ولادت علی در کعبہ از علماء اھل سنت .1قسط
حاکم نیشابوری
امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ خانہ کعبہ میں فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے یہ روایت تواتر کی حد تک ہے ۔ (1)
حافظ گنجی شافعی
امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر شب جمعہ ۳۱رجب ، ۰۳ عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی بیت اللہ میں پیدا نہ ہوا ۔ یہ مقام و منزلت و شرف فقط حضرت علی علیہ السلام کو حاصل ہے ۔ (2)
علامہ ابن صبّاغ مالکی
علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۳۱رجب ،۰۳عام الفیل، ۳۲سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔حضرت علی علیہ السلام کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے ۔ (3)
احمد بن عبد الرحیم دہلوی
شاہ ولی اللہ احمد بن عبد الرحیم د معروف محدث دہلوی نقل کرتے ہیں:
بغیر کسی شک و شبہ کے یہ روایت متواتر ہے کہ علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۱۳رجب ،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت ،مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ۔ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کوئی بھی شخص خانہ کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا ۔ حضرت علی (ع) کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے “ (4)
علامہ ابن جوزی جنفی کہتے ہیں کہ حدیث میں وارد ہے
جناب فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کررہی تھیں کہ وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اسی وقت خانہ کعبہ کا دروازہ کھلا اورجناب فاطمہ بنت اسد کعبہ کے اندر داخل ہوگئيں ۔اسی جگہ خانہ کعبہ کے اندر حضرت علی علیہ السلام پیدا ہوئے ۔“ (5)
ابن مغازلی شافعی زبیدہ بنت عجلان سے نقل کرتے ہیں :
جس وقت فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اور درد شدت اختیار کرگیا ، تو جناب ابو طالب(ع) بہت زیادہ پریشان ہوگئے اسی اثناء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں پہنچ گئے اور پوچھا چچا جان آپ کیوں پریشان ہیں! جناب ابو طالب (ع) نے جناب فاطمہ بنت اسد کا قضیہ بیان کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فاطمہ بنت اسد کے پاس تشریف لے گئے ۔ اور آپ (ص) نے جناب ابو طالب (ع) کا ہاتھ پکڑکر خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہو گئے ،فاطمہ بنت اسد بھی ساتھ ساتھ تھیں ۔ وہاں پہنچ کر آپ نے فاطمہ بنت اسد کو خانہ کعبہ کے اندر بھیج کر فرمایا : ”اجلسی علیٰ اسم اللّٰہ “ اللہ کا نام لے کر آپ اس جگہ بیٹھ جائیے ۔ پس کچھ دیر کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت و پاکیزہ بچہ پیدا ہوا ۔ اتنا خوبصورت بچہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ جناب ابوطالب (ع) نے اس بچہ کا نام ” علی “رکھا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بچہ کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر فاطمہ بنت اسد کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے ۔ (6)
علامہ سکتواری بسنوی
اسلام میں وہ سب سے پہلا بچہ ہے جس کا تمام صحابہ کے درمیان ”حیدر “ یعنی شیر نام رکھا گیا ہے۔ وہ ہمارے مولا اور سید و سردار حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔ جس وقت حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اس وقت حضرت ابو طالب (ع)سفر پر گئے ہوئے تھے ۔ حضرت علی علیہ السلام کی مادر گرامی نے ان کا نام تفأل کرنے کے بعد”اسد“ رکھا ۔ کیوں کہ” اسد“ ان کے والد محترم کا نام تھا۔ (7)
