عاشور کے دن کا روزہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت یا بنی امیہ کی بدعت ؟
روز عاشور کے روزے کے بارے میں اہل سنت کا نظریہ
اہل سنت کی کتابوں میں موجود روایات کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان روایات
میں کھلا تناقض اضطراب اور بعض روایات کے متن میں خدشہ ہے ؛ جب کہ ان میں
سے بعض روایات اس دن کے روزے کی تاکید کرتی ہیں اور بعض اس کے بر خلاف کو
ثابت کرتی ہیں یہاں پر عاشوراء کے روزے کے بارے میں اہل سنت کی بعض روایات
کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے ۔
عاشوراء کا روزہ اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہل جاہلیت کا اتباع
ایک طرف اہل سنت کی بعض روایات میں آیا ہے کہ دوران جاہلیت کے لوگ عاشور
کے دن روزہ رکھتے تھے اور پیغمبر ص نے بھی ان کی پیروی میں اس دن روزہ رکھا
؛" عَنْ عَائِشَةَ رضى الله عنها قَالَتْ: كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ
تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله
عليه وسلم يَصُومُهُ. (صحيح البخاري، ج ۲، ص ۲۵۰) "حضرت عائشہ رضى الله
عنها کہتی ہیں : عاشوراء کے دن قریش جاہلیت کے زمانے میں روزہ رکھتے تھے
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے ،جب
حضرت مدینے آئے اس وقت بھی اس دن روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی روزہ
رکھنے کا حکم دیتے تھے ۔
روز عاشوراء میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہود کی پیروی کرنا
اہل سنت کی بعض دوسری روایات میں آیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم عاشور کے دن کی فضیلت کے بارے میں نہیں جانتے تھے لیکن جب مدینے آئے
تو یہودیوں سے انہیں پتہ چلا تب آنحضرت نے اس پر عمل کیا ؛" عَنِ ابْنِ
عَبَّاسٍ رضى الله عنه قَالَ قَدِمَ النَّبِىُّ الْمَدِينَةَ. فَرَأَى
الْيَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ. فَقَالَ «مَا هَذَا». قَالُوا
هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ. هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِى إِسْرَائِيلَ
مِنْ عَدُوِّهِمْ. فَصَامَهُ مُوسَى. قَالَ «فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى
مِنْكُمْ». فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ. (صحيح بخاري، ج ۲، ص ۲۵۱ ). "
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ آئے تو یہودیوں کو دیکھا کہ انہوں
نے عاشور کے دن روزہ رکھا ہے فرمایا:یہ کام کس لیے ہے ؟ کہا ؛ یہ ایک
مبارک دن ہے کہ جس دن خدا نے بنی اسرائیل کو دشمنوں سے نجات دلائی لہذا
موسی اور ان کے ماننے والے اس دن روزہ رکھتے ہیں۔ آنحضرت نے فرمایا : میں
موسی کی پیروی کا زیادہ حق دار اور سزاوار ہوں اسی لیے اس دن حضرت نے روزہ
