے صلاح و مشورے کے بعد حضرت آيت اللہ العظميٰ سيدعلي خامنہ اي کو( اس وقت اسلامي جمہوريۂ ايران کے صدر تھے) جو خود حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے شاگرد اسلامي انقلاب کي ممتاز و فداکار شخصيتوں اور پندرہ خرداد کي تحريک کے رہنماؤں ميں سے تھے اور جنہوں نے ديگر انقلابي جانبازوں کے ہمراہ حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي تحريک کے تمام مراحل ميں ہر طرح کي سختيوں اور مصائب و آلام کا سامنا کيا تھا اتفاق آراء سے اس عظيم و خطير ذمہ داري کے لئے منتخب کيا گيا۔برسوں مغربي ممالک اور ملک کے اندر ان کے حمايت يافتہ عناصر حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کو شکست دينے سے مايوس ہوچکے تھے اور وہ اس انتظار ميں تھے کہ امام کي رحلت کے بعد وہ اپني سازشوں اور ناپاک منصوبوں ميں کامياب ہوسکيں گے۔ليکن ايراني عوام کے فہم و فراست، مجلس خبرگان کے بروقت فيصلے اور اس فيصلے کي امام کے تمام پيروؤں اور چاہنے والوں کي بھرپور حمايت سے انقلاب دشمن عناصر کي تمام اميدوں پر پاني پھير گيا اور نہ صرف يہ کہ حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي وفات سے ان کا مشن ختم نہيں ہوا بلکہ حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کا زمانہ ماضي کے مقابلے ميں اور زيادہ وسيع انداز ميں شروع ہوا۔ کيا کبھي افکار و نظريات،اچھائياں معنويت اور حقيقت بھي مرتي ہے ؟

امام خمینی کے ارتحال کا دن
پندرہ خرداد 1368 مطابق 5 جون 1989 کے روز و شب تہران اور ايران کے ديگر شہروں اور قصبوں و ديہاتوں سے آئے ہوئے دسيوں لاکھ سوگواروں کا ايک سيلاب تھا جو تہران کے مصلائے بزرگ ( عيدگاہ ) ميں ٹھاٹھيں مار رہا تھا۔ لوگ اس عظيم مرد مجاہد کو جس نے اپني تحريک اور انقلاب سے ظلم و ستم کے سياہ دور ميں انساني اقدار و شرافت کي خميدہ کمر کو استوار کرديا تھا اور دنيا ميں خدا پرستي اور انساني فطرت کي جانب واپسي کي تحريک کا آغاز کيا تھا الوداع کہنے کے لئے آئے تھے۔ آپ کے جنازے کي آخري رسومات ميں سرکاري رسومات کا کوئي نام ونشان نظر نہيں آتا تھا۔ ساري چيزيں عوامي،عاشقانہ اور بسيجي (رضاکارانہ) تھيں۔ حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کا پيکر مطہر جو سبز تابوت ميں تھا کروڑوں سوگواروں اور ماتم کنان عزاداروں کے ہاتھوں پر ايک نگينے کي مانند جلوہ نمائي کر رہا تھا اور ہر کوئي اپني زبان سے اپنے محبوب قائد سے وقت رخصت محو گفتگو تھا اور اشک غم بہا رہا تھا۔
سياہ پرچم درو ديوار پر لگائے گئے تھے اور فضا ميں چاروں طرف سے صرف تلاوت کي ہي آواز سنائي دے رہي تھي اور جيسے ہي رات آئي ہزاروں شمعيں اس مشعل فروزان کي ياد ميں جسے حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ نے روشن کيا تھا مصلّي بزرگ (عيدگاہ ) اور اس کے اطراف کے ٹيلوں پر روشن ہوگئيں اور سوگوار و عزادار کنبے ان شمعوں کے گرد حلقہ بنائے بيٹھے تھے اور ان کي نگاہيں ايک نوراني بلندي پر مرکوز تھيں۔بسيجيوں (رضاکاروں) کي فرياد يا حسين نے جو يتيمي کا احساس اپنے سينے ميں لئے تھے اور اپنا سر و سينہ پيٹ رہے تھے ماحول کو عاشورائي بنا ديا تھا اور چونکہ انہيں يقين ہوگيا تھا کہ اب حسينيۂ جماران ميں حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي دلنشين آواز نہيں سنائي دے گي اس لئے يہ غم اور بھي انہيں مارے ڈال رہا تھا۔لوگوں نے پوري رات مصلي بزرگ میں (عيدگاہ ) گزاري اور صبح نمودار ہوگئي اور پھر صبح ہوتے ہي 6 جون 1989 کو دسيوں لاکھ سوگواروں نے مرجع تقليد آيت اللہ العظمي گلپايگاني کي امامت ميں اشکبار آنکھوں کے ساتھ حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے پيکر مطہر پر نماز جنازہ پڑھي۔
12 بھمن 1357 ہجري شمسي يکم فروري 1979 کو حضرت امام خميني رحمتہ اللہ عليہ کي فاتحانہ وطن واپسي اور ان کے استقبال ميں شاندار و عديم المثال اجتماع اور پھر آپ کي آخري رسومات ميں سوگواروں کا اس سے بھي عظيم اجتماع تاريخ کے حيران کن واقعات ميں سے ہے۔ خبر رساں ايجنسيوں نے يکم فروري سنہ 1979 کو حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي وطن واپسي کے موقع پر استقبال کے لئے آنے والے عاشقوں اور انقلابيوں کي تعداد 60 لاکھ بتائي تھي اور آپ کے جنازے ميں شريک سوگواروں کي تعداد 90 لاکھ بتائي اور يہ ايسي حالت ميں تھا کہ حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي دس سالہ قيادت کے دوران انقلاب سے دشمني آٹھ سالہ جنگ اور سينکڑوں سازشوں مغربي اور مشرقي بلاک کے اتحاد کي وجہ سے ايراني عوام نے بے پناہ سختياں اور مشکلات برداشت کيں اور اپنے بے شمار عزيزوں کو اس راہ ميں قربان کيا تھا چنانچہ يہ فطري امر تھا کہ اب ان کا جوش و خروش بتدريج کم ہوجاتا ليکن ايسا ہرگز نہيں ہوا۔ حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے الہي مکتب ميں پرورش پانے والي نسل کو حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے اس فرمان پر پورا يقين و اعتقاد تھا کہ اس دنيا ميں زحمتوں،مصيبتوں، مشکلات، فداکاري اور جانثاري کا حجم ان کے عظيم اور گرانقدر و اعلي رتبہ مقصود کے حجم کے برابر ہي ہوتا ہے۔
حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے سوگواروں کا جم غفير (بہشت زہرا ) ميں بھي تدفين کے وقت اپنے مقتدا کو آخري بار ايک جھلک ديکھنے کے لئے بے تاب تھا۔ لوگ ايک دوسرے پر ٹوٹ رہے تھے جس کي وجہ سے آپ کي تدفين ناممکن ہوگئي تھي اس صورتحال کے پيش نظر ريڈيو سے باربار اعلان کيا گيا کہ لوگ اب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائيں تدفين کي رسومات بعد ميں ہوں گي جس کا اعلان بھي بعد ميں کيا جائے گا۔
حکام کو يہ سمجھنے ميں کوئي مشکل نہ تھي کہ جيسے جيسے وقت گزرے گا مزيد لاکھوں عاشقان امام جو ديگر شہروں سے تہران کے لئے روانہ ہوچکے ہيں تشييع جنازہ اور تدفين کي رسومات ميں شامل ہو جائيں گے لہذا اسي دن سہ پہر سوگواروں کے شدّت جذبات کے دوران ہي اگرچہ کافي دشوارياں پيش آئيں حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کے جسد مطہر کي تدفين عمل ميں آئي اور دنيا کے ذرائع ابلاغ و خبررساں ادارے ان رسومات کے کچھ مناظر ہي اپنے ناظرین و سامعین تک پہنچا سکے۔ يوں حضرت امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کي رحلت بھي ان کي حيات مبارک کي مانند ايک اور بيداري و تحريک کا سرچشمہ ثابت ہوئي اور ان کي ياد تعليمات و افکار اور ان کا مشن زندہ جاويد بن گيا کيونکہ وہ ايک حقيقت تھے اور حقيقت ہميشہ زندہ و لافاني ہوتي ہے۔

عاشور کے دن کا روزہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت یا بنی امیہ کی بدعت ؟

عاشور کے دن کا روزہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت یا بنی امیہ کی بدعت ؟
روز عاشور کے روزے کے بارے میں اہل سنت کا نظریہ
اہل سنت کی کتابوں میں موجود روایات کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان روایات میں کھلا تناقض اضطراب اور بعض روایات کے متن میں خدشہ ہے ؛ جب کہ ان میں سے بعض روایات اس دن کے روزے کی تاکید کرتی ہیں اور بعض اس کے بر خلاف کو ثابت کرتی ہیں یہاں پر عاشوراء کے روزے کے بارے میں اہل سنت کی بعض روایات کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے ۔
عاشوراء کا روزہ اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہل جاہلیت کا اتباع
ایک طرف اہل سنت کی بعض روایات میں آیا ہے کہ دوران جاہلیت کے لوگ عاشور کے دن روزہ رکھتے تھے اور پیغمبر ص نے بھی ان کی پیروی میں اس دن روزہ رکھا ؛" عَنْ عَائِشَةَ رضى الله عنها قَالَتْ: كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَصُومُهُ. (صحيح البخاري، ج ۲، ص ۲۵۰) "حضرت عائشہ رضى الله عنها کہتی ہیں : عاشوراء کے دن قریش جاہلیت کے زمانے میں روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے ،جب حضرت مدینے آئے اس وقت بھی اس دن روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے ۔
روز عاشوراء میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہود کی پیروی کرنا
اہل سنت کی بعض دوسری روایات میں آیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عاشور کے دن کی فضیلت کے بارے میں نہیں جانتے تھے لیکن جب مدینے آئے تو یہودیوں سے انہیں پتہ چلا تب آنحضرت نے اس پر عمل کیا ؛" عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنه قَالَ قَدِمَ النَّبِىُّ الْمَدِينَةَ. فَرَأَى الْيَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ. فَقَالَ «مَا هَذَا». قَالُوا هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ. هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِى إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ. فَصَامَهُ مُوسَى. قَالَ «فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ». فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ. (صحيح بخاري، ج ۲، ص ۲۵۱ ). " نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ آئے تو یہودیوں کو دیکھا کہ انہوں نے عاشور کے دن روزہ رکھا ہے فرمایا:یہ کام کس لیے ہے ؟ کہا ؛ یہ ایک مبارک دن ہے کہ جس دن خدا نے بنی اسرائیل کو دشمنوں سے نجات دلائی لہذا موسی اور ان کے ماننے والے اس دن روزہ رکھتے ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا : میں موسی کی پیروی کا زیادہ حق دار اور سزاوار ہوں اسی لیے اس دن حضرت نے روزہ رکھا اور حکم دیا کہ سبھی روزہ رکھیں ۔آپ کی نظر میں کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم لدنی رکھنے کے باوجود اس مسئلے کو نہیں جانتے تھے اور آپ نے اس کو اہل کتاب اور یہودیوں سے سیکھا !؟