علامہ محمد مبین انصاری حنفی لکھنوی(فرنگی محلی)
حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی اس پاک و پاکیزہ اور مقدس جگہ پر پیدا نہ ہوا ۔ خدا وند عالم نے اس فضیلت کو فقط حضرت علی (ع) ہی سے مخصوص کیا ہے اور خانہ کعبہ کو بھی اس شرف سے مشرف فرمایا ہے۔ (8)
صفی الدین حضرمی شافعی لکھتے ہیں
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ۔آپ (ع) وہ پہلے اور آخری شخص ہیں جو ایسی پاک اور مقدس جگہ پیدا ہوے ۔ (9)
حافظ شمس الدین ذہبی
حافظ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد ذہبی ” تلخیص مستدرک “ میں تحریر فرماتے ہیں: یہ خبر تواتر کی حد تک ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ (10)
آلوسی بغدادی
یہ واقعہ اپنی جگہ بجا اور بہتر ہے کہ خدا وند عالم نے ارادہ کیا ہے کہ ہمارے امام اور پیشوا کو ایسی جگہ پیدا کرے جو سارے عالم کے مومنین کا قبلہ ہے ۔ پاک و پاکیزہ ہے وہ پر وردگار کہ ہر اس چیز کو اسی کی جگہ پر رکھتا ہے ۔وہ بہترین حاکم ہے ۔ (11)
وہ آگے لکھتے ہیں:
جیسا کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام بھی چاہتے تھے کہ خانہ کعبہ جس کے اندر پیدا ہونا ان کے لئے باعث افتخار تھا اس کی خدمت کریں۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے بتوں کو بلندی سے اٹھا کر نیچے پھینک دیا ۔ حدیث کے ایک ٹکڑے میں آیا ہے کہ خانہ کعبہ نے بارگاہ خداوندی میں شکایت کرتے ہوئے کہا : بار الٰہا کب تک لوگ میرے چاروں طرف بتوں کی پوجا کرتے رہیں گے۔ خداوند عالم نے اس سے وعدہ کیا کہ اس مکان مقدس کو بتو ں سے پاک کرے گا۔ (12)
حوالہ جات
1- مستدرک حاکم نیشاپوری ،ج۳ص۴۸۳۔۵۵۰( حکیم ابن حزام کے شرح میں) و کفایۃ الطالب،ص۲۶۰
2- کفایۃ الطالب ، ص۴۰۷
3- الفصول المہمۃ ،ص۳۰
4- ازالۃ الخلفاءج۲ص۲۵۱
5- تذکرۃ الخواص ،ص۲۰
6- مناقب ابن مغازلی ،ص ۶، ح۳ ۔الفصول المہمۃ ،ص۳۰
7- محاضرۃ الاوائل ،ص۷۹
8- وسیلۃ النجاۃ ،محمد مبین حنفی ،ص۶۰( چاپ گلشن فیض لکھنو )
9- وسیلۃ المآل ،حضرمی شافعی ، ص۲۸۲
10- تلخیص مستدرک ج۲ص۴۸۳
11- غالیۃ المواعظ ،ج ۲ص۸۹ و الغدیر ،ج۶ ، ص۲۲
12- ازاحۃ الخلفاءعن خلافۃ الخلفاء،ص 251
حاکم نیشابوری
امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ خانہ کعبہ میں فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے یہ روایت تواتر کی حد تک ہے ۔ (1)
حافظ گنجی شافعی
امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر شب جمعہ ۳۱رجب ، ۰۳ عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی بیت اللہ میں پیدا نہ ہوا ۔ یہ مقام و منزلت و شرف فقط حضرت علی علیہ السلام کو حاصل ہے ۔ (2)
علامہ ابن صبّاغ مالکی
علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۳۱رجب ،۰۳عام الفیل، ۳۲سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔حضرت علی علیہ السلام کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے ۔ (3)
احمد بن عبد الرحیم دہلوی
شاہ ولی اللہ احمد بن عبد الرحیم د معروف محدث دہلوی نقل کرتے ہیں:
بغیر کسی شک و شبہ کے یہ روایت متواتر ہے کہ علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۱۳رجب ،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت ،مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے ۔ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد کوئی بھی شخص خانہ کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا ۔ حضرت علی (ع) کی جلالت وبزرگی اور کرامت کی وجہ سے خداوند عالم نے اس فضیلت کوان کے لئے مخصوص کیا ہے “ (4)
علامہ ابن جوزی جنفی کہتے ہیں کہ حدیث میں وارد ہے
جناب فاطمہ بنت اسد خانہ کعبہ کا طواف کررہی تھیں کہ وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اسی وقت خانہ کعبہ کا دروازہ کھلا اورجناب فاطمہ بنت اسد کعبہ کے اندر داخل ہوگئيں ۔اسی جگہ خانہ کعبہ کے اندر حضرت علی علیہ السلام پیدا ہوئے ۔“ (5)
ابن مغازلی شافعی زبیدہ بنت عجلان سے نقل کرتے ہیں :
جس وقت فاطمہ بنت اسد پر وضع حمل کے آثار ظاہر ہوئے اور درد شدت اختیار کرگیا ، تو جناب ابو طالب(ع) بہت زیادہ پریشان ہوگئے اسی اثناء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں پہنچ گئے اور پوچھا چچا جان آپ کیوں پریشان ہیں! جناب ابو طالب (ع) نے جناب فاطمہ بنت اسد کا قضیہ بیان کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فاطمہ بنت اسد کے پاس تشریف لے گئے ۔ اور آپ (ص) نے جناب ابو طالب (ع) کا ہاتھ پکڑکر خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہو گئے ،فاطمہ بنت اسد بھی ساتھ ساتھ تھیں ۔ وہاں پہنچ کر آپ نے فاطمہ بنت اسد کو خانہ کعبہ کے اندر بھیج کر فرمایا : ”اجلسی علیٰ اسم اللّٰہ “ اللہ کا نام لے کر آپ اس جگہ بیٹھ جائیے ۔ پس کچھ دیر کے بعد ایک بہت ہی خوبصورت و پاکیزہ بچہ پیدا ہوا ۔ اتنا خوبصورت بچہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ جناب ابوطالب (ع) نے اس بچہ کا نام ” علی “رکھا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بچہ کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر فاطمہ بنت اسد کے ہمراہ ان کے گھر تشریف لے گئے ۔ (6)
علامہ سکتواری بسنوی
اسلام میں وہ سب سے پہلا بچہ ہے جس کا تمام صحابہ کے درمیان ”حیدر “ یعنی شیر نام رکھا گیا ہے۔ وہ ہمارے مولا اور سید و سردار حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔ جس وقت حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اس وقت حضرت ابو طالب (ع)سفر پر گئے ہوئے تھے ۔ حضرت علی علیہ السلام کی مادر گرامی نے ان کا نام تفأل کرنے کے بعد”اسد“ رکھا ۔ کیوں کہ” اسد“ ان کے والد محترم کا نام تھا۔ (7)
علامہ محمد مبین انصاری حنفی لکھنوی(فرنگی محلی)
حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی اس پاک و پاکیزہ اور مقدس جگہ پر پیدا نہ ہوا ۔ خدا وند عالم نے اس فضیلت کو فقط حضرت علی (ع) ہی سے مخصوص کیا ہے اور خانہ کعبہ کو بھی اس شرف سے مشرف فرمایا ہے۔ (8)
صفی الدین حضرمی شافعی لکھتے ہیں
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی ۔آپ (ع) وہ پہلے اور آخری شخص ہیں جو ایسی پاک اور مقدس جگہ پیدا ہوے ۔ (9)
حافظ شمس الدین ذہبی
حافظ شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد ذہبی ” تلخیص مستدرک “ میں تحریر فرماتے ہیں: یہ خبر تواتر کی حد تک ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ (10)
آلوسی بغدادی
یہ واقعہ اپنی جگہ بجا اور بہتر ہے کہ خدا وند عالم نے ارادہ کیا ہے کہ ہمارے امام اور پیشوا کو ایسی جگہ پیدا کرے جو سارے عالم کے مومنین کا قبلہ ہے ۔ پاک و پاکیزہ ہے وہ پر وردگار کہ ہر اس چیز کو اسی کی جگہ پر رکھتا ہے ۔وہ بہترین حاکم ہے ۔ (11)