رکھا اور حکم دیا کہ سبھی روزہ رکھیں ۔آپ کی نظر میں کیا یہ ممکن ہے کہ
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم لدنی رکھنے کے باوجود اس مسئلے کو نہیں
جانتے تھے اور آپ نے اس کو اہل کتاب اور یہودیوں سے سیکھا !؟
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عاشوراء کے روزے کے حکم پر عمل نہ کرنا
اس کے علاوہ کہ ھیثمی علمائے اہل سنت میں سے ہے اس نے مجمع الزوائد میں
ابو سعید خدری اور پیغمبر ص کے صحابہ سے روایت نقل کی ہے : " ان رسول الله
أمر بصوم عاشوراء وكان لا يصومه. (هیثمی، مجمع الزوائد، ج ۳، ص ۱۸۶)
"پیغمبر خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عاشور کے روزے کا حکم دیتے تھے لیکن
خود اس دن روزہ نہیں رکھتے تھے !؟
یعنی ھیثمی کی روایت کے بقول
عاشوراء کے روزے کی روایت میں واضح اور کھلا اشکال یہ ہے کہ کیسے ممکن ہے
کہ رسول خدا کسی نیک کام کا حکم دیں حالانکہ وہ خود اس پر عمل نہ کرتے ہوں
!؟
ماہ رمضان کے بعد عاشوراء کے روزے کو ترک کرنا
اہل سنت
کی بعض دوسری حدیثوں میں نقل ہوا ہے کہ عاشوراء کا روزہ ماہ رمضان کے روزے
کے حکم کے بعد منسوخ ہو گیا ۔" عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضى الله عنهما قَالَ:
صَامَ النَّبِيُّ(ص) عَاشُورَاءَ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ
رَمَضَانُ تُرِكَ. (صحيح البخاري، ج ۲، ص ۲۲۶) " ابن عمر رضی اللہ عنہما سے
روایت ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رمضان کے روزے کے نزول کے
حکم سے پہلے عاشوراء کے دن روزہ رکھتے تھے لیکن اس کے بعد عاشوراء کو روزہ
ترک کر دیا گیا ۔
اس بنا پر جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ مذکورہ تعارض
اور ان میں سے بعض روایات کے عجیب مطالب اس احتمال کو قوی کر دیتے ہیں کہ
یہ روایات بنی امیہ کی گھڑی ہوئی ہیں اور انہوں نے عاشوراء کے دن خوشی اور
مسرت کی خاطر اس دن کے روزے کے استحباب کو گڑھا ہے اور آہستہ آہستہ یہ
چیز اہل سنت کے درمیان ایک سنت اور عادت میں تبدیل ہو گئی ۔اور یہ وہی چیز
ہے کہ جو زیارت عاشوراء میں بیان ہوئی ہے ؛ اس میں آیا ہے :"اَللّهُمَّ
اِنَّ هذا یَوْمٌ تَبرَّکَتْ بِهِ بَنُو اُمَیَّهَ " اور دوسری جگہ آیا ہے
" هذا یَوْمٌ فَرِحَتْ بِهِ آلُ زِیادٍ وَ آلُ مَرْوانَ بِقَتْلِهِمُ
الْحُسَیْنَ صَلَواتُ اللَّهِ عَلَیْهِ " ؛
عاشور کا روزہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے شکرانے کے طور پر بنی امیہ کی سنت
ایک موضوع کہ جو عاشورائے حسینی کے سلسلے میں وہابیوں کی طرف سے اٹھایا
جاتا ہے وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا مسئلہ ہے کہ جو امام حسین علیہ
السلام اور ان کے انصار و اقرباءکی شہادت کے شکرانے کے طور پر بنی امیہ کی
سنت کی پیروی ہے اور اس روز خوشی اور سرور کا اظہار ہے ۔ امام صادق علیہ
السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں :" إن آل أمية عليهم لعنة الله ومن أعانهم
على قتل الحسين من أهل الشام، نذروا نذرا إن قتل الحسين عليه السلام وسلم
من خرج إلى الحسين عليه السلام وصارت الخلافة في آل أبي سفيان، أن يتخذوا
ذلك اليوم عيدا لهم، وأن يصوموا فيه شكرا. (شیخ طوسی امالی، ص ۶۷۷) "
بنی امیہ لعنت اللہ علیھم اور وہ افراد کہ اہل شام میں سے جنہوں نے امام
حسین علیہ السلام کو قتل کرنے میں مدد کی تھی ، انہوں نے منت مانی کہ اگر
حسین مارے گئے اور خلافت آل ابو سفیان کو مل گئی تو وہ عاشور کے دن عید
منائیں گے اور قتل حسین علیہ السلام کے شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھیں
گے ۔
وہابیوں کا عاشوراء کے دن شادیوں کے جشن منعقد کرنا
بنی
امیہ نے عاشوراء کے دن خوشی منانے کے لیے اس دن روزہ کے مستحب ہونے کو گڑھ
لیا تھا اور آہستہ آہستہ یہ چیز اہل سنت کے درمیان ایک سنت میں تبدیل ہو
گئی یہاں تک کہ اس دور میں کہ جو اس دور کے بنی امیہ ہیں یعنی آل سعود
بھی اس بری سنت کو زندہ کرنے پر اصرار کر رہے ہیں ، جب کہ اکثر اہل سنت
جانتے ہیں کہ عاشور کا دن فرزند رسولخدا امام حسین علیہ السلام اور ان کے
اقرباء و انصار کی شہادت کا دن ہے اور شیعہ اس دن عزاداری مناتے ہیں اور
اہل بیت رسول کے خاص احترام کے قایل ہیں اور ان کے نزدیک روز عاشوراء کو
مقدس قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے لیکن تکفیری وہابی اور حکام آل سعودکہ
جو تمام مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ مقدس اور متدین ہونے کا دعوی کرتے
ہیں اسی بنا پر وہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے مقابلے میں اس
سلسلے میں اموی نظریے کو تقویت پہنچاتے ہیں اور بنی امیہ کی پیروی میں اس
دن کو خوشی اور شادمانی کا دن مانتے ہیں ۔
جعلی روایات سعودی عرب کے مفتی کے فتوے کی سند
موجودہ دور میں حکام آل سعود اور تکفیری وہابیت کے ان اقدامات اور اس طرح
کے سلوک کا منشاء بنی امیہ کی وہ جعلی اور بناوٹی حدیثیں ہیں کہ جن کو
گھڑنے کا کام انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے قتل کے بعد شروع کیا تھا
تا کہ کربلاء کے واقعے کے عظیم گناہ کو کہ جس کے مرتکب وہ ہوئے تھے بھلا
دیا جائے ۔لیکن دربار آل سعود کے بعض وہابی مفتیوں نے ان جعلی احادیث کو
سند بنا کر بنی امیہ کے عقیدے کی ترویج اور اس غلط بدعت کو زندہ کرنے کی
کوشش کی ہے ۔
شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل شیخ نے کہ جو سعودی
عرب کے بزرگ علماء کی کمیٹی کا سربراہ اور مفتیء کل اور سعودی عرب کے مرکز
تحقیقات علمی اور فتاوی کا سربراہ بھی ہے اس نے ایک بیان شایع کر کے اس
توجیہ کے ساتھ کہ جس کا ذکر متن میں ہوا ہے مسلمانوں کی تشویق کی ہے کہ وہ
عاشور کے دن روزہ رکھیں ۔
