بیس جمادی الثانی۱۳۲۰ ہجری قمری مطابق۲۴ستمبر۱۹۰۲عیسوی کو ایران کے صوبہ مرکزی کے شہرخمین میں بنت رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی طیب وطاہر نسل کے خاندان میں آپ ہی کے یوم ولادت با سعادت پر روح اللہ الموسوی الخمینی کی پیدائش ہوئی۔ وہ اپنے آباؤ اجداد کے اخلاق حسنہ کے وارث تھے جنہوں نے نسل درنسل لوگوں کی ہدایت ورہنمائی اورمعارف الہٰی کے حصول کے لئے خود کو وقف کررکھا تھا۔ یہ وہ گھرانہ تھا جو اعلی علمی مفاہیم سے مکمل طور پر آشنا تھا ۔امام خمینی کے پدربزرگوار آیت اللہ سید مصطفی مرحوم جو آیت اللہ العظمی میرزای شیرازی کے ہم عصر تھے نجف اشرف میں اسلامی علوم کے اعلی مدارج طے کرنے کے بعد درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے اور پھر ایران واپس آ گئے اور شہر خمین میں تبلیغ و ہدایت کے فرائض انجام دینے لگے۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کو ابھی پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہیں گذرا تھا کہ حکومت وقت کے ایجنٹوں نے ان کے والد بزرگوار کی ندائے حق کا جواب بندوق کی گولیوں سے دیا اور انیں شہید کردیا ۔ جب تیرہ سو چالیس ہجری قمری کو آیت اللہ العظمی شیخ عبدالکریم حائری یزدی نے قم کی جانب ہجرت کی اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بھی قم کی جانب روانہ ہوگئے اور آپ نے بڑی ہی تیزی کے ساتھ دینی اور حوزوی علوم حاصل کئے اور درجہ اجتہاد پر فائزہوئے۔ اس زمانے میں آپ نے حوزوی دروس جن اساتذہ سے حاصل کئے ان میں مرحوم آقامیرزا محمدعلی ادیب تہرانی، مرحوم آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری، مرحوم آیت اللہ سید علی یثربی کاشانی اور زعیم حوزہ علمیہ قم آیت اللہ العظمی حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی رضوان اللہ علیہم کا نام لیا جاسکتا ہے سن۶۲۔۱۹۶۱ میں صوبائی اور ضلعی کونسلوں کی تشکیل کے دوران عوام اور علماء کی تحریک میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ اس طرح علماء اور عوام کی ملک گیرتحریک ایرانی عوام کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغازثابت ہوئی ۔ پندرہ خرداد کوشروع ہونے والی یہ تحریک دو اہم خصوصیات اپنے اندر لے کر اٹھی۔ ایک حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی متفق علیہ قیادت اور دوسرے اس تحریک کا اسلامی تشخص، چنانچہ آگے چل کر اس تحریک کو ایران کے اسلامی انقلاب سے جانا اور پہچانا جانے لگا ۔۱۰بہمن۱۳۱۵ ہجری شمسی (۳۰ جنوری ۱۹۳۷) کو آیت اللہ العظمی حایری کی رحلت کے بعد حوزہ علمیہ قم کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔
چنانچہ حوزہ علمیہ قم کے علماء نے فورا چارہ اندیشی شروع کردی ۔ اس دوران آٹھ برسوں تک آیت اللہ العظمی حجت، آیت اللہ العظمی سید صدرالدین صدر اور آیت اللہ العظمی سید محمد تقی خوانساری رضوان اللہ علیہم نے اس دینی مرکز کی سر پرستی فرمائی۔ اس دوران بالخصوص رضاخان کی حکومت کے خاتمے کے بعد مرجعیت عظمی یعنی ایک بزرگ مرجع کے سامنے آنے کا ماحول سازگار ہو گیا۔ آیت اللہ العظمی بروجردی ایک عظیم علمی شخصیت تھے جو مرحوم آیت اللہ العظمی حایری کے مناسب جانشین بن سکتے تھے اور حوزہ علمیہ قم کی زعامت سنبھال سکتے تھے ۔ چنانچہ یہ بات آیت اللہ حایری کے شاگردوں اورخاص طورپر حضرت امام خمینی رحمت اللہ کی طرف سے آیت اللہ بروجردی کے سامنے رکھی گئی اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے آیت اللہ بروجردی کو بروجرد سے قم تشریف لانے اور حوزہ کی زعامت قبول کرنے کے لئے راضی کرنے کی بھرپورکوشش کی۔
اس دوران حضرت امام خمینی رحمت اللہ نہایت باریک بینی کے ساتھ معاشرے اور حوزہ علمیہ پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے اور حالات حاضرہ کے بارے میں کتابوں اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور ساتھ ہی تہران رفت و آمد اور آیت اللہ مدرس جیسی عظیم علمی اور سیاسی شخیصتوں سے کسب فیض کیاکرتے تھے۔ چنانچہ آپ یہ سمجھ گئے تھے آئینی انقلاب اور خاص طورپر رضاخان کے برسراقتدار آنے کے بعد کی ذلت آمیزصورت حال سے نجات کا واحد راستہ حوزہ علمیہ کی بیداری اور علما کے ساتھ عوام کا معنوی رابطہ ہے حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے اپنے مقدس اور الہی مشن کی خاطر۱۳۲۸ ہجری شمسی (۱۹۵۰۔۱۹۴۹) میں آیت اللہ مرتضی حایری کے تعاون سے حوزہ علمیہ کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاح کا لائحہ عمل تیار کرکے آیت اللہ العظمی بروجردی کو پیش کیا۔ اس اقدام کا حضرت امام خمینی رحمت اللہ کے شاگردوں اور بیدار طلبہ نے بھرپورخیرمقدم کیا اور اس کی زبردست حمایت کی ۔
۱۶مہر۱۳۴۱(۸ اکتوبر۱۹۶۲) کو صوبائی ضلعی کونسلوں کا بل امیر اسداللہ کی کابینہ میں پاس ہوا جس کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے امیدوار کے مسلمان ہونے، قرآن کریم کے ذریعہ حلف اٹھانے، رائےدہندگان اور خود امیدوار کے لئے مرد ہونے کی شرط ختم کردی گی البتہ خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی کچھ دیگر مقاصد پر پردہ ڈالنے کے لئے تھی۔ پہلی دوشرطوں کو ختم کرنے کا مقصد بہائی عناصر کوملک کے معاملات میں مکمل طورپر دخیل کرنے کو قانونی شکل دینا تھا کیونکہ شاہ کے لئے امریکہ کی حمایت کی شرط یہ تھی کہ ایران اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے اور ایران کے تینوں اہم اداروں یعنی مجریہ، مقننہ اورعدلیہ میں سامراجی مسلک بہائیت کے پیروکاروں کی موجودگی اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات میں فروغ کویقینی بناسکتی تھی۔ البتہ حکومت نے اس بل کے تعلق سےحالات کا اندازہ لگانے میں سخت غلطی کی چنانچہ اس بل کی منظوری کی خبر شائع ہوتےہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نےقم اورتہران کے بزرگ علماء سے صلاح ومشورہ کرنے کے بعد بھرپور احتجاج کیا ۔ شاہی حکومت کے عزائم سے پردہ ہٹانے اوراس حساس صورت حال میں علما اور حوزہ علمیہ کی خطیر ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بہت ہی اہم کردار ادا کیا ۔
شاہ اور وزیراعظم اسداللہ علم کے نام علماء اور حوزہ علمیہ کے خطوط اور کھلے مراسلوں نے پورے ملک میں شاہی حکومت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاجی لہردوڑا دی۔ شاہ اور وزیراعظم کے نام حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ٹیلی گراموں کا لب و لہجہ بہت ہی تند اور سخت تھا ۔ ایک ٹیلی گرام میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں تمہیں ایک بار پھر نصیحت کرتا ہوں کہ خداوند متعال کی اطاعت اور بنیادی آئین کی پیروی کرو اور قرآن، علما قوم اور مسلمان زعما کے احکام کی خلاف ورزی اور بنیادی آئین سے سرپیچی کے برے انجام سے ڈرو اور جان بوجھ کر اور بلاسبب ملک کو خطرے میں مت ڈالو بصورت دیگر علما اسلام تماںرے بارے میں اپنے نظریے بیان کرنے سے گریز نہیں کریں گے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے اپنے مقدس اور الہی مشن کی خاطر ۱۳۲۸ہجری شمسی (۱۹۵۰۔۱۹۴۹) میں آیت اللہ مرتضی حایری کے تعاون سے حوزہ علمیہ کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاح کا لائحہ عمل تیار کرکے آیت اللہ العظمی بروجردی کو پیش کیا۔ اس اقدام کا حضرت امام خمینی رحمت اللہ کے شاگردوں اور بیدار طلبہ نے بھرپورخیرمقدم کیا اور اس کی زبردست حمایت کی ۔