وہ آگے لکھتے ہیں:
جیسا کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام بھی چاہتے تھے کہ خانہ کعبہ جس کے اندر پیدا ہونا ان کے لئے باعث افتخار تھا اس کی خدمت کریں۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے بتوں کو بلندی سے اٹھا کر نیچے پھینک دیا ۔ حدیث کے ایک ٹکڑے میں آیا ہے کہ خانہ کعبہ نے بارگاہ خداوندی میں شکایت کرتے ہوئے کہا : بار الٰہا کب تک لوگ میرے چاروں طرف بتوں کی پوجا کرتے رہیں گے۔ خداوند عالم نے اس سے وعدہ کیا کہ اس مکان مقدس کو بتو ں سے پاک کرے گا۔ (12)
حوالہ جات
1- مستدرک حاکم نیشاپوری ،ج۳ص۴۸۳۔۵۵۰( حکیم ابن حزام کے شرح میں) و کفایۃ الطالب،ص۲۶۰
2- کفایۃ الطالب ، ص۴۰۷
3- الفصول المہمۃ ،ص۳۰
4- ازالۃ الخلفاءج۲ص۲۵۱
5- تذکرۃ الخواص ،ص۲۰
6- مناقب ابن مغازلی ،ص ۶، ح۳ ۔الفصول المہمۃ ،ص۳۰
7- محاضرۃ الاوائل ،ص۷۹
8- وسیلۃ النجاۃ ،محمد مبین حنفی ،ص۶۰( چاپ گلشن فیض لکھنو )
9- وسیلۃ المآل ،حضرمی شافعی ، ص۲۸۲
10- تلخیص مستدرک ج۲ص۴۸۳
11- غالیۃ المواعظ ،ج ۲ص۸۹ و الغدیر ،ج۶ ، ص۲۲
12- ازاحۃ الخلفاءعن خلافۃ الخلفاء،ص 251
ولادت علی درکعبہ ازاھل سنت علما ۔2
عبد الحق دہلوی:
عبد الحق بن سیف الدین دہلوی اپنی کتاب ” مدارج النبوہ“ میں تحریر فرماتے ہیں: جناب فاطمہ بنت اسد نے امیر المومنین کا نام حیدر رکھا ،اس لئے کہ معنی کے اعتبار سے باپ (اسد) اور بیٹے کا نام ایک ہی رہے۔ لیکن جناب ابو طالب (ع) اس نام کو پسند نہیں کیا،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے آپ کا نام ” علی (ع) “ رکھا۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو ”صدیق “ کہہ کر پکارا اور آپ کی کنیت ” ابو ریحانتین“ رکھی۔ ” امین، شریف، ہادی، مہتدی، یعسوب الدین وغیرہ القاب سے آپ کو نوازا۔اس کے بعد عبد الحق بن سیف الدین دہلوی تحریر فرماتے ہیں : ” حضرت علی (ع) کی ولادت باسعادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی“ (۱)
اخطب خوارزمی:
موفق بن احمد جو اخطب خوارزمی سے مشہور ہیں اپنی کتاب ” مناقب“ میں تحریر فرماتے ہیں: ”علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۱۳رجب ،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت اور بعثت سے ۱۰ یا ۱۲ سال پہلے مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے“ ۔ (2)
شیخ مومن بن حسن شبلنجی:
شیخ مومن بن حسن شبلنجی کہتے ہیں کہ حضرت علی ابن طالب (ع) حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچازاد بھائی اور خدا وند عالم کی برہنہ تلوار ہیں جو مکہ معظمہ خانہ کعبہ کے اندر ۱۳رجب الحرام جمعہ کے دن ۳۰ عام الفیل ہجرت کے ۲۳سال قبل خانہ خدا میں پیدا ہوئے ۔ (3)
عباس محمود عقاد :
عقاد کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پید ا ہوئے ۔ خدا وند عالم نے حضرت علی علیہ السلام کے چہرے کو پاک و پاکیزہ اور بلند قرار دیا تھا کہ وہ بتوں کا سجدہ نہ کریں لہٰذا وہ چاہتا تھا کہ ایک نئے انداز اور نئی جگہ ان کی ولادت ہو پس خانہ کعبہ کو انتخاب کیا جو عبادت گاہ تھی۔قریب تھا کہ علی علیہ السلام مسلمان پیدا ہوتے ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمان پیدا ہوئے ،لہٰذا ہم ان کی ولادت پر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوئے کیوں کہ وہ بتوں کی پرستش سے ناواقف تھے اور نہ کبھی بتوں کی پوجا کی۔ وہ اس مبارک جگہ پیدا ہوئے جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا۔ (4)