اس کے بیان کا عربی متن :" الرياض وكالة
الأنباء السعودية: وجّه سماحة الشيخ عبد العزيز بن عبد الله آل الشيخ مفتي
عام المملكة رئيس هيئة كبار العلماء وإدارة البحوث العلمية والإفتاء،
الكلمة التالية في الترغيب في صوم يوم عاشوراء ... اما بعد: فقد ثبت عن
النبي أنه كان يصوم يوم عاشوراء، ويرغب الناس في صيامه، لأنه يوم نجى الله
فيه موسى وقومه، وأهلك فيه فرعون وقومه، فيستحب لكل مسلم ومسلمة صيام هذا
اليوم شكرا لله عز وجل! وهو اليوم العاشر من المحرم. ويستحب أن يصوم قبله
يوما أو بعده يوما ... . (کورانی، الانتصار، ج ۹، ص ۳۰۲) "
ترجمہ :
نبی ص سے ثابت ہوا ہے کہ آپ عاشور کے دن روزہ رکھتے تھے اور لوگوں کو بھی
روزہ رکھنے کی ترغیب دلاتے تھے ، اس لیے کہ یہ وہ دن ہے کہ جس دن اللہ نے
موسی اور ان کی قوم کو نجات دلائی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کیا
تھا ، پس ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس دن اللہ کا شکر
ادا کرتے ہوئے روزہ رکھیں ! اور یہ محرم کا دسواں دن ہے اور مستحب ہے کہ
اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھیں ۔
اس نے اسی پر اکتفا
نہیں کی بلکہ بارہا عملی اقدامات اور موقف کے ذریعے اس نے عاشوراء کے دن
شادی کے جشن منانے کی کوشش کی ہے ۔حال ہی میں عمر ابن عبد العزیز آل شیخ
،سعودی عرب کے مفتیء اعظم کے فرزند نے عاشوراء کے دن اپنی شادی کا جشن
منایا اس شادی میں بہت سارے وہابی مفتیوں نے شرکت کی اور انہوں نے اس شادی
کی مفتیء اعظم اور اس کے فرزند کو مبارکباد دی ۔
بنی امیہ کے سلسلے میں حدیثیں گھڑے جانے کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کی پیشینگوئی
محدث قمی نے شفاء الصدور کے حوالے سے بنی امیہ کے بعض اقدامات کے بارے
میں کہ جنہوں نے کئی صدیوں تک مسلمانوں پر حکومت کی یوں لکھا ہے : بنی امیہ
روز عاشوراء کو مبارک قرار دیتے تھے اس دن اپنے لیے خریداری کرتے تھے ،اس
روز روزہ رکھتے تھے اور اس دن حاجتیں طلب کرنے کو مستحب مانتے تھے۔ اسی
لیے انہوں نے روز عاشوراء کے بارے میں فضائل گڑھے ہیں اور روز عاشوراء کی
فضیلت کے بارے میں انہوں نے ایک دعا بھی گڑھی ہے کہ جس کے شروع میں یہ ہے
:" يَا قَابِلَ تَوْبَةِ آدَمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ يَا رَافِعَ إِدْرِيسَ
إِلَي السَّمَاءِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ يَا مُسَکِّنَ سَفِينَةِ نُوحٍ عَلَي
الْجُودِيِّ يَوْمَ عَاشُورَاءَ يَا غِيَاثَ إِبْرَاهِيمَ مِنَ النَّارِ
يَوْمَ عَاشُورَاءَ إلخ " یہ دعا بنائی ہے تا کہ مغالطہ پیدا کر سکیں ،ان
کا عقیدہ ہے کہ ہر نبی کا وسیلہ اور شرف ہوتا ہے اور عاشور کے دن یہ شرف
زیادہ ہو جاتا ہے جیسے ابراہیم کے لیے نمرود کی آگ کا ٹھنڈا ہونا ، نوح کی
کشتی کا کوہ جودی پر ٹھہرنا ، فرعون کو دریا میں غرق کرنا اور موسی کو