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عاشوراء کے روزے کے حکم پر عمل نہ کرنا
اس کے علاوہ کہ ھیثمی علمائے اہل سنت میں سے ہے اس نے مجمع الزوائد میں ابو سعید خدری اور پیغمبر ص کے صحابہ سے روایت نقل کی ہے : " ان رسول الله أمر بصوم عاشوراء وكان لا يصومه. (هیثمی، مجمع الزوائد، ج ۳، ص ۱۸۶) "پیغمبر خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عاشور کے روزے کا حکم دیتے تھے لیکن خود اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے !؟
یعنی ھیثمی کی روایت کے بقول عاشوراء کے روزے کی روایت میں واضح اور کھلا اشکال یہ ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ رسول خدا کسی نیک کام کا حکم دیں حالانکہ وہ خود اس پر عمل نہ کرتے ہوں !؟
ماہ رمضان کے بعد عاشوراء کے روزے کو ترک کرنا
اہل سنت کی بعض دوسری حدیثوں میں نقل ہوا ہے کہ عاشوراء کا روزہ ماہ رمضان کے روزے کے حکم کے بعد منسوخ ہو گیا ۔" عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما قَالَ: صَامَ النَّبِيُّ(ص) عَاشُورَاءَ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تُرِكَ. (صحيح البخاري، ج ۲، ص ۲۲۶) " ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رمضان کے روزے کے نزول کے حکم سے پہلے عاشوراء کے دن روزہ رکھتے تھے لیکن اس کے بعد عاشوراء کو روزہ ترک کر دیا گیا ۔
اس بنا پر جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ مذکورہ تعارض اور ان میں سے بعض روایات کے عجیب مطالب اس احتمال کو قوی کر دیتے ہیں کہ یہ روایات بنی امیہ کی گھڑی ہوئی ہیں اور انہوں نے عاشوراء کے دن خوشی اور مسرت کی خاطر اس دن کے روزے کے استحباب کو گڑھا ہے اور آہستہ آہستہ یہ چیز اہل سنت کے درمیان ایک سنت اور عادت میں تبدیل ہو گئی ۔اور یہ وہی چیز ہے کہ جو زیارت عاشوراء میں بیان ہوئی ہے ؛ اس میں آیا ہے :"اَللّهُمَّ اِنَّ هذا یَوْمٌ تَبرَّکَتْ بِهِ بَنُو اُمَیَّهَ " اور دوسری جگہ آیا ہے " هذا یَوْمٌ فَرِحَتْ بِهِ آلُ زِیادٍ وَ آلُ مَرْوانَ بِقَتْلِهِمُ الْحُسَیْنَ صَلَواتُ اللَّهِ عَلَیْهِ " ؛
عاشور کا روزہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے شکرانے کے طور پر بنی امیہ کی سنت
ایک موضوع کہ جو عاشورائے حسینی کے سلسلے میں وہابیوں کی طرف سے اٹھایا جاتا ہے وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا مسئلہ ہے کہ جو امام حسین علیہ السلام اور ان کے انصار و اقرباءکی شہادت کے شکرانے کے طور پر بنی امیہ کی سنت کی پیروی ہے اور اس روز خوشی اور سرور کا اظہار ہے ۔ امام صادق علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں :" إن آل أمية عليهم لعنة الله ومن أعانهم على قتل الحسين من أهل الشام، نذروا نذرا إن قتل الحسين عليه السلام وسلم من خرج إلى الحسين عليه السلام وصارت الخلافة في آل أبي سفيان، أن يتخذوا ذلك اليوم عيدا لهم، وأن يصوموا فيه شكرا. (شیخ طوسی امالی، ص ۶۷۷) "
بنی امیہ لعنت اللہ علیھم اور وہ افراد کہ اہل شام میں سے جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنے میں مدد کی تھی ، انہوں نے منت مانی کہ اگر حسین مارے گئے اور خلافت آل ابو سفیان کو مل گئی تو وہ عاشور کے دن عید منائیں گے اور قتل حسین علیہ السلام کے شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھیں گے ۔
وہابیوں کا عاشوراء کے دن شادیوں کے جشن منعقد کرنا
بنی امیہ نے عاشوراء کے دن خوشی منانے کے لیے اس دن روزہ کے مستحب ہونے کو گڑھ لیا تھا اور آہستہ آہستہ یہ چیز اہل سنت کے درمیان ایک سنت میں تبدیل ہو گئی یہاں تک کہ اس دور میں کہ جو اس دور کے بنی امیہ ہیں یعنی آل سعود بھی اس بری سنت کو زندہ کرنے پر اصرار کر رہے ہیں ، جب کہ اکثر اہل سنت جانتے ہیں کہ عاشور کا دن فرزند رسولخدا امام حسین علیہ السلام اور ان کے اقرباء و انصار کی شہادت کا دن ہے اور شیعہ اس دن عزاداری مناتے ہیں اور اہل بیت رسول کے خاص احترام کے قایل ہیں اور ان کے نزدیک روز عاشوراء کو مقدس قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے لیکن تکفیری وہابی اور حکام آل سعودکہ جو تمام مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ مقدس اور متدین ہونے کا دعوی کرتے ہیں اسی بنا پر وہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے مقابلے میں اس سلسلے میں اموی نظریے کو تقویت پہنچاتے ہیں اور بنی امیہ کی پیروی میں اس دن کو خوشی اور شادمانی کا دن مانتے ہیں ۔
