Thursday, October 17, 2019

معصومین علیھم السلام صفات و اسماء اللہ عزوجل کے مظھر ھیں

معصومین علیھم السلام صفات و اسماء اللہ عزوجل کے مظھر ھیں

اھل تشیع کی معتبر روایات کےمطابق آئمہ اھلبیت علیھم السلام مختلف مقامات و کرامات کےمالک ھیں جوکہ خداوندتعالی کی عبودیت و بندگی کےسبب سےانہیں ملےھیں بےشک انسان اطاعت الھی میں جتنی جستحوکرےگا اتناھی اس کےوجودمیں فضائل خداوندی کا اضافہ ہوگا
مثلا یہ کہ انبیاء یا آئمہ  اھلبیت علیھم السلام جوکہ ایسےکمالات رکھتےھیں تواس کا مطلب یہ ھرگزنہیں کہ وہ مقام خداوندی تک پھنچ گئےھیں یاخداوندتعالی ان کےوجودمیں حلول کرگیاھےبلکہ اس معنی میں ھے
کہ قرب خداوندی کی وجہ سےخداوندتعالی نےان کو اتنی فضیلت دی ھےکہ بعض معجزات کو ان کےوجودسےظاھرکرتاھےیا ان کو بعض امور کی انجام کا اذن دیتاھے
(خداوندتعالی کا کسی کےجسم میں حلول کرنایاخداوندتعالی کا کسی کےجسم میں اتحادکرنا اسلامی نقطہ نظر سےممنوع ھے_عقائد استدلالی ج 1 ص 157 )
البتہ نظریہ حلول یااتحاد کی ابتداء مسیحیت سےشروع ھوئی جوکہ معتقدہیں خداوندنےحضرت عیسی یاحضرت مریم علیھماالسلام میں حلول کیامخصوصا انجیل یوحنا میں یہ بات مذکورھے
بعض شیعہ وسنی ممکن ھےکم علمی کی وجہ سےاس عقیدےکےقائل ھوں لیکن جمھور شیعہ نےاس عقیدہ کی سختی سےرد کی ھے
مثال کےطورپر
علامہ حلی.رح_ کشف المراد ص 100
ملاصدرا_ المشاعرہ ج 1 ص 53  + شواھدالربوبیہ ص 161
 محمدحسین طباطبائی _نھایہ الحکمہ ج1 ص 275
مکارم شیرازی _تفسیرنمونہ ج  1 ص 164
سیدمحمدحسین حسینی طھرانی_امام شناسی ج 17 ص 244

مختصر یہ کہ مذھب  اھل تشیع روایات اھلبیت علیھم السلام کےمطابق کسی طورپر بھی حلول تشبیہ و اتحاد کا قائل نہیں ھے
وصوفیانہ عقائدکا قطعا طورپر انکارکرتاھے

قرآن پاک میں ھر اچھی صفت و ھرفعل کی نسبت خداوندتعالی کی طرف دی گئی ھے دوسری طرف قرآن پاک میں انبیاء کا مردےزندہ کرنابیمار کو شفادیناامور میں تصرف کرنافرشتوں کاکائنات کےامور کی تدبیرکرنابھی واضح الفاظ کےساتھ موجودھے
مگر اس فرق کےساتھ کہ خداوندتعالی کی قوت و اقتدار ذاتی ھے
جبکہ انبیاء واولیاء کی طاقت یاتصرف اسی قدرت خداوندی کےتحت ھے
دوسرےالفاظ میں انبیاء واولیاء اسماء وصفات خداوندی کےمظھرہیں
اسی طرح روایات معصومنی واقوال علماء میں موجودھے کہ آئمہ اھلبیت علیھم السلام اسماء وصفات خداوندی کےمظھرکامل ھیں
یہاں پر ھم ایک جاھلانہ شبہ کا ازالہ کرناضروری سمجھتےھیں
بعض عمامہ پوش جاھل مولوی
اس نظریےکو شرک و کفر سےتشبیہ دیتےھوئےاپنےھی ھم مسلک حضرات کو مشرک کہتےھیں جبکہ اس نظریےکی وجہ ان کی صفات خداوندی کی تفصیل سےجھالت ھے
لہذا ھم ایک سادہ شیعہ مومن کی مشکلات کو مدنظر رکھتےھوئےمختصرا ان امور کی وضاحت کرتےھوئے ان کی جھالت سےپردہ اٹھاتےھیں تاکہ شیعہ عقائد بھی محفوظ رہ سکیں اورتمام مومن ان نجف و ایران میں نان اکٹھاکرنےوالےجاھل مولویوں کی شرارت وجھالت سےبھی واقف ھوسکیں
صفات خداوندتعالی کی دو قسمیں ھیں
1.صفات ذاتی
2.صفات فعلی
صفات ذاتی خداوندتعالی کی وہ صفات ھیں جوکسی بھی دوسرےوجود کو نظرمیں لیےبغیر فقط خداوندتعالی کی ذات کیلیےثابت ھیں مثال کےطورپرحی وعالم ھوناقادر(اسفارجلد6صفحہ 106+133=آموزش عقائدص 72)
صفت فعلی
صفات فعلی وہ صفات ھیں جو خداوندتعالی کےمخلوق کےرابطہ کےطورپر اس کی ذات پاک سےانتزاع پاتی ھیں مثال کےطورپر
لطیف کریم خالق رازق شافی رحمان رحیم
صفات ذات مطلق طورپر خداوندتعالی سےمتعلق ھیں اور ان کا مظھر ذات خداوندی کےسوااور کوئی نہیں ھےمثال کےطورپر حی ھوناعالم ھوناقادر ھونافقط اس ذات پاک کی صفات ھیں
اورآئمہ اھلبیت وانبیاء علیھم السلام بھی صفات ذاتی خداوندکےمظھرنہیں ھیں بلکہ صفات فعلی خداوندکےمظھرھیں
 بلکہ آئمہ اھلبیت علیھم السلام صفات فعلی خداوندتعالی کےمظھرکامل ھیں جس کاذکرقرآن پاک میں بھی موجودھے
اب ھم قرآن پاک سےثابت کرتےھیں کہ غیر خداوندمیں صفات فعلی کاھوناممکن ھے
سورہ آل عمران کی آیت نمبر49 میں حضرت عیسی علیہ السلام خالق ھونےکی صفت کو اپنےلیےاستعمال کرتےھوئےفرماتےھیں کہ میں تمہارےلیےمٹی سےپرندےکی ھیئت بناؤں گااوراس میں پھونک ماروں گاتووہ میری بنائی ھوئی ھیئت خداوندتعالی کےاذن سےپرندہ بن جائےگی
پھرفرماتےھیں میں پیدائشی اندھےاور برص کےمریضوں کوٹھیک کروں گااور جوکچھ تم گھروں میں کھاتےھواس کی بھی خبردوں گا

وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِيٓ إِسْرَآئِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ أَنِّيٓ أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنائے گا اور وہ ان سے کہے گا کہ میں تمھارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی شکل بناؤں گا اور اس میں کچھ دم کردوں گا تو وہ حکهِ خدا سے پرندہ بن جائے گا اور میں پیدائشی اندھے اور َمبروص کا علاج کروں گا اور حکهِ خدا سے مفِدوں کو زندہ کروں گا اور تمہیں اس بات کی خبردوں گا کہ تم کیا کھاتے ہو اور کیا گھر میں ذخیرہ کرتے ہو- ان سب میں تمہارے لئے نشانیاں ہیں اگر تم صاحبانِ ایمان ہو(٤٩)
آل عمران - 49
خالق ھوناخداوندتعالی کی صفت فعلی ھےجوقرآن پاک میں حضرت عیسی علیہ السلام کیلیےاستعمال ھوئی ھےلہذا اس سےکوئی مشرک نہیں ھوتاکیونکہ اس منبع و قدرت خداوندتعالی کی ذات گرامی ھےاورحضرت عیسی۔ع نےخداکی اجازت سےپرندےکوخلق کیا
نیزاسی طرح ملائک حکم خداوندی سےکائنات کےامور کی تدبیرکرتےھیں
فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا
پھر امور کا انتظام کرنے والے ہیں(٥)
النازعات - 5
اصل خالق ومدبرکائنات خداوندکی ذات ھےلیکن اس کی اجازت سےملائک کائنات کےامور کی تدبیرکرتےھیں
اب دیکھتےھیں کہ کیاآئمہ اہلبیت علیھم السلام کیلیےبھی قرآن پاک میں صفات خداوندی کاذکرھواھے

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
یقینا تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تم ہی میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے وہ تمہاری ہدایت کے بارے میں حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پر رؤف و رحیم ہے(١٢٨)
التوبة - 128

خداوندتعالی نےرسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ کیلیےرؤف و رحیم کی صفت کاذکرکیاھےجوکہ صفت فعلی خداوندھے

لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ۖ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
جن لوگوں کو آخرت پرایمان نہیں ہے ان کی مثال بدترین مثال ہے اور اللہ کے لئے بہترین مثال ہے کہ وہی صاحب هعزّت اور صاحب هحکمت ہے(٦٠)
النحل - 60
سورہ نحل کی اس آیہ شریفہ میں مثل الاعلی کا ذکر ھےمثل کامعنی علامہ محمدحسین نےتفسیرالمیزان میں صفت کیاھےیعنی صفات اعلی
اورروایات اھلبیت علیھم السلام میں ھےکہ آئمہ اھلبیت علیھم السلام مثل الاعلی ھیں اوران روایات کو بزرگ محدثین نےنقل کیاھےجن کی بات ھرشیعہ قبول کرتاھےالبتہ اب جولوگ ھربات ھرروایت کےذکرپرکہتےھیں کہ کتب اربعہ سےدکھاؤتوان کو توضرورھی قبول کرناچاھیےاگراب بھی بہانےبنائےجائیں توواضح ھےکہ وہ شخص مقصرھےکیونکہ جوھرروایت پرکہتاھےکتب اربعہ سےدکھاؤ تواب کتب اربعہ کی بات بھی قبول نہیں تومقصرھوا
کیونکہ اس میں فضیلت اھلبیت کوقبول کرناکاملکہ ھی نہیں ھے

ان روایات کاذکرجن میں آئمہ اھلبیت علیھم السلام کو مثل الاعلی کہاگیاھے
علامہ بحرانی اپنی تفسیر برھان میں شیخ صدوق.رح سےنقل کرتےھوئےلکھتےھیں کہ
رسول خدا نےمولا علی علیھماالسلام سےمخاطب ھوکرفرمایا
یاعلی
توحجت اللہ ھےتوباب اللہ ھےتوھی اللہ کی طرف جانےوالاراستہ ھےتوھی خبرعظیم ھےتوصراط مستقیم ھےاور توھی مثل الاعلی ھے

99-/11320 _7- ابْنُ بَابَوَيْهِ،قَالَ:حَدَّثَنَا حَمْزَةُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ(عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ)بِقُمْ فِي رَجَبٍ سَنَةَ تِسْعٍ وَ ثَلاَثِينَ وَ ثَلاَثِمِائَةٍ،قَالَ:حَدَّثَنِي أَبِي،قَالَ:
أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ،فِيمَا كَتَبَ إِلَيَّ فِي تِسْعٍ وَ ثَلاَثِمِائَةٍ،قَالَ:حَدَّثَنِي أَبِي،عَنْ يَاسِرٍ الْخَادِمِ،عَنْ أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى الرِّضَا(عَلَيْهِ السَّلاَمُ)،عَنْ أَبِيهِ،عَنْ آبَائِهِ،عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ(عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ)،قَالَ:«قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ)لِعَلِيٍّ(عَلَيْهِ السَّلاَمُ): يَا عَلِيُّ،أَنْتَ حُجَّةُ اللَّهِ،وَ أَنْتَ بَابُ اللَّهِ،وَ أَنْتَ الطَّرِيقُ إِلَى اللَّهِ،وَ أَنْتَ النَّبَأُ الْعَظِيمُ، وَ أَنْتَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ،وَ أَنْتَ الْمَثَلُ الْأَعْلَى.
 البرهان في تفسير القرآن  جلد : 5  صفحه : 565

معصومین علیھم السلام کا خداوندتعالی کےاسماء الحسنی ھونا

وَلِلَّهِ الْأَسْمَآءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِيٓ أَسْمَآئِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور اللہ ہی کے لئے بہترین نام ہیں لہذا اسے ان ہی کے ذریعہ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں بے دینی سے کام لیتے ہیں عنقریب انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا(١٨٠)
الاعراف - 180

اس آیت کی تفسیرکرتےھوئے امام صادق علیہ السلام قسم کھاتےھوئے فرماتےھیں
خدا کی قسم ھم خداوندتعالی کےوہ اسماء حسنی ھیں کہ خداوندکسی کی عبادت قبول نہیں کرتامگر ھماری معرفت کےذریعے

99-/4091 _4- مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ:عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْأَشْعَرِيِّ،وَ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى،جَمِيعاً،عَنْ أَحْمَدَ بْنِ إِسْحَاقَ،عَنْ سَعْدَانَ بْنِ مُسْلِمٍ،عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ،عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ(عَلَيْهِ السَّلاَمُ) ،فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ: وَ لِلّٰهِ الْأَسْمٰاءُ الْحُسْنىٰ فَادْعُوهُ بِهٰا ،قَالَ:«نَحْنُ-وَ اللَّهِ-اَلْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى الَّتِي لاَ يَقْبَلُ اللَّهُ مِنَ الْعِبَادِ [1] إِلاَّ بِمَعْرِفَتِنَا»
الاصول الکافی جلد 1 صفحہ 351
البرھان فی تفسیرالقرآن جلد 1 صفحہ 144

رسول خدا.ص کارؤف و رحیم ھونامعصومین علیھم السلام کامثل الاعلی ھونا اسماء حسنی ھونا سب روایات و آیات سےثابت ھےاور یہ سب خداوندتعالی کی صفات فعلی ھیں جو آئمہ معصومین میں موجودہیں اور آئمہ ان کامظھرکامل ھیں
صفات فعلی میں سےرازق ھونابھی ھے ھم امام صادق علیہ السلام کی روایت سےرسول خدا.ص کےوجودمبارک میں رازق ھونےکی صفت فعلی دکھاتےھیں

امام صادق (ع) کی گواہی کے مطابق اللہ بھی رازق رسول اللہ (ص) بھی رازق
 ایک بار ابو حنیفہ حضرت امام جعفر صادق (ع) کیساتھ کھانا کھا رھا تھا_ جب کھانا کھا چکے تو امام (ع) نے فرمایا
الحمدللہ رب العالمین ھذا منک و من رسولک
رب العالمین کا شکر ھے کہ یہ روزی تیری طرف سے اور تیرے رسول کی طرف سے ہے
ابو حنیفہ نے کہااے ابو عبداللہ آپ نے اللہ کے ساتھ (رسول اللہ ص کو)شریک ٹهہرایا ہے؟
تو آپ (ع) نے فرمایا: مقام افسوس ھے کہ اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ھے: وما نقموا الا ان اغنھم اللہ و رسولہ من فضلہ
(التوبہ 74)
انہیں اس بات پر غصہ ھے کہ اللہ اور اسکے رسول نے اپنے فضل سے انہیں دولت سے مالا مال کیا ھےدوسری جگہ فرمایا: اگر یہ لوگ اللہ اور رسول (ص) کے دیئے ھوئے پر خوش رھتے اور کہ دیتے کہ ھمارے لیئے اللہ کافی ھے عنقریب اللہ اپنے فضل سے ھمیں بہت کچھ دیگا اور اسکا رسول بھی اور ھم اللہ کی طرف توجہ رکھتے ھیں
(التوبہ 59)
ابو حنیفہ نے تعجب کے لہجے میں کہا: گویا یہ آیت میں نے قرآن میں پڑھی ہی نہیں ابو حنیفہ نے جب کہا کہ میں نے آج تک یہ آیات پڑهی ہیں نہ سنی ہیں
تو اس کے جواب میں امام نے فرمایا کہ تم نے پڑهی بهی ہیں اور سنی بهی لیکن تمهارے اور تم جیسوں کہ بارے میں اللہ فرماتا ہے کہ ام علی قلوب اقفالها (سورہ محمد 24)کہ ان کے دلوں پہ تالے لگے ہوئے ہیں
پهر فرمایا کہ
کلا بل ران علی قلوبهم بما کانوا یکسبون.(سورہ المطففین آیہ 14 )
ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دلوں پہ زنگ لگ گئے ہیں
 كنز الفوائد للكراجكي : ج 2 ص 36 ـ 37
بحار الاَنوار : ج 10 ص 216 ح 17 وج 47 ص 240 ح 25
آج کےجاھل عمامہ پوش ابو حنیفہ پر بھی تعجب ھے جسے یہ آیات قرآن میں نظر نہیں آتی
 خذاوندتعالی نےخاص طورپر آئمہ اھلبیت علیھم السلام کو تصرف عطاکیاجن کےبارےمیں فرمایا
میرےسارےاسماء بہترین ھیں اور مثل الاعلی ھیں
 آئمہ علیھم السلام خداوندتعالی کی صفات واسماء کےمظھرکامل ھیں
 اب ھم علامہ مجلسی .رح کی زبانی مثل الاعلی و اسماء حسنی کی تفسیربیان کرتےھیں
علامہ مجلسی مثل الاعلی کی تفسیربیان کرتےھوئےفرماتےھیں
خداوندتعالی نےاپنےنور کی مثال آیت نور میں آئمہ علیھم السلام کاذکرکرکےدی ھےاور مثل حجت و صفت کےمعنی میں ھےپس آئمہ اھلبیت حجت خداہیں اور خداوندتعالی کی صفات کےمالک ہیں

و المثل الأعلى" أي: مثل الله نوره تعالى بهم في آية النور، و الأفراد لأنه مثل بجميعهم مع أن نورهم واحد، و المثل أيضا يكون بمعنى الحجة و الصفة، فهم حجج الله و المتصفون بصفاته كأنهم صفاته على المبالغة، كما قال سبحانه" وَ لِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلى‌ [2]" و قال تعالى" وَ لَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلى‌ فِي السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ‌
ملاذ الأخيار في فهم تهذيب الأخبار المؤلف : العلامة المجلسي    الجزء : 9  صفحة : 252

علامہ مجلسی.رح بحارالانوار میں اسی روایت کو نقل کرتےھوئے کہ آئمہ علیھم السلام کاذکرخداوندتعالی نےآیت نور میں کیاھےاور آئمہ حجج اللہ ھیں اور اللہ عزوجل کی صفات کےمالک ھیں

والمثل الاعلى أي مثل الله نوره تعالى بهم في آية النور ، والافراد لانه مثل بجميعهم مع أن نورهم واحد ، والمثل ايضا يكون بمعنى الحجة والصفة ، فهم حجج الله والمتصفون بصفاته
بحار الأنوار - ط مؤسسةالوفاء نویسنده : العلامة المجلسي    جلد : 102  صفحه : 136

مومنین کرام آپ نےمذکورہ مطالب کامطالعہ کیاھم نےصفات خداوندی کومختصرطورپر آپ کی خدمت میں پیش کی کہ خداوند کی صفت دوقسم کی ھیں اول صفات ذاتی اوردوم صفات فعلی جبکہ صفات ذاتی فقط ذات خداوندتعالی کی ذات سےمخصوص ھیں جبکہ صفات فعلی عباداللہ میں ہوتی ھیں اورآئمہ اھلبیت علیھم السلام اس کےمظھرکامل ھیں جبکہ آیات وروایات سےھم نےدلائل بھی آپ کی خدمت میں پیش کیےھیں حضرت عیسی۔ع کاقرآن میں پرندےکوخلق کرکےخالق کالفظ استعمال کرنااورقرآن پاک میں ھی رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ کورؤوف و رحیم کہاجانااورآئمہ اھلبیت علیھم السلام کو اسماء حسنی و مثل الاعلی کہاجانایہ سب اس بات کی دلیلیں ھیں کہ خداوندتعالی کی صفات فعلی کا غیرخداکےوجودمیں پایاجاناعین ممکن ھےجبکہ علامہ مجلسی.رح جیسےعظیم محدث کےاقوال بھی ھم نےنقل کیےاورثابت ھواکہ اس عقیدےسےکوئی کافرمشرک نہیں ھوتا