۱۶مہر۱۳۴۱(۸ اکتوبر۱۹۶۲) کو صوبائی ضلعی کونسلوں کا بل امیر اسداللہ کی کابینہ میں پاس ہوا جس کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے امیدوار کے مسلمان ہونے، قرآن کریم کے ذریعہ حلف اٹھانے، رائےدہندگان اور خود امیدوار کے لئے مرد ہونے کی شرط ختم کر دی گی البتہ خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی کچھ دیگر مقاصد پر پردہ ڈالنے کے لئے تھی۔ پہلی دوشرطوں کو ختم کرنے کا مقصد بہائی عناصر کوملک کے معاملات میں مکمل طورپر دخیل کرنے کو قانونی شکل دینا تھا کیونکہ شاہ کے لئے امریکہ کی حمایت کی شرط یہ تھی کہ ایران اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے اور ایران کے تینوں اہم اداروں یعنی مجریہ، مقننہ اورعدلیہ میں سامراجی مسلک بہائیت کے پیروکاروں کی موجودگی اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات میں فروغ کویقینی بنا سکتی تھی۔ البتہ حکومت نے اس بل کے تعلق سےحالات کا اندازہ لگانے میں سخت غلطی کی چنانچہ اس بل کی منظوری کی خبر شائع ہوتےہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نےقم اورتہران کے بزرگ علماء سے صلاح ومشورہ کرنے کے بعد بھرپور احتجاج کیا ۔ شاہی حکومت کے عزائم سے پردہ ہٹانے اوراس حساس صورت حال میں علما اور حوزہ علمیہ کی خطیر ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بہت ہی اہم کرداراداکیا ۔ شاہ اور وزیراعظم اسداللہ علم کے نام علما اور حوزہ علمیہ کے خطوط اور کھلے مراسلوں نے پورے ملک میں شاہی حکومت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاجی لہردوڑادی۔ شاہ اور وزیراعظم کے نام حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ٹیلی گراموں کا لب و لہجہ بہت ہی تند اور سخت تھا ۔ ایک ٹیلی گرام میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں کہ میں تمہیں ایک بار پھر نصیحت کرتاہوں کہ خداوند متعال کی اطاعت اور بنیادی آئین کی پیروی کرو اور قرآن، علما قوم اور مسلمان زعما کے احکام کی خلاف ورزی اور بنیادی آئین سے سرپیچی کے برے انجام سے ڈرو اور جان بوجھ کر اور بلاسبب ملک کو خطرے میں مت ڈالو بصورت دیگر علما اسلام تماکرے بارے میں اپنے نظریے بیان کرنے سے گریزنہیں کریں گے ۔
بارہ فروردین۱۳۴۲(۱ اپریل۱۹۶۳) کو اپنے ایک خطاب میں علما قم ونجف اوردیگراسلامی ملکوں کے علما کی طرف سے شاہ کے ظالمانہ اقدامات پر اختیارکی گئی خاموشی پر کڑی تنقید کی اور فرمایاکہ آج خاموشی کامطلب ظالم وجابرحکومت کا ساتھ دیناہے۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے اگلے دن یعنی۱۳ فروردین۱۳۴۲(۲ اپریل۱۹۶۳) اپنا مشہور و معروف اعلامیہ جاری کیا جس کاعنوان تھا شاہ سے دوستی یعنی تباہی وبربادی میں تعاون ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں حیرت انگیز تاثیر اور مخاطبین پر آپ کی باتوں کے گہرے اثر کا راز صحیح فکر، مضبوط نظریے اور عوام کے ساتھ صداقت میں تلاش کرناچاہئے۔ چنانچہ لوگ بھی آپ کے فرمان پر ہمہ وقت اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔
۱۳۴۲ ہجری شمسی (۱۹۶۴۔۱۹۶۳) کانیا سال عیدنوروزکے بائیکاٹ سے شروع ہوا اور مدرسہ فیضیہ کے مظلوم طلبہ کے خون سے رنگین ہو گیا۔ شاہ، امریکہ کی مرضی کےاصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے پر مصرتھا اور حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اس سازش سے لوگوں کو آگاہ کرنے اورعوام کو امریکہ کی مداخلت اور شاہ کی خیانت کےمقابلے میں ڈٹ جانے پر راضی کر رہے تھے ۔ چودہ فروردین۱۳۴۲(۳ اپریل۱۹۶۳) آیت اللہ العظمی حکیم نے نجف اشرف سے ایران کے علما کے نام اپنے ٹیلی گرام میں فرمایاکہ سب کے سب ایک ساتھ نجف اشرف کی طرف ہجرت کریں۔ یہ تجویزعلما کی جان کی حفاظت اور حوزہ کے تقدس کو بچانے کے لئے پیش کی گئی تھی لیکن حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آیت اللہ العظمی حکیم کے ٹیلی گرام کاجواب ارسال کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ علما کا ایک ساتھ نجف چلاجانا اور حوزہ (قم کے دینی مرکز) کو خالی چھوڑ دینا مناسب نہیں ہے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ۱۲ اردیبہشت۱۳۴۲(۱۹۲۲۔۱۹۲۱) کو شہدائے فیضیہ کے چہلم کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں غاصب اسرائیل کے خلاف اسلامی ممالک کا ساتھ دینے کے لئے علما اور ایرانی عوام سے اپیل کی اور شاہ اوراسرائیل کے درمیان ہوئے معاہدوں کی مذمت کی ۱۳۴۲ ہجری قمری (۱۹۲۲۔۱۹۲۱) کا محرم جو خرداد کےمہینے سے مصادف تھا آن پہنچا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس مہینے کو شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف عوام کی تحریک میں تبدیل کردیا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے عاشورہ کی شام مدرسہ فیضیہ میں ایک تاریخی خطاب کیا جو پندرہ خرداد (چارجون) کی تحریک کا نقطہ آغازثابت ہوا۔ حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے اسی خطاب میں بلند آواز کے ساتھ شاہ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تجھے نصیحت کرتاہوں کہ اس طرح کے کاموں سے باز آ جا۔ تجھے بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ ایک دن سب لوگ تیرے جانے پر شکرادا کریں ... اگر ڈکٹیٹ کرکے سب کچھ تجھ سے کہلوایا جاتا ہے تو تو اس پر ذراغور کر. سن لے میری نصیحت . شاہ اور اسرائیل کے درمیان ایسا کیا رابطہ ہے کہ ساواک کہتی ہے کہ اسرائیل کے بارے میں کچھ مت بولو. کیا شاہ اسرائیلی ہے ؟ چودہ خرداد(۳جون) کی شام کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتارکیا گیا اور پھر پندرہ خرداد(چارجون) کو صبح صادق سے پہلے ساڑھے تین بجے تہران سے آئے ہوئے سیکڑوں کمانڈوز حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیتے ہیں اور جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے آپ کوگرفتارکرلیا جاتا ہے۔ خوفزدہ شاہی کمانڈوز انتہائی سراسیمگی کے عالم میں آپ کو قم سے تہران منتقل کرنے کے بعد پہلے تو آپ کو فوجی افسروں کی جیل میں بند کردیتے ہیں پھر اسی دن شام کو قصر نامی جیل میں منتقل کردیا جاتاہے۔
۱۸فروردین۱۳۴۳(۷ اپریل۱۹۶۴) کی شام کو کسی پیشگی اطلاع کے بغیر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کوآزاد کرکے قم ان کے گھر پہنچا دیا گیا۔ عوام کو جیسے ہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رہائی کی اطلاع ملی پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑگئی اورمدرسہ فیضیہ سمیت قم شہر کے گوشہ وکنارمیں کئی دنوں تک جشن منایاگیا۔ پندرہ خرداد کے واقعے اور شہدا کی پہلی برسی کے موقع پر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اوردیگر مراجع کرام کے مشترکہ بیان میں شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اورحوزہ علمیہ قم نے بھی ایک علحدحہ بیان جاری کرکے پندرہ خرداد کے واقعہ کی یاد میں اس دن عام سوگ منانے کا اعلان کیا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے چار آبان ۱۳۴۳(۲۶ اکتوبر۱۹۶۴) کو اپناانقلابی بیان جاری کیا اور اس میں تحریر فرمایا کہ دنیا کو جان لینا چاہئے کہ ایرانی عوام اور پوری دنیا کے مسلمان آج جس طرح کی بھی مشکلات اور مصائب میں گھرے ہیں اس کا باعث امریکہ اور بیرونی طاقتیں ہیں، مسلمان اقوام کو بیرونی طاقتوں سے عام طور پر اور امریکہ سے خاص طورپر نفرت ہے. یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کرتا ہے. یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کومضبوط بنا رہا ہے تاکہ عرب مسلمان بے گھر ہوجائیں۔
کیپچولیشن بل کے خلاف حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بیان کےباعث اسی سال آبان( نومبر) کے مہینے میں ایک اور تحریک کا آغاز ہو گیا ۔ ۱۳آبان۱۳۴۳(۴ نومبر۱۹۶۴) کی صبح کو ایک بارپھر مسلح کمانڈوز نے جو تہران سے قم پہنچے تھے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے گھرکا محاصرہ کرلیا اور حیرت کی بات یہ کہ ان کو ٹھیک اسی حالت میں گرفتارکیا گیا جس حالت میں ایک سال پہلے گرفتارکیا گیا یعنی جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو گرفتار کرکے سخت پہرے میں مہرآباد ہوائی اڈے پر منتقل کردیا گیا اور پھر وہاں سے ایک فوجی طیارے کے ذریعہ جو پہلے سے تیارکھڑا تھا آپ کو ترکی جلاوطن کر دیا گیا۔ اسی دن شام کو ساواک نے یہ خبر اخبارات میں شائع کی کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو ملکی سالمیت کے خلاف اقدام کرنے کی وجہ سے جلاوطن کر دیا گیا ۔ اس خبرکے شایع ہوتے ہی پورے ملک میں گھٹن کےماحول کے باوجود احتجاجی مظاہروں اور عام ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