فرعون کے ہاتھ سے نجات دلانا اور عیسی کو یہودیوں کے ہاتھوں نجات دلانا ۔
شیخ عباس قمی آگے لکھتے ہیں : شیخ صدوق میثم تمار سے حضرت علی علیہ
السلام سے نقل کرتے ہیں : حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : مستقبل میں یہ
لوگ فرزند رسول کو قتل کریں گے اور روز عاشوراء کہ جس دن یہ فرزند رسولخدا
کو ماریں گے اس کو مبارک دن قرار دیں گے ! راوی کہتا ہے : میں نے میثم تمار
سے کہا : کیسے یہ اس دن کو مبارک دن قرار دیں گے ؟ کہا : وہ اس کی فضیلت
میں حدیثیں گڑھیں گے اور کہیں گے کہ روز عاشوراء وہ دن ہے کہ جس دن خدا نے
آدم کی توبہ قبول کی تھی جب کہ آدم کی توبہ ذی الحجہ میں قبول کی گئی تھی
،وہ کہیں گے کہ عاشور کے دن یونس کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی ،حالانکہ
یونس کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ماہ ذیقعدہ میں ملی تھی ؛ وہ کہیں گے روز
عاشوراء وہ دن ہے کہ جس دن نوح کی کشتی کوہ جودی پر رکی ، حالانکہ وہ ۱۸ ذی
الحجہ کو رکی تھی ،وہ کہیں گے عاشور کے دن موسی کے لیے دریا کو شگافتہ کیا
گیا جب کہ دریا کو ماہ ربیع الاول میں شگافتہ کیا گیا تھا ،(محدث قمی ،
مفاتیح الجنان ، اعمال روز عاشوراء )
عاشور کے دن روزے کے ممنوع ہونے کی روایات
لیکن شیعوں اور سنیوں کی کتابوں میں عاشوراء کے بارے میں مختلف روایات نقل
ہوئی ہیں کہ مذکورہ بالا مطالب کے پیش نظر آسانی یہ بات معلوم کی جا سکتی
ہے کہ عاشور کے دن کے روزے کی فضیلت اور اس کے مستحب ہونے والی روایات
کہ جو شیعوں کی کتابوں میں ہیں جعلی ہیں یا تقیہ کے عنوان سے صادر ہوئی ہیں
۔
اس لیے کہ اہل بیت نے اس عنوان کے تحت کہ عاشور کے دن کا روزہ
بنی امیہ کی بدعت ہے ایک ضابطہ معین کر کے شیعوں کو مسلمانوں کی کتابوں میں
جعلی حدیثوں کے موجود ہونے سے آگاہ کیا ہے ،مثال کے طور پر ان روایات کی
طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے ایک شخص کے جواب میں
کہ جس نے عاشور کے روزے کے حکم کے بارے میں پوچھا تھا عاشوراء کے دن روزہ
رکھنے سے منع کیا اور فرمایا : " یَوْمُ عَاشُورَاءَ فَیَوْمٌ أُصِیبَ
فِیهِ الْحُسَیْنُ صَرِیعاً بَیْنَ أَصْحَابِهِ وَ أَصْحَابُهُ صَرْعَى
حَوْلَهُ عُرَاةً أَ فَصَوْمٌ یَكُونُ فِی ذَلِكَ الْیَوْمِ كَلَّا وَ
رَبِّ الْبَیْتِ الْحَرَامِ. "
عاشور کا دن وہ دن ہے کہ جب حسین
علیہ السلام اپنے اصحاب کے درمیان خاک پر پڑے تھےاور آپ کے اصحاب آپ کے
گرد خاک پر عریاں پڑے تھے،کیا ایسے دن روزہ رکھتے ہیں ؟ پالنے والے کی قسم
کہ ایسا کام ہر گز جائز نہیں ہے ۔
اس کے بعد فرمایا :" فَمَنْ
صَامَهُ أَوْ تَبَرَّكَ بِهِ حَشَرَهُ اللَّهُ مَعَ آلِ زِیَادٍ "جو شخص اس
دن روزہ رکھے گا یا اس دن کو مبارک قرار دے گا ،خدا اس کو آل زیاد کے
ساتھ محشور کرے گا ( کلینی ، کافی ،ج ۴ ص ۱۴۷ ) ۔
عاشوراء کا روزہ بنی امیہ کی بدعت