حضرت علی (ع) کیوں شیخین کے ساتھ تعاون کیا کرتے تھے

سوال:
اگر ابوبکر اور عمر نے خلافت کو غصب کیا تھا تو پھر امام علی (ع) کیوں انکے ساتھ تعاون کیا کرتے تھے ؟
توضيح سؤال :
اگر حضرت علی (ع) دلی طور پر ابوبکر و عمر سے راضی نہیں تھے اور انکو اپنے حق کو غصب کرنے والے جانتے تھے تو انکو اپنے غصب شدہ حق کو واپس لینے کے لیے ہمیشہ ایک مناسب فرصت کے انتظار میں رہنا چاہیے تھا اور فرصت ملتے ہی اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا، اور جب عمر نے حضرت علی (ع) سے ایرانیوں سے جنگ پر جانے کے لیے مشورہ لیا تھا تو حضرت علی (ع) کو مشورہ دینا چاہیے تھا کہ عمر تم خود میدان جنگ میں جاؤ تا کہ وہ جنگ میں قتل ہو جاتا اور خلافت دوبارہ حضرت علی (ع) کو واپس مل جاتی، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی کیسے مخلصانہ طور پر عمر اور مسلمانوں کی خیر خواہی کے لیے خود عمر کو ذاتی طور پر جنگ پر جانے سے منع کرتے ہیں اور سچے دل سے خلوص نیت کے ساتھ مختلف مواقع پر خلفاء کو مشورے دیتے ہیں اور واقعا حضرت علی (ع) ایسے ہی مخلص اور پاک نیت انسان تھے اور خداوند انکو اسلام اور مسلمین کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔
اگر حضرت علی خلفاء کی حکومت کے مخالف تھے تو انکے وزیر اور معاون نہ بنتے، كتاب تاريخ ابن اثير ج 3، ص 55، میں نقل ہوا ہے کہ حضرت علی، عمر کے لیے بہترین مشاور اور خیر خواہ اور مشکل مسائل میں بہترین قاضی تھے۔ حتی عمر سے نقل ہوا ہے کہ:
لولا علي لهلك عمر،
اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔
جواب:
بحث و تحقیق:
مخلصانہ مشورے:
امیر المؤمنین علی (ع) کے وہ تمام کام کہ جو خلفاء کے ساتھ تعاون کرنا اور مشورہ دینا شمار ہوتے تھے، کی تین اقسام ہیں:
1- مقدمات میں مشورہ دینا،
2- جنگی اور دفاعی امور میں مشورہ دینا،
3- علمی اور اعتقادی مسائل میں مشورہ دینا،
ان تمام امور میں امیر المؤمنین علی (ع) کا کردار زیادہ سے زیادہ ایک سوال کرنے والے شخص کا جواب دینا اور انکے مسائل کو حل کرنا تھا کہ جو ہر مسلمان کا دینی اور اخلاقی وظیفہ ہے۔ حتی اگر وہ مشورہ لینے والا مسلمان نہ بھی ہو تو پھر بھی ضروری ہے کہ مکمل انصاف اور امانتداری سے اسکی مدد کی جائے اور جب حفظ اسلام اور دین خدا کی بات ہو گی تو واضح ہے کہ ایک مسلمان کا وظیفہ کتنا دشوار اور اہم ہو گا۔
مرحوم سيد مرتضی نے اس بارے میں لکھا ہے:
فأما استدلاله علي رضاه بما ادعاه من إظهار المعاونة والمعاضدة ، وأنه أشار عليه بقتال أهل الردة فإنه ادعاء معاونة ومعاضدة علي سبيل الجملة لا نعرفها ، ولو ذكر تفصيله لتكلمنا عليه ، فإن أشار بذلك إلي ما كان يمدهم به من الفتيا في الأحكام ، فذلك واجب عليه في كل حال ، ولكل مستفت فلا يدل إظهار الحق والتنبيه علي الصواب في الأحكام لا علي معاونة ولا معاضدة ، وإن أشار إلي ما كان منه عليه السلام في وقت من الأوقات من الدفع عن المدينة فذلك أيضا واجب علي كل مسلم وكيف لا يدفع عن حريمه وحريم المسلمين ، فأي دلالة في ذلك علي ما يرجع إلي الإمامة .
فأما المشورة عليه بقتال أهل الردة فما علمنا أنها كانت منه ، وقد كان يجب عليه أن يصحح ذلك ، ثم لو كانت لم تدل علي ما ظنه لأن قتالهم واجب علي المسلمين كافة والمشورة به صحيحة .
آپ کا دعوا ہے کہ علی (ع) نے خلیفہ کی مدد اور اسکے ساتھ تعاون کیا ہے، جیسے اہل ردہ کے ساتھ جنگ کرنے کے موقع پر ابوبکر کو مشورہ دینا وغیرہ، یہ صرف ایک دعوا ہے اور اگر اسکی تھوڑی تفصیل بھی ذکر ہوتی تو اس سے بہتر جواب دیا جا سکتا تھا، اور اگر اس تعاون سے مراد احکام دین میں مدد و راہنمائی کرنا ہو تو یہ ہر عالم پر واجب ہوتا ہے اور اسکو صحیح بیان بھی کرنا چاہیے، اس بات سے ان (خلفاء) کے ساتھ تعاون کرنا استفادہ نہیں ہوتا اور اگر آپکی مراد علی (ع) کا مدینہ کے لوگوں کی جان ، مال اور ناموس کے دفاع کے لیے، مشورہ وغیرہ دینا ہو تو یہ بھی واجب ہے کیونکہ دوسروں کی جان کی حفاظت کے علاوہ اپنی جان کی بھی حفاظت کی ہے اور ان کاموں کا تعلق خلفاء کی خلافت کی تائید و تصدیق وغیرہ کرنے سے نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا تو ہر مسلمان کا شرعی و اخلاقی فرض ہے۔
اور ابوبکر کے علی (ع) کے ساتھ اہل ردہ کے ساتھ جنگ کرنے کے بارے میں مشورہ کرنے والی بات کو ہم نہیں مانتے یا کم از کم یہ بات ہمارے لیے واضح نہیں ہے اور یہ بات مزید واضح ہونی چاہیے اور اگر تمہارے مقصود پر دلالت نہ بھی کرتی ہو پھر بھی اسلام میں مشورہ دینا اور تعاون کرنا نیک کام ہے کیونکہ مرتدین کے ساتھ اسلام کی راہ میں جنگ کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔
الشافي في الامامة ، علي بن الحسين الموسوي معروف به الشريف المرتضي (متوفي436 هـ) ، ج 3 ص 251
امیر المؤمنین علی (ع) اور اہم وظیفہ حفظ دین:
خداوند کی جانب سے منصوب شدہ امام و راہنما کے وظائف میں سے ایک بہت ہی اہم وظیفہ، دین و شریعت کی حفاظت کرنا ہے اور اگر وہ محسوس کرے کہ دین خطرے میں ہے تو ہر ممکن طور پر دین کی حفاظت کرے۔
البتہ یہ وظیفہ زمان اور مکان کے لحاظ سے مختلف ہوتا رہتا ہے اور ہر امام و راہنما موجودہ حالات کے مطابق قدم اٹھاتا ہے، کہ کبھی حالات کے مطابق یہ وظیفہ غصب شدہ حق کے مقابلے پر صبر و تحمل و سکوت کرنے سے ادا ہوتا ہے اور کبھی یہ وظیفہ دشمن کے سامنے ڈٹ جانے سے ادا ہوتا ہے۔ ہر امام عقل ، معرفت اور بصیرت کے لحاظ سے کامل ہوتا ہے، اس لیے کن حالات میں کیسا قدم اٹھانا ہے، یہ امام کی اپنی ذاتی حکمت عملی پر منحصر ہوتا ہے۔
ابن حجر ہيثمی نے رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
في كل خلف من أمتي عدول من أهل بيتي ينفون عن هذا الدين تحريف الضالين وانتحال المبطلين وتأويل الجاهلين ألا وإن أئمتكم وفدكم إلي الله عز وجل فانظروا من توفدون .
ہر زمانے میں میرے اہل بیت میں سے عادل افراد میری امت میں موجود ہوں گے کہ جو گمراہ افراد کی تحریف ، باطل نسبتوں اور جاہلوں کی غلط تاویلوں کو دین سے دور کریں گے، آگاہ ہو جاؤ کہ تمہارے امام تم کو خداوند کے پاس لے کر جانے والے ہیں، پس غور کرنا کہ کس کو تم روانہ کرنے والے ہو، (یعنی ہر کسی کو اپنا امام تسلیم نہ کرنا)
الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة ، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر الهيثمي (متوفي973هـ) ، ج 2 ، ص 441 ، ناشر : مؤسسة الرسالة – لبنان،
امير مؤمنین علی (ع) کو اگرچہ انکے مسلّم حق اور رسول خدا (ص) کی جانشینی و خلافت سے دور کر دیا گیا اور حقیقت میں خلفاء کی طرف سے انکے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا، لیکن اسکا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ اپنے دوسرے وظائف پر عمل نہ کریں کیونکہ کبھی کبھی خلفاء کی لا علمی اور انکے غلط فیصلے سبب بنتے تھے کہ وجود اسلام خطرے میں پڑ جاتا تھا، اس حساس صورتحال میں امام علی (ع) کا دینی فریضہ تھا کہ وہ شریعت اسلامی پر کوئی آنچ نہ آنے دیں، مثلا جنگ نہاوند کے موقع پر بادشاہ ایران نے اسلام کی نابودی کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کیا ہوا تھا اور اگر امیر المؤمنین علی (ع) کی تدبیر اور جنگی مہارت نہ ہوتی تو نہ صرف یہ کہ یقینی طور پر عمر کا سارا لشکر بلکہ اسلام جڑ سے نابود ہو جاتا۔
اس موقع پر امیر المؤمنین علی (ع) کا وظیفہ تھا کہ رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد نظام اسلامی اور دین اسلامی کی حفاظت کریں کیونکہ رسول خدا (ع) کے اہل بیت ہونے کے حوالے سے اس بارے میں انکا وظیفہ ہر دوسرے مسلمان سے سنگین تر اور اہم تر تھا۔
عمر کی بنائی ہوئی چھ افراد پر مشتمل شورا میں امیر المؤمنین علی (ع) نے فرمایا:
بَايَعَ النَّاسُ لأبِي بَكْرٍ وَأَنَا وَاللَّهِ أَوْلي بِالأَمْرِ مِنْهُ ، وَأَحَقُّ بِهِ مِنْهُ ، فَسَمِعْتُ وَأَطَعْتُ مَخَافَةَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ كُفَّارَاً يَضْرِبُ بَعْضُهُمْ رِقَابَ بَعْضٍ بِالسَّيْفِ ، ثُمَّ بَايَعَ النَّاسُ عُمَرَ وَأَنَا وَاللَّهِ أَوْلي بِالأَمْرِ مِنْهُ وَأَحَقُّ بِهِ مِنْهُ ، فَسَمِعْتُ وَأَطَعْتُ مَخَافَةَ أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ كُفَّارَاً يَضْرِبُ بَعْضُهُمْ رِقَابَ بَعْضٍ بِالسَّيْفِ .
لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کی حالانکہ خدا کی قسم میں اس سے بیعت کے لیے مناسب تر تھا، لیکن میں نے لوگوں کے زمانہ جاہلیت و کفر کی طرف واپس پلٹنے اور مسلمانوں کی داخلی جنگ ہونے کے ڈر سے، سکوت اختیار کیا، پھر عمر کی بیعت کی گئی، حالانکہ خدا کی قسم میں اس سے بھی زیادہ اس کام کا مستحق تھا، لیکن پھر بھی قتل و غارت ہونے اور لوگوں کے دوبارہ کافر ہونے کے ڈر سے چپ رہا۔
جامع الاحاديث (الجامع الصغير وزوائده والجامع الكبير) ، الحافظ جلال الدين عبد الرحمن السيوطي (متوفي911هـ) ج 12 ص 54
تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل ، أبي القاسم علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعي (متوفي571هـ) ج 42 ، ص 434 ، ناشر : دار الفكر – بيروت،
در اصل امیر المؤمنین علی (ع) نے لوگوں کے مرتد ہونے، انکے زمانہ جاہلیت کی طرف واپس پلٹنے، ظلم و غصب کے مقابلے پر صبر و سکوت کرنے اور خلفاء سے تعاون کرنے میں سے کسی ایک کو انتخاب کرتے کہ رسول خدا (ص) کے فرمان کے مطابق اپنے حق سے چشم پوشی کرتے ہوئے، اسلام اور مسلمین کی خاطر خلفاء کے ساتھ تعاون کرنے کو ترجیح دی تا کہ اپنا حق رہے نہ رہے لیکن اسلام اور مسلمین باقی رہ جائیں، لہذا ایک مقام پر مولا علی (ع) نے فرمایا ہے کہ:
إِنَّ هَؤُلَاءِ خَيَّرُونَّا أَنْ يَظْلِمُونِي حَقِّي وَ أُبَايِعَهُمْ فَارْتَدَّ النَّاسُ حَتَّي بَلَغَتِ الرِّدَّةُ أَحَداً فَاخْتَرْتُ أَنْ أُظْلَمَ حَقِّي وَ إِنْ فَعَلُوا مَا فَعَلُوا .
اس قوم نے میرا حق غصب کرنے اور میرا انکی بیعت کرنے کا ارادہ کیا تھا، اس صورتحال سے ایک گروہ دین سے مرتد ہو گیا، پس میں نے اپنے حق پر ظلم ہوتا برداشت کر لیا اگرچہ اس قوم کا جو دل تھا، انھوں نے انجام دیا۔
بحار الأنوار ، محمد باقر مجلسي ، ج28 ، ص393 .
امام علی (ع) کا وظیفہ مظلوم کا دفاع کرنا تھا:
امیر المؤمنین علی (ع) کا ان مقدمات اور عدالتی امور میں دخالت کرنا، اس لیے تھا کہ جن میں خلفاء کی احکام اسلامی سے جہالت سبب بن سکتی تھی کہ کسی بیچارے کا حق ضائع ہو جائے اور کسی مظلوم پر حکومتی ظلم ہو جائے، در اصل ایسے مظلومین کا امیر المؤمنین علی (ع) کے سوا کوئی سہارا نہیں تھا اور اگر یہ حضرت انکے حق کا دفاع نہ کرتے تو یقینا بہت سے لوگ اپنے حقوق اور اپنی جان کو ہاتھ سے دے دیتے۔
ان حضرت نے خطبہ شقشقيہ میں عثمان کے قتل ہونے کے بعد حکومت کو قبول کرنے کی ایک دلیل، علماء کا مظلومین کے حقوق کا دفاع کرنا شمار کیا ہے:
أَمَا وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ لَوْ لَا حُضُورُ الْحَاضِرِ وَقِيَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِ النَّاصِرِ وَمَا أَخَذَ اللَّهُ عَلَي الْعُلَمَاءِ أَنْ لَا يُقَارُّوا عَلَي كِظَّةِ ظَالِمٍ وَلَا سَغَبِ مَظْلُومٍ لَأَلْقَيْتُ حَبْلَهَا عَلَي غَارِبِهَا وَلَسَقَيْتُ آخِرَهَا بِكَأْسِ أَوَّلِهَا وَلَأَلْفَيْتُمْ دُنْيَاكُمْ هَذِهِ أَزْهَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ ...
اس خدا کی قسم کہ جس نے دانے میں شگاف کیا ہے اور ذی روح کو خلق کیا ہے، اگر بیعت کرنے والوں کا ہجوم حاضر نہ ہوتا اور مدد کرنے والوں کی طرف سے اگر میرے لیے اتمام حجت نہ ہوتا اور اگر خداوند علماء سے عہد نہ لیتا کہ ظالمین کے شکم سیر ہونے اور مظلوم کی بھوک پر سکوت نہ کریں تو خلافت کے اونٹ کی لگام اسکی کوہان پر رکھ دیتا اسے آزاد کر دیتا اور اس آخری خلافت کو پہلی خلافت کے برتن سے سیراب کر دیتا، پھر تم نے دیکھنا تھا کہ تمہاری یہ دنیا میرے لیے بکری کی ناک سے نکلنے والے ریشے سے بھی زیادہ حقیر و پست ہے۔
مطلب مزید واضح ہونے کے لیے امیر المؤمنین علی (ع) کا عدالتی مقدمات میں دخالت کے ایک نمونے کو ذکر کرتے ہیں:
حدثنا عُثْمَانُ بن أبي شَيْبَةَ ثنا جَرِيرٌ عن الْأَعْمَشِ عن أبي ظَبْيَانَ عن بن عَبَّاسٍ قال أُتِيَ عُمَرُ بِمَجْنُونَةٍ قد زَنَتْ فَاسْتَشَارَ فيها أُنَاسًا فَأَمَرَ بها عُمَرُ أَنْ تُرْجَمَ فمر بها علي عَلِيِّ بن أبي طَالِبٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عليه فقال ما شَأْنُ هذه قالوا مَجْنُونَةُ بَنِي فُلَانٍ زَنَتْ فَأَمَرَ بها عُمَرُ أَنْ تُرْجَمَ قال فقال ارْجِعُوا بها ثُمَّ أَتَاهُ فقال يا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْقَلَمَ قد رُفِعَ عن ثَلَاثَةٍ عن الْمَجْنُونِ حتي يَبْرَأَ وَعَنْ النَّائِمِ حتي يَسْتَيْقِظَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حتي يَعْقِلَ قال بَلَي قال فما بَالُ هذه تُرْجَمُ قال لَا شَيْءَ قال فَأَرْسِلْهَا قال فَأَرْسَلَهَا قال فَجَعَلَ يُكَبِّرُ .
ابن عباس کہتا ہے زنا کرنے والی ایک پاگل عورت کو عمر کے پاس لایا گیا، اس نے چند افراد سے مشورہ کر کے حکم دیا کہ اس عورت کو سنگسار کر کے قتل کر دیا جائے۔ جب اسکو حد جاری کرنے کے لیے لے کر جا رہے تھے تو راستے میں علی آتے ہوئے دکھائی دئیے تو انھوں نے فرمایا:
اس عورت نے کیا جرم کیا ہے ؟ کہا گیا: یہ فلاں قبیلے کی پاگل عورت ہے اور اس نے زنا کیا ہے اور اب عمر نے اسکے سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے۔ علی (ع) نے فرمایا: اسکو واپس لے جاؤ، پھر وہ عمر کے پاس آئے اور فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ تین افراد مکلف نہیں ہیں:
1- پاگل کہ جب تک صحیح نہ ہو جائے،
2- سویا ہوا انسان کہ جب تک بیدار نہ ہو جائے،
3- بچہ کہ جب تک بالغ نہ ہو جائے،
عمر نے کہا: ہاں یہ میں نے بھی سنا ہے، مولا نے فرمایا: اگر سنا ہے تو اس عورت کو آزاد کر دو، عمر نے اسکو آزاد کر دیا اور بلند بلند آواز سے تکبیر کہنا شروع کر دیا۔
سنن أبي داود ، سليمان بن الأشعث أبو داود السجستاني الأزدي (متوفي275هـ) ج 4 ، ص 140 ، ح 4399 ، كِتَاب الْحُدُودِ ، بَاب في الْمَجْنُونِ يَسْرِقُ أو يُصِيبُ حَدًّا ، ناشر : دار الفكر ، تحقيق : محمد محيي الدين عبد الحميد .