دوکانیں اورتجارتی مراکز بند ہو گئے اور عوامی، سیاسی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے عالمی اداروں اور مراجع تقلید کو احتجاجی مراسلے اور ٹیلیگرام بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دوران دینی مراکز اور مدارس میں دروس بھی بند رہے۔ ترکی میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جلاوطنی کی مدت گیارہ مہینے کی رہی۔ تیرہ مہر۱۳۴۳(۵ اکتوبر۱۹۶۴) کو امام خمینی (رہ) اپنے بڑے بیٹے آیت اللہ الحاج آقا مصطفی خمینی کے ہمراہ ترکی سے عراق بھیج دئے گئے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ بغداد پہنچنے کے بعد کاظمین ، سامرا اور کربلا میں ائمہ اطہارعلمہ السلام اور شہدائے کربلا کی زیارت کے لئے روانہ ہو گئے اور ایک ہفتے کے بعد اپنی قیام گاہ یعنی نجف اشرف پہنچے۔ نجف اشرف میں آپ کے تیرہ سالہ قیام کا آغاز ایسے عالم میں ہوا کہ اگرچہ وہاں بظاہر ایران اور ترکی کی طرح بندش اور گھٹن نہیں تھی لیکن دشمن کے محاذ کی طرف سے مخالفتوں ، آپ کے راستے میں رکاوٹوں اور طعنہ زنی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور نہ صرف کھلے دشمنوں بلکہ عالم نمانام نہاد اور دنیا پرست عناصر کی طرف سے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف اقدامات اور بیان بازیاں اس قدر وسیع پیمانے پر اور اذیت ناک حد تک پہنچ گئی تھیں کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تمام تر صبر و تحمل کے باوجود جس کے لئے آپ خاص شہرت رکھتے تھے بارہا ان برسوں کو اپنی جدوجہد کے انتہائی سخت اورتلخ ترین سال سے تعبیر کیا لیکن یہ مصائب و آلام آپ کو آپ کو اپنے مشن سے باز نہ رکھ سکے ۔ آبان ماہ۱۳۴۴(نومبر۱۹۶۵) میں نجف اشرف میں واقع مسجد شیخ انصاری میں شروع کیا جو عراق سے پیرس کے لئے آپ کی ہجرت تک جاری رہا ۔
آپ کے دروس خارج کو کیفیت و کمیت کے اعتبار سے نجف اشرف میں دئے جانے والے دیگر دروس خارج میں اعلی ترین دروس میں شمار کیا جاتا تھا ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے نجف اشرف پہنچتے ہی ایران میں عوام اور اپنے انقلابی ساتھیوں کے نام خطوط اور بیانات ارسال کرکے انقلابیوں سے اپنے روابط کو برقرار رکھا اور انہیں ہر مناسبت پر پندرہ خرداد کی تحریک کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی تلقین فرمائی ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۹مہر۱۳۴۷ کو فلسطینی تنظیم الفتح کے نمائندے سے اپنی گفتگو میں عالم اسلام کے مسائل اور ملت فلسطین کے جہاد کے بارے میں اپنے موقف اور نظریات کی تشریح فرمائی اور اپنے اسی انٹرویو میں فرمایا کہ زکات کی رقومات میں سے کچھ حصہ فلسطینی مجاہدین سے مختص کرنا واجب ہے ۔۱۹۶۹ میں ایران کی شاہی حکومت اور عراق کی بعثی حکومت کے درمیان دونوں ملکوں کی آبی حدود کے مسئلے پر اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ عراقی حکومت نے عراق میں موجود ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد کو بدترین حالات میں عراق سے نکال دیا۔۱۳۵۰کے دوسرے نصف میں عراق کی بعثی حکومت اور شاہ کے درمیان اختلافات اور بھی شدت اختیار کرگئے اور عراق میں موجود ایرانیوں کو وہاں سے نکالا جانے لگا اور بہت سے ایرانی بے گھر کئے جانے لگے ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے عراقی صدر کے نام اپنے ایک ٹیلی گرام میں عراقی حکومت کے ان اقدامات کی سخت مذمت کی ۔ حضرت امام خمینی رحمۃاللہ علیہ نے اس صورت حال میں خود بھی عراق سے نکلنے کا فیصلہ کیا لیکن بغداد کے حکام نے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عراق سے چلے جانے کے بعد کے نتائج کو بھانپ لیا اور انہیں عراق سے نکلنے کی اجازت نہیں دی ۔ پندرہ خرداد۱۳۵۴ ہجری شمسی مطابق چار جون سن انیس سو پچہتر عیسوی کو قم کے مدرسۂ فیضیہ میں ایک بار پھر انقلابی طلباء نے ایک شاندار احتجاجی اجتماع منعقد کیا جو اجتماع تحریک کی شکل اختیار کرگیا ۔ دو دنوں تک جاری اس ایجیٹیشن کے دوران درود بر خمینی اور مرگ بر پہلوی، خمینی زندہ باد ، پہلوی حکومت مردہ باد کے نعرے گونجتے رہے ۔ شاہ نے اپنی مذہب مخالف پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے اسفند۱۳۵۴ مارچ انیس سو پچہتر ہجری شمسی کو ملک کی سرکاری تاریخ کو بیہودہ طریقے سے پجری کےبجائے ہخامنشی شاہوں کی سلطنت کے آغاز کی تاریخ سے تبدیل کردیا ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سخت رد عمل میں فتوی جاری فرمایا کہ بے بنیاد شہنشاہی تاریخوں سے استفادہ کرنا حرام ہے ۔ اس موہوم تاریخی مبدا اور آغاز سے بطور کلنڈر استفادے کی حرمت کے فتوے کا ایران کے عوام نے اسی طرح سے خیر مقدم کیا جس طرح سے رستاخیز پارٹی کی حرمت کے فتوی کا خیر مقدم کیا گیا تھا اور یہ دونوں ہی شاہی اقدامات شاہ کے لئے ذلت و رسوائی کا سبب بنے اور شاہی حکومت نے مجبور ہو کر انیس سو اٹھہر میں شاہنشاہی کیلنڈر سے پسپائی اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا۔ مرداد ماہ۱۳۵۶ مطابق انیس سو ستتر میں اپنے ایک پیغام میں اعلان فرمایا کہ اب ملکی اور غیر ملکی حالات اور شاہی حکومت کے جرائم کے عالمی اداروں اور غیر ملکی اخبارات میں بھی منعکس ہونے کی بنا پر علمی حلقوں، محب وطن شخصیتوں، ملک و بیرون ملک ایرانی طلباء اور اسلامی انجمنوں کو جہاں جہاں بھی ہوں یہ چاہئے کہ اس موقع سے فورا" فائدہ اٹھائیں اور کھل کر میدان میں آجائیں ۔یکم آبان ۱۳۵۶مطابق انیس سو ستتر کو آیت اللہ حاج آقا مصطفی خمینی کی شہادت اور ایران میں ان کے ایصال ثواب کے لئے منعقد مجالس اور پرشکوہ تعزیتی جلسے ایران کے حوزہ ہائے علمیہ اور مذہبی حلقوں کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئے ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وقت انتہائی حیران کن طریقے سے اس واقعہ کو خداوند عالم کے الطاف خفیہ سے تعبیر کیا ۔ شاہی حکومت نے روزنامہ اطلاعات میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں اہانت آمیز مقالہ شائع کرکے آپ سے انتقام لینے کی کوشش کی ۔
اس مقالے کی اشاعت کے خلاف قم میں ہونے والا احتجاجی مظاہرہ، رواں دواں انقلابی تحریک کو مہمیز دینے کاباعث بنا۔ اس احتجاجی مظاہرے کے دوران متعدد انقلابی طلباء شہید اور زخمی ہوئے ۔ شاہ اس احتجاجی مظاہرے میں طلباء کا قتل عام کرنے کے بعد احتجاج کے بھڑکے ہوئے شعلوں کو خاموش نہیں کرسکا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے نومبر انیس سو اٹھتر میں انقلابی کونسل تشکیل دی۔ شاہ سلطنتی کونسل کی تشکیل اور بختیار کی حکومت کے لئے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد سولہ جنوری انیس سو اٹھتر کو ملک سے فرار ہو گیا ۔ شاہ کے فرار کی خبر تہران شہر اور پھر پورے ایران میں پھیل گئی اور لوگ یہ خبر سن کر جشن منانے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ۔ جنوری انیس سو اٹھتر میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وطن واپسی کی خبریں نشر ہونے لگیں۔ جو بھی سنتا خوشی سے اس کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں ۔ لوگوں نے۱۴برسوں تک انتظار کی گھڑیاں گنی تھیں ۔ ساتھ ہی امام خمینی (رح) کے چاہنے والوں کو آپ کی جان کی سلامتی کے بارے میں بھی تشویش تھی کیونکہ شاہ کی آلۂ کار حکومت نے پورے ملک میں ایمرجنسی لگا رکھی تھی۔ حضرت امام خمینی رحمۃاللہ علیہ نے اپنا فیصلہ کرلیا اور ایرانی قوم کے نام اپنے پیغامات میں فرمایا تھا کہ وہ چاہتے کہ ان مستقبل ساز اور فیصلہ کن ایام میں اپنے عوام کے درمیان رہیں بختیار کی حکومت نے جنرل ہایزر کی ہم آہنگی سے ملک کے تمام ہوائی اڈوں کو غیر ملکی پروازوں کے لئے بند کردیا تھا ۔