اسی طرح ایک روایت میں ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام سے عاشور کے دن
روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا حضرت نے عاشور کے روزے کو صراحت کے ساتھ
اسلام میں بنی امیہ کی بدعت قرار دیا اور فرمایا :" ذَاکَ یَوْمٌ قُتِلَ
فِیهِ الْحُسَیْنُ علیه السلام، فَإِنْ کُنْتَ شَامِتاً فَصُمْ. ثُمَّ
قَالَ: إِنَّ آلَ أُمَیَّهَ نَذَرُوا نَذْراً إِنْ قُتِلَ الْحُسَیْنُ علیه
السلام أَنْ یَتَّخِذُوا ذَلِکَ الْیَوْمَ عِیداً لَهُمْ، یَصُومُونَ
فِیهِ شُکْراًوَ یُفَرِّحُونَ أَوْلَادَهُمْ. فَصَارَتْ فِی آلِ أَبِی
سُفْیَانَ سُنَّهً إِلَى الْیَوْمِ، فَلِذَلِکَ یَصُومُونَهُ وَ
یُدْخِلُونَ عَلَى عِیَالَاتِهِمْ وَ أَهَالِیهِمُ الْفَرَحَ ذَلِکَ
الْیَوْمَ. ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الصَّوْمَ لَا یَکُونُ لِلْمُصِیبَهِ، وَ
لَا یَکُونُ إِلَّا شُکْراً لِلسَّلَامَهِ، وَ إِنَّ الْحُسَیْنَ علیه
السلام أُصِیبَ یَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَإِنْ کُنْتَ فِیمَنْ أُصِیبَ بِهِ
فَلَا تَصُمْ، وَ إِنْ کُنْتَ شَامِتاً مِمَّنْ سَرَّهُ سَلَامَهُ بَنِی
أُمَیَّهَ فَصُمْ شُکْراً لِلَّهِ تَعَالَى..... " (شیخ طوسی ، امالی ، ص
۶۶۷ )
عاشور کا دن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے اگر
حسین علیہ السلام کی شماتت کرنا چاہتے ہو (اور جو بلا ان پر نازل ہوئی ہے
اس کے سلسلے میں خوشنودی کا اظہار کرنا چاہتے ہو ) تو عاشور کے دن روزہ
رکھو بنی امیہ لعنۃ اللہ علیھم اور شام کے وہ افراد کہ جنہوں نے حسین علیہ
السلام کو قتل کرنے میں ان کی مد دکی تھی انہوں نے نذر کی کہ اگر حسین
قتل ہو گئے اور ان کے جن لوگوں نے حسین کے خلاف خروج کیا تھا وہ زندہ بچ
گئے اور خلافت آل ابو سفیان کو مل گئی تو عاشور کے دن عید منائیں گے اور
اس روز شکر گذاری کے طور پر روزہ رکھیں گے.... ۔
چند نکتے ؛ تاسوعا (محرم کی نویں تاریخ ) کے دن کمائی کرنا
عاشور کے دن دنیا کمانے سے کیوں منع کیا گیا ہے ؟
شیعہ فقہاء اہل بیت علیھم السلام کی رایات سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں
کہ چونکہ یہ دن غم و اندوہ کا دن ہے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی
عزاداری کا دن ہے لہذا جو عمل بھی اس روز عزاداری اور رنج و اندوہ سے
منافات رکھتا ہو اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے اور لوگوں کو وصیت کی ہے اس
روز روز مرہ کے کاموں سے ہاتھ کھینچ کر عزاداری منائیں اور گریہ کریں ،مثال
کے طور پر امام رضا علیہ السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں: " مَن كانَ
يَومُ عاشوراءَ يَومَ مُصيبَتِهِ و حُزنِهِ و بُكائِهِ، يَجعَلُ اللّه
يَومَ القيامَةِ يَومَ فرحِهِ و سُرورِهِ "( ميزان الحكمه، ح13011)