جعلی روایات سعودی عرب کے مفتی کے فتوے کی سند
موجودہ دور میں حکام آل سعود اور تکفیری وہابیت کے ان اقدامات اور اس طرح کے سلوک کا منشاء بنی امیہ کی وہ جعلی اور بناوٹی حدیثیں ہیں کہ جن کو گھڑنے کا کام انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے قتل کے بعد شروع کیا تھا تا کہ کربلاء کے واقعے کے عظیم گناہ کو کہ جس کے مرتکب وہ ہوئے تھے بھلا دیا جائے ۔لیکن دربار آل سعود کے بعض وہابی مفتیوں نے ان جعلی احادیث کو سند بنا کر بنی امیہ کے عقیدے کی ترویج اور اس غلط بدعت کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔
شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل شیخ نے کہ جو سعودی عرب کے بزرگ علماء کی کمیٹی کا سربراہ اور مفتیء کل اور سعودی عرب کے مرکز تحقیقات علمی اور فتاوی کا سربراہ بھی ہے اس نے ایک بیان شایع کر کے اس توجیہ کے ساتھ کہ جس کا ذکر متن میں ہوا ہے مسلمانوں کی تشویق کی ہے کہ وہ عاشور کے دن روزہ رکھیں ۔
اس کے بیان کا عربی متن :" الرياض وكالة الأنباء السعودية: وجّه سماحة الشيخ عبد العزيز بن عبد الله آل الشيخ مفتي عام المملكة رئيس هيئة كبار العلماء وإدارة البحوث العلمية والإفتاء، الكلمة التالية في الترغيب في صوم يوم عاشوراء ... اما بعد: فقد ثبت عن النبي أنه كان يصوم يوم عاشوراء، ويرغب الناس في صيامه، لأنه يوم نجى الله فيه موسى وقومه، وأهلك فيه فرعون وقومه، فيستحب لكل مسلم ومسلمة صيام هذا اليوم شكرا لله عز وجل! وهو اليوم العاشر من المحرم. ويستحب أن يصوم قبله يوما أو بعده يوما ... . (کورانی، الانتصار، ج ۹، ص ۳۰۲) "
ترجمہ : نبی ص سے ثابت ہوا ہے کہ آپ عاشور کے دن روزہ رکھتے تھے اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کی ترغیب دلاتے تھے ، اس لیے کہ یہ وہ دن ہے کہ جس دن اللہ نے موسی اور ان کی قوم کو نجات دلائی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کیا تھا ، پس ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس دن اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھیں ! اور یہ محرم کا دسواں دن ہے اور مستحب ہے کہ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھیں ۔
اس نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ بارہا عملی اقدامات اور موقف کے ذریعے اس نے عاشوراء کے دن شادی کے جشن منانے کی کوشش کی ہے ۔حال ہی میں عمر ابن عبد العزیز آل شیخ ،سعودی عرب کے مفتیء اعظم کے فرزند نے عاشوراء کے دن اپنی شادی کا جشن منایا اس شادی میں بہت سارے وہابی مفتیوں نے شرکت کی اور انہوں نے اس شادی کی مفتیء اعظم اور اس کے فرزند کو مبارکباد دی ۔
بنی امیہ کے سلسلے میں حدیثیں گھڑے جانے کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کی پیشینگوئی
محدث قمی نے شفاء الصدور کے حوالے سے بنی امیہ کے بعض اقدامات کے بارے میں کہ جنہوں نے کئی صدیوں تک مسلمانوں پر حکومت کی یوں لکھا ہے : بنی امیہ روز عاشوراء کو مبارک قرار دیتے تھے اس دن اپنے لیے خریداری کرتے تھے ،اس روز روزہ رکھتے تھے اور اس دن حاجتیں طلب کرنے کو مستحب مانتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے روز عاشوراء کے بارے میں فضائل گڑھے ہیں اور روز عاشوراء کی فضیلت کے بارے میں انہوں نے ایک دعا بھی گڑھی ہے کہ جس کے شروع میں یہ ہے :" يَا قَابِلَ تَوْبَةِ آدَمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ يَا رَافِعَ إِدْرِيسَ إِلَي السَّمَاءِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ يَا مُسَکِّنَ سَفِينَةِ نُوحٍ عَلَي الْجُودِيِّ يَوْمَ عَاشُورَاءَ يَا غِيَاثَ إِبْرَاهِيمَ مِنَ النَّارِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ إلخ " یہ دعا بنائی ہے تا کہ مغالطہ پیدا کر سکیں ،ان کا عقیدہ ہے کہ ہر نبی کا وسیلہ اور شرف ہوتا ہے اور عاشور کے دن یہ شرف زیادہ ہو جاتا ہے جیسے ابراہیم کے لیے نمرود کی آگ کا ٹھنڈا ہونا ، نوح کی کشتی کا کوہ جودی پر ٹھہرنا ، فرعون کو دریا میں غرق کرنا اور موسی کو فرعون کے ہاتھ سے نجات دلانا اور عیسی کو یہودیوں کے ہاتھوں نجات دلانا ۔