قابل توجہ ہے کہ بخاری نے بھی اسی روایت کو نقل کیا ہے، لیکن اس ناصبی نے ہمیشہ کی طرح حدیث کو اول و آخر سے کاٹ کر صرف اس حصے کو ذکر کیا ہے:
وقال عَلِيٌّ لِعُمَرَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْقَلَمَ رُفِعَ عن الْمَجْنُونِ حتي يُفِيقَ وَعَنْ الصَّبِيِّ حتي يُدْرِكَ وَعَنْ النَّائِمِ حتي يَسْتَيْقِظَ .
صحيح البخاري، محمد بن إسماعيل أبو عبد الله البخاري الجعفي (متوفي256 هـ) ج 6 ، ص 2499 ، بَاب لَا يُرْجَمُ الْمَجْنُونُ وَالْمَجْنُونَةُ ، ناشر : دار ابن كثير , اليمامة – بيروت،
اور ابن عبد البر نے صحيح سند کے ساتھ لکھا ہے:
يحيي بن سعيد عن سعيد بن المسيب قال كان عمر يتعوذ بالله من معضلة ليس لها أبو الحسن وقال في المجنونة التي أمر برجمها وفي التي وضعت لستة أشهر فأراد عمر رجمها فقال له علي إن الله تعالي يقول وحمله وفصاله ثلاثون شهرا الحديث وقال له إن الله رفع القلم عن المجنون الحديث فكان عمر يقول لولا علي لهلك عمر .
عمر ہمیشہ خدا کی پناہ مانگتا تھا کہ ایک علمی مشکل پیش آ جائے اور اسکو حل کرنے کے لیے مولا علی موجود نہ ہوں، ان موارد میں سے ایک پاگل عورت تھی کہ عمر نے اسکو سنگسار کرنے کا حکم دیا تھا اور ایک دوسری تھی کہ جس نے چھ ماہ کے بچے کو جنم دیا تھا اور عمر اس پر بھی حد جاری کرنا چاہتا تھا، علی نے فرمایا:
خداوند نے فرمایا ہے: حمل اور دورھ پلانے کی کل مدت تیس مہینے ہے۔ پھر مولا نے فرمایا: خداوند نے پاگل سے تکلیف کو اٹھا دیا ہے، ایسے موارد میں ہی عمر کہا کرتا تھا:
اگر علی نہ ہوتے تو میں عمر ہلاک ہو جاتا۔
الاستيعاب في معرفة الأصحاب ، يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر (متوفي463 هـ) ج 3 ، ص 1103 ، ناشر : دار الجيل - بيروت  .
ایسے موارد واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ امت اسلامی میں احکام الہی کو زندہ کرنے میں امیر المؤمنین علی (ع) کا کردار ایک کلیدی اور بنیادی کردار تھا اور اسکے علاوہ آپ مظلومین اور مساکین کو انکے حقوق دلانے کی ایک مطمئن پناہگاہ تھے۔
سمعانی کی نقل کے مطابق اسی واقعے کی طرح کا ایک واقعہ عثمان کے دور میں بھی پیش آیا تھا کہ اگر امیر المؤمنین علی (ع) بر وقت دخالت نہ کرتے تو ایک مؤمنہ عورت شکم میں اپنے بچے سمیت عثمان کی احکام اسلامی سے جہالت کی نذر ہو جاتی۔
أن امرأة أتت بولد لستة أشهر من وقت النكاح ، فجاء زوجها إلي عثمان في ذلك . فهم عثمان رضي الله عنه برجمها ، فقال علي : لا سبيل لك عليها ؛ لأن الله تعالي يقول : «وحمله وفصاله ثلاثون شهرا» وقال : «والوالدات يرضعن أولادهن حولين كاملين» فإذا ذهب الفصال حولين ، بقي للحمل ستة أشهر ، فتركها عثمان .
ایک عورت نے چھ ماہ کے بچے کو جنم دیا، اسکا شوہر عثمان کے پاس گیا اور سارا واقعہ اسکو بتا دیا، عثمان نے اس عورت پر حد جاری کرنے کا ارادہ کیا، علی (ع) نے عثمان سے فرمایا: تمہیں اس عورت پر حد جاری کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ خداوند نے فرمایا ہے: حمل اور دورھ پلانے کی کل مدت تیس مہینے ہے۔
اور مزید فرمایا ہے: مائیں اپنے بچوں کو دو سال مکمل دودھ پلائیں اور جب دودھ پلانے کی مدت دو سال، تیس ماہ سے کم کی جائے تو حمل کی مدت چھ ماہ باقی بچتی ہے، عثمان نے امیر المؤمنین علی (ع) سے اس بات کو سننے کے بعد اس عورت کو چھوڑ دیا۔
تفسير القرآن ، أبو المظفر منصور بن محمد بن عبد الجبار السمعاني (متوفي489هـ) ج 1 ، ص 236 ، ناشر : دار الوطن – الرياض،
احکام الہی سے مکمل آگاہی باعث بنتی تھی کہ امیر المؤمنین علی (ع) ایسے موارد میں چپ نہ رہیں اور باطل حد جاری ہونے والے موارد میں مانع ہو جائیں کیونکہ وہ اپنا دینی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے کہ افراد کے حقوق، انکی حفظ آبرو اور معاشرتی لحاظ سے لا پرواہ نہ رہیں، جیسا کہ ایک یہودی عورت کے پاؤں سے پازیب اتارے جانے پر فرمایا تھا کہ اس غم سے اگر ایک غیرت مند انسان مر جائے تو وہ حق کی موت مرا ہے۔
وَ لَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ كَانَ يَدْخُلُ عَلَي الْمَرْأَةِ الْمُسْلِمَةِ وَ الْأُخْرَي الْمُعَاهِدَةِ فَيَنْتَزِعُ حِجْلَهَا وَ قُلْبَهَا وَ قَلَائِدَهَا وَ رِعَاثَهَا مَا تَمْتَنِعُ مِنْهُ إِلَّا بِالِاسْتِرْجَاعِ وَ الِاسْتِرْحَامِ ثُمَّ انْصَرَفُوا وَافِرِينَ مَا نَالَ رَجُلًا مِنْهُمْ كَلْمٌ وَ لَا أُرِيقَ لَهُمْ دَمٌ فَلَوْ أَنَّ امْرَأً مُسْلِماً مَاتَ مِنْ بَعْدِ هَذَا أَسَفاً مَا كَانَ بِهِ مَلُوماً بَلْ كَانَ بِهِ عِنْدِي جَدِيراً .
مجھے خبر ملی ہے کہ لشکر شام کا ایک شخص مسلمان عورت اور اسلامی حکومت کی پناہ میں موجود ایک غیر مسلم عورت کے گھر میں داخل ہوا ہے اور ان عورتوں کے پازیب، چوڑیاں، گلے کے ہار اور کانوں کی بالیاں لوٹ کر لے گیا ہے، حالانکہ ان عورتوں کے پاس اپنے دفاع میں رونے اور فریاد کرنے کے سوا کچھ نہ تھا !
خطبه 27 نهج البلاغه ، فيض الإسلام .
معاویہ (لع) کا لشکر شام بہت سی غنیمت لے کر واپس چلا گیا اور انکا ایک بندہ بھی زخمی نہیں ہوا تھا، اگر عورتوں والے اس غم ناک واقعے پر ایک غیرت مند مسلمان غم سے مر جائے تو اسکی ملامت نہیں کی جائے گی۔
مرجعيّت علمی امام امير المؤمنين علی (ع):
مولا علی (ع) نے جس علم کو زبان وحی سے اور خداوند کے خاص فضل سے حاصل کیا تھا، اس علم کی بنیاد پر انکا وظیفہ تھا کہ وہ لوگوں کے علمی سوالات کے جواب اور علمی مسائل کو حل کریں، اسی وجہ سے مسلمان اور غیر مسلمان انکو اپنے لیے علمی پناہگاہ سمجھتے تھے اور جس موضوع اور مسئلے میں وہ ضرورت سمجھتے تھے، اس شہر علم کے دروازے کی طرف رجوع کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات امیر المؤمنین علی (ع) کا جو خلفاء کے ساتھ تعاون سجمھا جاتا ہے، وہ ان علمی مسائل میں تھا کہ جنکے سمجھنے سے خلفاء کلی طور پر عاجز تھے اور سیاسی طور پر نہ چاہتے ہوئے بھی رسول خدا (ص) کے شہر علم کے دروازے پر جھکنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ ایسے موارد میں امام معصوم اور انکے شاگردان کا فرض ہے کہ وہ اپنے علم سے دوسروں کی علمی و معرفتی مشکلات کو حل کریں، کیونکہ مولا علی (ع) نے اپنے استاد رسول خدا (ص) کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ:
فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ الله بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لك من أَنْ يَكُونَ لك حُمْرُ النَّعَمِ
خدا کی قسم اگر خداوند تیرے ذریعے سے ایک بندے کی بھی سیدھے راستے پر ہدایت کر دے تو یہ تیرے لیے سرخ بالوں والے انتہا‏ئی قیمتی اونٹوں سے بھی زیادہ بہتر ہے۔
صحيح البخاري، محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي (متوفي256 هـ) ج 3 ص 1357 ، ح 3498 ، بَاب مَنَاقِبِ عَلِيِّ بن أبي طَالِبٍ ، ناشر : دار ابن كثير ، اليمامة – بيروت،
ابن عبد البر قرطبی نے امير مؤمنین علی (ع) سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
وقال علي رضي الله عنه يؤخذ علي الجاهل عهد بطلب العلم حتي أخذ علي العلماء عهد ببذل العلم للجهال .
خداوند نے جاہل افراد سے علم کے سیکھنے کا اور علماء سے علم کے سیکھانے کا عہد و پیمان لیا ہے۔
جامع بيان العلم وفضله ، يوسف بن عبد البر النمري (متوفي463 هـ) ج 1 ، ص 122 ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت .
دوسری روایت میں ہے:
عن أبي هريرة أن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال مثل الذي يتعلم العلم لا يحدث به الناس كمثل الذي رزقه الله مالا لاينفق منه .
رسول خدا (ص) جو شخص علم تو حاصل کرے لیکن اس علم کو دوسروں کو نہ بتائے تو وہ ایسے شخص کی مانند ہے کہ جسکے پاس مال تو ہے لیکن وہ اسے راہ خدا میں خرچ نہ کرے۔
جامع بيان العلم وفضله ، ابن عبد البر ، ج 1 ص 122 .
ابن حجر ہيثمی نے کتاب الصواعق المحرقہ میں لکھا ہے:
ولقد قال له «أنت مني بمنزلة هارون من موسي إلا أنه لا نبي بعدي » وكان عمر إذا أشكل عليه شيء أخذ منه ... ولقد كان عمر يسأله ويأخذ عنه ولقد شهدته إذا أشكل عليه شيء قال ههنا علي .
رسول خدا (ص) نے علی (ع) سے فرمایا: تیری مجھ سے وہی نسبت ہے کہ جو ہارون کو موسی سے تھی، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، عمر کے لیے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو وہ علی (ع) سے مدد لیتا تھا۔۔۔۔۔ عمر علی (ع) سے پوچھا کرتا تھا اور ان سے علم سیکھا کرتا تھا، اور میں مشاہدہ کیا کرتا تھا کہ جب بھی عمر کے لیے کوئی مشکل پیش آتی تو کہتا ( غم کی کوئی بات نہیں) علی یہاں موجود ہیں۔
الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزندقة ، أبو العباس أحمد بن محمد بن علي ابن حجر الهيثمي (متوفاي973هـ )، دار النشر : مؤسسة الرسالة - لبنان -
اہل سنت کے بزرگ عالم مناوی نے کتاب فيض القدير میں لکھا ہے:
أنا مدينة العلم وعلي بابها فمن أراد العلم فليأت الباب » فإن المصطفي المدينة الجامعة لمعاني الديانات كلها أو لا بد للمدينة من باب فأخبر أن بابها هو علي كرم الله وجهه فمن أخذ طريقه دخل المدينة ومن أخطأه أخطأ طريق الهدي وقد شهد له بالأعلمية الموافق والمخالف والمعادي والمحالف .
خرج الكلاباذي أن رجلا سأل معاوية عن مسألة فقال : سل عليا هو أعلم مني فقال : أريد جوابك قال : ويحك كرهت رجلا كان رسول الله يعزه بالعلم عزا وقد كان أكابر الصحب يعترفون له بذلك وكان عمر يسأله عما أشكل عليه جاءه رجل فسأله فقال : ههنا علي فاسأله فقال : أريد أسمع منك يا أمير المؤمنين قال قم لا أقام الله رجليك ومحي اسمه من الديوان .
رسول خدا (ص) نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ہیں اور جو بھی طالب علم ہو تو اسے دروازے پر آنا چاہیے۔ رسول خدا (ص) معارف دینی کا مرکز و سرچشمہ ہیں کہ ان معارف کو حاصل کرنے کے لیے اسکے مخصوص دروازے سے داخل ہونا چاہیے اور خود رسول خدا نے واضح بتایا ہے کہ وہ دروازہ، علی ہیں اور جو بھی اس دروازے کو گم کر دے گا تو اس نے ہدایت کے راستے کو گم کر دیا ہے، دوست اور دشمن نے علی کی علمی برتری اور افضلیت کی گواہی دی ہے۔
كلابذی نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے معاویہ سے علمی سوال کیا تو معاویہ نے کہا جاؤ جا کر علی سے پوچھو اسکا علم مجھ سے زیادہ ہے، اس شخص نے کہا: میں تم سے جواب سننا چاہتا ہوں، معاویہ نے کہا: چپ ہو جاؤ کیا تم اس انسان کو پسند نہیں کرتے کہ رسول خدا نے جسکو علم سے عزت بخشی ہے اور بزرگ صحابہ بھی اس بات کا اعتراف کیا کرتے تھے اور جب بھی کوئی عمر سے علمی سوال کرتا تو وہ کہتا تھا: علی یہاں ہیں، ان سے پوچھو، (چاپلوسی کی غرض سے) جب سوال کرنے والا اصرار کرتا کہ میں اپنا جواب خلیفہ سے ہی سننا چاہتا ہوں تو عمر اسے کہتا:
چلے جاؤ یہاں سے، خدا تیرے پاؤں کو ضعیف اور کمزور کرے اور پھر غصے سے ایسے شخص کا نام بیت المال لینے والوں کی لسٹ سے مٹا دیتا تھا۔
فيض القدير شرح الجامع الصغير ، عبد الرؤوف المناوي (متوفي1031 هـ) ، ج 3 ص 46 ، ناشر : المكتبة التجارية الكبري – مصر،
لہذا امیر المؤمنین علی (ع) کے لوگوں کو علمی جواب دینے کو انکا خلفاء سے تعاون شمار نہیں کیا جا سکتا اور نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ان خلفاء اور انکی حکومت سے راضی تھے۔
امیر المؤمنین علی (ع) اسلام کا دفاع کرتے تھے، نہ کہ خلفاء کا:
امیر المؤمنین علی (ع) کا خلفاء کے ساتھ ان دفاعی، جنگی، سیاسی، عدالتی اور علمی مسائل میں مشورے اور تعاون کرنا، منحصر ہے کہ اگر امیر المؤمنین علی (ع) ان امور میں مستقیم طور پر دخالت نہ کرتے تو خلفاء کی بے تدبیری اور ان امور سے عدم آگاہی وجود اسلام اور مسلمین کو خطرے میں ڈال دیتی، لہذا امیر المؤمنین علی (ع) کے اسطرح کے مشوروں اور تعاون کو خلفاء کا دفاع اور انکی حکومت سے راضی ہونا شمار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ حضرت در اصل اسلام کی ترقی کی راہ میں رسول خدا (ص) اور اپنی تحمل کی گئی زحمات اور مشقات کی حفاظت کر رہے تھے، ورنہ ان حضرت کے خطبات اور بیانات سے واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ انکی خود خلفاء اور انکی غاصبانہ حکومتوں کے بارے میں کیا رائے تھی۔
مطلب کو مزید اچھے طریقے سے سمجھنے کے لیے ایک واقعے کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ امیر المؤمنین علی (ع) نے کیسے اپنی دور اندیشی اور حکمت عملی سے اسلام کو مکمل طور پر نابود ہونے سے نجات دی تھی:
جنگ نہاوند اسلام کے ابتدائی ایام کی خطر ناک ترین جنگ تھی، کیونکہ ایرانیوں کے شکست کھائے ہوئے لشکر نے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے پورے ایران سے ڈیڑھ لاکھ افراد پر مشتمل لشکر تشکیل دیا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ نہ صرف مسلمانوں کو کوفہ میں شکست دیں بلکہ تمام ممالک اسلامی پر قبضہ کر کے اسلام کو مکمل طور پر نابود کر دیں۔
ابن اثير جزری نے اس جنگ میں ایرانیوں کے لشکر کی تعداد کے بارے میں لکھا ہے کہ:
وأما الوقعة [اي واقعة النهاوند] فهي زمن عبد الله فنفرت الأعاجم بكتاب يزدجرد فاجتمعوا بنهاوند علي الفيرزان في خمسين ألفا ومائة ألف مقاتل ...
نہاوند کی جنگ کا واقعہ ایرانیوں کی شکست کے بعد رونما ہوا تھا کہ نہاوند کے مقام پر فیروز کی کمانڈ میں ڈیڑھ لاکھ کا لشکر جمع ہو گیا۔
الكامل في التاريخ ، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم الشيباني (متوفي630هـ) ج 2 ، ص 412 ، ناشر : دار الكتب العلمية – بيروت،
اس جنگ کی حساسیت اور اس جنگ میں مسلمانوں کی کامیابی یا شکست کی اہمیت کو جاننے کے لیے ابن اعثم کی کتاب الفتوح سے عمار یاسر کے خط کو ملاحظہ فرمائیں کہ جو اس نے عمر کو لکھا تھا:
عمار ياسر نے ایسے لکھا ہے:
أما بعد ... أن أهل الري وسمنان وساوه وهمذان ونهاوند وأصفهان وقم وقاشان وراوند واسفندهان وفارس وكرمان وضواحي أذربيجان قد اجتمعوا بأرض نهاوند في خمسين ومائة ألف من فارس وراجل من الكفار ، وقد كانوا أمروا عليهم أربعة من ملوك الأعاجم منهم ذو الحاجب خرزاد بن هرمز وسنفاد بن حشروا وخهانيل بن فيروز وشروميان بن اسفنديار ، وأنهم قد تعاهدوا وتعاقدوا وتحالفوا وتكاتبوا وتواصوا وتواثقوا علي أنهم يخرجوننا من أرضنا ويأتونكم من بعدنا ، وهم جمع عتيد وبأس شديد ودواب فره وسلاح شاك ويد الله فوق أيديهم ،فإني أخبرك يا أمير المؤمنين أنهم قد قتلوا كل من كان منا في مدنهم ، وقد تقاربوا مما كنا فتحناه من أرضهم ، وقد عزموا أن يقصدوا المدائن ويصيروا منها إلي الكوفة ، وقد والله هالنا ذلك وما أتانا من أمرهم وخبرهم ، وكتبت هذا الكتاب إلي أمير المؤمنين ليكون هو الذي يرشدنا وعلي الأمور يدلنا ، والله الموفق الصانع بحول وقوته ، وهو حسبنا ونعم الوكيل ، فرأي أمير المؤمنين أسعده الله فيما كتبته والسلام .
شہر رے ، سمنان ، ساوه ، ہمدان ، اصفہان ، قم ، كاشان ، راوند ، فارس ، كرمان اور اطراف آذربايجان کے لوگ سرزمین نہاوند پر ڈیڑھ لاکھ افراد پر مشتمل سوار اور پیدل لشکر چار بادشاہوں، با ارادہ جنگجوؤں، مکمل جنگی اسلحہ سے لیس اور طاقتور سواریوں کے ساتھ جمع ہو گئے اور سب نے آپس میں قسم کھائی اور وعدہ کیا تا کہ وہ ہمیں (مسلمانوں کو) اپنی سرزمین سے باہر نکالیں، حالانکہ خداوند کا ہاتھ تمام ہاتھوں سے بالا تر ہے۔
اے عمر میں تم کو خبر دیتا ہوں کہ انھوں نے ہمارے تمام دوستوں کو انکے شہروں میں قتل کر دیا ہے اور جن علاقوں کو ہم نے فتح کر کے آزاد کیا تھا، وہ اب ان علاقوں کے نزدیک پہنچ گئے ہیں اور انکا ارادہ ہے کہ کوفہ تک ہمارے شہروں پر ایک ایک کر کے قبضہ کر لیں۔ خدا کی قسم ہمیں انکی اس حالت سے ڈر لگ رہا ہے، میں (عمار یاسر) تم کو یہ خط لکھ رہا ہوں تا کہ تم خود کوئی فیصلہ کر کے ہماری راہنمائی کرو۔
عمر کو جب یہ خط ملا تو دشمن کے خوف سے ایسے اس پر لرزہ طاری ہوا کہ اسکے اطراف میں بیٹھے ہوئے افراد نے اسکے دانتوں کے آپس میں ٹکرانے کی آواز کو سنا۔
ابن اعثم نے مزید لکھا ہے کہ:
فلما ورد الكتاب علي عمر بن الخطاب رضي الله عنه وقرأه وفهم ما فيه وقعت عليه الرعدة والنفضة حتي سمع المسلمون أطيط أضراسه ، ثم قام عن موضعه حتي دخل المسجد وجعل ينادي : أين المهاجرون والأنصار ؟ ألا ! فاجتمعوا رحمكم الله وأعينوني أعانكم الله .
ثم قال : أيها الناس ! هذا يوم غم وحزن فاستمعوا ما ورد علي من العراق ، فقالوا : وما ذاك يا أمير المؤمنين ؟ فقال : إن الفرس أمم مختلفة أسماؤها وملوكها وأهواؤها وقد نفخهم الشيطان نفخة فتحزبوا علينا وقتلوا من في أرضهم من رجالنا ، وهذا كتاب عمار بن ياسر من الكوفة يخبرني بأنهم قد اجتمعوا بأرض نهاوند في خمسين ومائة ألف وقد سربوا عسكرهم إلي حلوان وخانقين وجلولاء ، وليست لهم همة إلا المدائن والكوفة ، ولئن وصلوا إلي ذلكفإنها بلية علي الاسلام وثلمة لا تسد أبدا ، وهذا يوم له ما بعده من الأيام ، فالله الله يا معشر المسلمين ! أشيروا علي رحمكم الله .
جب یہ خط عمر نے پڑھا تو خوف سے اسکے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا اور مسلمانوں نے اسکے دانتوں کے آپس میں بجنے کی آواز کو سنا، پھر عمر اپنی جگہ سے اٹھا اور مسجد میں جا کر چیخ کر بولا:
اے مہاجرین و انصار تم سب کہاں ہو ؟ سب جمع ہو جاؤ، تم پر خدا کی رحمت ہو میری مدد کرو کہ خدا بھی تم کی مدد کرے۔
پھر عمر نے کہا: اے لوگو ! آج غم کا دن ہے، سنو کہ عراق سے کیا خبر آئی ہے، سب نے پوچھا: کیا ہوا ہے ؟ عمر نے کہا: ایران کے تمام لوگ آپس میں جدا جدا تھے، لیکن اب شیطان نے انہیں اکٹھا کر دیا ہے اور انھوں نے ہمارے دوستوں کو شہروں میں قتل کر دیا ہے، یہ عمار یاسر کا خط ہے کہ جو اس نے کوفہ سے لکھا ہے، ڈیڑھ لاکھ افراد نہاوند کے مقام پر جمع ہو گئے ہیں اور ان میں سے بعض تو شہر حلوان، خانقین اور جلولاء تک آن پہنچے ہیں اور انکا اصل مقصد شہر مدائن اور کوفہ پر قبضہ کرنا ہے، اگر وہ ان دو شہروں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اسلام پر ایسی مصیبت آن پڑے گی کہ جسکا کبھی بھی جبران نہیں کیا جا سکے گا۔ تم کو خدا کا واسطہ ہے کہ مجھے مشورہ دو کہ میں کیا کروں ؟
عمر کے پاس بیٹھے طلحہ ابن عبيد الله ، زبير ابن عوام ، عبد الرحمن ابن عوف وغیرہ نے عمر کو وہی رسمی ہمت دلائی اور حوصلہ دیا کیونکہ انکے پاس ایسا کوئی عملی اور مفید مشورہ نہیں تھا کہ جو عمر کو بتاتے، عمر نے جب انکی باتوں کو سنا تو اسکا لرزہ مزید زیادہ ہو گیا اور اس نے کہا:
أريد غير هذا الرأي .
مجھے انکے علاوہ کوئی دوسرا مشورہ چاہیے۔۔۔
یہاں تک کہ عثمان ابن عفان نے مشورہ دیا کہ عمر خود تمام مہاجرین و انصار کے ساتھ جائے اور لشکر ایران کو شکست دے کر آئے۔
وأنا أشير عليك أن تسير أنت بنفسك إلي هؤلاء الفجار بجميع من معك من المهاجرين والأنصار فتحصد شوكتهم وتستأصل جرثومتهم ... تكتب إلي أهل الشام فيقبلوا عليك من شامهم ، وإلي أهل اليمن فيقبلوا إليك من يمنهم ، ثم تسير بأهل الحرمين مكة والمدينة إلي أهل المصرين البصرة والكوفة ، فتكون في جمع كثير وجيش كبير ، فتلقي عدوك بالحد والحديد والخيل والجنود ...
عثمان نے عمر سے کہا: تم خود مہاجرین و انصار کے ساتھ انکی شان و شوکت کو خاک میں ملانے کے لیے، انکی طرف پیشقدمی کرو۔۔۔۔۔ شام کے لوگوں کو بھی خط لکھو کہ وہ بھی تمہاری مدد کے لیے حرکت کریں، یمن کے لوگوں کو خط لکھو کہ وہ یمن سے حرکت کریں، پھر مکہ و مدینہ کے لوگوں کے ساتھ مل کر کوفہ اور بصرہ پہنچ جاؤ، ایسے دشمن سے جنگ کے لیے بہت بڑا لشکر تیار ہو جائے گا۔
عثمان کے مشورے کے باوجود بھی عمر کے دل کو چین نہ آیا تو آخر میں مجبور ہو کر امت اسلامی کے مشکل گشا کے دامن سے تمسک کرتے ہوئے کہا:
يا أبا الحسن ! لم لا تشير بشيء كما أشار غيرك ؟
اے ابو الحسن ! دوسروں کی طرح آپ کیوں کوئی رائے نہیں دے رہے ؟
علی (ع) نے اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اسلام کی عزت اور نجات کے لیے عمر کو ضروری مشورے دئیے:
إن كتبت إلي الشام أن يقبلوا إليك من شامهم لم تأمن من أن يأتي هرقل في جميع النصرانية فيغير علي بلادهم ويهدم مساجدهم ويقتل رجالهم ويأخذ أموالهم ويسبي نساءهم وذريتهم ، وإن كتبت إلي أهل اليمن أن يقبلوا من يمنهم أغارت الحبشة أيضا علي ديارهم ونسائهم وأموالهم وأولادهم۔
وإن سرت بنفسك مع أهل مكة والمدينة إلي أهل البصرة والكوفة ثم قصدت بهم قصد عدوك انتقضت عليك الأرض من أقطارها وأطرافها ، حتي إنك تريد بأن يكون من خلفته وراءك أهم إليك مما تريد أن تقصده ، ولا يكون للمسلمين كانفة تكنفهم ولا كهف يلجؤون إليه ، وليس بعدك مرجع ولا موئل إذ كنت أنت الغاية والمفزع والملجأ ، فأقم بالمدينة ولا تبرحها فإنه أهيب لك في عدوك وأرعب لقلوبهم ، فإنك متي غزوت الأعاجم بنفسك يقول بعضهم لبعض : إن ملك العرب قد غزانا بنفسه لقلة أتباعه وأنصاره ، فيكون ذلك أشد لكلبهم عليك وعلي المسلمين ، فأقم بمكانك الذي أنت فيه وابعث من يكفيك هذا الامر والسلام .
اگر شام کے لوگوں کو خط لکھو گے تو وہ تمہاری مدد کے لیے شام سے نکلیں گے تو اس سے اس بات کا خطرہ ہے کہ نصرانی ہرقل کی سالاری میں سرزمین شام پر حملہ کر کے وہاں کی مساجد کو منہدم، مردوں کو قتل، اموال کو غارت اور عورتوں کو قید کر لیں گے،
 اور اگر اہل یمن کو خط لکھ کے مدد کے لیے بلاؤ گے تو وہ حبشہ کے لوگوں سے محفوظ نہیں ہوں گے کہ وہ انکی سرزمین پر حملہ آور ہوں گے اور انکے اموال کو غارت، انکی عورتوں کو قید اور انکے بچوں کو قتل کر دیں گے۔
اور اگر خود تم مکہ اور مدینہ کے لوگوں کے ساتھ بصرہ اور کوفہ کی طرف حرکت کرو گے تا کہ دشمن تک پہنچ سکو تو تمہارے بعد مسلمانوں کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں ہو گی کہ جسکا وہ سہارا لیں، پس تم خود مدینہ میں ہی رہو کہ اس سے دشمن کے دل میں وحشت اور خوف زیادہ ہو جائے گا کیونکہ اگر خود تم ایرانیوں سے جنگ کے لیے جاؤ گے تو وہ کہیں گے کہ عربوں کا راہبر تنہا رہ گیا ہے اور اسکے لشکر کی تعداد کم رہ گئی ہے تو اس سے وہ زیادہ جوش کے ساتھ لشکر اسلام سے جنگ کریں گے، پس اپنے لشکر کو دشمن کی طرف بھیجو اور خود یہاں ہی رہو۔
كتاب الفتوح ، العلامة أبي محمد أحمد بن أعثم الكوفي (متوفي314 هـ) ، ج 2 ص290 ـ 295 ، ناشر : دار الأضواء للطباعة والنشر والتوزيع ،
اگر امير المؤمنین علی (ع) اس جیسے اہم مسئلے میں دخالت اور راہنمائی نہ کرتے تو اسلام اور مسلمین کے سروں پر کیا کیا مصائب نازل ہونے تھے ؟!
یہاں پر کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ امیر المؤمنین علی (ع) نے عمر کا دفاع اور اسکی خیر خواہی کی ہے ؟!
کیا ایسے مشورے دینے اور راہنمائی کرنے سے ان حضرت کے خلفاء کی حکومت سے راضی ہونے کو ثابت کیا جا سکتا ہے ؟!
مولا علی (ع) کیوں فتوحات میں شرکت نہیں کرتے تھے ؟
امير المؤمنین علی (ع) کہ جو اپنی شجاعت، بہادری، جانثاری کی وجہ سے عرب جیسے معاشرے میں شیر خدا کے لقب سے جانے جاتے تھے، جو صاحب ذوالفقار تھے اور جو رسول خدا (ص) کے زمانے میں ہر جنگ میں پیش پیش تھے، آج بھی جنگ احد، خندق، خبیر، بدر وغیرہ انہی کے نام سے جانی جاتی ہیں، جس نے عرب کے بڑے بڑے نامور بہادروں کی ناک خاک پر رگڑ دی جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں:
وَ هَلْ أَحَدٌ مِنْهُمْ أَشَدُّ لَهَا مِرَاساً ، وَأَقْدَمُ فِيهَا مَقَاماً مِنِّي ! لَقَدْ نَهَضْتُ فِيهَا وَمَا بَلَغْتُ الْعِشْرِينَ .
کیا قریش میں سے کوئی بھی میری طرح کا جنگی تجربہ رکھتا ہے ؟ اور کیا جنگ میں کوئی مجھ سے سبقت لے سکتا تھا ؟ میں تو ابھی 20 سال کا بھی نہیں ہوا تھا کہ جب میں میدان جنگ میں ہمیشہ حاضر ہوتا تھا۔
نهج البلاغه ، خطبه 27 .
عمر ابن خطّاب ہمیشہ اعتراف کرتا تھا کہ:
واللّه لولا سيفه لما قام عمود الإسلام .
خدا کی قسم اگر علی کی تلوار نہ ہوتی تو اسلام کبھی بھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔
ابن أبي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج 12، ص 82 .
امیر المؤمنین علی (ع) کی ان شجاعانہ صفات کے پیش نظر ان حضرت کے میدان جنگ سے دور رہنے کو خلفاء تحمل نہیں کر سکتے تھے، کیونکہ ان حضرت کا فتوحات میں شرکت نہ کرنا، مسلمانوں کے اذہان میں یہ سوال ایجاد کر سکتا تھا کہ علی ابن ابی طالب (ع) صدر اسلام کی جنگوں میں بہادری کے اتنے جوہر دکھانے کے باوجود اب اسلام کی سرزمین کفر و شرک میں پیشقدمی کے وقت کیوں فتوحات سے دور اور غائب ہیں ؟!
آخر کار ایسا کیا ہوا ہے اور کونسی چیز باعث بنی ہے کہ امیر المؤمنین علی (ع) کسی بھی جنگ میں شرکت نہیں کر رہے ؟
کیا وہ مشرکین کے ساتھ جہاد کو واجب نہیں جانتے تھے ؟! اور کیا وہ خلفاء کی خلافت کو قانونی نہیں مانتے تھے اور ان جنگوں کو بدعت جانتے تھے ؟ یا یہ کہ فتوحات (تلوار کے ساتھ) کے نام پر نشر اسلام کو معقول کام نہیں جانتے ؟ اور کیا وہ نہیں چاہتے کہ آنے والی انسانیت دین اسلام، کہ جو دین رحمت و محبت ہے، کو ایک خونخوار و بے رحم دین کے طور پر جانیں اور دین کے خلاف عمل کرنے اور خلفاء کی عقل کے مطابق کاموں کو اسلام کے نام پر دینی و شرعی شمار کریں ؟
خلفاء نے کتنی مرتبہ امیر المؤمنین علی (ع) سے مشورہ و مدد مانگی تھی:
خلفاء کا امیر المؤمنین علی (ع) سے مشورہ کرنے اور پیچیدہ علمی مسائل حل کرنے کی درخواست کرنے کی تعداد کو دیکھتے ہوئے پہلی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ خلفاء علمی لحاظ اور حکومت کرنے کے تجربے سے کتنے جاہل تھے اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ امیر المؤمنین علی (ع) سے اتنی کم تعداد میں مشورے کرنا، اس بات کی علامت ہے کہ ان حضرت کا رابطہ حکومت سے کتنا کم اور وہ حکومتی امور سے کتنے دور تھے !
محقق معاصر شيخ نجم الدين عسكری نے كتاب «علي والخلفاء» میں لکھا ہے:
ابوبكر نے اپنی خلافت کے 2 سال و 3 ماه (27 ماه) کے دوران  مرتبہ 14  مختلف امور میں علی (ع) کی طرف رجوع کیا تھا۔
علي والخلفاء ، ص 73 - 97.
ان 14 موارد میں 9 علمی سوال، 4 سوال شرعی و عدالتی فیصلے اور 1 جنگی مشورہ شامل تھے۔
قابل ذکر ہے کہ ان 14 موارد میں صرف 4 مرتبہ علمی و شرعی سوال خود ابوبکر نے مستقیم مولا علی (ع) سے پوچھے اور باقی 9 موارد میں 2 مرتبہ ابوبکر کے صحابہ سے مشورہ کرتے وقت، علی (ع) نے اپنی رائے دی تھی، 2 مرتبہ ایک محفل میں حاضر ہونے کی وجہ سے ان حضرت کو اظہار رائے کرنا پڑ گیا، 3 مرتبہ ان حضرت کو خبر ملنے پر انھوں نے مشورہ دیا اور 2 مرتبہ مولا علی اور ابوبکر کے درمیان ایک تیسرا شخص واسطہ تھا۔
کیا یہ کہنا صحیح ہے کہ ابوبکر نے اپنی خلافت کے دوران تمام اہم کاموں میں علی (ع) سے مشورہ کیا تھا اور اس نے کوئی بھی کام مولا علی کی رائے کے بغیر انجام نہیں دیا ؟!
عمر ابن خطاب نے اپنی خلافت کے 10 سال و 5 ماه (125 ماه) 85 موارد میں حضرت امير (ع) کی طرف رجوع کیا تھا۔
علي والخلفاء ، ص 99 - 333 .
ان 85 موارد میں 59 مرتبہ عدالتی مقدمات، 21 مرتبہ سوال علمی، 3 مرتبہ مالی امور اور 2 مرتبہ امور جنگی کے بارے میں مشورے کیے گئے تھے۔
قابل توجہ ہے کہ ان 85 موارد میں سے عمر نے 27 مرتبہ مستقیم طور پر خود ان حضرت کی طرف رجوع کیا تھا، 13 مرتبہ مسائل شرعی و عدالتی، 2 مرتبہ امور مالی اور ایک مرتبہ علمی سوال کو عمر نے پہلے صحابہ سے مشورہ کیا اور پھر آخر میں امام علی (ع) کی رائے کے بارے میں پوچھا تھا۔
باقی 42 موارد میں وہ حضرت موقع پر موجود تھے اس لیے اظہار رائے کر دیا، یعنی ان موارد میں بھی ان حضرت کے حاضر ہونے کے باوجود، انکی طرف کوئی توجہ نہ کی گئی۔
اس تفصیل کے مطابق کیا صحیح ہے کہ کوئی دعوا کرے کہ عمر ہمیشہ اپنی مشکلات اور مسائل میں امیر المؤمنین علی (ع) کی طرف رجوع کرتا تھا ؟
عثمان نے 12 سالہ (144 ماه) دوران خلافت میں 8 مورد میں حضرت علی (ع) کی طرف رجوع کیا تھا۔
علي والخلفاء ، ص 335 - 345 .
یہ 8 موارد:
اوّلاً: تمام مسائل شرعی اور حدود کے جاری کرنے کے بارے میں تھے،
ثانياً: 3 مورد میں عثمان نے خود مستقیم امام علی سے رجوع کیا تھا اور 4 موارد میں وہ حضرت موقع پر حاضر تھے، اس لیے اظہار رائے کیا تھا۔
قابل توجہ ہے کہ ایک مرتبہ عثمان نے مولا علی سے کہا:
إنّك لكثير الخلاف علينا،
تمہاری رائے اکثر اوقات ہماری رائے سے مختلف ہوتی ہے۔
مسند أحمد، ج 1 ص 100 .
معاويہ نے 7 امور میں امير المؤمنین علی (ع) کی طرف رجوع کیا تھا۔
علي والخلفاء، ص 329 - 358.
التماس دعا