جس شخص کا عاشور کا دن مصیبت ، حزن اور اندوہ اور گریہ کا دن ہو خدا قیامت کے دن کو اس کے لیے خوشی اور مسرت کا دن بنا دے گا ۔
اسی طرح امام رضا علیہ السلام نے روز عاشوراء کے آداب کے باب میں اس روز
کھانے پینے کی چیزیں جمع کرنے سے منع کیا ہے : " ... وَ مَنِ ادَّخَرَ
إِلَى مَنْزِلِهِ ذَخِیرَهً أَعْقَبَهُ اللَّهُ تَعَالَى نِفَاقاً فِی
قَلْبِهِ إِلَى یَوْمِ یَلْقَاهُ، وَ انْتَزَعَ الْبَرَکَهَ عَنْهُ وَ عَنْ
أَهْلِ بَیْتِهِ وَ وُلْدِهِ، وَ شَارَکَهُ الشَّیْطَانُ فِی جَمِیعِ
ذَلِکَ. (کلینی، الکافی، ج ۴، ص ۱۴۷) "
جو شخص اس روز اپنے گھر کے
لیے کچھ ذخیرہ کرے گا قیامت تک اس کے دل میں نفاق پیدا ہو جائے گا اور کے
گھر اور اہل و عیال سے برکت اٹھ جائے گی اور شیطان تمام کاموںمیں اس کا
شریک ہو گا ۔
نو محرم کا روزہ رکھنے سے بھی منع کیا گیا ہے
عاشوراء کے روزے کے حرام ہونے کے علاوہ ، حدیثوں میں نو محرم کے دن روزہ
رکھنے سے بھی منع کیا گیا ہے ۔ اس لیے کہ نو محرم وہ دن ہے جس دن امام حسین
اور ان کے ساتھیوں کا کربلا میں محاصرہ کیا گیا تھا ۔ " سَأَلْتُ أَبَا
عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام عَنْ صَوْمِ تَاسُوعَاءَ وَ عَاشُورَاءَ مِنْ
شَهْرِ الْمُحَرَّمِ، فَقَالَ: تَاسُوعَاءُ یَوْمٌ حُوصِرَ فِیهِ
الْحُسَیْنُ علیه السلام وَ أَصْحَابُهُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ
بِکَرْبَلَاءَ، وَ اجْتَمَعَ عَلَیْهِ خَیْلُ أَهْلِ الشَّامِ وَ أَنَاخُوا
عَلَیْهِ، وَ فَرِحَ ابْنُ مَرْجَانَهَ وَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ بِتَوَافُرِ
الْخَیْلِ وَ کَثْرَتِهَا، وَ اسْتَضْعَفُوا فِیهِ الْحُسَیْنَ صَلَوَاتُ
اللَّهِ عَلَیْهِ وَ أَصْحَابَهُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَ أَیْقَنُوا
أَنْ لَا یَأْتِیَ الْحُسَیْنَ علیه السلام نَاصِرٌ وَ لَا یُمِدَّهُ
أَهْلُ الْعِرَاقِ، بِأَبِی الْمُسْتَضْعَفُ الْغَرِیبُ ... . (کلینی،
الکافی، ج ۴، ص ۱۴۷) "۔
امام صادق علیہ السلام سے تاسوعا اور
عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : تاسوعا وہ دن تھا کہ
جب امام حسین اور ان کے اصحاب کا کربلاء میں محاصرہ کیا گیا ،شام کا لشکر
آپ سے جنگ کرنے کے لیے جمع ہوا اور ابن زیاد اور ابن مرجانہ لشکر کی کثرت
کو دیکھ کر خوش ہوئے اور انہوں نے حسین ابن علی ع اور ان کے اصحاب کو کمزور
سمجھا اور ان کو یقین ہو گیا کہ اب انکی مدد کرنے کے لیے کوئی نہیں آئے
گا اور اھل عراق بھی ان کی مدد نہیں کریں گے ۔
" سألت أبا عبدالله
عن صوم تاسوعاء وعاشوراء من شهر المحرم؟ فقال:. .. ما هو يوم صوم. وما هو
إلا يوم حزن ومصيبة دخلت على أهل السماء وأهل الأرض وجميع المؤمنين. ويوم
فرح وسرور لابن مرجانة وآل زياد وأهل الشام. غضب الله عليهم وعلى ذرياتهم.