شیخ عباس قمی آگے لکھتے ہیں : شیخ صدوق میثم تمار سے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں : حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : مستقبل میں یہ لوگ فرزند رسول کو قتل کریں گے اور روز عاشوراء کہ جس دن یہ فرزند رسولخدا کو ماریں گے اس کو مبارک دن قرار دیں گے ! راوی کہتا ہے : میں نے میثم تمار سے کہا : کیسے یہ اس دن کو مبارک دن قرار دیں گے ؟ کہا : وہ اس کی فضیلت میں حدیثیں گڑھیں گے اور کہیں گے کہ روز عاشوراء وہ دن ہے کہ جس دن خدا نے آدم کی توبہ قبول کی تھی جب کہ آدم کی توبہ ذی الحجہ میں قبول کی گئی تھی ،وہ کہیں گے کہ عاشور کے دن یونس کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی ،حالانکہ یونس کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ماہ ذیقعدہ میں ملی تھی ؛ وہ کہیں گے روز عاشوراء وہ دن ہے کہ جس دن نوح کی کشتی کوہ جودی پر رکی ، حالانکہ وہ ۱۸ ذی الحجہ کو رکی تھی ،وہ کہیں گے عاشور کے دن موسی کے لیے دریا کو شگافتہ کیا گیا جب کہ دریا کو ماہ ربیع الاول میں شگافتہ کیا گیا تھا ،(محدث قمی ، مفاتیح الجنان ، اعمال روز عاشوراء )
عاشور کے دن روزے کے ممنوع ہونے کی روایات
لیکن شیعوں اور سنیوں کی کتابوں میں عاشوراء کے بارے میں مختلف روایات نقل ہوئی ہیں کہ مذکورہ بالا مطالب کے پیش نظر آسانی یہ بات معلوم کی جا سکتی ہے کہ عاشور کے دن کے روزے کی فضیلت اور اس کے مستحب ہونے والی روایات کہ جو شیعوں کی کتابوں میں ہیں جعلی ہیں یا تقیہ کے عنوان سے صادر ہوئی ہیں ۔
اس لیے کہ اہل بیت نے اس عنوان کے تحت کہ عاشور کے دن کا روزہ بنی امیہ کی بدعت ہے ایک ضابطہ معین کر کے شیعوں کو مسلمانوں کی کتابوں میں جعلی حدیثوں کے موجود ہونے سے آگاہ کیا ہے ،مثال کے طور پر ان روایات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے ایک شخص کے جواب میں کہ جس نے عاشور کے روزے کے حکم کے بارے میں پوچھا تھا عاشوراء کے دن روزہ رکھنے سے منع کیا اور فرمایا : " یَوْمُ عَاشُورَاءَ فَیَوْمٌ أُصِیبَ فِیهِ الْحُسَیْنُ صَرِیعاً بَیْنَ أَصْحَابِهِ وَ أَصْحَابُهُ صَرْعَى حَوْلَهُ عُرَاةً أَ فَصَوْمٌ یَكُونُ فِی ذَلِكَ الْیَوْمِ كَلَّا وَ رَبِّ الْبَیْتِ الْحَرَامِ. "
عاشور کا دن وہ دن ہے کہ جب حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے درمیان خاک پر پڑے تھےاور آپ کے اصحاب آپ کے گرد خاک پر عریاں پڑے تھے،کیا ایسے دن روزہ رکھتے ہیں ؟ پالنے والے کی قسم کہ ایسا کام ہر گز جائز نہیں ہے ۔
اس کے بعد فرمایا :" فَمَنْ صَامَهُ أَوْ تَبَرَّكَ بِهِ حَشَرَهُ اللَّهُ مَعَ آلِ زِیَادٍ "جو شخص اس دن روزہ رکھے گا یا اس دن کو مبارک قرار دے گا ،خدا اس کو آل زیاد کے ساتھ محشور کرے گا ( کلینی ، کافی ،ج ۴ ص ۱۴۷ ) ۔
عاشوراء کا روزہ بنی امیہ کی بدعت
اسی طرح ایک روایت میں ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام سے عاشور کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا حضرت نے عاشور کے روزے کو صراحت کے ساتھ اسلام میں بنی امیہ کی بدعت قرار دیا اور فرمایا :" ذَاکَ یَوْمٌ قُتِلَ فِیهِ الْحُسَیْنُ علیه السلام، فَإِنْ کُنْتَ شَامِتاً فَصُمْ. ثُمَّ قَالَ: إِنَّ آلَ أُمَیَّهَ نَذَرُوا نَذْراً إِنْ قُتِلَ الْحُسَیْنُ علیه السلام أَنْ یَتَّخِذُوا ذَلِکَ الْیَوْمَ عِیداً لَهُمْ، یَصُومُونَ فِیهِ شُکْراًوَ یُفَرِّحُونَ أَوْلَادَهُمْ. فَصَارَتْ فِی آلِ أَبِی سُفْیَانَ سُنَّهً إِلَى الْیَوْمِ، فَلِذَلِکَ یَصُومُونَهُ وَ یُدْخِلُونَ عَلَى عِیَالَاتِهِمْ وَ أَهَالِیهِمُ الْفَرَحَ ذَلِکَ الْیَوْمَ. ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الصَّوْمَ لَا یَکُونُ لِلْمُصِیبَهِ، وَ لَا یَکُونُ إِلَّا شُکْراً لِلسَّلَامَهِ، وَ إِنَّ الْحُسَیْنَ علیه السلام أُصِیبَ یَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَإِنْ کُنْتَ فِیمَنْ أُصِیبَ بِهِ فَلَا تَصُمْ، وَ إِنْ کُنْتَ شَامِتاً مِمَّنْ سَرَّهُ سَلَامَهُ بَنِی أُمَیَّهَ فَصُمْ شُکْراً لِلَّهِ تَعَالَى..... " (شیخ طوسی ، امالی ، ص ۶۶۷ )
عاشور کا دن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے اگر حسین علیہ السلام کی شماتت کرنا چاہتے ہو (اور جو بلا ان پر نازل ہوئی ہے اس کے سلسلے میں خوشنودی کا اظہار کرنا چاہتے ہو ) تو عاشور کے دن روزہ رکھو بنی امیہ لعنۃ اللہ علیھم اور شام کے وہ افراد کہ جنہوں نے حسین علیہ السلام کو قتل کرنے میں ان کی مد دکی تھی انہوں نے نذر کی کہ اگر حسین قتل ہو گئے اور ان کے جن لوگوں نے حسین کے خلاف خروج کیا تھا وہ زندہ بچ گئے اور خلافت آل ابو سفیان کو مل گئی تو عاشور کے دن عید منائیں گے اور اس روز شکر گذاری کے طور پر روزہ رکھیں گے.... ۔