Monday, June 25, 2018

فضلیت امامت بر رسالت_کتب اھلسنت سے دلائل


بسم اللہ الرحمن الرحیم
فضل امامت بر رسالت_کتب اھلسنت سے دلائل
تمام حمد و ستائش خداوندلاشریک کیلیےاورافضل دردو و صلواہ اس کےحبیب حضرت محمد مصفطی صلی اللہ علیہ وآلہ اور اس کی پاک آل پر
حیسا کا مومنین جانتےھیں کہ موحودہ دنوں میں امامت کےنبوت سےافضل ھونےکےموضوع پر ھر طرف گفتگو ھورھی ھےھم اسی موضوع پر چند گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کریں گے
اسلام کےروز اول کی طرف آپ منصفانہ اندازمیں نگاہ دوڑائیں تو آپ کو یہ بات ضرور نظر آئےگی کہ مذھب شیعہ ھمیشہ ایک منطقی مذھب ھے جو ھر بات کو عقلی و نقلی دلائل پر پرکھ کر ھی قبول کرتاھےجب عقیدہ دلیل نقلی و عقلی کےمطابق ھوتو ھم قبول کرتےھیں اس کےبعد اھل تشیع کو پرواہ نہیں کہ کوئی کافر کہتاھے یاغالی حق کو قبول کرنا ھےھر حال میں
عرض کرنےکا مقصد یہ تھا کہ مذھب شیعہ عدالت و مساوات کا نام ھےاور ھم ھی ہیں جوھرقیمت پرغلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہتےھیں بےشک خداوند تعالی سےبڑھ کر کوئی عادل نہیں ھےاور وھی عدل کا حکم دیتاھے
اِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ
بےشک خداوند تعالی عدل و احسان کےساتھ حکم کرتاھے(یاعدل و احسان کا حکم دیتاھےبااختلاف تراجم)
[QS. An-Nahl: Verse 90]
احادیث رسالت کی بناء پر بناہوااھل تشیع کاعقیدےیہ کہ اوصیاء رسول پاک۔ص اولوالعزم انبیاء کےعلاوہ تمام انبیاء و رسل سے افضل ہیں اس کے ثبوت کیلیےیہ دلیل بھی ھے کہ بعض انبیاء بنی اسرائیل خود اپنےھی نفس پر(خودپر)مبعوث تھے یعنی بنی اسرائیل انبیاء پرظلم و ستم روا رکھتےتھےتواس مصلحت کی بناءپر کہ زمین حجت خدا سےخالی نہیں ھوتی خداوندتعالی نےانبیاء توبھیجےمگران انبیاء کو کھل کر تبلیغ کا حکم نہیں دیابلکہ وہ انبیاء بعض خود پر اور بعض اپنےھی گھروالوں تک محدود تھے تو راہ خدا میں اپنا سب کچھ لٹانےوالا وصی رسول خدا.ص کیا ان انبیاء سےافضل نہیں ھوگا مثلا حضرت علی علیہ السلام کی اسلام کیلیےخدمات دیکھ لیں اکثر رسول پاک۔ص کی جان کی حفاظت کی اورتمام جنگوں میں آپ کی تلوار اسلام کی فتح کا باعث بنی یا امام حسن و امام حسین علیھم السلام کی قربانیاں چھوٹےچھوٹےبچوں کو بھی راہ خدا میں قربان کردیا
توکیا اس سےلازم نہیں آتاکہ خداوندتعالی ان کو ان انبیاءپرفضیلت عطاکرےجو خوداپنےھی نفس پر مبعوث تھے یہ عقل کا فیصلہ ھےاور خداوند تعالی عادل ھےتواحسان کا بدلہ احسان سےدیتاھے(القرآن) اور یھی عقیدہ اھل تشیع ھے کہ مساوات کا ھوناضروری ھے خداوندتعالی مفضول کو افضل پر ترجیح نہیں دیتا
جبکہ اھلسنت کے ہاں ایسانہیں ھے مثلا ابن ابی الحدید اپنی شرح نھج البلاغہ کےمقدمہ میں حضرت علی.ع کو افضل اور ابوبکر کو پھلا خلیفہ مانتےھوئے لکھتاھے کہ شکر ھے اس خدا کا جس نےمفضول کو افضل پر مقدم کیا یعنی حضرت علی۔ع افضل تھے ابوبکر سےمگر خداوندنےابوبکر کوجوکہ مفضول تھاخلیفہ بنایایہ ھےاھلسنت کا عقیدہ جبکہ اھل تشیع عدل کو اصول دین مانتےھیں اور مفضول کو افضل پر ترجیح نہیں دیتےجبکہ خلافت الھی کیلیے دنیاوی حکومت کی کوئی اہمیت بھی نہیں نہ ھی خلیفہ اللہ کیلیےحکومت ضروری ھےبحرحال ھم اپنےموضوع کی طرف آتےھیں
عقیدہ فضیلت
رسول پاک۔ص سےمحبت کرنےوالے ھر شخص پر کتاب خدا و رسول خدا۔ص نے واجب کیاھے کہ حضرت علی اور اس کی اولاد آئمہ علیھم السلام سےبھی ویسی ھی محبت کرے
اور جب اطاعت کا وقت آئے تو رسول پاک۔ص کےبعد اھلبیت کی اطاعت کرے کیوں حکم رسول خدا.ص ھے کسی مجتھدکےحکم کی طرح پیش نہیں آناھے اس حکم رسول.ص یا ھر حکم رسول.ص کو قصد رسول.ص کےمطابق ماننا
حضرت علی علیہ السلام کی انبیاء پر فضیلت کےدلائل کے طورپر سب سےپھلے ھم حضرت آدم علیہ السلام کےتوسل کرنےکو ذکر کرتےھیں
فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّهِ کَلِماتٍ فَتابَ عَلَیْه‌
البقره 37
سورہ بقرہ کی آیت 37 کی تفسیر میں علامہ سیوطی اپنی تفسیر در المنثور میں لکھتے ھیں خداوند تعالی نےحضرت آدم.ع کو چند کلمات کی تعلیم دی جس سےان کی توبہ قبول ھوئی اور وہ کلمات یہ تھے خدایا تجھےمحمد و آل محمد کا واسطہ میری خطا کو بخش دےبےشک تو بخشنےوالا اور رحیم ھے آگےپھر ابن عباس سےروایت کرتےھیں کہ محمدوآل محمد پنجتن پاک.ص حضرت محمد علی فاطمہ حسن و حسین علیھم السلام تھے
سَاَلْتُ رَسُول َالله عَنِ الْکَلِمَات الَّتِی تلقّی‌ها آدَمُ مِنْ رَبِّهِ فَتَابَ عَلَیْهِ قَالَ: سَاَلَ به حقّ مُحَمَّدٍ وَ عَلِیٍّ وَ فَاطِمَة وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَیْنِ اِلَّا تُبْتُ عَلَیَّ فَتَابَ عَلَیْهِ
الدرّ المنثور ج1ص313 ـ324+ مناقب ابن مغازلی شافعی+ ینابیع المودة سلیمان قندوزی حنفی ص97، 238و 239
اب یھاں پر ایک عقلی بحث پیش آتی ھے کہ وسیلہ ھمیشہ اس کو بنایا جاتاھے جو خود سے افضل ھو ورنہ عقلا بعید ھےکہ انسان خود سے کم ترکو وسیلہ بنائےتو اس سےثابت ھوتاھے کہ پنجتن پاک.ص شیعہ عقائداور رسول خدا.ص کی حدیث آئمہ اثنی عشر کےمطابق ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام سےافضل ہیں
حدیث معراج
اھلسنت عالم دین ابوبکر البوصیری اپنی کتاب اتحاف میں حدیث معراج کو نقل کرتےھیں جس کا ترجمہ یہ ھے
رسول پاک.ص فرماتےھیں جب محھےآسمان پر لےجایاگیاتو خداوندتعالی نےمجھےحکم دیا(یاوحی کی)علی۔ع کی تین صفات کےبارے(1)علی انبیاء کےسردار ہیں(2)علی متقین کےامام ہیں(3)اور سفید چھرےوالوں کےرہنماء ھیں
6353 - قال أبو يعلى: وثنا زكريا بن يحى الْكِسَائِيِّ ثَنَا نَصْرُ بْنُ مُزَاحِمٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ مِقْلَاصٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَسْعَدِ بْنِ زُرَارَةَ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَمَّا عُرِجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ انْتُهِيَ بِي إِلَى قَصْرٍ مِنْ لُؤْلُؤٍ فيه فرائش من ذهب يتلألأ فأوحى إلي- أو فأمر بي- في علي بثلاث خصال: بأنه سَيِّدُ الْمُرْسَلِينُ وَإِمَامُ المَتَّقِينَ وَقَائِدُ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ ".
ابوبکر بن اسماعیل البوصیری اتحاف الخیرہ المھرہ ج 7 ص47
اس حدیث کےالفاظ پر غور کریں کہ رسول پاک۔ص واضح الفاظ میں حضرت علی۔ع کو مرسلین کا سردار کہ رھے ھیں جس سےھمارا موقف مذید واضح ھوجاتاھے
امامت حضرت عیسی علیہ السلام
صحیح بخاری میں روایت ھے کہ رسول پاک۔ص نےفرمایا جب عیسی.ع نازل ھونگے تو نماز جماعت پڑھیں گے جبکہ امام تم میں سےھوگا
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَوْلُ اَلنَّبِيِّ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ اِبْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَ إِمَامُكُمْ مِنْكُمْ
صحيح بخاري، ج4، ص143 - صحيح مسلم، ج1، ص94
حضرت عیسی کاماموم ھونا کتب شیعہ میں
حضرت عیسی بن مریم نازل ہونگے اورخداوندتعالی ان کےھاتھوں دحال کو قتل کروائےگااورھم اھلبیت میں سےایک شخص ان کےساتھ نماز پڑھےگاتم دیکھوگےکہ عیسی ھم اھلبیت کی امامت میں نماز پڑھیں گےاور وہ نبی ہیں مگر ھم اھلبیت ان سےافضل ہیں
حَتَّى يَنْزِلَ عِيسَى اِبْنُ مَرْيَمَ [عَلَيْهِ السَّلاَمُ] مِنَ اَلسَّمَاءِ وَ يَقْتُلَ اَللَّهُ اَلدَّجَّالَ عَلَى يَدَيْهِ [يَدِهِ] وَ يُصَلِّيَ بِهِمْ رَجُلٌ مِنَّا أَهْلَ اَلْبَيْتِ أَ لاَ تَرَى أَنَّ عِيسَى يُصَلِّي خَلْفَنَا وَ هُوَ نَبِيٌّ إِلاَّ وَ نَحْنُ أَفْضَلُ مِنْهُ . بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار علیهم السلام , ج 24 , ص 328
صحیح بخاری کی روایت سےواضح ہوتاھےکہ حضرت عیسی امام مھدی علیھما السلام کی اقتداء میں نماز پڑھیں گےاور تمام مذاھب متفق ہیں کہ امام جماعت وہ ھوجوسب سےافضل ھو اور یہ امام مھدی.ع کی افضلیت کی بہترین دلیل ھے
امام مھدی شیخین سے افضل اور رسول اکرم.ص کےبرابر
یحیی سےنقل ھوا کہ ابن سیرین سےسوال کیاگیاکہ مھدی افضل ھیں یا ابوبکر و عمر تو اس نےجواب دیا مھدی شیخین سےافضل ھے بلکہ رسول پاک.ص کےبرابر ہیں
حدثنا يحيى عن السري بن يحيى عن ابن سيرين قيل له: المهدي خير أو أبو بكر وعمر رضى الله عنهما ؟
قال : هو خیر منهما ويعدل بنبي.
كتاب الفتن- نعيم بن حماد المروزي- ج1، ص 221
یھی روایت مختلف الفاظ سے
ضمرہ نے نقل کیاھے کہ ابن سیرین نےکہا فتنہ پیدا ھوگا اور پھر کہا جب وہ فتنہ پیدا ھوگا تواپنےگھروں میں بیٹھ جانا یہاں تک کہ اس کی آواز سنو جو ابوبکر اور عمر سے افضل ھوگا
توکسی نےکہاکیا وہ ابوبکر اور عمر سےبھی افضل ھوگا
ابن سیرین نےکہا_بلکہ وہ بعض انبیاء پر بھی برتری رکھتاھوگا
مصنف علامہ سیوطی کےالفاظ
میں کہتاہوں اس روایت میں کوئی مطلب ھے اور ابن شیبہ اپنی کتاب المصنف کےباب المھدی میں ابن سیرین سےنقل کرتےھوئےکہتاھے اس امت میں ایک خلیفہ ہوگا کہ ابوبکر اور عمر اس پر برتری نہیں رکھتے
(سیوطی کہتاھےاس روایت کی سند ٹھیک ھے)
اصل روایت
وأخرج (ك) أيضا من طريق ضمرة [عن ابن شوذب] عن محمد بن سيرين: ((أنه ذكر فتنة تكون , فقال: إذا كان ذلك فاجلسوا في بيوتكم حتى تسمعوا على الناس بخير من أبي بكر وعمر رضى الله عنهما , قيل: [يا أبا بكر] خير من أبي بكر وعمر؟ ,قال: قد كان يفضل على بعض [الأنبياء] .
قلت: في هذا ما فيه, وقد قال ابن أبي شيبة في ((المصنف)) في باب المهدي , حدثنا أبو أسامة, عن عوف, عن محمد هو ابن سيرين قال: ((يكون في هذه الأمة خليفة لا يفضل عليه أبو بكر ولا عمر)).
قلت: هذا إسناد صحيح
العرف الوردي في أخبار المهدي ص 118 اسم المؤلف جلال الدین السيوطي أبو الفضل دارالکتب العلمیه
جنت کے سردار
البانی رسول پاک.ص سےنقل کرتےھوئے کہتاھے کہ آپ نےفرمایا حسن و حسین جنت کےسردارہیں اور ان کا باپ ان سےافضل ھے(علیھم السلام)
البانی در سنن ابن ماجه :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَبُوهُمَا خَيْرٌ مِنْهُمَا»
حكم الألباني صحيح
سنن ابن ماجه ج 1 ص 44 ح 118
جی ہاں یہ اھلسنت ھی کی روایات ہیں جن میں امام مھدی.ع کو شیخین سےاور بعض انبیاء سے افضل کہا جارھاھےاور
جنت میں بوڑھوں کا وجودھی نہیں ھوگا اور تمام انبیاء بھی جنت میں موجودہونگےاور رسول پاک.ص کی حدیث کےمطابق حسنین.ع سرداران جنت ھیں اور حضرت علی.ع ان سےبھی افضل ہیں اس سےشیعہ عقیدہ ثابت ھےاور آپ غورکریں کہ
بخاری کی حدیث امامت نمازحضرت عیسی.ع بھی آپ نےملاحظہ کی کہ امام مھدی امامت کروائیں گےابوبکر و عمر سےامام مھدی.ع کا افضل ھونا بلکہ رسول پاک.ص کےبرابرہونابھی ثابت ھوا
حبکہ شیعہ اور سنی عقیدہ کےمطابق اور حدیث رسول پاک.ص کےمطابق بارہ خلیفہ ہونگے جن کےآخری امام مھدی.ع ہیں اور پھلےحضرت علی.ع ہیں جبکہ اہلسنت آج تک متفق نہیں ھوسکےکہ پھلےگیارہ کونسےھیں بحرحال اس سےبھی ثابت ھےکہ آخری خلیفہ امام مھدی.ع جب افضل ہیں توپھلےگیارہ خلفاء بھی افضل ھیں جوشیعہ عقیدےکےمطابق حضرت علی.ع اور ان کی اولاد ہیں تاامام مھدی علیھم السلام اور یہ بارہ خلفاء کی حدیث کتب اھلسنت صحیح بخاری وغیرہ میں بھی موجودھےاور بارہ آئمہ کےنام قندوزی حنفی اہلسنت عالم دین نے ینابیع المودہ میں ذکرکیےھیں جو شیعہ عقیدےکےعین مطابق حضرت علی سےامام مھدی علیھم السلام تک ہیں(ینابیع المودہ باب السادس والسبعون صفحہ 499)
حدیث تشبیہ با انبیاء
من أراد أن ینظر إلی آدم فی علمه و إلی نوح فی تقواه و إلی إبراهیم فی حلمه و إلی موسی فی هیبته و إلی عیسی فی عبادته فلینظر إلی علی بن أبی طالب
جو آدم کا علم نوح کا تقوی ابراھیم کا حلم موسی کی ہیبت عیسی کی عبادت(علیھم السلام)دیکھناچاھے تو وہ علی ابن ابی طالب علیھم السلام کو دیکھے
اس حدیث میں رسول پاک۔ص نےحضرات آدم نوح ابراھیم موسی عیسی علیھم السلام کی صفات ایک شخصیت میں جمع کردی ہیں تو پانچ انبیاء کی صفات جب حضرت علی۔ع میں جمع ھیں تو حضرت علی۔ع حضرت آدم۔ع سے اس لیےافضل ہیں کیونکہ ان میں چار بقیہ انبیاء کی صفات ہیں
اور حضرت نوح۔ع سےاس لیےافضل ہیں کیونکہ باقی چار انبیاء کی صفات حضرت علی۔ع میں جمع ھیں
اور مذید اہلسنت میں سے امام فخرالدین رازی نے بھی اس بات کا اقرار کیاھے کتاب الاربعین میں لکھتےھیں یہ حدیث حضرت علی۔ع کی انبیاء سےبرابری پر دلالت کرتی ھے اور کہتےھیں اس میں شک نہیں ھے کہ مذکورہ پیغمبران ان صفات میں ابوبکر و عمر سے افضل ہیں
اور جو افضل کےبرابر ھو وہ دوسروں سےافضل ھوتاھے پس حضرت علی۔ع سب اصحاب سےبھی افضل ھے(الاربعین فی اصول الدین ص 313)
آیت مباھلہ
فَمَنْ حَاجَّكَ فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل‌لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَی الْكَاذِبِینَ(آل عمران 61)
اس آیت کریمہ میں خداوند تعالی نے حضرت علی۔ع و پنجتن پاک کو نفس رسول پاک۔ص خطاب کیاھے اس سےثابت ھوتا ھے کہ حضرت علی۔ع نفس رسول۔ص ھوکر غیر ازرسول پاک۔ص سب سےافضل ھیں کیونکہ آیت سےثابت ھے کہ حضرت علی۔ع کا نفس خود رسول پاک۔ص کےنفس کی طرح ھےاور حضرت علی.ع عین رسول پاک.ص ہیں ان ھی کی طرح افضل ہیں مگرنبی.ص نہیں ھیں یعنی رسول پاک.ص افضل ھوئے البتہ رسول اکرم.ص کی فضیلت کےدلائل کی یہاں گنجائش نہیں ھے اگرچہ واضح عقیدہ موجودھےاوریھی کفایت کرتاھے
نیز علماء اہلسنت میں سےامام فخرالدین رازی نےبھی اس بات کا اقرار کیاھےکہ نفس خود وہ شخص نہیں ھوسکتا اور جب اس آیت میں کہا گیا کہ اپنےنفسوں کو پکارو تو حضرت علی۔ع کو پکارا گیا اور اس سےظاھر ھے کہ رسول پاک۔ص نے حضرت علی۔ع کو پکارا اپنا نفس سمجھ کر لہذا حضرت علی۔ع کا نفس بھی رسول پاک۔ص کی طرح افضل ھے یعنی حضرت علی۔ع رسول پاک۔ص کی طرح ہیں اور رسول پاک۔ص تمام انبیاء سےافضل ہیں لہذا حضرت علی۔ع بھی تمام انبیاء سے افضل ہیں اور نفس رسول۔ص ہیں و غیر از نبوت تمام فضائل میں برابر ھیں
اس کےبعد رازی کہتاھے کہ اس آیہ سے اس استدلال کی تائید ہوتی ھے کہ حضرت علی۔ع رسول پاک۔ص کےعلاوہ تمام انبیاء سے افضل ھیں
فخررازی کےاستدلال کی اصل عبارت
المسألة الخامسة : كان في الري رجل يقال له : محمود بن الحسن الحمصي ، وكان معلم الاثني عشرية ، وكان يزعم أن علياً رضي الله عنه أفضل من جميع الأنبياء سوي محمد عليه السلام ، قال : والذي يدل عليه قوله تعالي : { وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ } وليس المراد بقوله { وَأَنفُسَنَا } نفس محمد صلي الله عليه وسلم لأن الإنسان لا يدعو نفسه بل المراد به غيره ، وأجمعوا علي أن ذلك الغير كان علي بن أبي طالب رضي الله عنه ، فدلت الآية علي أن نفس علي هي نفس محمد ، ولا يمكن أن يكون المراد منه ، أن هذه النفس هي عين تلك النفس ، فالمراد أن هذه النفس مثل تلك النفس ، وذلك يقتضي الاستواء في جميع الوجوه ، ترك العمل بهذا العموم في حق النبوة ، وفي حق الفضل لقيام الدلائل علي أن محمداً عليه السلام كان نبياً وما كان علي كذلك ، ولانعقاد الإجماع علي أن محمداً عليه السلام كان أفضل من علي رضي الله عنه ، فيبقي فيما وراءه معمولاً به ، ثم الإجماع دل علي أن محمداً عليه السلام كان أفضل من سائر الأنبياء عليهم السلام فيلزم أن يكون علي أفضل من سائر الأنبياء.
التفسير الكبير ج 4 ص 241 دار الكتب العلمية
ويؤيد الاستدلال بهذه الآية ، الحديث المقبول عند الموافق والمخالف ، وهو قوله عليه السلام : ( من أراد أن يري آدم في علمه ، ونوحاً في طاعته ، وإبراهيم في خلته ، وموسي في هيبته ، وعيسي في صفوته ، فلينظر إلي علي بن أبي طالب رضي الله عنه ) فالحديث دل علي أنه اجتمع فيه ما كان متفرقاً فيهم ، وذلك يدل علي أن علياً رضي الله عنه أفضل من جميع الأنبياء سوي محمد صلي الله عليه وسلم...
التفسير الكبير ج 8 ص 72 دار الكتب العلمية
اس کےعلاوہ بھی شیعہ سنی کتب میں بہت سی احادیث ھیں مثلا
انا و علی من نور واحد
میں اور علی ایک نور سےھیں
میں اور علی ابن ابی طالب ایک نور سے خلق کیےگئےھیں
حضرت آدم۔ع کےپنجتن پاک.ص سےتوسل کو ھم نےذکر کیا تواس سےبھی ثابت ہوتاھے کہ اس وقت پنجتن پاک۔ص کی تخلیق ھوچکی تھی اور پنجتن پاک۔ص کا نور ھونابھی ثابت ھے مذید آیت ولایت حدیث غدیر آیت مباھلہ ان تمام موارد سےحضرت علی۔ع کا انبیاء سےافضل ھوناثابت ھےاور آیت مباھلہ پر غورکریں تو معلوم ہوتاھے حضرت علی۔ع نفس رسول۔ص یعنی خود رسول.ص کی طرح ہیں تو رسول پاک.ص تمام انبیاء سےافضل ہیں تو حضرت علی.ع بھی تمام انبیاء سےافضل ہیں فضیلت آئمہ شیعہ کی علت تامہ رسول پاک۔ص کی ذات پاک بھی ھےاورقرآن پاک کےمطابق عھدہ امامت کا نبوت سے افضل ھونا بھی آئمہ اھلبیت کے انبیاء سےافضل ھونےکی دلیل ھے آیت شریفہ پر غورکریں خداوندتعالی نےفرمایا
یادکرو جب خداوند نےابراھیم کومختلف آزمائشوں سے آزمالیااور ابراھیم ان آزمائشوں پر پورا اترےتوخداوند نےاسےکہا میں نےتم کو لوگوں کا امام بنادیاھےتوابراھیم نےعرض کی میری اولادسے(بھی امام بنا)توخداوندنےفریایامیراعھد(امامت)ظالموں کو نہیں ملےگا(تمہاری اولاد سےجومعصوم ھیں فقط وھی اس مقام کےلائق ھیں)
َإِذِ ابْتَلي إِبْراهيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتي قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمين . البقره / 124
اس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتاھے کہ حضرت ابراھیم.ع نبی توپھلےتھےھی تو جب خداوندنےان کو مذید آزمالیاتوامامت کا عھدہ عطا کیا پس یہ واضح دلیل ھے کہ امامت نبوت سےافضل ھےاور آزمائےھوئے لوگوں کو ملتاھےجن سےخداوندتعالی راضی ھوپھر حضرت ابراھیم.ع نےاسی آیت میں دعاکی کہ خدایا میری اولادسےبھی امام بنا توخداوند تعالی نےفرمایا میں ظالم کو امام نہیں بناؤں گا تو معلوم ھوا حضرت ابراھیم.ع کی اولاد سےخداوندمعصوم لوگوں کو امام بناسکتاھے تو آیت تطھیراور آیت مباھلہ پنجتن پاک کےمعصوم ھونےکی واضح ترین دلیل ھےجبکہ اولاد حضرت ابراھیم.ع میں رسول پاک.ص کےبعد حضرت علی۔ع اور ان کےگیارہ بیٹوں سےافضل کوئی پیدانہیں ھوا علم ھو یا جنگ کا میدان ان کی افضلیت کو سب نےقبول کیا توپس یہ دلیل بہترین دلیل ھے امامت کی اور حضرت ابراھیم.ع کا نبی کےبعد امام بننا دلیل ھے امامت کےنبوت سےافضل ھونےکی
کتب اہلسنت سےتمام مواردذکرکیےگئےھیں نیزامام مھدی.ع کاحضرت عیسی.ع کےھوتےھوئے امامت کرواناان کاشیخین سےافضل ھوکر رسول پاک.ص کےبرابر ھونا حسنین علیھم السلام کا جنت کےسردار ہونا حضرت علی۔ع کا ان سےافضل ھونا اور ان جیسےدسیوں دلائل ہیں جن سے اھلبیت علیھم السلام کی افضلیت ثابت ھے اور ھم اختصارکی بناء پر نقل نہیں کرپائےاب یہ قاری پر منحصر ھے کہ کیا وہ حقیقت کو قبول کرتاھے اکثر ایساہوتاھے کہ لوگ اپنی ھی کتابوں میں موجود فضائل اھلبیت پر آکراٹک جاتےھیں کسی بھی قاری کو ایسامحسوس ھوتوسمجھ لیں آپ حق کادامن چھوڑرھےھیں
رھی یہ بات کہ کیا حضرت علی و آئمہ علیھم السلام کوانبیاء سےافضل کہنےپر توھین رسالت ہوتی ھے یانہیں تو اس موضوع پر توھین رسالت کا عقیدہ رکھنےوالا یوں سمجھےکہ وہ نبوت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ کاانکارکررھاھے کیونکہ حدیث رسول پاک.ص کاانکار خود اہلسنت علماء کی نظرمیں کفرھے
جبکہ توھین رسالت ان کتب میں موجودھے جن سےروایات لےکرسلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسےملحد شیطانی آیات جیسی کتابیں لکھتےھیں یاتوھین صحیح بخاری و صحیح مسلم جیسی کتب میں ھےجن سےموادلےکر یورپ والے آئےدن توھین کی ویڈیوز بناکرنشرکرتےھیں
حق بات کی پیروی کرنےوالوں کو ھمارا سلام ھو
وما علینا الا البلاغ المبین والحمدللہ رب العالمین
ملتمس دعا شاہ رضوان علوی