(حر عاملی، وسائل الشيعه، ج ۱۰، ص ۴۶۰) "
امام صادق علیہ السلام سے
ماہ محرم کی دسویں اور نویں تاریخ کا روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا ؟ تو
حضرت نے فرمایا : یہ دن روزہ رکھنے کے نہیں ہیں چونکہ یہ اہل آسمان و زمین
اور تمام مومنین کے لیے حزن و مصیبت کے دن ہیں ،اور ابن مرجانہ اور آل
زیاد اور شام والوں کی خوشی کے دن ہیں کہ ان پر ان کی نسلوں پر خدا کا غضب
نازل ہو ۔
بحث کا نچوڑ
عاشور کے روزے کا مستحب اور سنت ہونا
ہمیشہ آل سعود اور وہابیت کی توجہ کا محور رہا ہے اور اس پر وہ تاکید کرتے
ہیں ۔ دوسری طرف یہ دن مکتب اہلبیت کے نزدیک حزن و اندوہ اور امام حسین
علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے اور شیعوں کے نزدیک اس دن کا روزہ نہ صرف
سنت اور مستحب نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک بدعت اور مکروہ ہے ۔ماہ محرم کی
دسویں کو خوشی اور روزہ نہ صرف رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت
نہیں ہے بلکہ یہ ایسی بدعت ہے کہ جو کہ موجودہ دور میں بنی امیہ کی سیاست
پر چلنے والوں اور سعودی عرب کی آل سعود اور وہابیوں کی طرف سے کہ جو بنی
امیہ کے راستے پر چلنے والے ہیں اور امت اسلامی کے درمیان تفرقہ ڈالتے ہیں
اپنائی جا رہی ہے ۔
گہری علمی اور تاریخی تحقیق کے بعد ہمیں پتہ چلا
کہ : عاشور کے دن کا روزہ بدعت ہے اور ناسب ہے بلکہ سزاوار ہے کہ اہلبیت
رسولخدا علیہم صلوات اللہ کی اسارت اور تشنگی کے احترام میں روزے کی نیت
کیے بغیر صبح سے عصر عاشوراء تک کھانے پینے اور دیگر مبطلات روزہ سے پرہیز
کریں اور غروب کے نزدیک تھوڑا کھانا کھائیں تا کہ اس پر روزہ صادق نہ آئے
اس لیے کہ اہل بیت علیہم السلام کے مخالفین اور بنی امیہ کو دوست رکھنے
والے عاشور کے دن امام حسین علیہ السلام کے قتل اور اہل بیت کی اسارت کے
شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں ۔
اور وہ روایات کہ جو عاشور کے
روزے کے ثواب کے بارے میں ہیں وہ تقیہ کی بنا پر صادر ہوئی ہیں اور اس
مسئلے پر مضبوط گواہ وہ روایت ہے کہ جو امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی
ہے ۔اس لیے کہ جب آپ سے عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا :
" صُمهُ مِن غَیرِ تَبییتٍ وأفطِرهُ مِن غَیرِ تَشمیتٍ و لا تَجعَلهُ
یَومَ صَومٍ كَمَلًا وَلیَكُن إفطارُكَ بَعدَ صَلاةِ العَصرِ بِسَاعَةٍ
عَلى شَربَةٍ مِن ماءٍ. (شیخ طوسی، مصباح المتهجّد ص۷۸۲)." اس دن روزہ رکھو
لیکن رات میں روزے کی نیت نہ کرو اور کھاو پیو لیکن خوشی کے طور پر نہیں
بلکہ ان لوگوں کی مخالفت کے طور پر جو تبرک کے قصد سے روزہ رکھتے ہیں ،اور
اس دن کے روزے کو پورا نہ کرو اور نماز عصر کے کچھ دیر بعد پانی کی ایک
گھونٹ سے روزہ کھولو ۔
اسی بنا پر بعض شیعہ فقہاء نے عاشور کے دن کے
روزے سے منع کرنے والی رایات کو درست مانا ہے اور اس دن کے روزے کے مستحب
ہونے کی احادیث کو جعلی قرار دیا ہے اور عاشوراء کے روزے کے حرام ہونے کا
فتوی دیا ہے ۔
اس بنا پر احادیث کو جمع کر نے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ :
عاشور کے دن کا روزہ یا مکروہ ہے یا حرام اور اس کے مستحب ہونے کا احتمال
بھی نہیں دیا جا سکتا ،یعنی اگر اس روز روزہ اسلام کے حکم کے تحت اور کسی
خصوصیت کی بنا پر رکھا جائے تو بدعت اور حرام ہے ،اور اگر تبرک اور شکر
گذاری کے طور پرہو تو یہ بنی امیہ کی بدعت کی پیروی اور کفر اور اسلام سے
خارج ہونے کی علامت ہے ،اور اگر مطلق روزے کی فضیلت کے طور پر ہو تو اس سے
چونکہ بنی امیہ کے ساتھ شباہت پیدا ہوتی ہے لہذا مکروہ ہے اور اس کا ثواب
کم ہے
No comments:
Post a Comment