چند نکتے ؛ تاسوعا (محرم کی نویں تاریخ ) کے دن کمائی کرنا
عاشور کے دن دنیا کمانے سے کیوں منع کیا گیا ہے ؟
شیعہ فقہاء اہل بیت علیھم السلام کی رایات سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چونکہ یہ دن غم و اندوہ کا دن ہے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا دن ہے لہذا جو عمل بھی اس روز عزاداری اور رنج و اندوہ سے منافات رکھتا ہو اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے اور لوگوں کو وصیت کی ہے اس روز روز مرہ کے کاموں سے ہاتھ کھینچ کر عزاداری منائیں اور گریہ کریں ،مثال کے طور پر امام رضا علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں: " مَن كانَ يَومُ عاشوراءَ يَومَ مُصيبَتِهِ و حُزنِهِ و بُكائِهِ، يَجعَلُ اللّه يَومَ القيامَةِ يَومَ فرحِهِ و سُرورِهِ "( ميزان الحكمه، ح13011)
جس شخص کا عاشور کا دن مصیبت ، حزن اور اندوہ اور گریہ کا دن ہو خدا قیامت کے دن کو اس کے لیے خوشی اور مسرت کا دن بنا دے گا ۔
اسی طرح امام رضا علیہ السلام نے روز عاشوراء کے آداب کے باب میں اس روز کھانے پینے کی چیزیں جمع کرنے سے منع کیا ہے : " ... وَ مَنِ ادَّخَرَ إِلَى مَنْزِلِهِ ذَخِیرَهً أَعْقَبَهُ اللَّهُ تَعَالَى نِفَاقاً فِی قَلْبِهِ إِلَى یَوْمِ یَلْقَاهُ، وَ انْتَزَعَ الْبَرَکَهَ عَنْهُ وَ عَنْ أَهْلِ بَیْتِهِ وَ وُلْدِهِ، وَ شَارَکَهُ الشَّیْطَانُ فِی جَمِیعِ ذَلِکَ. (کلینی، الکافی، ج ۴، ص ۱۴۷) "
جو شخص اس روز اپنے گھر کے لیے کچھ ذخیرہ کرے گا قیامت تک اس کے دل میں نفاق پیدا ہو جائے گا اور کے گھر اور اہل و عیال سے برکت اٹھ جائے گی اور شیطان تمام کاموںمیں اس کا شریک ہو گا ۔
نو محرم کا روزہ رکھنے سے بھی منع کیا گیا ہے
عاشوراء کے روزے کے حرام ہونے کے علاوہ ، حدیثوں میں نو محرم کے دن روزہ رکھنے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ اس لیے کہ نو محرم وہ دن ہے جس دن امام حسین اور ان کے ساتھیوں کا کربلا میں محاصرہ کیا گیا تھا ۔ " سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنْ صَوْمِ تَاسُوعَاءَ وَ عَاشُورَاءَ مِنْ شَهْرِ الْمُحَرَّمِ، فَقَالَ: تَاسُوعَاءُ یَوْمٌ حُوصِرَ فِیهِ الْحُسَیْنُ علیه السلام وَ أَصْحَابُهُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ بِکَرْبَلَاءَ، وَ اجْتَمَعَ عَلَیْهِ خَیْلُ أَهْلِ الشَّامِ وَ أَنَاخُوا عَلَیْهِ، وَ فَرِحَ ابْنُ مَرْجَانَهَ وَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ بِتَوَافُرِ الْخَیْلِ وَ کَثْرَتِهَا، وَ اسْتَضْعَفُوا فِیهِ الْحُسَیْنَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْهِ وَ أَصْحَابَهُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَ أَیْقَنُوا أَنْ لَا یَأْتِیَ الْحُسَیْنَ علیه السلام نَاصِرٌ وَ لَا یُمِدَّهُ أَهْلُ الْعِرَاقِ، بِأَبِی الْمُسْتَضْعَفُ الْغَرِیبُ ... . (کلینی، الکافی، ج ۴، ص ۱۴۷) "۔
امام صادق علیہ السلام سے تاسوعا اور عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : تاسوعا وہ دن تھا کہ جب امام حسین اور ان کے اصحاب کا کربلاء میں محاصرہ کیا گیا ،شام کا لشکر آپ سے جنگ کرنے کے لیے جمع ہوا اور ابن زیاد اور ابن مرجانہ لشکر کی کثرت کو دیکھ کر خوش ہوئے اور انہوں نے حسین ابن علی ع اور ان کے اصحاب کو کمزور سمجھا اور ان کو یقین ہو گیا کہ اب انکی مدد کرنے کے لیے کوئی نہیں آئے گا اور اھل عراق بھی ان کی مدد نہیں کریں گے ۔
" سألت أبا عبدالله عن صوم تاسوعاء وعاشوراء من شهر المحرم؟ فقال:. .. ما هو يوم صوم. وما هو إلا يوم حزن ومصيبة دخلت على أهل السماء وأهل الأرض وجميع المؤمنين. ويوم فرح وسرور لابن مرجانة وآل زياد وأهل الشام. غضب الله عليهم وعلى ذرياتهم. (حر عاملی، وسائل الشيعه، ج ۱۰، ص ۴۶۰) "
امام صادق علیہ السلام سے ماہ محرم کی دسویں اور نویں تاریخ کا روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا ؟ تو حضرت نے فرمایا : یہ دن روزہ رکھنے کے نہیں ہیں چونکہ یہ اہل آسمان و زمین اور تمام مومنین کے لیے حزن و مصیبت کے دن ہیں ،اور ابن مرجانہ اور آل زیاد اور شام والوں کی خوشی کے دن ہیں کہ ان پر ان کی نسلوں پر خدا کا غضب نازل ہو ۔
بحث کا نچوڑ