اثبات خلافت و امامت امیرالمومنین حضرت علی علیه السلام


بسم اللہ الرحمن الرحیم
اثبات امامت
اثبات امامت کےدلائل کےطورپر ھم چند آیات و روایات کا ذکر کریں گےجیساکہ سب دوستان کو معلوم ھے کہ عقائد میں تحقیق کرنا ھر شخص پر واجب ھےکونسافرقہ سچاھےکس کی بات مانیں تو سب سےبہتر بات کی اتباع کرناحکم خداوندی ھے
خداوند تعالی نے قرآن پاک میں اپنے بندوں کو بشارت دیتےھوئے فرمایا کہ جو لوگ سنتےتو سب کی بات ھیں مگر اتباع سب سےاچھےقول کی کرتےھیں وھی عقل مند اور ھدایت یافتہ ہیں
فَبَشِّرْ عِبَادِي الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمْ اللهُ وَأُوْلَئِكَ هُمْ أُوْلُوا الاَلْبَابِالزمر 17 - 18
امت محمدی میں فرقہ بندی
رسول پاک.ص نےفرمایا کہ میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ھوگی
قَالَ أَبُو عِيسَي: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مُفَسَّرٌ.
سنن الترمذي: ج4، ص134 ح 2778.
وصحّحه الحاكم المستدرك: ج 1 ص 6
ایک اور حدیث میں ھے
میری امت 73 فرقوں میں تبدیل ھوگی سب جہنمی ہیں مگر ان میں سےایک جنتی ھے
وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَي ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً.
سنن الترمذي ج 4 ص 135 ح 2779
پس لازم ھے ھر شخص اپنےمذھب کی تحقیق کرےکہ شیعہ سچے ھیں یا سنی یہاں تک کہ اس کو یقین حاصل ھوجائے کہ کیا وہ رسول پاک۔ص کےاحکام پر عمل کررھاھے یا مثلا رسول پاک۔ص نے کس کی پیروی کا حکم دیا
یا مثلا کون عالم ھےجس کی پیروی کرکےانسان کامیاب ھوسکتاھے
شیعت کی سچائی کےدلائل
تمام مذھب یہ دعوی کرتےھیں کہ وہ سچےھیں اور باقی سب جھوٹےھیں مگر ان میں سےایک ھی مذھب ھےجو اپنی سچائی کیلیے قرآن و سنت سےاور حتی کتب مخالفین سے بھی معتبر دلائل رکھتاھے مثلا بارہ اماموں کا نظریہ کتب اھلسنت میں بھی موجود ھے مگر ھر اھلسنت عالم نےان بارہ اماموں کی اپنی مرضی کی تاویل کی ھے مثلا بعض یزید کو بھی امام کہتےھیں و بعض نہیں و خلافت راشدہ و سالوں کی تقسیم و بعض ھر حاکم کو امام کہتےھیں چاھےجو بھی ھو وغیرہ مگر شیعہ دشمنی میں ایسےالجھن میں پھنسے کہ قیامت تک نہیں نکل سکیں گے بحرحال ھم ان دلائل میں سے بعض کو بیان کرتےھیں
امام کا ضروری ھونا
جو بھی امام کےبغیر مر جائے وہ جاھلیت کی موت مرا
من مات بلا إمام مات ميتة جاهلية
صحیح مسلم جیسی معتبر کتاب میں آیاھے کہ رسول پاک۔ص نےفرمایا جو اس حال میں مرا کہ کسی کی بیعت اس کی گردن میں نہ ھو وہ جھالت کی موت مرا(جھالت کی موت یعنی شرک)
وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً.
صحيح مسلم: ج 6 ص 22 ح 4686.
احمد بن حنبل اپنی مسند میں لکھتےھیں جو امام کےبغیر مرگیا وہ جھالت کی موت مرا
من مات بغير إمام مات ميتة جاهلية.مسند أحمد ج 4 96.
فقط شیعہ مذھب ھی وہ مذھب ھے جو بعد رسول صلي الله عليه وآله امامت کےسائے میں رھا اور اس شان سے رسول پاک۔ص کی احادیث امامت پر عمل کیا کہ نام ھی امامیہ پڑ گیا ھر دوست دشمن شیعہ کو امامیہ کہ کرپکارنےلگے
اور شیعوں ھی کی گردن میں درجہ بدرجہ پھلےامام حضرت علی سےلیکر امام مھدی علیھماالسلام تک کی بیعت موجود ھےجبکہ باقی مذاھب ابھی تک یہ حل نہیں کرسکے کہ امامت کہاں سے شروع ھوئی اور کون کون امام ہونگے جبکہ بارہ اماموں کا واضح حکم صحیحین معتبر ترین کتب میں بھی موجود ھےاور قرآن پاک میں بھی
بارہ خلفاء کا حکم
خلفائي اثناعشر
شیعہ و سنی دونوں نےصحیح سند سےمتواترنقل کیاھے کہ رسول پاک۔ص نے تاکید کی ھےقیامت تک میرےفقط بارہ جانشین ہونگے
صحیح مسلم میں ھے کہ رسول خدا صلي الله عليه وآله نےفرمایا
یہ امر(اسلام)منتقض نہیں ھوگا یہاں تک کہ مسلمانوں میں بارہ خلیفہ نہ گزریں
إِنَّ هَذَا الأَمْرَ لاَ يَنْقَضِي حَتَّي يَمْضِيَ فِيهِمُ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً
صحيح مسلم ج6ص3 ح4598
در اھلبیت چھوڑنےکا نتیجہ یہ ھوا کہ کوئی بھی مذهب مذھب حقه اثنی عشريہ کےعلاوہ اس روایت کےمطابق اپنے مذھب کو تطبیق نہیں دےسکا اور بعض اھلسنت علماء نےتو تصریحا کہا کہ وہ اس روایت امامت کا مطلب نہیں سمجھ سکےاور کسی بھی عالم اھلسنت نےاس روایت کا دقیق و قاطعانہ معنی یا نظریہ ذکر نہیں کیاھےابن حجر عسقلانی کہتاھے
میں نے آئمہ اثنا عشر والی روایت کےبارےمیں بہت تحقیق کی ھے اور تمام احتمالات کا ملاحظہ کیا اور دوسروں سےبھی سوال کیاھے مگر ایسےکسی ایک کو بھی نہیں دیکھا جواس روایت کےحقیق معنی کو سمجھ سکاھو
قد أطلت البحث عنه، وتطلّبت مظانّه، وسألت عنه، فما رأيت أحدا وقع علي المقصود به.
فتح الباري ج 13 ص 181.
اس سےظاھر ھوتاھےکہ یہ روایت فقط مذھب شیعہ ھی کے اعتقادات کےمطابق ھےاور فقط مذھب شیعہ ھی ھے جس کےپاس قرآن و حدیث کےمطابق دلائل موجود ہیں جن میں سےبعض کاذکر کرتےھیں
ولایت علی علیہ السلام قرآن میں
قرآن پاک میں بہت سی آیات ھیں جو مستقیم یاغیر مستقیم امامت حضرت علی۔ع پر دلالت کرتی ھیں
آيه ولايت
تمہارا سرپرست و صاحب امر فقط خداوند اس کا رسول۔ص اور وہ ھیں جو ایمان لائے اور نماز قائم کرتےھیں اور حالت رکوع میں ذکات دیتےھیں
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ ءَامَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَهُمْ رَ كِعُونَ
المائدة 55
طبری اپنی تفسیر میں لکھتاھےیہ آیت حضرت علی بن ابی طالب کی شان میں نازل ھوئی ھےاور اس نےرکوع کی حالت میں ذکات دی
{إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ} الآية. نزلت في علي بن أبي طالب تصدق وهو راكع.
تفسير الطبري ج 6 ص 390
اسی طرح ابن ابی حاتم نےاپنی تفسیر میں کہا یہ آیت حضرت علی۔ع کےبارےمیں نازل ھوئی جب انہوں نےحالت رکوع میں ذکات دی
تفسير ابن أبي حاتم ج 4 ص1162.
ابن تيميہ تفسير طبري و تفسير ابن ابي حاتم کےبارےمیں کہتاھے کہ یہ دونوں تفسیریں ایسی ہیں کہ ان میں نقل شدہ روایات تفسیر قابل اعتماد ہیں
تفاسيرهم متضمّنة للمنقولات التي يعتمد عليها في التفسير.
منهاج السنة ج7 ص179
آلوسی اپنی تفسیر میں اس آیت شریفہ کےبارےکہتاھے اکثر صاحبان روایت اس عقیدےپر ہیں کہ یہ آیت حضرت علی کرم اللہ وجھہ کےبارےمیں نازل ھوئی
وغالب الأخباريّين علي أنّ هذه الآية نزلت في علي كرّم اللّه وجهه.
روح المعاني، ج6، ص167.
آلوسی پھر کہتاھے بہت سارےمحدثین کےنذدیک یہ آیت حضرت علی۔ع کی شان میں نازل ھوئی
والآية عند معظم المحدثين نزلت في علي.
روح المعاني، ج6، ص186.
آيه ابلاغ
آیت ابلاغ کا حضرت علی۔ع کی شان میں نازل ھونا
ائےپیغمبر۔ص کہ دیجیےجوحکم آپ کےپروردگار کی طرف سے آپ پرنازل ھوااس کو لوگوں تک پھنچادیجیےاگر آپ نےوہ حکم نہ پھنچایا(توایسےھےجیسے)آپ نےاپنی رسالت کو انجام نہیں دیاخدا آپ کولوگوں(کےشر)سےبچائےگا
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ المائدة 67
ابن أبي حاتم داپنی تفسير میں ابو سعيد خدری سےنقل کرتےھوئےکہتاھےیہ آیت حضرت علی۔ع کےبارےمیں نازل ھوئی ھء
نزلت هذه الآية... في علي بن أبي طالب.
تفسير ابن أبي حاتم ج 4 ص1172
آلوسی اپنی تفسيرمیں کہتاھےھم پیغمبر۔ص کےزمانےمیں اس آیت کوھم ایسےپڑھاکرتےتھےوہ حکم جو تمہارےرب کی طرف سےتم پر اترا ھےکہ(علی مومنین کا ولی ھے)اس کو بطور کامل لوگوں تک پھنچادواور اگر نہ پھنچایاتوتم نےرسالت کو انجام نہیں دیا
روي ابن مردويه عن ابن مسعود قال كنا نقرأ علي عهد رسول الله (ص): بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ إنّ عليّاً وليُّ المؤمنين وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ.
روح المعاني ج6ص193
یعنی ولایت و امامت حضرت علی علیہ السلام رسول پاک۔ص کےبعد اتنی اھم تھی کہ اگر اس کا حکم لوگوں تک نہ پھنچایاجاتاتو رسالت ھی تکمیل تک نہ پھنچتی
کیونکہ بعدازرسول پاک۔ص ھدایت کیلیے امامت کا ھونا بہت ضروری تھا اس لیےتاکید کی گئی اور دشمنان ولایت حضرت علی۔ع اس وقت بھی تھےاسی لیےخداوندتعالی نےفرمایا کہ آپ حکم ولایت کوپھنچائیں لوگوں کےشر سے خداوندتعالی آپ کوبچانےوالاھے
سيوطي نےاس روايت کو یوں بیان کیاھےوہ حکم پھنچادیجیےجو آپ کےرب کی طرف سےآپ پر نازل ھواکہ علی مومنین کا ولی ھےاگر
یہ حکم آپ نےنہیں پھنچایاتو آپ نےاپنی رسالت کو انجام نہیں دیا
بَلِّغْ مَا اُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ إنّ علياً مَولَي المؤمنين وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ
الدر المنثور ج2ص298 و فتح القدير ج 2 ص60 والمنار ج 6ص463
آیت تکمیل دین
آج میں نےتمہارےدین کو تمہارےلیےکامل کردیا اور اپنی تعمتیں تم پر تمام کردیں اورتمہارےلیےدین اسلام پر راضی ھوا
أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الاِْسْلاَمَ دِيناً
المائدة 3
خطيب بغدادي نے سند معتبرکےساتھ نقل کیا ھے کہ یہ روایت حضرت علی۔ع کی شان میں اتری
غدیر کےدن جب رسول اکرم.ص نےعلی بن ابی طالب کا ھاتھ پکڑا اور پھر فرمایاکیا میں مومنوں کا سرپرست نہیں ھوں؟
توسب نےکہاہاں ائےرسول اللہ تو رسول پاک۔ص نےفرمایا جس کا میں مولاھوں اس کا علی مولا ھےپس عمر نےکہا مبارک ھومبارک ھوائے ابوطالب کےبیٹےآج کےبعد تم میرےاور ھرمومن و مومنہ کےمولا بن گئےپس یہ آیت نازل ھوئی کہ آج تمہارےدین کو کامل کردیاھے
وَهُوَ يَوْمُ غَدِيرِ خُمٍّ لَمَّا أَخَذَ النَّبِيُّ (ص) بِيَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: " أَلَسْتُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ؟ "، قَالُوا: بَلَي يا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " مَنْ كُنْتُ مَولاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاهُ "، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: بَخٍ بَخٍ لَكَ يَابْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصْبَحْتَ مَوْلايَ وَمَوْلَي كُلِّ مُسْلِمٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ__الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ
تاريخ بغداد ج8 ص284
ابن كثير نےنقل کیاھے کہ عمر خطاب نے اميرمؤمنان عليه السلام سےکہاآج سےتم ھر مومن کےمولا ھوگئے
أصبحت اليوم ولي كل مؤمن.
البداية والنهاية ج 7 ص350.
ولايت علي بن ابي طالب درسنت محمدی
حديث ولايت
علماي اهل سنت نےصحیح سندسے نقل كیاھےکہ رسول خدا صلي الله عليه وآله نےفرمایا
علی مجھ سےاور میں علی سےھوں اور علی میرےبعد ھر مومن کا مولا ھے
إنّ عليّا منّي وأنا منه وهو وليّ كلّ مؤمن بعدي.
حاكم نيشابوري روایت کو نقل کرنےکےبعد کہتاھے
صحيح علي شرط مسلم.
یہ روایت صحیح مسلم کی شرائط کی بناء پر صحیح ھے
المستدرك ج 3 ص 110.
شمس الدين ذهبي تلخيص المستدرك میں کہتاھے یہ روایت صحیح ھے
محمد ناصر الدين الباني نےاس روایت کو صحیح کہاھےحاکم و ذھبی کی تصحیح کو قبول کرتےھوئے
صحّحه الحاكم الذهبي وهو كما قالا.
السلسلة الصحيحة، ج5، ص222.
کلمہ ولی کا خلافت پردلالت کرنا
اس کلمہ کا دقیق معنی سمجھنےکیلیےھم اسی زمانےکےچند موارد کا ذکرکرتےھیں
ابوبکر نےکلمہ ولی کو استعمال کرتےھوئےکہا میں تمہارا خلیفہ بن گیاھوں جبکہ تم سےبہتر نہیں ھوں(ولی کا معنی خلیفہ)
قال ابوبكر: قد وُلِّيتُ أمركم ولست بخيركم. إسناد صحيح.
البداية والنهاية ج 6 ص 333.
مسلم نے صحيح میں عمر بن خطاب سےنقل کیاھےکہ اس نے(کلمہ ولی کو استعمال کرتےھوئے)کہاجب رسول پاک۔ص فوت ہوگئےتوابوبکرنےکہا میں جانشین رسول ھوں پھر ابوبکر فوت ھوا تومیں جانشین رسول۔ص بنا(ولی کا معنی جانشین)
فلمّا توفّي رسول اللّه قال أبو بكر: أنا وليّ رسول اللّه (ص)... ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْر وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ (ص) وَوَلِيُّ أَبِي بَكْر.
مسلم ج5 ص 152 ح 4468.
ان روایات سےظاھر ھے کہ کلمہ ولی کا معنی دوست و ناصر نہیں کیاجاسکتااگر اس کا دوست معنی کریں تو معنی یہ ہوگا کہ ابوبکروعمر نےکہاھم رسول پاک۔ص کی زندگی میں تمہارےدوست نہیں تھے ان کی وفات کےبعد دوست بن گئےیعنی رسول پاک۔ص نےکلمہ ولی کو جانشین کےطورپر استعمال کیا اور شیخین نےبھی اور غدیر خم نص ھےخلافت حضرت علی۔ع پر جبکہ اھلسنت فقط فرار کی خاطر دوست معنی کرکےحقیقت سےجان چھڑاتےھیں
خلافت کی حدیث
ابن أبي عاصم كتاب السنهء میں لکھتاھےکہ رسول خدا صلي الله عليه وآله نے اميرمؤمنان عليه السلام کو خطاب کرتےھوئےفرمایا یاعلی تومیرےبعد میری امت میں میرا جانشین ھے
وأنت خليفتي في كلّ مؤمن من بعدي
الباني روایت کی تصحیح کرتےھوئےکہتاھےروایت حسن ھے
إسناده حسن.
كتاب السنة لابن أبي عاصم، ص551.
حاكم نيشابوري نےاس روایت کو یوں نقل کیاھےکہ رسول پاک۔ص نےحضرت علی۔ع سےفرمایا
سزاوار نہیں کہ میں لوگوں کےدرمیان سےچلاجاؤں مگر یہ کہ تم میرےخلیفہ ھو(یعنی حضرت علی۔ع کا امت میں خلیفہ کی صورت موجودھوناخود رسول پاک۔ص کاموجودہوناھے)
إِنَّهُ لا يَنْبَغِي أَنْ أَذْهَبَ إِلا وَأَنْتَ خَلِيفَتِي.
المستدرك ج3 ص133.
الباني وهابي روایت کےبارےمیں کہتاھےروایت صحیح ھےجیسا کہ ذھبی اور حاکم نےاس روایت کو صحیح کہاھے
صحّحه الحاكم والذهبي وهو كما قالا.
السلسلة الصحيحة ج 5 ص222.
حديث امامت
ابونعيم اصفهاني نے معرفهء الصحابه میں معتبر سند کےساتھ نقل کیاھے كه رسول خدا صلي الله عليه وآله نےفرمایاشب معراج جب میں سدرہ المنتھی پر پھنچا توخداوندتعالی نےعلی کےبارےمیں مجھےتین چیزوں کی وحی کی علی پرھیزگاروں کا امام مسلمانوں کاسرداراور سفیدچھرےوالوں کی جنت کی طرف رہنمائی کرنےوالاھے
انْتَهَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي إِلَي السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَي، فَأُوحِيَ إِلَيَّ فِي عَلِيٍّ بِثَلاثٍ: «أَنَّهُ إِمَامُ الْمُتَّقِينَ، وَسَيِّدُ الْمُسْلِمِينَ، وَقَائِدُ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ إِلَي جَنَّاتِ النَّعِيمِ».
معرفة الصحابة، ج 3 ص 1587
روايت معتبرھےجیساکہ حاکم نےکہا
صحيح الاسنادالمستدرك ج3 ص138
یہ تمام۔دلائل ثابت کرتےھیں کہ حضرت علی علیہ السلام اللہ کےولی ہیں اور غدیر کےدن رسول پاک۔ص نےحضرت علی۔ع کی جانشینی کا اعلان فرمایاتھا دوستی کا نہیں اور اسی جانشینی کےبعد تکمیل دین کی آیت اتری اور مختلف احادیث رسول پاک۔ص سےبھی ھم نےثابت کردیاکہ رسول پاک۔ص نےفرمایا یاعلی تم میرےبعد میرےخلیفہ ھوھر منصف مزاج شخص خود فیصلہ کرسکتاھے
حبکہ ابوبکر عمر اور عثمان کی خلافت نہ ھی قرآن سےثابت ھے اور نہ ھی صحیح حدیث سےثابت ھےحتی کتب اھلسنت سےاسی لیےکہاجاتاھےکہ خلافت شیخین پر امت کا اجماع تھاجبکہ خود علماء اھلسنت اقرارکرتےھیں کہ اجماع موجود نہیں تھا مثال کےطور پر بعض انصار و اھلبیت و زبیر بن العوام اور ان کےچاھنےوالےکوئی بھی اس اجماع میں شریک نہیں تھاتوکیسااجماع؟
خود عمر کہتاھے ابوبکر کی خلافت جلدبازی(فلتہ)میں ھونےوالا ایک کام تھا
بحرحال ھم نےتمام دلائل بیان کردیےھیں وہ بھی کتب اھلسنت سے سب منصف مزاج لوگ انصاف کرسکتےھیں
ملتمس دعا شاہ رضوان علوی