مگر بختیار کی حکومت نے بہت جلد پسپائی اختیار کرلی اور عوام کے مطالبات کے سامنے وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔ امام خمینی (رہ)۱۲ بہمن۱۳۵۷ ہجری شمسی مطابق یکم فروری۱۹۷۹ کو چودہ برسوں کی جلا وطنی کے بعد فاتحانہ انداز میں ایران واپس تشریف لائے۔ ایرانی عوام نے آپ کا ایسا عدیم المثال اور شاندار تاریخی استقبال کیا کہ مغربی خبر رساں ایجنسیاں بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکیں اور خود مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ تہران میں چالیس سے ساٹھ لاکھ افراد نے امام خمینی (رہ) کا والہانہ استقبال کیا ۔سیاسی جدوجہد حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای بقول خود ان کے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے فقہی ، اصولی ، سیاسی اور انقلابی شاگردوں میں سے ہیں لیکن ان کے ذہن میں طاغوت کے خلاف دشمنی اور سیاست و جدوحہد کی پہلی کرن عظیم مجاہد اور شہید راہ اسلام سید مجتبی نواب صفوی نے ڈالی۔جب نواب صفوی چند فدائیان اسلام کے ساتھ سن۱۹۵۲ میں مشہد گئے تو انہوں نے مدرسہ سلیمان خان میں احیائے اسلام اور احکام الہی کی حاکمیت کے موضوع پر ایک ولولہ انگیز تقریر کی اور شاہ اور برطانیہ کے مکر و فریب اور ملت ایران سے ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کیا۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ان دنوں مدرسہ سلیمان خان کے نوجوان طالب علم تھے، نواب صفوی کی جوشیلی تقریر سے آپ بہت متاثر ہوئے ۔
آپ کہتے ہیں:اسی وقت نواب صفوی کے ذریعے میرے اندر انقلاب اسلامی کا جھماکہ ہوا چنانچہ مجھے اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ پہلی آگ نواب صفوی مرحوم نے میرے اندر روشن کی۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کے ہمراہ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سن۱۹۶۲ سے کہ جب آپ قم میں تھے اور محمد رضا شاہ پہلوی کی اسلام مخالف اور امریکہ نواز پالیسیوں کے خلاف امام خمینی کی انقلابی اور احتجاجی تحریک شروع ہوئی ، سیاسی جدوجہد میں شامل ہو گئے اور بے پناہ نشیب و فراز ، جلاوطنی ، قید و بند اور ایذاؤں کے باوجود سولہ سال تک جدوجہد کرتے رہے اور کسی مقام پر بھی نہیں گھبرائے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں پہلی ذمہ داری یہ سونپی کہ وہ ماہ محرم میں علمائے کرام کے تبلیغی مشن اور شاہ کی امریکی پالیسیوں کو آشکارہ کریں، ایران کے حالات اور قم کے واقعات کے بارے میں ان کا پیغام آیت اللہ میلانی اور خراسان کے علماء تک پہنچائیں ۔آپ نے یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی اور خود بھی تبلیغ کے لیے بیرجند شہر گئے اور وہاں تبلیغ کے ضمن میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پیغام کے تناظر میں پہلوی حکومت اور امریکہ کا پردہ چاک کیا چنانچہ آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور ایک رات قید رکھنے کے بعد اگلے دن آپ کو اس شرط پر رہا کیا گیا کہ آپ منبر پر نہیں جائیں گے اور پولیس کی نگرانی میں رہیں گے۔ پندرہ خرداد کے واقعے کے بعد آپ کو بیرجند سے مشہد لاکر فوجی جیل میں ڈال دیا گیا اور وہاں دس روز تک کڑی نگرانی میں رکھا گیا اور سخت ایذائیں دی گئیں۔
دوسری گرفتاریجنوری سن ۱۹۶۳ مطابق رمضان تیرہ سو تراسی ہجری قمری کو حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت کرمان گئے۔کرمان میں دو تین دن ٹھہرنے ،تقریریں کرنے اور اس شہر کے علماء اور طلبہ سے ملاقات کرنے کے بعد زاہدان چلے گئے۔آپ کی جوشیلی اور ولولہ انگیز تقریروں خصوصا" چھ بہمن کو شاہ کے جعلی ریفرنڈم اور انتخاب کی سالگرہ کے دن آپ کی تقریر کو عوام نے بے حد پسند کیا۔ پندرہ رمضان کو امام حسن علیہ السلام کی ولادت کے روز پہلوی حکومت کی شیطانی اور امریکی پالیسیوں کا پردہ چاک کرنے والی آپ کی جوشیلی اور ولولہ انگیز تقریریں اپنے عروج پر پہنچ گئیں چنانچہ شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک نے آپ کو راتوں و رات گرفتار کر کے ہوائی جہاز کے ذریعے تہران روانہ کر دیا۔ رہبر بزرگوار حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو تقریبا" دو ماہ تک قزل قلعہ نامی جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ دوران قید آپ نے مختلف قسم کی ایذائیں اور توہین آمیز سلوک برداشت کیا۔
تیسری اور چوتھی گرفتاریاںمشہد اور تہران میں آپ کے تفسیر و حدیث کے دروس اور اسلامی افکار و نظریات کا انقلابی نوجوانوں نے زبردست خیرمقدم کیا۔آپ کی ان سرگرمیوں سے شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک بھڑک اٹھی اور آپ کو گرفتار کرنا چاہا لہذا آپ نے سن۱۹۶۶ میں تہران میں روپوشی کی زندگی اختیارکرلی تاہم ایک سال بعد یعنی۱۹۶۷ میں آپ گرفتار کر لیے گئے ۔ رہائی کے بعد آپ کی انقلابی سرگرمیوں کے باعث ساواک نے آپ کو ایک بار پھر سن۱۹۷۰میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔
پانچویں گرفتاری
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای مدظلہ العالی ساواک کے ہاتھوں اپنی پانچویں گرفتاری کے بارے میں لکھتے ہیں:
سن ۱۹۶۹ سے ایران میں مسلح تحریک کے آثار محسوس کیے جا رہے تھے۔ خفیہ اداروں کی میرے بارے میں حساسیت بھی بڑھ گئی تھی انہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس قسم کی تحریک کا مجھ جیسے افراد سے تعلق نہ ہو۔ سن ۱۹۷۱ میں ایک بار پھر مجھے جیل میں ڈال دیا گیا۔جیل میں ساواک کے تشدد آمیز سلوک سے واضح طور پر ظاہر ہوتا تھا کہ اسے مسلح تحریک کے اسلامی فکر کے مراکز سے جڑے ہونے پر سخت تشویش ہے اور وہ اس بات کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے کہ مشہد اور تہران میں میرے نظریاتی اور تبلیغی مشن کا اس تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رہائی کے بعد میرے تفسیر کے عام دروس اور خفیہ کلاسوں کا دائرہ مزید بڑھ گیا۔
چھٹی گرفتاری
۱۹۷۱ اور۱۹۷۴ کے برسوں کے دوران حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے تفسیر اور انقلابی نظریات کے دروس اور تقاریر مشہد مقدس میں واقع مسجد کرامت ، مسجد امام حسین اور مسجد میرزا جعفر میں انجام پاتی تھیں جن میں انقلابی اور روشن فکر نوجوانوں اور طلبہ سمیت ہزاروں لوگ جوق در جوق شرکت کرتے تھے اور اسلام کے حقیقی نظریات سے آگاہ ہوتے تھے۔آپ کے نہج البلاغہ کے درس کا رنگ ہی کچھ اور تھا آپ کے نہج البلاغہ کے دروس فوٹو کاپی ہو کر لوگوں میں تقسیم ہوتے تھے۔ نوجوان اور انقلابی طلبہ جو آپ سے درس حقیقت اور جدوجہد کا سبق لیتے تھے ، ایران کے دور و نزدیک کے شہروں میں جا کر لوگوں کو ان نورانی حقائق سے آشنا کرکے عظیم اسلامی انقلاب کا راستہ ہموار کرتے۔ان سرگرمیوں کے باعث ۱۹۷۴عیسوی میں ساواک نے مشہد میں حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے گھر پر دھاوا بول دیا اور آپ کو گرفتار کر کے آپ کی بہت سی تحریروں اور نوٹس کو ضبط کر لیا۔یہ آپ کی چھٹی اور سخت ترین گرفتاری تھی۔آپ کو۱۹۷۵کے موسم خزاں تک قید میں رکھا گیا۔ اس عرصے کے دوران آپ کو ایک کوٹھڑی میں سخت ترین حالات میں رکھا گیا اور خود آپ کے بقول صرف وہی ان حالات کو سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے ان حالات کو دیکھا ہے۔ جیل سے رہائی کے بعد آپ مشہد مقدس واپس آ گئے اور ماضی کی طرح علمی ، تحقیقی اور انقلابی عمل کو آگے بڑھایا۔ البتہ آپ کو پہلے کی طرح کلاسوں کی تشکیل کا موقع نہیں دیا گیا۔
شہر بدری
ظالم پہلوی حکومت نے سن ۱۹۷۷کے اواخر میں حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو گرفتار کر کے تین سال کے لیے ایرانشہر شہر بدر کر دیا۔ سن ۱۹۷۸ کے وسط میں ایران کے مسلمان اور انقلابی عوام کی جدوجہد کے عروج پر پہنچنے کے بعد آپ شہر بدری سے آزاد ہو کر مشہد مقدس واپس آ گئے اورسفاک پہلوی حکومت کے خلاف عوام کی جدوجہد کی اگلی صفوں میں شامل ہو گئے ۔ راہ خدا میں انتھک جدوجہد اور سختیاں برداشت کرنے کا نتیجہ یعنی ایران کے عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی اور ظالم پہلوی حکومت کا سقوط اور اس سرزمین میں اسلام کی حاکمیت کے قیام کا مشادہ آپ نے اپنی آنکھوں سے کیا۔
کامیابی سے قبل
اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی پیرس سے تہران واپسی سے پہلے ان کی طرف سے شہید مطہری، شہید بہشتی، ہاشمی رفسنجانی وغیرہ کی مانند مجاہد علما اور افراد پر مشتمل کمیٹی شورائے انقلاب اسلامی قائم کی گئی۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر اس کمیٹی کے رکن بنے۔ شہید مطہری نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام آپ تک پہنچایا ۔ رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام ملتے ہی آپ مشہد سے تہران آ گئے۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کو ابھی پانچ ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہیں گذرا تھا کہ حکومت وقت کے ایجنٹوں نے ان کے والد بزرگوار کی ندائے حق کا جواب بندوق کی گولیوں سے دیا اور انیں شہید کردیا ۔ جب تیرہ سو چالیس ہجری قمری کو آیت اللہ العظمی شیخ عبدالکریم حائری یزدی نے قم کی جانب ہجرت کی اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بھی قم کی جانب روانہ ہوگئے اور آپ نے بڑی ہی تیزی کے ساتھ دینی اور حوزوی علوم حاصل کئے اور درجہ اجتہاد پر فائزہوئے۔ اس زمانے میں آپ نے حوزوی دروس جن اساتذہ سے حاصل کئے ان میں مرحوم آقامیرزا محمدعلی ادیب تہرانی، مرحوم آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری، مرحوم آیت اللہ سید علی یثربی کاشانی اور زعیم حوزہ علمیہ قم آیت اللہ العظمی حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی رضوان اللہ علیہم کا نام لیا جاسکتا ہے سن۶۲۔۱۹۶۱ میں صوبائی اور ضلعی کونسلوں کی تشکیل کے دوران عوام اور علماء کی تحریک میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ اس طرح علماء اور عوام کی ملک گیرتحریک ایرانی عوام کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغازثابت ہوئی ۔ پندرہ خرداد کوشروع ہونے والی یہ تحریک دو اہم خصوصیات اپنے اندر لے کر اٹھی۔ ایک حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی متفق علیہ قیادت اور دوسرے اس تحریک کا اسلامی تشخص، چنانچہ آگے چل کر اس تحریک کو ایران کے اسلامی انقلاب سے جانا اور پہچانا جانے لگا ۔۱۰بہمن۱۳۱۵ ہجری شمسی (۳۰ جنوری ۱۹۳۷) کو آیت اللہ العظمی حایری کی رحلت کے بعد حوزہ علمیہ قم کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔
چنانچہ حوزہ علمیہ قم کے علماء نے فورا چارہ اندیشی شروع کردی ۔ اس دوران آٹھ برسوں تک آیت اللہ العظمی حجت، آیت اللہ العظمی سید صدرالدین صدر اور آیت اللہ العظمی سید محمد تقی خوانساری رضوان اللہ علیہم نے اس دینی مرکز کی سر پرستی فرمائی۔ اس دوران بالخصوص رضاخان کی حکومت کے خاتمے کے بعد مرجعیت عظمی یعنی ایک بزرگ مرجع کے سامنے آنے کا ماحول سازگار ہو گیا۔ آیت اللہ العظمی بروجردی ایک عظیم علمی شخصیت تھے جو مرحوم آیت اللہ العظمی حایری کے مناسب جانشین بن سکتے تھے اور حوزہ علمیہ قم کی زعامت سنبھال سکتے تھے ۔ چنانچہ یہ بات آیت اللہ حایری کے شاگردوں اورخاص طورپر حضرت امام خمینی رحمت اللہ کی طرف سے آیت اللہ بروجردی کے سامنے رکھی گئی اور حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے آیت اللہ بروجردی کو بروجرد سے قم تشریف لانے اور حوزہ کی زعامت قبول کرنے کے لئے راضی کرنے کی بھرپورکوشش کی۔
اس دوران حضرت امام خمینی رحمت اللہ نہایت باریک بینی کے ساتھ معاشرے اور حوزہ علمیہ پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے اور حالات حاضرہ کے بارے میں کتابوں اور اخبارات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور ساتھ ہی تہران رفت و آمد اور آیت اللہ مدرس جیسی عظیم علمی اور سیاسی شخیصتوں سے کسب فیض کیاکرتے تھے۔ چنانچہ آپ یہ سمجھ گئے تھے آئینی انقلاب اور خاص طورپر رضاخان کے برسراقتدار آنے کے بعد کی ذلت آمیزصورت حال سے نجات کا واحد راستہ حوزہ علمیہ کی بیداری اور علما کے ساتھ عوام کا معنوی رابطہ ہے حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے اپنے مقدس اور الہی مشن کی خاطر۱۳۲۸ ہجری شمسی (۱۹۵۰۔۱۹۴۹) میں آیت اللہ مرتضی حایری کے تعاون سے حوزہ علمیہ کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاح کا لائحہ عمل تیار کرکے آیت اللہ العظمی بروجردی کو پیش کیا۔ اس اقدام کا حضرت امام خمینی رحمت اللہ کے شاگردوں اور بیدار طلبہ نے بھرپورخیرمقدم کیا اور اس کی زبردست حمایت کی ۔
۱۶مہر۱۳۴۱(۸ اکتوبر۱۹۶۲) کو صوبائی ضلعی کونسلوں کا بل امیر اسداللہ کی کابینہ میں پاس ہوا جس کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے امیدوار کے مسلمان ہونے، قرآن کریم کے ذریعہ حلف اٹھانے، رائےدہندگان اور خود امیدوار کے لئے مرد ہونے کی شرط ختم کردی گی البتہ خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی کچھ دیگر مقاصد پر پردہ ڈالنے کے لئے تھی۔ پہلی دوشرطوں کو ختم کرنے کا مقصد بہائی عناصر کوملک کے معاملات میں مکمل طورپر دخیل کرنے کو قانونی شکل دینا تھا کیونکہ شاہ کے لئے امریکہ کی حمایت کی شرط یہ تھی کہ ایران اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے اور ایران کے تینوں اہم اداروں یعنی مجریہ، مقننہ اورعدلیہ میں سامراجی مسلک بہائیت کے پیروکاروں کی موجودگی اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات میں فروغ کویقینی بناسکتی تھی۔ البتہ حکومت نے اس بل کے تعلق سےحالات کا اندازہ لگانے میں سخت غلطی کی چنانچہ اس بل کی منظوری کی خبر شائع ہوتےہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نےقم اورتہران کے بزرگ علماء سے صلاح ومشورہ کرنے کے بعد بھرپور احتجاج کیا ۔ شاہی حکومت کے عزائم سے پردہ ہٹانے اوراس حساس صورت حال میں علما اور حوزہ علمیہ کی خطیر ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بہت ہی اہم کردار ادا کیا ۔
شاہ اور وزیراعظم اسداللہ علم کے نام علماء اور حوزہ علمیہ کے خطوط اور کھلے مراسلوں نے پورے ملک میں شاہی حکومت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاجی لہردوڑا دی۔ شاہ اور وزیراعظم کے نام حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ٹیلی گراموں کا لب و لہجہ بہت ہی تند اور سخت تھا ۔ ایک ٹیلی گرام میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں تمہیں ایک بار پھر نصیحت کرتا ہوں کہ خداوند متعال کی اطاعت اور بنیادی آئین کی پیروی کرو اور قرآن، علما قوم اور مسلمان زعما کے احکام کی خلاف ورزی اور بنیادی آئین سے سرپیچی کے برے انجام سے ڈرو اور جان بوجھ کر اور بلاسبب ملک کو خطرے میں مت ڈالو بصورت دیگر علما اسلام تماںرے بارے میں اپنے نظریے بیان کرنے سے گریز نہیں کریں گے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ نے اپنے مقدس اور الہی مشن کی خاطر ۱۳۲۸ہجری شمسی (۱۹۵۰۔۱۹۴۹) میں آیت اللہ مرتضی حایری کے تعاون سے حوزہ علمیہ کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاح کا لائحہ عمل تیار کرکے آیت اللہ العظمی بروجردی کو پیش کیا۔ اس اقدام کا حضرت امام خمینی رحمت اللہ کے شاگردوں اور بیدار طلبہ نے بھرپورخیرمقدم کیا اور اس کی زبردست حمایت کی ۔