عاشور کے روزے کا مستحب اور سنت ہونا ہمیشہ آل سعود اور وہابیت کی توجہ کا محور رہا ہے اور اس پر وہ تاکید کرتے ہیں ۔ دوسری طرف یہ دن مکتب اہلبیت کے نزدیک حزن و اندوہ اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے اور شیعوں کے نزدیک اس دن کا روزہ نہ صرف سنت اور مستحب نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک بدعت اور مکروہ ہے ۔ماہ محرم کی دسویں کو خوشی اور روزہ نہ صرف رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت نہیں ہے بلکہ یہ ایسی بدعت ہے کہ جو کہ موجودہ دور میں بنی امیہ کی سیاست پر چلنے والوں اور سعودی عرب کی آل سعود اور وہابیوں کی طرف سے کہ جو بنی امیہ کے راستے پر چلنے والے ہیں اور امت اسلامی کے درمیان تفرقہ ڈالتے ہیں اپنائی جا رہی ہے ۔
گہری علمی اور تاریخی تحقیق کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ : عاشور کے دن کا روزہ بدعت ہے اور ناسب ہے بلکہ سزاوار ہے کہ اہلبیت رسولخدا علیہم صلوات اللہ کی اسارت اور تشنگی کے احترام میں روزے کی نیت کیے بغیر صبح سے عصر عاشوراء تک کھانے پینے اور دیگر مبطلات روزہ سے پرہیز کریں اور غروب کے نزدیک تھوڑا کھانا کھائیں تا کہ اس پر روزہ صادق نہ آئے اس لیے کہ اہل بیت علیہم السلام کے مخالفین اور بنی امیہ کو دوست رکھنے والے عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام کے قتل اور اہل بیت کی اسارت کے شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں ۔
اور وہ روایات کہ جو عاشور کے روزے کے ثواب کے بارے میں ہیں وہ تقیہ کی بنا پر صادر ہوئی ہیں اور اس مسئلے پر مضبوط گواہ وہ روایت ہے کہ جو امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے ۔اس لیے کہ جب آپ سے عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا : " صُمهُ مِن غَیرِ تَبییتٍ وأفطِرهُ مِن غَیرِ تَشمیتٍ و لا تَجعَلهُ یَومَ صَومٍ كَمَلًا وَلیَكُن إفطارُكَ بَعدَ صَلاةِ العَصرِ بِسَاعَةٍ عَلى شَربَةٍ مِن ماءٍ. (شیخ طوسی، مصباح المتهجّد ص۷۸۲)." اس دن روزہ رکھو لیکن رات میں روزے کی نیت نہ کرو اور کھاو پیو لیکن خوشی کے طور پر نہیں بلکہ ان لوگوں کی مخالفت کے طور پر جو تبرک کے قصد سے روزہ رکھتے ہیں ،اور اس دن کے روزے کو پورا نہ کرو اور نماز عصر کے کچھ دیر بعد پانی کی ایک گھونٹ سے روزہ کھولو ۔
اسی بنا پر بعض شیعہ فقہاء نے عاشور کے دن کے روزے سے منع کرنے والی رایات کو درست مانا ہے اور اس دن کے روزے کے مستحب ہونے کی احادیث کو جعلی قرار دیا ہے اور عاشوراء کے روزے کے حرام ہونے کا فتوی دیا ہے ۔
اس بنا پر احادیث کو جمع کر نے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ : عاشور کے دن کا روزہ یا مکروہ ہے یا حرام اور اس کے مستحب ہونے کا احتمال بھی نہیں دیا جا سکتا ،یعنی اگر اس روز روزہ اسلام کے حکم کے تحت اور کسی خصوصیت کی بنا پر رکھا جائے تو بدعت اور حرام ہے ،اور اگر تبرک اور شکر گذاری کے طور پرہو تو یہ بنی امیہ کی بدعت کی پیروی اور کفر اور اسلام سے خارج ہونے کی علامت ہے ،اور اگر مطلق روزے کی فضیلت کے طور پر ہو تو اس سے چونکہ بنی امیہ کے ساتھ شباہت پیدا ہوتی ہے لہذا مکروہ ہے اور اس کا ثواب کم ہے

سوال: کیوں عاشور کے دن روزہ رکھنا اہل تشیع کے نزدیک مکروہ جبکہ اہل سنت کے نزدیک مستحب ہے؟ اور کیوں اہل تشیع اس دن فاقہ کرتے ہیں؟

سوال: کیوں عاشور کے دن روزہ رکھنا اہل تشیع کے نزدیک مکروہ جبکہ اہل سنت کے نزدیک مستحب ہے؟ اور کیوں اہل تشیع اس دن فاقہ کرتے ہیں؟
جواب: جیسا کہ سب کے نزدیک عیاں ہے کہ اہل تشیع اور اہل سنت کے یہاں فقہی احکام کے استنباط کرنے کے منابع و مآخذ مختلف ہیں۔ اہم ترین اختلاف یہاں ہے کہ اہم سنت پیغمبر اکرم (ع) کے بعد صحابہ کے قول و فعل کو حجت سمجھتے ہیں لیکن اہل تشیع پیغمبر اکرم(ص) کے بعد بارہ اماموں کے اقوال اور ان کی سیرت کو حجت اور کتاب الہی کے بعد سنت رسول(ع) کے برابر کا درجہ دیتے ہیں جسے اہل سنت قبول نہیں کرتے۔ اہل تشیع ائمہ طاہرین کو اہل بیت(ع) رسول کا حقیقی مصداق قرار دیتے ہوئے انہیں معصوم جانتے اور اس بات کے معتقد ہیں کہ علم پیغمبر (ص) ان کے بعد ائمہ طاہرین کی طرف منتقل ہوا اور وہ سب سے زیادہ دین الہی کے بارے میں جانتے ہیں چونکہ’’ اھل البیت ادری بما فی البیت‘‘ گھر والے گھر میں کیا ہے کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ بھی ہے کہ طول تاریخ میں کوئی ایک بھی شخص ائمہ طاہرین کو علمی میدان میں شکست نہیں دے سکا۔
بہر حال، عاشور کا روزہ فقہی مسائل میں سے ایک ہے لہذا ہر فرقہ اپنے فقہی منابع سے استناد کرتے ہوئے اس کا حکم بیان کرتا ہے۔