Thursday, June 21, 2018

انقلاب اسلامی ایران کے پر دشوار مراحل میں امام خمینی (رح) کا قائدانہ کردار

بیس جمادی الثانی۱۳۲۰ ہجری قمری مطابق۲۴ستمبر۱۹۰۲عیسوی کو ایران کے صوبہ مرکزی کے شہرخمین میں بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طیب وطاہر نسل کے خاندان میں آپ ہی کے یوم ولادت با سعادت پر روح اللہ الموسوی الخمینی کی پیدائش ہوئی۔ وہ اپنے آباؤ اجداد کے اخلاق حسنہ کے وارث تھے جنہوں نے نسل درنسل لوگوں کی ہدایت ورہنمائی اورمعارف الہٰی کے حصول کے لئے خود کو وقف کررکھا تھا۔ یہ وہ گھرانہ تھا جو اعلی علمی مفاہیم سے مکمل طور پر آشنا تھا ۔امام خمینی کے پدربزرگوار آیت اللہ سید مصطفی مرحوم جو آیت اللہ العظمی میرزای شیرازی کے ہم عصر تھے نجف اشرف میں اسلامی علوم کے اعلی مدارج طے کرنے کے بعد درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے اور پھر ایران واپس آ گئے اور شہر خمین میں تبلیغ و ہدایت کے فرائض انجام دینے لگے۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کو ابھی پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہیں گذرا تھا کہ حکومت وقت کے ایجنٹوں نے ان کے والد بزرگوار کی ندائے حق کا جواب بندوق کی گولیوں سے دیا اور انیں شہید کردیا ۔ جب تیرہ سو چالیس ہجری قمری کو آیت اللہ العظمی شیخ عبدالکریم حائری یزدی نے قم کی جانب ہجرت کی اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بھی قم کی جانب روانہ ہوگئے اور آپ نے بڑی ہی تیزی کے ساتھ دینی اور حوزوی علوم حاصل کئے اور درجہ اجتہاد پر فائزہوئے۔ اس زمانے میں آپ نے حوزوی دروس جن اساتذہ سے حاصل کئے ان میں مرحوم آقامیرزا محمدعلی ادیب تہرانی، مرحوم آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری، مرحوم آیت اللہ سید علی یثربی کاشانی اور زعیم حوزہ علمیہ قم آیت اللہ العظمی حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی رضوان اللہ علیہم کا نام لیا جاسکتا ہے سن۶۲۔۱۹۶۱ میں صوبائی اور ضلعی کونسلوں کی تشکیل کے دوران عوام اور علماء کی تحریک میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ اس طرح علماء اور عوام کی ملک گیرتحریک ایرانی عوام کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغازثابت ہوئی ۔ پندرہ خرداد کوشروع ہونے والی یہ تحریک دو اہم خصوصیات اپنے اندر لے کر اٹھی۔ ایک حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی متفق علیہ قیادت اور دوسرے اس تحریک کا اسلامی تشخص، چنانچہ آگے چل کر اس تحریک کو ایران کے اسلامی انقلاب سے جانا اور پہچانا جانے لگا ۔۱۰بہمن۱۳۱۵ ہجری شمسی (۳۰ جنوری ۱۹۳۷) کو آیت اللہ العظمی حایری کی رحلت کے بعد حوزہ علمیہ قم کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔
چنانچہ حوزہ علمیہ قم کے علماء نے فورا چارہ اندیشی شروع کردی ۔ اس دوران آٹھ برسوں تک آیت اللہ العظمی حجت، آیت اللہ العظمی سید صدرالدین صدر اور آیت اللہ العظمی سید محمد تقی خوانساری رضوان اللہ علیہم نے اس دینی مرکز کی سر پرستی فرمائی۔ اس دوران بالخصوص رضاخان کی حکومت کے خاتمے کے بعد مرجعیت عظمی یعنی ایک بزرگ مرجع کے سامنے آنے کا ماحول سازگار ہو گیا۔ آیت اللہ العظمی بروجردی ایک عظیم علمی شخصیت تھے جو مرحوم آیت اللہ العظمی حایری کے مناسب جانشین بن سکتے تھے اور حوزہ علمیہ قم کی زعامت سنبھال سکتے تھے ۔ چنانچہ یہ بات آیت اللہ حایری کے شاگردوں اورخاص طورپر حضرت امام خمینی رحمت اللہ کی طرف سے آیت اللہ بروجردی کے سامنے رکھی گئی اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے آیت اللہ بروجردی کو بروجرد سے قم تشریف لانے اور حوزہ کی زعامت قبول کرنے کے لئے راضی کرنے کی بھرپورکوشش کی۔
اس دوران حضرت امام خمینی رحمت اللہ نہایت باریک بینی کے ساتھ معاشرے اور حوزہ علمیہ پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے اور حالات حاضرہ کے بارے میں کتابوں اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور ساتھ ہی تہران رفت و آمد اور آیت اللہ مدرس جیسی عظیم علمی اور سیاسی شخیصتوں سے کسب فیض کیاکرتے تھے۔ چنانچہ آپ یہ سمجھ گئے تھے آئینی انقلاب اور خاص طورپر رضاخان کے برسراقتدار آنے کے بعد کی ذلت آمیزصورت حال سے نجات کا واحد راستہ حوزہ علمیہ کی بیداری اور علما کے ساتھ عوام کا معنوی رابطہ ہے حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے اپنے مقدس اور الہی مشن کی خاطر۱۳۲۸ ہجری شمسی (۱۹۵۰۔۱۹۴۹) میں آیت اللہ مرتضی حایری کے تعاون سے حوزہ علمیہ کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاح کا لائحہ عمل تیار کرکے آیت اللہ العظمی بروجردی کو پیش کیا۔ اس اقدام کا حضرت امام خمینی رحمت اللہ کے شاگردوں اور بیدار طلبہ نے بھرپورخیرمقدم کیا اور اس کی زبردست حمایت کی ۔
۱۶مہر۱۳۴۱(۸ اکتوبر۱۹۶۲) کو صوبائی ضلعی کونسلوں کا بل امیر اسداللہ کی کابینہ میں پاس ہوا جس کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے امیدوار کے مسلمان ہونے، قرآن کریم کے ذریعہ حلف اٹھانے، رائےدہندگان اور خود امیدوار کے لئے مرد ہونے کی شرط ختم کردی گی البتہ خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی کچھ دیگر مقاصد پر پردہ ڈالنے کے لئے تھی۔ پہلی دوشرطوں کو ختم کرنے کا مقصد بہائی عناصر کوملک کے معاملات میں مکمل طورپر دخیل کرنے کو قانونی شکل دینا تھا کیونکہ شاہ کے لئے امریکہ کی حمایت کی شرط یہ تھی کہ ایران اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے اور ایران کے تینوں اہم اداروں یعنی مجریہ، مقننہ اورعدلیہ میں سامراجی مسلک بہائیت کے پیروکاروں کی موجودگی اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات میں فروغ کویقینی بناسکتی تھی۔ البتہ حکومت نے اس بل کے تعلق سےحالات کا اندازہ لگانے میں سخت غلطی کی چنانچہ اس بل کی منظوری کی خبر شائع ہوتےہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نےقم اورتہران کے بزرگ علماء سے صلاح ومشورہ کرنے کے بعد بھرپور احتجاج کیا ۔ شاہی حکومت کے عزائم سے پردہ ہٹانے اوراس حساس صورت حال میں علما اور حوزہ علمیہ کی خطیر ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بہت ہی اہم کردار ادا کیا ۔
شاہ اور وزیراعظم اسداللہ علم کے نام علماء اور حوزہ علمیہ کے خطوط اور کھلے مراسلوں نے پورے ملک میں شاہی حکومت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاجی لہردوڑا دی۔ شاہ اور وزیراعظم کے نام حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ٹیلی گراموں کا لب و لہجہ بہت ہی تند اور سخت تھا ۔ ایک ٹیلی گرام میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں تمہیں ایک بار پھر نصیحت کرتا ہوں کہ خداوند متعال کی اطاعت اور بنیادی آئین کی پیروی کرو اور قرآن، علما قوم اور مسلمان زعما کے احکام کی خلاف ورزی اور بنیادی آئین سے سرپیچی کے برے انجام سے ڈرو اور جان بوجھ کر اور بلاسبب ملک کو خطرے میں مت ڈالو بصورت دیگر علما اسلام تماںرے بارے میں اپنے نظریے بیان کرنے سے گریز نہیں کریں گے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے اپنے مقدس اور الہی مشن کی خاطر ۱۳۲۸ہجری شمسی (۱۹۵۰۔۱۹۴۹) میں آیت اللہ مرتضی حایری کے تعاون سے حوزہ علمیہ کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاح کا لائحہ عمل تیار کرکے آیت اللہ العظمی بروجردی کو پیش کیا۔ اس اقدام کا حضرت امام خمینی رحمت اللہ کے شاگردوں اور بیدار طلبہ نے بھرپورخیرمقدم کیا اور اس کی زبردست حمایت کی ۔
۱۶مہر۱۳۴۱(۸ اکتوبر۱۹۶۲) کو صوبائی ضلعی کونسلوں کا بل امیر اسداللہ کی کابینہ میں پاس ہوا جس کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے امیدوار کے مسلمان ہونے، قرآن کریم کے ذریعہ حلف اٹھانے، رائےدہندگان اور خود امیدوار کے لئے مرد ہونے کی شرط ختم کر دی گی البتہ خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی کچھ دیگر مقاصد پر پردہ ڈالنے کے لئے تھی۔ پہلی دوشرطوں کو ختم کرنے کا مقصد بہائی عناصر کوملک کے معاملات میں مکمل طورپر دخیل کرنے کو قانونی شکل دینا تھا کیونکہ شاہ کے لئے امریکہ کی حمایت کی شرط یہ تھی کہ ایران اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے اور ایران کے تینوں اہم اداروں یعنی مجریہ، مقننہ اورعدلیہ میں سامراجی مسلک بہائیت کے پیروکاروں کی موجودگی اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات میں فروغ کویقینی بنا سکتی تھی۔ البتہ حکومت نے اس بل کے تعلق سےحالات کا اندازہ لگانے میں سخت غلطی کی چنانچہ اس بل کی منظوری کی خبر شائع ہوتےہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نےقم اورتہران کے بزرگ علماء سے صلاح ومشورہ کرنے کے بعد بھرپور احتجاج کیا ۔ شاہی حکومت کے عزائم سے پردہ ہٹانے اوراس حساس صورت حال میں علما اور حوزہ علمیہ کی خطیر ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بہت ہی اہم کرداراداکیا ۔ شاہ اور وزیراعظم اسداللہ علم کے نام علما اور حوزہ علمیہ کے خطوط اور کھلے مراسلوں نے پورے ملک میں شاہی حکومت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاجی لہردوڑادی۔ شاہ اور وزیراعظم کے نام حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ٹیلی گراموں کا لب و لہجہ بہت ہی تند اور سخت تھا ۔ ایک ٹیلی گرام میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں کہ میں تمہیں ایک بار پھر نصیحت کرتاہوں کہ خداوند متعال کی اطاعت اور بنیادی آئین کی پیروی کرو اور قرآن، علما قوم اور مسلمان زعما کے احکام کی خلاف ورزی اور بنیادی آئین سے سرپیچی کے برے انجام سے ڈرو اور جان بوجھ کر اور بلاسبب ملک کو خطرے میں مت ڈالو بصورت دیگر علما اسلام تماکرے بارے میں اپنے نظریے بیان کرنے سے گریزنہیں کریں گے ۔ 
بارہ فروردین۱۳۴۲(۱ اپریل۱۹۶۳) کو اپنے ایک خطاب میں علما قم ونجف اوردیگراسلامی ملکوں کے علما کی طرف سے شاہ کے ظالمانہ اقدامات پر اختیارکی گئی خاموشی پر کڑی تنقید کی اور فرمایاکہ آج خاموشی کامطلب ظالم وجابرحکومت کا ساتھ دیناہے۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے اگلے دن یعنی۱۳ فروردین۱۳۴۲(۲ اپریل۱۹۶۳) اپنا مشہور و معروف اعلامیہ جاری کیا جس کاعنوان تھا شاہ سے دوستی یعنی تباہی وبربادی میں تعاون ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں حیرت انگیز تاثیر اور مخاطبین پر آپ کی باتوں کے گہرے اثر کا راز صحیح فکر، مضبوط نظریے اور عوام کے ساتھ صداقت میں تلاش کرناچاہئے۔ چنانچہ لوگ بھی آپ کے فرمان پر ہمہ وقت اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔ 
۱۳۴۲ ہجری شمسی (۱۹۶۴۔۱۹۶۳) کانیا سال عیدنوروزکے بائیکاٹ سے شروع ہوا اور مدرسہ فیضیہ کے مظلوم طلبہ کے خون سے رنگین ہو گیا۔ شاہ، امریکہ کی مرضی کےاصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے پر مصرتھا اور حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اس سازش سے لوگوں کو آگاہ کرنے اورعوام کو امریکہ کی مداخلت اور شاہ کی خیانت کےمقابلے میں ڈٹ جانے پر راضی کر رہے تھے ۔ چودہ فروردین۱۳۴۲(۳ اپریل۱۹۶۳) آیت اللہ العظمی حکیم نے نجف اشرف سے ایران کے علما کے نام اپنے ٹیلی گرام میں فرمایاکہ سب کے سب ایک ساتھ نجف اشرف کی طرف ہجرت کریں۔ یہ تجویزعلما کی جان کی حفاظت اور حوزہ کے تقدس کو بچانے کے لئے پیش کی گئی تھی لیکن حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آیت اللہ العظمی حکیم کے ٹیلی گرام کاجواب ارسال کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ علما کا ایک ساتھ نجف چلاجانا اور حوزہ (قم کے دینی مرکز) کو خالی چھوڑ دینا مناسب نہیں ہے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ۱۲ اردیبہشت۱۳۴۲(۱۹۲۲۔۱۹۲۱) کو شہدائے فیضیہ کے چہلم کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں غاصب اسرائیل کے خلاف اسلامی ممالک کا ساتھ دینے کے لئے علما اور ایرانی عوام سے اپیل کی اور شاہ اوراسرائیل کے درمیان ہوئے معاہدوں کی مذمت کی ۱۳۴۲ ہجری قمری (۱۹۲۲۔۱۹۲۱) کا محرم جو خرداد کےمہینے سے مصادف تھا آن پہنچا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس مہینے کو شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف عوام کی تحریک میں تبدیل کردیا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے عاشورہ کی شام مدرسہ فیضیہ میں ایک تاریخی خطاب کیا جو پندرہ خرداد (چارجون) کی تحریک کا نقطہ آغازثابت ہوا۔ حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے اسی خطاب میں بلند آواز کے ساتھ شاہ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تجھے نصیحت کرتاہوں کہ اس طرح کے کاموں سے باز آ جا۔ تجھے بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ ایک دن سب لوگ تیرے جانے پر شکرادا کریں ... اگر ڈکٹیٹ کرکے سب کچھ تجھ سے کہلوایا جاتا ہے تو تو اس پر ذراغور کر. سن لے میری نصیحت . شاہ اور اسرائیل کے درمیان ایسا کیا رابطہ ہے کہ ساواک کہتی ہے کہ اسرائیل کے بارے میں کچھ مت بولو. کیا شاہ اسرائیلی ہے ؟ چودہ خرداد(۳جون) کی شام کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتارکیا گیا اور پھر پندرہ خرداد(چارجون) کو صبح صادق سے پہلے ساڑھے تین بجے تہران سے آئے ہوئے سیکڑوں کمانڈوز حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیتے ہیں اور جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے آپ کوگرفتارکرلیا جاتا ہے۔ خوفزدہ شاہی کمانڈوز انتہائی سراسیمگی کے عالم میں آپ کو قم سے تہران منتقل کرنے کے بعد پہلے تو آپ کو فوجی افسروں کی جیل میں بند کردیتے ہیں پھر اسی دن شام کو قصر نامی جیل میں منتقل کردیا جاتاہے۔
۱۸فروردین۱۳۴۳(۷ اپریل۱۹۶۴) کی شام کو کسی پیشگی اطلاع کے بغیر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کوآزاد کرکے قم ان کے گھر پہنچا دیا گیا۔ عوام کو جیسے ہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رہائی کی اطلاع ملی پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑگئی اورمدرسہ فیضیہ سمیت قم شہر کے گوشہ وکنارمیں کئی دنوں تک جشن منایاگیا۔ پندرہ خرداد کے واقعے اور شہدا کی پہلی برسی کے موقع پر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اوردیگر مراجع کرام کے مشترکہ بیان میں شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اورحوزہ علمیہ قم نے بھی ایک علحدحہ بیان جاری کرکے پندرہ خرداد کے واقعہ کی یاد میں اس دن عام سوگ منانے کا اعلان کیا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے چار آبان ۱۳۴۳(۲۶ اکتوبر۱۹۶۴) کو اپناانقلابی بیان جاری کیا اور اس میں تحریر فرمایا کہ دنیا کو جان لینا چاہئے کہ ایرانی عوام اور پوری دنیا کے مسلمان آج جس طرح کی بھی مشکلات اور مصائب میں گھرے ہیں اس کا باعث امریکہ اور بیرونی طاقتیں ہیں، مسلمان اقوام کو بیرونی طاقتوں سے عام طور پر اور امریکہ سے خاص طورپر نفرت ہے. یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کرتا ہے. یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کومضبوط بنا رہا ہے تاکہ عرب مسلمان بے گھر ہوجائیں۔
کیپچولیشن بل کے خلاف حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بیان کےباعث اسی سال آبان( نومبر) کے مہینے میں ایک اور تحریک کا آغاز ہو گیا ۔ ۱۳آبان۱۳۴۳(۴ نومبر۱۹۶۴) کی صبح کو ایک بارپھر مسلح کمانڈوز نے جو تہران سے قم پہنچے تھے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے گھرکا محاصرہ کرلیا اور حیرت کی بات یہ کہ ان کو ٹھیک اسی حالت میں گرفتارکیا گیا جس حالت میں ایک سال پہلے گرفتارکیا گیا یعنی جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو گرفتار کرکے سخت پہرے میں مہرآباد ہوائی اڈے پر منتقل کردیا گیا اور پھر وہاں سے ایک فوجی طیارے کے ذریعہ جو پہلے سے تیارکھڑا تھا آپ کو ترکی جلاوطن کر دیا گیا۔ اسی دن شام کو ساواک نے یہ خبر اخبارات میں شائع کی کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو ملکی سالمیت کے خلاف اقدام کرنے کی وجہ سے جلاوطن کر دیا گیا ۔ اس خبرکے شایع ہوتے ہی پورے ملک میں گھٹن کےماحول کے باوجود احتجاجی مظاہروں اور عام ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
دوکانیں اورتجارتی مراکز بند ہو گئے اور عوامی، سیاسی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے عالمی اداروں اور مراجع تقلید کو احتجاجی مراسلے اور ٹیلیگرام بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دوران دینی مراکز اور مدارس میں دروس بھی بند رہے۔ ترکی میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جلاوطنی کی مدت گیارہ مہینے کی رہی۔ تیرہ مہر۱۳۴۳(۵ اکتوبر۱۹۶۴) کو امام خمینی (رہ) اپنے بڑے بیٹے آیت اللہ الحاج آقا مصطفی خمینی کے ہمراہ ترکی سے عراق بھیج دئے گئے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ بغداد پہنچنے کے بعد کاظمین ، سامرا اور کربلا میں ائمہ اطہارعلمہ السلام اور شہدائے کربلا کی زیارت کے لئے روانہ ہو گئے اور ایک ہفتے کے بعد اپنی قیام گاہ یعنی نجف اشرف پہنچے۔ نجف اشرف میں آپ کے تیرہ سالہ قیام کا آغاز ایسے عالم میں ہوا کہ اگرچہ وہاں بظاہر ایران اور ترکی کی طرح بندش اور گھٹن نہیں تھی لیکن دشمن کے محاذ کی طرف سے مخالفتوں ، آپ کے راستے میں رکاوٹوں اور طعنہ زنی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور نہ صرف کھلے دشمنوں بلکہ عالم نمانام نہاد اور دنیا پرست عناصر کی طرف سے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف اقدامات اور بیان بازیاں اس قدر وسیع پیمانے پر اور اذیت ناک حد تک پہنچ گئی تھیں کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تمام تر صبر و تحمل کے باوجود جس کے لئے آپ خاص شہرت رکھتے تھے بارہا ان برسوں کو اپنی جدوجہد کے انتہائی سخت اورتلخ ترین سال سے تعبیر کیا لیکن یہ مصائب و آلام آپ کو آپ کو اپنے مشن سے باز نہ رکھ سکے ۔ آبان ماہ۱۳۴۴(نومبر۱۹۶۵) میں نجف اشرف میں واقع مسجد شیخ انصاری میں شروع کیا جو عراق سے پیرس کے لئے آپ کی ہجرت تک جاری رہا ۔
آپ کے دروس خارج کو کیفیت و کمیت کے اعتبار سے نجف اشرف میں دئے جانے والے دیگر دروس خارج میں اعلی ترین دروس میں شمار کیا جاتا تھا ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے نجف اشرف پہنچتے ہی ایران میں عوام اور اپنے انقلابی ساتھیوں کے نام خطوط اور بیانات ارسال کرکے انقلابیوں سے اپنے روابط کو برقرار رکھا اور انہیں ہر مناسبت پر پندرہ خرداد کی تحریک کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی تلقین فرمائی ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۹مہر۱۳۴۷ کو فلسطینی تنظیم الفتح کے نمائندے سے اپنی گفتگو میں عالم اسلام کے مسائل اور ملت فلسطین کے جہاد کے بارے میں اپنے موقف اور نظریات کی تشریح فرمائی اور اپنے اسی انٹرویو میں فرمایا کہ زکات کی رقومات میں سے کچھ حصہ فلسطینی مجاہدین سے مختص کرنا واجب ہے ۔۱۹۶۹ میں ایران کی شاہی حکومت اور عراق کی بعثی حکومت کے درمیان دونوں ملکوں کی آبی حدود کے مسئلے پر اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ عراقی حکومت نے عراق میں موجود ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد کو بدترین حالات میں عراق سے نکال دیا۔۱۳۵۰کے دوسرے نصف میں عراق کی بعثی حکومت اور شاہ کے درمیان اختلافات اور بھی شدت اختیار کرگئے اور عراق میں موجود ایرانیوں کو وہاں سے نکالا جانے لگا اور بہت سے ایرانی بے گھر کئے جانے لگے ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے عراقی صدر کے نام اپنے ایک ٹیلی گرام میں عراقی حکومت کے ان اقدامات کی سخت مذمت کی ۔ حضرت امام خمینی رحمۃاللہ علیہ نے اس صورت حال میں خود بھی عراق سے نکلنے کا فیصلہ کیا لیکن بغداد کے حکام نے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عراق سے چلے جانے کے بعد کے نتائج کو بھانپ لیا اور انہیں عراق سے نکلنے کی اجازت نہیں دی ۔ پندرہ خرداد۱۳۵۴ ہجری شمسی مطابق چار جون سن انیس سو پچہتر عیسوی کو قم کے مدرسۂ فیضیہ میں ایک بار پھر انقلابی طلباء نے ایک شاندار احتجاجی اجتماع منعقد کیا جو اجتماع تحریک کی شکل اختیار کرگیا ۔ دو دنوں تک جاری اس ایجیٹیشن کے دوران درود بر خمینی اور مرگ بر پہلوی، خمینی زندہ باد ، پہلوی حکومت مردہ باد کے نعرے گونجتے رہے ۔ شاہ نے اپنی مذہب مخالف پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے اسفند۱۳۵۴ مارچ انیس سو پچہتر ہجری شمسی کو ملک کی سرکاری تاریخ کو بیہودہ طریقے سے پجری کےبجائے ہخامنشی شاہوں کی سلطنت کے آغاز کی تاریخ سے تبدیل کردیا ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سخت رد عمل میں فتوی جاری فرمایا کہ بے بنیاد شہنشاہی تاریخوں سے استفادہ کرنا حرام ہے ۔ اس موہوم تاریخی مبدا اور آغاز سے بطور کلنڈر استفادے کی حرمت کے فتوے کا ایران کے عوام نے اسی طرح سے خیر مقدم کیا جس طرح سے رستاخیز پارٹی کی حرمت کے فتوی کا خیر مقدم کیا گیا تھا اور یہ دونوں ہی شاہی اقدامات شاہ کے لئے ذلت و رسوائی کا سبب بنے اور شاہی حکومت نے مجبور ہو کر انیس سو اٹھہر میں شاہنشاہی کیلنڈر سے پسپائی اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا۔ مرداد ماہ۱۳۵۶ مطابق انیس سو ستتر میں اپنے ایک پیغام میں اعلان فرمایا کہ اب ملکی اور غیر ملکی حالات اور شاہی حکومت کے جرائم کے عالمی اداروں اور غیر ملکی اخبارات میں بھی منعکس ہونے کی بنا پر علمی حلقوں، محب وطن شخصیتوں، ملک و بیرون ملک ایرانی طلباء اور اسلامی انجمنوں کو جہاں جہاں بھی ہوں یہ چاہئے کہ اس موقع سے فورا" فائدہ اٹھائیں اور کھل کر میدان میں آجائیں ۔یکم آبان ۱۳۵۶مطابق انیس سو ستتر کو آیت اللہ حاج آقا مصطفی خمینی کی شہادت اور ایران میں ان کے ایصال ثواب کے لئے منعقد مجالس اور پرشکوہ تعزیتی جلسے ایران کے حوزہ ہائے علمیہ اور مذہبی حلقوں کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئے ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وقت انتہائی حیران کن طریقے سے اس واقعہ کو خداوند عالم کے الطاف خفیہ سے تعبیر کیا ۔ شاہی حکومت نے روزنامہ اطلاعات میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں اہانت آمیز مقالہ شائع کرکے آپ سے انتقام لینے کی کوشش کی ۔
اس مقالے کی اشاعت کے خلاف قم میں ہونے والا احتجاجی مظاہرہ، رواں دواں انقلابی تحریک کو مہمیز دینے کاباعث بنا۔ اس احتجاجی مظاہرے کے دوران متعدد انقلابی طلباء شہید اور زخمی ہوئے ۔ شاہ اس احتجاجی مظاہرے میں طلباء کا قتل عام کرنے کے بعد احتجاج کے بھڑکے ہوئے شعلوں کو خاموش نہیں کرسکا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے نومبر انیس سو اٹھتر میں انقلابی کونسل تشکیل دی۔ شاہ سلطنتی کونسل کی تشکیل اور بختیار کی حکومت کے لئے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد سولہ جنوری انیس سو اٹھتر کو ملک سے فرار ہو گیا ۔ شاہ کے فرار کی خبر تہران شہر اور پھر پورے ایران میں پھیل گئی اور لوگ یہ خبر سن کر جشن منانے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ۔ جنوری انیس سو اٹھتر میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وطن واپسی کی خبریں نشر ہونے لگیں۔ جو بھی سنتا خوشی سے اس کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں ۔ لوگوں نے۱۴برسوں تک انتظار کی گھڑیاں گنی تھیں ۔ ساتھ ہی امام خمینی (رح) کے چاہنے والوں کو آپ کی جان کی سلامتی کے بارے میں بھی تشویش تھی کیونکہ شاہ کی آلۂ کار حکومت نے پورے ملک میں ایمرجنسی لگا رکھی تھی۔ حضرت امام خمینی رحمۃاللہ علیہ نے اپنا فیصلہ کرلیا اور ایرانی قوم کے نام اپنے پیغامات میں فرمایا تھا کہ وہ چاہتے کہ ان مستقبل ساز اور فیصلہ کن ایام میں اپنے عوام کے درمیان رہیں بختیار کی حکومت نے جنرل ہایزر کی ہم آہنگی سے ملک کے تمام ہوائی اڈوں کو غیر ملکی پروازوں کے لئے بند کردیا تھا ۔ 
مگر بختیار کی حکومت نے بہت جلد پسپائی اختیار کرلی اور عوام کے مطالبات کے سامنے وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔ امام خمینی (رہ)۱۲ بہمن۱۳۵۷ ہجری شمسی مطابق یکم فروری۱۹۷۹ کو چودہ برسوں کی جلا وطنی کے بعد فاتحانہ انداز میں ایران واپس تشریف لائے۔ ایرانی عوام نے آپ کا ایسا عدیم المثال اور شاندار تاریخی استقبال کیا کہ مغربی خبر رساں ایجنسیاں بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکیں اور خود مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ تہران میں چالیس سے ساٹھ لاکھ افراد نے امام خمینی (رہ) کا والہانہ استقبال کیا ۔سیاسی جدوجہد حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای بقول خود ان کے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے فقہی ، اصولی ، سیاسی اور انقلابی شاگردوں میں سے ہیں لیکن ان کے ذہن میں طاغوت کے خلاف دشمنی اور سیاست و جدوحہد کی پہلی کرن عظیم مجاہد اور شہید راہ اسلام سید مجتبی نواب صفوی نے ڈالی۔جب نواب صفوی چند فدائیان اسلام کے ساتھ سن۱۹۵۲ میں مشہد گئے تو انہوں نے مدرسہ سلیمان خان میں احیائے اسلام اور احکام الہی کی حاکمیت کے موضوع پر ایک ولولہ انگیز تقریر کی اور شاہ اور برطانیہ کے مکر و فریب اور ملت ایران سے ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کیا۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ان دنوں مدرسہ سلیمان خان کے نوجوان طالب علم تھے، نواب صفوی کی جوشیلی تقریر سے آپ بہت متاثر ہوئے ۔
آپ کہتے ہیں:اسی وقت نواب صفوی کے ذریعے میرے اندر انقلاب اسلامی کا جھماکہ ہوا چنانچہ مجھے اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ پہلی آگ نواب صفوی مرحوم نے میرے اندر روشن کی۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کے ہمراہ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سن۱۹۶۲ سے کہ جب آپ قم میں تھے اور محمد رضا شاہ پہلوی کی اسلام مخالف اور امریکہ نواز پالیسیوں کے خلاف امام خمینی کی انقلابی اور احتجاجی تحریک شروع ہوئی ، سیاسی جدوجہد میں شامل ہو گئے اور بے پناہ نشیب و فراز ، جلاوطنی ، قید و بند اور ایذاؤں کے باوجود سولہ سال تک جدوجہد کرتے رہے اور کسی مقام پر بھی نہیں گھبرائے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں پہلی ذمہ داری یہ سونپی کہ وہ ماہ محرم میں علمائے کرام کے تبلیغی مشن اور شاہ کی امریکی پالیسیوں کو آشکارہ کریں، ایران کے حالات اور قم کے واقعات کے بارے میں ان کا پیغام آیت اللہ میلانی اور خراسان کے علماء تک پہنچائیں ۔آپ نے یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی اور خود بھی تبلیغ کے لیے بیرجند شہر گئے اور وہاں تبلیغ کے ضمن میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پیغام کے تناظر میں پہلوی حکومت اور امریکہ کا پردہ چاک کیا چنانچہ آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور ایک رات قید رکھنے کے بعد اگلے دن آپ کو اس شرط پر رہا کیا گیا کہ آپ منبر پر نہیں جائیں گے اور پولیس کی نگرانی میں رہیں گے۔ پندرہ خرداد کے واقعے کے بعد آپ کو بیرجند سے مشہد لاکر فوجی جیل میں ڈال دیا گیا اور وہاں دس روز تک کڑی نگرانی میں رکھا گیا اور سخت ایذائیں دی گئیں۔