۱۶مہر۱۳۴۱(۸ اکتوبر۱۹۶۲) کو صوبائی ضلعی کونسلوں کا بل امیر اسداللہ کی کابینہ میں پاس ہوا جس کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لینے کے لئے امیدوار کے مسلمان ہونے، قرآن کریم کے ذریعہ حلف اٹھانے، رائےدہندگان اور خود امیدوار کے لئے مرد ہونے کی شرط ختم کر دی گی البتہ خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی کچھ دیگر مقاصد پر پردہ ڈالنے کے لئے تھی۔ پہلی دوشرطوں کو ختم کرنے کا مقصد بہائی عناصر کوملک کے معاملات میں مکمل طورپر دخیل کرنے کو قانونی شکل دینا تھا کیونکہ شاہ کے لئے امریکہ کی حمایت کی شرط یہ تھی کہ ایران اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے اور ایران کے تینوں اہم اداروں یعنی مجریہ، مقننہ اورعدلیہ میں سامراجی مسلک بہائیت کے پیروکاروں کی موجودگی اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات میں فروغ کویقینی بنا سکتی تھی۔ البتہ حکومت نے اس بل کے تعلق سےحالات کا اندازہ لگانے میں سخت غلطی کی چنانچہ اس بل کی منظوری کی خبر شائع ہوتےہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نےقم اورتہران کے بزرگ علماء سے صلاح ومشورہ کرنے کے بعد بھرپور احتجاج کیا ۔ شاہی حکومت کے عزائم سے پردہ ہٹانے اوراس حساس صورت حال میں علما اور حوزہ علمیہ کی خطیر ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بہت ہی اہم کرداراداکیا ۔ شاہ اور وزیراعظم اسداللہ علم کے نام علما اور حوزہ علمیہ کے خطوط اور کھلے مراسلوں نے پورے ملک میں شاہی حکومت کے اس نئے قانون کے خلاف احتجاجی لہردوڑادی۔ شاہ اور وزیراعظم کے نام حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ٹیلی گراموں کا لب و لہجہ بہت ہی تند اور سخت تھا ۔ ایک ٹیلی گرام میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں کہ میں تمہیں ایک بار پھر نصیحت کرتاہوں کہ خداوند متعال کی اطاعت اور بنیادی آئین کی پیروی کرو اور قرآن، علما قوم اور مسلمان زعما کے احکام کی خلاف ورزی اور بنیادی آئین سے سرپیچی کے برے انجام سے ڈرو اور جان بوجھ کر اور بلاسبب ملک کو خطرے میں مت ڈالو بصورت دیگر علما اسلام تماکرے بارے میں اپنے نظریے بیان کرنے سے گریزنہیں کریں گے ۔
بارہ فروردین۱۳۴۲(۱ اپریل۱۹۶۳) کو اپنے ایک خطاب میں علما قم ونجف اوردیگراسلامی ملکوں کے علما کی طرف سے شاہ کے ظالمانہ اقدامات پر اختیارکی گئی خاموشی پر کڑی تنقید کی اور فرمایاکہ آج خاموشی کامطلب ظالم وجابرحکومت کا ساتھ دیناہے۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے اگلے دن یعنی۱۳ فروردین۱۳۴۲(۲ اپریل۱۹۶۳) اپنا مشہور و معروف اعلامیہ جاری کیا جس کاعنوان تھا شاہ سے دوستی یعنی تباہی وبربادی میں تعاون ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام میں حیرت انگیز تاثیر اور مخاطبین پر آپ کی باتوں کے گہرے اثر کا راز صحیح فکر، مضبوط نظریے اور عوام کے ساتھ صداقت میں تلاش کرناچاہئے۔ چنانچہ لوگ بھی آپ کے فرمان پر ہمہ وقت اپنی جان قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔
۱۳۴۲ ہجری شمسی (۱۹۶۴۔۱۹۶۳) کانیا سال عیدنوروزکے بائیکاٹ سے شروع ہوا اور مدرسہ فیضیہ کے مظلوم طلبہ کے خون سے رنگین ہو گیا۔ شاہ، امریکہ کی مرضی کےاصلاحی پروگرام کو نافذ کرنے پر مصرتھا اور حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اس سازش سے لوگوں کو آگاہ کرنے اورعوام کو امریکہ کی مداخلت اور شاہ کی خیانت کےمقابلے میں ڈٹ جانے پر راضی کر رہے تھے ۔ چودہ فروردین۱۳۴۲(۳ اپریل۱۹۶۳) آیت اللہ العظمی حکیم نے نجف اشرف سے ایران کے علما کے نام اپنے ٹیلی گرام میں فرمایاکہ سب کے سب ایک ساتھ نجف اشرف کی طرف ہجرت کریں۔ یہ تجویزعلما کی جان کی حفاظت اور حوزہ کے تقدس کو بچانے کے لئے پیش کی گئی تھی لیکن حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آیت اللہ العظمی حکیم کے ٹیلی گرام کاجواب ارسال کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ علما کا ایک ساتھ نجف چلاجانا اور حوزہ (قم کے دینی مرکز) کو خالی چھوڑ دینا مناسب نہیں ہے ۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ۱۲ اردیبہشت۱۳۴۲(۱۹۲۲۔۱۹۲۱) کو شہدائے فیضیہ کے چہلم کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں غاصب اسرائیل کے خلاف اسلامی ممالک کا ساتھ دینے کے لئے علما اور ایرانی عوام سے اپیل کی اور شاہ اوراسرائیل کے درمیان ہوئے معاہدوں کی مذمت کی ۱۳۴۲ ہجری قمری (۱۹۲۲۔۱۹۲۱) کا محرم جو خرداد کےمہینے سے مصادف تھا آن پہنچا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس مہینے کو شاہ کی ظالم حکومت کے خلاف عوام کی تحریک میں تبدیل کردیا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے عاشورہ کی شام مدرسہ فیضیہ میں ایک تاریخی خطاب کیا جو پندرہ خرداد (چارجون) کی تحریک کا نقطہ آغازثابت ہوا۔ حضرت امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے اسی خطاب میں بلند آواز کے ساتھ شاہ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تجھے نصیحت کرتاہوں کہ اس طرح کے کاموں سے باز آ جا۔ تجھے بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ ایک دن سب لوگ تیرے جانے پر شکرادا کریں ... اگر ڈکٹیٹ کرکے سب کچھ تجھ سے کہلوایا جاتا ہے تو تو اس پر ذراغور کر. سن لے میری نصیحت . شاہ اور اسرائیل کے درمیان ایسا کیا رابطہ ہے کہ ساواک کہتی ہے کہ اسرائیل کے بارے میں کچھ مت بولو. کیا شاہ اسرائیلی ہے ؟ چودہ خرداد(۳جون) کی شام کو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بہت سے ساتھیوں کو گرفتارکیا گیا اور پھر پندرہ خرداد(چارجون) کو صبح صادق سے پہلے ساڑھے تین بجے تہران سے آئے ہوئے سیکڑوں کمانڈوز حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے گھر کا محاصرہ کرلیتے ہیں اور جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے آپ کوگرفتارکرلیا جاتا ہے۔ خوفزدہ شاہی کمانڈوز انتہائی سراسیمگی کے عالم میں آپ کو قم سے تہران منتقل کرنے کے بعد پہلے تو آپ کو فوجی افسروں کی جیل میں بند کردیتے ہیں پھر اسی دن شام کو قصر نامی جیل میں منتقل کردیا جاتاہے۔
۱۸فروردین۱۳۴۳(۷ اپریل۱۹۶۴) کی شام کو کسی پیشگی اطلاع کے بغیر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کوآزاد کرکے قم ان کے گھر پہنچا دیا گیا۔ عوام کو جیسے ہی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی رہائی کی اطلاع ملی پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑگئی اورمدرسہ فیضیہ سمیت قم شہر کے گوشہ وکنارمیں کئی دنوں تک جشن منایاگیا۔ پندرہ خرداد کے واقعے اور شہدا کی پہلی برسی کے موقع پر حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اوردیگر مراجع کرام کے مشترکہ بیان میں شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اورحوزہ علمیہ قم نے بھی ایک علحدحہ بیان جاری کرکے پندرہ خرداد کے واقعہ کی یاد میں اس دن عام سوگ منانے کا اعلان کیا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے چار آبان ۱۳۴۳(۲۶ اکتوبر۱۹۶۴) کو اپناانقلابی بیان جاری کیا اور اس میں تحریر فرمایا کہ دنیا کو جان لینا چاہئے کہ ایرانی عوام اور پوری دنیا کے مسلمان آج جس طرح کی بھی مشکلات اور مصائب میں گھرے ہیں اس کا باعث امریکہ اور بیرونی طاقتیں ہیں، مسلمان اقوام کو بیرونی طاقتوں سے عام طور پر اور امریکہ سے خاص طورپر نفرت ہے. یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی حمایت کرتا ہے. یہ امریکہ ہی ہے جو اسرائیل کومضبوط بنا رہا ہے تاکہ عرب مسلمان بے گھر ہوجائیں۔
کیپچولیشن بل کے خلاف حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بیان کےباعث اسی سال آبان( نومبر) کے مہینے میں ایک اور تحریک کا آغاز ہو گیا ۔ ۱۳آبان۱۳۴۳(۴ نومبر۱۹۶۴) کی صبح کو ایک بارپھر مسلح کمانڈوز نے جو تہران سے قم پہنچے تھے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے گھرکا محاصرہ کرلیا اور حیرت کی بات یہ کہ ان کو ٹھیک اسی حالت میں گرفتارکیا گیا جس حالت میں ایک سال پہلے گرفتارکیا گیا یعنی جس وقت آپ نمازشب میں مشغول تھے۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو گرفتار کرکے سخت پہرے میں مہرآباد ہوائی اڈے پر منتقل کردیا گیا اور پھر وہاں سے ایک فوجی طیارے کے ذریعہ جو پہلے سے تیارکھڑا تھا آپ کو ترکی جلاوطن کر دیا گیا۔ اسی دن شام کو ساواک نے یہ خبر اخبارات میں شائع کی کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو ملکی سالمیت کے خلاف اقدام کرنے کی وجہ سے جلاوطن کر دیا گیا ۔ اس خبرکے شایع ہوتے ہی پورے ملک میں گھٹن کےماحول کے باوجود احتجاجی مظاہروں اور عام ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