لیکن اگر ان روایات کی چھان بین کی جائے جو عاشور کے روزے کے بارے میں منقول ہیں یا رسول اسلام کی طرف منسوب کی گئی ہیں اور اہل سنت کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں تو ان میں واضح تعارض نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم میں کتاب الصوم میں عاشور کے روزے کے بارے میں ابن مسعود سے نقل کیا گیا ہے: ’’ماہ رمضان کے روزے کے حکم سے پہلے عاشور کا روزہ واجب تھا لیکن جب رمضان کے روزے واجب ہو گئے تو عاشور کے روزہ کا وجوب منسوخ ہو گیا‘‘ ۔ صحیح بخاری میں اسی باب میں عاشور کے روزے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عصر جاہلیت میں عاشور کو روزہ رکھا جاتا تھا اور پیغمبر نے بھی عصر جاہلیت کی پیروی کرتے ہوئے عاشور کو روزہ رکھا(۱)۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم عاشور کے روزے کی فضیلت نہیں جانتے تھے لیکن جب انہوں نےمکہ سے مدینہ ہجرت کی اور وہاں یہودیوں کو عاشور کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو خود بھی رکھنے لگے۔(۲)
پہلی بات یہ ہے کہ خود ان روایات کے اندر تعارض پایا جاتا ہے ایک روایت کہتی ہے کہ پیغمبر عصر جاھلیت کی پیروری کرتے ہوئے روزہ رکھتے تھے دوسری روایت کا کہنا ہے کہ جب تک پیغمبر نے ہجرت نہیں کی تھی تب تک وہ عاشور کی فضیلت سے آشنا نہیں تھے اور یہودیوں کی پیروری میں انہوں نے روزہ رکھا تیسری روایت رمضان کے روزوں سے پہلے عاشور کے روزے کو واجب قرار دیتی ہے۔
تھوڑا سا غور کرنے سے ہر مسلمان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام عصر جاہلیت یا یہودی طور طریقے کا تابع تھا کہ جو رسومات عصر جاہلیت یا یہودیت و عیسائیت کی پیغمبر کو اچھی لگتی رہیں وہ ان پر عمل کرتے رہے؟(نعوذ باللہ) یا اگر ماہ رمضان سے پہلے عاشور کا روزہ واجب تھا اور بعد میں منسوخ ہو گیا توپھر قرآن میں ناسخ و منسوخ موجود ہوتے جب اللہ نے ماہ رمضان کے روزے واجب کئے تو ساتھ میں یہ بھی حکم دیتا کہ اب اس کے بعد عاشور کا روزہ تم پر سے ساقط کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن میں عاشور کا کوئی تذکرہ نہیں۔
حقیقت امر یہ ہے کہ ۶۱ ہجری میں نواسہ رسول کو قتل کرنے کے بعد یزید نے اس دن اپنی فتح کا اعلان کیا اور اس دن کو مسلمانوں کے لیے عید کا دن قرار دیا اور اس میں روزہ رکھنے کی فضیلت کے بارے میں حدیثیں جعل کروائیں جیسا کہ زیارت عاشورہ میں عاشور کو بنی امیہ کی طرف سے عید قرار دینے کے بارے میں واضح طور پر کہا گیا ہے’’ اللھم ان ھذا یوم تبرکت بہ بنی امیہ‘‘ ’’ ھذا یوم فرحت بہ آل زیاد و آل مروان بقتلھم الحسین صلوات اللہ علیہ‘‘۔ یعنی خدایا یہ وہ دن ہے جسے بنی امیہ نے بابرکت قرار دیا، یہ وہ دن ہے جس دن آل زیاد اور آل مروان نے حسین علیہ السلام کے قتل کی وجہ سے عید منائی۔
اس کے برخلاف اہل تشیع جو اس دن روزہ رکھنے کو مکروہ قرار دیتے ہیں کے نزدیک اس کی دلیل ائمہ طاہرین سے مروی احادیث ہیں بنعوان مثال’’ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: عاشور کا دن روزہ رکھنے کا دن نہیں ہے بلکہ غم و مصیبت کا دن ہے ایسی مصیبت جو اہل آسمان، زمین اور تمام مومنین پر پڑی۔ یہ دن مرجانہ کے بیٹے، آل زیاد اور اہل جہنم کے نزدیک خوشی کا دن ہے‘‘۔
لہذا عاشور مصیبت اور غم کا دن ہے عید کا دن نہیں کہ روزہ رکھنا مستحب ہو۔ جبکہ اس کے برخلاف بنی امیہ اس دن عید منا کر روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی روزے کی تشویق کرتے تھے۔
رہی بات عاشور کو فاقہ کرنے کی تو فاقہ کرنا شرعی حکم نہیں ہے اور نہ ہی فقہی کتابوں میں موجود ہے بلکہ دعاؤں کی کتابوں میں عاشور کے دن کے حوالے سے وارد ہوئے اعمال میں کہا گیا ہے جیسا کہ شیخ عباس قمی نے کتاب مفاتیح الجنان میں بیان کیا ہے اور واضح ہے کہ مفاتیح الجنان میں وارد شدہ اعمال فقہی اور شرعی اعمال کی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ان کا ماخذ اخلاقی روایات ہیں انہوں نے اعمال عاشورہ کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سزاوار ہے شیعوں کے لیے کہ وہ عاشور کو روزہ کی نیت کئے بغیر فاقہ کریں اور عصر کے وقت کسی ایسی چیز سے افطار کریں جو مصیبت زدہ لوگ استعمال کرتے ہیں۔
اور اس کا فلسفہ شاید یہ ہو کہ مولا امام حسین (ع) عصر عاشور تک جو ان کی شہادت کا وقت ہے بھوکے پیاسے لاشوں پر لاشے اٹھاتے رہے لہذا ان کے چاہنے والے بھی اس وقت تک کچھ نہ کھائیں پئیں تو بہتر ہیں۔منقول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱: صحیح بخاری، کتاب الصوم، ح 1794.
۲
ـ وہی حوالہ؛ ح 1900، 3726 و3727