دوسری گرفتاریجنوری سن ۱۹۶۳ مطابق رمضان تیرہ سو تراسی ہجری قمری کو حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت کرمان گئے۔کرمان میں دو تین دن ٹھہرنے ،تقریریں کرنے اور اس شہر کے علماء اور طلبہ سے ملاقات کرنے کے بعد زاہدان چلے گئے۔آپ کی جوشیلی اور ولولہ انگیز تقریروں خصوصا" چھ بہمن کو شاہ کے جعلی ریفرنڈم اور انتخاب کی سالگرہ کے دن آپ کی تقریر کو عوام نے بے حد پسند کیا۔ پندرہ رمضان کو امام حسن علیہ السلام کی ولادت کے روز پہلوی حکومت کی شیطانی اور امریکی پالیسیوں کا پردہ چاک کرنے والی آپ کی جوشیلی اور ولولہ انگیز تقریریں اپنے عروج پر پہنچ گئیں چنانچہ شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک نے آپ کو راتوں و رات گرفتار کر کے ہوائی جہاز کے ذریعے تہران روانہ کر دیا۔ رہبر بزرگوار حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو تقریبا" دو ماہ تک قزل قلعہ نامی جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ دوران قید آپ نے مختلف قسم کی ایذائیں اور توہین آمیز سلوک برداشت کیا۔

تیسری اور چوتھی گرفتاریاںمشہد اور تہران میں آپ کے تفسیر و حدیث کے دروس اور اسلامی افکار و نظریات کا انقلابی نوجوانوں نے زبردست خیرمقدم کیا۔آپ کی ان سرگرمیوں سے شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک بھڑک اٹھی اور آپ کو گرفتار کرنا چاہا لہذا آپ نے سن۱۹۶۶ میں تہران میں روپوشی کی زندگی اختیارکرلی تاہم ایک سال بعد یعنی۱۹۶۷ میں آپ گرفتار کر لیے گئے ۔ رہائی کے بعد آپ کی انقلابی سرگرمیوں کے باعث ساواک نے آپ کو ایک بار پھر سن۱۹۷۰میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔

پانچویں گرفتاری
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای مدظلہ العالی ساواک کے ہاتھوں اپنی پانچویں گرفتاری کے بارے میں لکھتے ہیں:
سن ۱۹۶۹ سے ایران میں مسلح تحریک کے آثار محسوس کیے جا رہے تھے۔ خفیہ اداروں کی میرے بارے میں حساسیت بھی بڑھ گئی تھی انہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس قسم کی تحریک کا مجھ جیسے افراد سے تعلق نہ ہو۔ سن ۱۹۷۱ میں ایک بار پھر مجھے جیل میں ڈال دیا گیا۔جیل میں ساواک کے تشدد آمیز سلوک سے واضح طور پر ظاہر ہوتا تھا کہ اسے مسلح تحریک کے اسلامی فکر کے مراکز سے جڑے ہونے پر سخت تشویش ہے اور وہ اس بات کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے کہ مشہد اور تہران میں میرے نظریاتی اور تبلیغی مشن کا اس تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رہائی کے بعد میرے تفسیر کے عام دروس اور خفیہ کلاسوں کا دائرہ مزید بڑھ گیا۔

چھٹی گرفتاری
۱۹۷۱ اور۱۹۷۴ کے برسوں کے دوران حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے تفسیر اور انقلابی نظریات کے دروس اور تقاریر مشہد مقدس میں واقع مسجد کرامت ، مسجد امام حسین اور مسجد میرزا جعفر میں انجام پاتی تھیں جن میں انقلابی اور روشن فکر نوجوانوں اور طلبہ سمیت ہزاروں لوگ جوق در جوق شرکت کرتے تھے اور اسلام کے حقیقی نظریات سے آگاہ ہوتے تھے۔آپ کے نہج البلاغہ کے درس کا رنگ ہی کچھ اور تھا آپ کے نہج البلاغہ کے دروس فوٹو کاپی ہو کر لوگوں میں تقسیم ہوتے تھے۔ نوجوان اور انقلابی طلبہ جو آپ سے درس حقیقت اور جدوجہد کا سبق لیتے تھے ، ایران کے دور و نزدیک کے شہروں میں جا کر لوگوں کو ان نورانی حقائق سے آشنا کرکے عظیم اسلامی انقلاب کا راستہ ہموار کرتے۔ان سرگرمیوں کے باعث ۱۹۷۴عیسوی میں ساواک نے مشہد میں حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے گھر پر دھاوا بول دیا اور آپ کو گرفتار کر کے آپ کی بہت سی تحریروں اور نوٹس کو ضبط کر لیا۔یہ آپ کی چھٹی اور سخت ترین گرفتاری تھی۔آپ کو۱۹۷۵کے موسم خزاں تک قید میں رکھا گیا۔ اس عرصے کے دوران آپ کو ایک کوٹھڑی میں سخت ترین حالات میں رکھا گیا اور خود آپ کے بقول صرف وہی ان حالات کو سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے ان حالات کو دیکھا ہے۔ جیل سے رہائی کے بعد آپ مشہد مقدس واپس آ گئے اور ماضی کی طرح علمی ، تحقیقی اور انقلابی عمل کو آگے بڑھایا۔ البتہ آپ کو پہلے کی طرح کلاسوں کی تشکیل کا موقع نہیں دیا گیا۔

شہر بدری
ظالم پہلوی حکومت نے سن ۱۹۷۷کے اواخر میں حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو گرفتار کر کے تین سال کے لیے ایرانشہر شہر بدر کر دیا۔ سن ۱۹۷۸ کے وسط میں ایران کے مسلمان اور انقلابی عوام کی جدوجہد کے عروج پر پہنچنے کے بعد آپ شہر بدری سے آزاد ہو کر مشہد مقدس واپس آ گئے اورسفاک پہلوی حکومت کے خلاف عوام کی جدوجہد کی اگلی صفوں میں شامل ہو گئے ۔ راہ خدا میں انتھک جدوجہد اور سختیاں برداشت کرنے کا نتیجہ یعنی ایران کے عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی اور ظالم پہلوی حکومت کا سقوط اور اس سرزمین میں اسلام کی حاکمیت کے قیام کا مشادہ آپ نے اپنی آنکھوں سے کیا۔

کامیابی سے قبل
اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی پیرس سے تہران واپسی سے پہلے ان کی طرف سے شہید مطہری، شہید بہشتی، ہاشمی رفسنجانی وغیرہ کی مانند مجاہد علما اور افراد پر مشتمل کمیٹی شورائے انقلاب اسلامی قائم کی گئی۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر اس کمیٹی کے رکن بنے۔ شہید مطہری نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام آپ تک پہنچایا ۔ رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام ملتے ہی آپ مشہد سے تہران آ گئے۔