دوکانیں اورتجارتی مراکز بند ہو گئے اور عوامی، سیاسی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے عالمی اداروں اور مراجع تقلید کو احتجاجی مراسلے اور ٹیلیگرام بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس دوران دینی مراکز اور مدارس میں دروس بھی بند رہے۔ ترکی میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جلاوطنی کی مدت گیارہ مہینے کی رہی۔ تیرہ مہر۱۳۴۳(۵ اکتوبر۱۹۶۴) کو امام خمینی (رہ) اپنے بڑے بیٹے آیت اللہ الحاج آقا مصطفی خمینی کے ہمراہ ترکی سے عراق بھیج دئے گئے ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ بغداد پہنچنے کے بعد کاظمین ، سامرا اور کربلا میں ائمہ اطہارعلمہ السلام اور شہدائے کربلا کی زیارت کے لئے روانہ ہو گئے اور ایک ہفتے کے بعد اپنی قیام گاہ یعنی نجف اشرف پہنچے۔ نجف اشرف میں آپ کے تیرہ سالہ قیام کا آغاز ایسے عالم میں ہوا کہ اگرچہ وہاں بظاہر ایران اور ترکی کی طرح بندش اور گھٹن نہیں تھی لیکن دشمن کے محاذ کی طرف سے مخالفتوں ، آپ کے راستے میں رکاوٹوں اور طعنہ زنی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور نہ صرف کھلے دشمنوں بلکہ عالم نمانام نہاد اور دنیا پرست عناصر کی طرف سے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف اقدامات اور بیان بازیاں اس قدر وسیع پیمانے پر اور اذیت ناک حد تک پہنچ گئی تھیں کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تمام تر صبر و تحمل کے باوجود جس کے لئے آپ خاص شہرت رکھتے تھے بارہا ان برسوں کو اپنی جدوجہد کے انتہائی سخت اورتلخ ترین سال سے تعبیر کیا لیکن یہ مصائب و آلام آپ کو آپ کو اپنے مشن سے باز نہ رکھ سکے ۔ آبان ماہ۱۳۴۴(نومبر۱۹۶۵) میں نجف اشرف میں واقع مسجد شیخ انصاری میں شروع کیا جو عراق سے پیرس کے لئے آپ کی ہجرت تک جاری رہا ۔
آپ کے دروس خارج کو کیفیت و کمیت کے اعتبار سے نجف اشرف میں دئے جانے والے دیگر دروس خارج میں اعلی ترین دروس میں شمار کیا جاتا تھا ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے نجف اشرف پہنچتے ہی ایران میں عوام اور اپنے انقلابی ساتھیوں کے نام خطوط اور بیانات ارسال کرکے انقلابیوں سے اپنے روابط کو برقرار رکھا اور انہیں ہر مناسبت پر پندرہ خرداد کی تحریک کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی تلقین فرمائی ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۹مہر۱۳۴۷ کو فلسطینی تنظیم الفتح کے نمائندے سے اپنی گفتگو میں عالم اسلام کے مسائل اور ملت فلسطین کے جہاد کے بارے میں اپنے موقف اور نظریات کی تشریح فرمائی اور اپنے اسی انٹرویو میں فرمایا کہ زکات کی رقومات میں سے کچھ حصہ فلسطینی مجاہدین سے مختص کرنا واجب ہے ۔۱۹۶۹ میں ایران کی شاہی حکومت اور عراق کی بعثی حکومت کے درمیان دونوں ملکوں کی آبی حدود کے مسئلے پر اختلافات شدت اختیار کرگئے۔ عراقی حکومت نے عراق میں موجود ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد کو بدترین حالات میں عراق سے نکال دیا۔۱۳۵۰کے دوسرے نصف میں عراق کی بعثی حکومت اور شاہ کے درمیان اختلافات اور بھی شدت اختیار کرگئے اور عراق میں موجود ایرانیوں کو وہاں سے نکالا جانے لگا اور بہت سے ایرانی بے گھر کئے جانے لگے ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے عراقی صدر کے نام اپنے ایک ٹیلی گرام میں عراقی حکومت کے ان اقدامات کی سخت مذمت کی ۔ حضرت امام خمینی رحمۃاللہ علیہ نے اس صورت حال میں خود بھی عراق سے نکلنے کا فیصلہ کیا لیکن بغداد کے حکام نے حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عراق سے چلے جانے کے بعد کے نتائج کو بھانپ لیا اور انہیں عراق سے نکلنے کی اجازت نہیں دی ۔ پندرہ خرداد۱۳۵۴ ہجری شمسی مطابق چار جون سن انیس سو پچہتر عیسوی کو قم کے مدرسۂ فیضیہ میں ایک بار پھر انقلابی طلباء نے ایک شاندار احتجاجی اجتماع منعقد کیا جو اجتماع تحریک کی شکل اختیار کرگیا ۔ دو دنوں تک جاری اس ایجیٹیشن کے دوران درود بر خمینی اور مرگ بر پہلوی، خمینی زندہ باد ، پہلوی حکومت مردہ باد کے نعرے گونجتے رہے ۔ شاہ نے اپنی مذہب مخالف پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے اسفند۱۳۵۴ مارچ انیس سو پچہتر ہجری شمسی کو ملک کی سرکاری تاریخ کو بیہودہ طریقے سے پجری کےبجائے ہخامنشی شاہوں کی سلطنت کے آغاز کی تاریخ سے تبدیل کردیا ۔
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سخت رد عمل میں فتوی جاری فرمایا کہ بے بنیاد شہنشاہی تاریخوں سے استفادہ کرنا حرام ہے ۔ اس موہوم تاریخی مبدا اور آغاز سے بطور کلنڈر استفادے کی حرمت کے فتوے کا ایران کے عوام نے اسی طرح سے خیر مقدم کیا جس طرح سے رستاخیز پارٹی کی حرمت کے فتوی کا خیر مقدم کیا گیا تھا اور یہ دونوں ہی شاہی اقدامات شاہ کے لئے ذلت و رسوائی کا سبب بنے اور شاہی حکومت نے مجبور ہو کر انیس سو اٹھہر میں شاہنشاہی کیلنڈر سے پسپائی اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا۔ مرداد ماہ۱۳۵۶ مطابق انیس سو ستتر میں اپنے ایک پیغام میں اعلان فرمایا کہ اب ملکی اور غیر ملکی حالات اور شاہی حکومت کے جرائم کے عالمی اداروں اور غیر ملکی اخبارات میں بھی منعکس ہونے کی بنا پر علمی حلقوں، محب وطن شخصیتوں، ملک و بیرون ملک ایرانی طلباء اور اسلامی انجمنوں کو جہاں جہاں بھی ہوں یہ چاہئے کہ اس موقع سے فورا" فائدہ اٹھائیں اور کھل کر میدان میں آجائیں ۔یکم آبان ۱۳۵۶مطابق انیس سو ستتر کو آیت اللہ حاج آقا مصطفی خمینی کی شہادت اور ایران میں ان کے ایصال ثواب کے لئے منعقد مجالس اور پرشکوہ تعزیتی جلسے ایران کے حوزہ ہائے علمیہ اور مذہبی حلقوں کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئے ۔ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وقت انتہائی حیران کن طریقے سے اس واقعہ کو خداوند عالم کے الطاف خفیہ سے تعبیر کیا ۔ شاہی حکومت نے روزنامہ اطلاعات میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں اہانت آمیز مقالہ شائع کرکے آپ سے انتقام لینے کی کوشش کی ۔
اس مقالے کی اشاعت کے خلاف قم میں ہونے والا احتجاجی مظاہرہ، رواں دواں انقلابی تحریک کو مہمیز دینے کاباعث بنا۔ اس احتجاجی مظاہرے کے دوران متعدد انقلابی طلباء شہید اور زخمی ہوئے ۔ شاہ اس احتجاجی مظاہرے میں طلباء کا قتل عام کرنے کے بعد احتجاج کے بھڑکے ہوئے شعلوں کو خاموش نہیں کرسکا ۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے نومبر انیس سو اٹھتر میں انقلابی کونسل تشکیل دی۔ شاہ سلطنتی کونسل کی تشکیل اور بختیار کی حکومت کے لئے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد سولہ جنوری انیس سو اٹھتر کو ملک سے فرار ہو گیا ۔ شاہ کے فرار کی خبر تہران شہر اور پھر پورے ایران میں پھیل گئی اور لوگ یہ خبر سن کر جشن منانے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ۔ جنوری انیس سو اٹھتر میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وطن واپسی کی خبریں نشر ہونے لگیں۔ جو بھی سنتا خوشی سے اس کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں ۔ لوگوں نے۱۴برسوں تک انتظار کی گھڑیاں گنی تھیں ۔ ساتھ ہی امام خمینی (رح) کے چاہنے والوں کو آپ کی جان کی سلامتی کے بارے میں بھی تشویش تھی کیونکہ شاہ کی آلۂ کار حکومت نے پورے ملک میں ایمرجنسی لگا رکھی تھی۔ حضرت امام خمینی رحمۃاللہ علیہ نے اپنا فیصلہ کرلیا اور ایرانی قوم کے نام اپنے پیغامات میں فرمایا تھا کہ وہ چاہتے کہ ان مستقبل ساز اور فیصلہ کن ایام میں اپنے عوام کے درمیان رہیں بختیار کی حکومت نے جنرل ہایزر کی ہم آہنگی سے ملک کے تمام ہوائی اڈوں کو غیر ملکی پروازوں کے لئے بند کردیا تھا ۔
مگر بختیار کی حکومت نے بہت جلد پسپائی اختیار کرلی اور عوام کے مطالبات کے سامنے وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔ امام خمینی (رہ)۱۲ بہمن۱۳۵۷ ہجری شمسی مطابق یکم فروری۱۹۷۹ کو چودہ برسوں کی جلا وطنی کے بعد فاتحانہ انداز میں ایران واپس تشریف لائے۔ ایرانی عوام نے آپ کا ایسا عدیم المثال اور شاندار تاریخی استقبال کیا کہ مغربی خبر رساں ایجنسیاں بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکیں اور خود مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ تہران میں چالیس سے ساٹھ لاکھ افراد نے امام خمینی (رہ) کا والہانہ استقبال کیا ۔سیاسی جدوجہد حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای بقول خود ان کے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے فقہی ، اصولی ، سیاسی اور انقلابی شاگردوں میں سے ہیں لیکن ان کے ذہن میں طاغوت کے خلاف دشمنی اور سیاست و جدوحہد کی پہلی کرن عظیم مجاہد اور شہید راہ اسلام سید مجتبی نواب صفوی نے ڈالی۔جب نواب صفوی چند فدائیان اسلام کے ساتھ سن۱۹۵۲ میں مشہد گئے تو انہوں نے مدرسہ سلیمان خان میں احیائے اسلام اور احکام الہی کی حاکمیت کے موضوع پر ایک ولولہ انگیز تقریر کی اور شاہ اور برطانیہ کے مکر و فریب اور ملت ایران سے ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کیا۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ان دنوں مدرسہ سلیمان خان کے نوجوان طالب علم تھے، نواب صفوی کی جوشیلی تقریر سے آپ بہت متاثر ہوئے ۔
آپ کہتے ہیں:اسی وقت نواب صفوی کے ذریعے میرے اندر انقلاب اسلامی کا جھماکہ ہوا چنانچہ مجھے اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ پہلی آگ نواب صفوی مرحوم نے میرے اندر روشن کی۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کے ہمراہ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سن۱۹۶۲ سے کہ جب آپ قم میں تھے اور محمد رضا شاہ پہلوی کی اسلام مخالف اور امریکہ نواز پالیسیوں کے خلاف امام خمینی کی انقلابی اور احتجاجی تحریک شروع ہوئی ، سیاسی جدوجہد میں شامل ہو گئے اور بے پناہ نشیب و فراز ، جلاوطنی ، قید و بند اور ایذاؤں کے باوجود سولہ سال تک جدوجہد کرتے رہے اور کسی مقام پر بھی نہیں گھبرائے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں پہلی ذمہ داری یہ سونپی کہ وہ ماہ محرم میں علمائے کرام کے تبلیغی مشن اور شاہ کی امریکی پالیسیوں کو آشکارہ کریں، ایران کے حالات اور قم کے واقعات کے بارے میں ان کا پیغام آیت اللہ میلانی اور خراسان کے علماء تک پہنچائیں ۔آپ نے یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی اور خود بھی تبلیغ کے لیے بیرجند شہر گئے اور وہاں تبلیغ کے ضمن میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پیغام کے تناظر میں پہلوی حکومت اور امریکہ کا پردہ چاک کیا چنانچہ آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور ایک رات قید رکھنے کے بعد اگلے دن آپ کو اس شرط پر رہا کیا گیا کہ آپ منبر پر نہیں جائیں گے اور پولیس کی نگرانی میں رہیں گے۔ پندرہ خرداد کے واقعے کے بعد آپ کو بیرجند سے مشہد لاکر فوجی جیل میں ڈال دیا گیا اور وہاں دس روز تک کڑی نگرانی میں رکھا گیا اور سخت ایذائیں دی گئیں۔
دوسری گرفتاریجنوری سن ۱۹۶۳ مطابق رمضان تیرہ سو تراسی ہجری قمری کو حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت کرمان گئے۔کرمان میں دو تین دن ٹھہرنے ،تقریریں کرنے اور اس شہر کے علماء اور طلبہ سے ملاقات کرنے کے بعد زاہدان چلے گئے۔آپ کی جوشیلی اور ولولہ انگیز تقریروں خصوصا" چھ بہمن کو شاہ کے جعلی ریفرنڈم اور انتخاب کی سالگرہ کے دن آپ کی تقریر کو عوام نے بے حد پسند کیا۔ پندرہ رمضان کو امام حسن علیہ السلام کی ولادت کے روز پہلوی حکومت کی شیطانی اور امریکی پالیسیوں کا پردہ چاک کرنے والی آپ کی جوشیلی اور ولولہ انگیز تقریریں اپنے عروج پر پہنچ گئیں چنانچہ شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک نے آپ کو راتوں و رات گرفتار کر کے ہوائی جہاز کے ذریعے تہران روانہ کر دیا۔ رہبر بزرگوار حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو تقریبا" دو ماہ تک قزل قلعہ نامی جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ دوران قید آپ نے مختلف قسم کی ایذائیں اور توہین آمیز سلوک برداشت کیا۔
تیسری اور چوتھی گرفتاریاںمشہد اور تہران میں آپ کے تفسیر و حدیث کے دروس اور اسلامی افکار و نظریات کا انقلابی نوجوانوں نے زبردست خیرمقدم کیا۔آپ کی ان سرگرمیوں سے شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک بھڑک اٹھی اور آپ کو گرفتار کرنا چاہا لہذا آپ نے سن۱۹۶۶ میں تہران میں روپوشی کی زندگی اختیارکرلی تاہم ایک سال بعد یعنی۱۹۶۷ میں آپ گرفتار کر لیے گئے ۔ رہائی کے بعد آپ کی انقلابی سرگرمیوں کے باعث ساواک نے آپ کو ایک بار پھر سن۱۹۷۰میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔
پانچویں گرفتاری
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای مدظلہ العالی ساواک کے ہاتھوں اپنی پانچویں گرفتاری کے بارے میں لکھتے ہیں:
سن ۱۹۶۹ سے ایران میں مسلح تحریک کے آثار محسوس کیے جا رہے تھے۔ خفیہ اداروں کی میرے بارے میں حساسیت بھی بڑھ گئی تھی انہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس قسم کی تحریک کا مجھ جیسے افراد سے تعلق نہ ہو۔ سن ۱۹۷۱ میں ایک بار پھر مجھے جیل میں ڈال دیا گیا۔جیل میں ساواک کے تشدد آمیز سلوک سے واضح طور پر ظاہر ہوتا تھا کہ اسے مسلح تحریک کے اسلامی فکر کے مراکز سے جڑے ہونے پر سخت تشویش ہے اور وہ اس بات کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے کہ مشہد اور تہران میں میرے نظریاتی اور تبلیغی مشن کا اس تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ رہائی کے بعد میرے تفسیر کے عام دروس اور خفیہ کلاسوں کا دائرہ مزید بڑھ گیا۔
چھٹی گرفتاری
۱۹۷۱ اور۱۹۷۴ کے برسوں کے دوران حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے تفسیر اور انقلابی نظریات کے دروس اور تقاریر مشہد مقدس میں واقع مسجد کرامت ، مسجد امام حسین اور مسجد میرزا جعفر میں انجام پاتی تھیں جن میں انقلابی اور روشن فکر نوجوانوں اور طلبہ سمیت ہزاروں لوگ جوق در جوق شرکت کرتے تھے اور اسلام کے حقیقی نظریات سے آگاہ ہوتے تھے۔آپ کے نہج البلاغہ کے درس کا رنگ ہی کچھ اور تھا آپ کے نہج البلاغہ کے دروس فوٹو کاپی ہو کر لوگوں میں تقسیم ہوتے تھے۔ نوجوان اور انقلابی طلبہ جو آپ سے درس حقیقت اور جدوجہد کا سبق لیتے تھے ، ایران کے دور و نزدیک کے شہروں میں جا کر لوگوں کو ان نورانی حقائق سے آشنا کرکے عظیم اسلامی انقلاب کا راستہ ہموار کرتے۔ان سرگرمیوں کے باعث ۱۹۷۴عیسوی میں ساواک نے مشہد میں حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے گھر پر دھاوا بول دیا اور آپ کو گرفتار کر کے آپ کی بہت سی تحریروں اور نوٹس کو ضبط کر لیا۔یہ آپ کی چھٹی اور سخت ترین گرفتاری تھی۔آپ کو۱۹۷۵کے موسم خزاں تک قید میں رکھا گیا۔ اس عرصے کے دوران آپ کو ایک کوٹھڑی میں سخت ترین حالات میں رکھا گیا اور خود آپ کے بقول صرف وہی ان حالات کو سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے ان حالات کو دیکھا ہے۔ جیل سے رہائی کے بعد آپ مشہد مقدس واپس آ گئے اور ماضی کی طرح علمی ، تحقیقی اور انقلابی عمل کو آگے بڑھایا۔ البتہ آپ کو پہلے کی طرح کلاسوں کی تشکیل کا موقع نہیں دیا گیا۔
شہر بدری
ظالم پہلوی حکومت نے سن ۱۹۷۷کے اواخر میں حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو گرفتار کر کے تین سال کے لیے ایرانشہر شہر بدر کر دیا۔ سن ۱۹۷۸ کے وسط میں ایران کے مسلمان اور انقلابی عوام کی جدوجہد کے عروج پر پہنچنے کے بعد آپ شہر بدری سے آزاد ہو کر مشہد مقدس واپس آ گئے اورسفاک پہلوی حکومت کے خلاف عوام کی جدوجہد کی اگلی صفوں میں شامل ہو گئے ۔ راہ خدا میں انتھک جدوجہد اور سختیاں برداشت کرنے کا نتیجہ یعنی ایران کے عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی اور ظالم پہلوی حکومت کا سقوط اور اس سرزمین میں اسلام کی حاکمیت کے قیام کا مشادہ آپ نے اپنی آنکھوں سے کیا۔
کامیابی سے قبل
اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی پیرس سے تہران واپسی سے پہلے ان کی طرف سے شہید مطہری، شہید بہشتی، ہاشمی رفسنجانی وغیرہ کی مانند مجاہد علما اور افراد پر مشتمل کمیٹی شورائے انقلاب اسلامی قائم کی گئی۔ حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے حکم پر اس کمیٹی کے رکن بنے۔ شہید مطہری نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام آپ تک پہنچایا ۔ رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام ملتے ہی آپ مشہد سے تہران آ گئے۔
No comments:
Post a Comment