علامہ صفوری:
علامہ صفور ی کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اپنی مادر گرامی کے بطن مبارک سے خانہ کعبہ کے اندر جس کو خدا نے شرف بخشا ہے پیدا ہوئے ۔ یہ وہ فضیلت ہے جس کو خدا وند عالم نے ان کے لئے مخصوص کر دیا تھا۔ (5)
علامہ برہان الدین حلبی شافعی:
علامہ برہان الدین حلبی شافعی نے حضرت علی ابن ابی طالب کی ولادت کے سلسلہ میں کافی طولانی بحث کی ہے مختصر یہ کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیداہوئے ۔ اس وقت حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمرمبارک تیس سال تھی۔ (6)
عبد الحمید خان دہلوی :
عبد الحمید خان دہلوی لکھتے ہیں: اکثر مو ¿رخین کا اتفاق و اعتقاد ہے کہ حضرت علی علیہ السلام مکہ معظمہ خانہ کعبہ کے اندر جمعہ کے دن ۱۳ رجب تیس عام الفیل کو پیدا ہوئے اُس سے پہلے اور اُس کے بعد کوئی بیت اللہ میں پیدا نہیں ہوا ۔ (7)
باکثیر حضرمی:
علی بن ابی طالب علیہ السلام ۱۳رجب ،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے“ (8)
مولوی اشرف
علی بن ابی طالب علیہ السلام ۱۳رجب ،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے“ (9)
علّامہ سعید گجراتی:
علامہ سعید گجراتی اہل سنت کے بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں ،اپنی کتاب ” الاعلام با ¿ علام مسجد الحرام “ میں اس روایت کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ” حضرت علی (ع) ابو قبیس نامی پہاڑ کے دامن میں پیدا ہوئے“ جس کو دشمنان اہلبیت (ع) نے لکھا ہے۔
خدا یا! تو بہتر جانتا ہے کہ یہ بہتان دشمنان اہلبیت (ع) کی طرف سے ہے ۔ دشمنان علی (ع) نے اس واقعہ کو گڑھا ہے ۔ جب کہ متواتر روایتیں دلالت کرتی ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ خدایا ! تو مجھے رسول اکرم (ص) کی سنت پر باقی رکھ اور ان کے اہلبیت (ع) کی دشمنی سے دور رکھ “ (10)
عبد المسیح انطاکی مصری:
عبد المسیح انطاکی مصری شاعر نے مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی ولادت سے متعلق تقریبا پانچ سو (۵۰۰) شعر کہیں ہیں کہ حضرت علی (ع) خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ میں ان تمام اشعار کو یہاں ذکر نہیں کر سکتا شاہد کے طور پر مطلع آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:
فی رحبۃ الکعبۃ الزھراء قد انبثقت
انوار طفل وضائت فی منافیھا (11)
۱۔ مدارج النبوہ ج۲ص۵۳۱
2 ۔ کفایۃ الطالب ، ص۴۰۷
3 ۔ نور الابصار ، ص۸۵
4 ۔ عبقریۃ الامام علی(ع) ،ص۴۳
5 ۔ نزھۃ المجالس ،ج۲ص۴۵۴
6 ۔ السیرۃ الحلبیۃ ،ج۱ص۱۳۹و ج۳ص۳۶۷
7 ۔ سیرہ خلفاءج ۸ ص ۲
8 ۔ وسیلۃ المال ،ص۱۴۵
9 ۔ ریاض الجنان ،ج۱ص۱۱۱
10 ۔ الاعلام الا ¾ علام مسجد الحرام خطی بہ نقل علی و کعبہ،ص۷۶
11 ۔ قصیدہ علویہ ص 61
عبد الحق دہلوی:
عبد الحق بن سیف الدین دہلوی اپنی کتاب ” مدارج النبوہ“ میں تحریر فرماتے ہیں: جناب فاطمہ بنت اسد نے امیر المومنین کا نام حیدر رکھا ،اس لئے کہ معنی کے اعتبار سے باپ (اسد) اور بیٹے کا نام ایک ہی رہے۔ لیکن جناب ابو طالب (ع) اس نام کو پسند نہیں کیا،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے آپ کا نام ” علی (ع) “ رکھا۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو ”صدیق “ کہہ کر پکارا اور آپ کی کنیت ” ابو ریحانتین“ رکھی۔ ” امین، شریف، ہادی، مہتدی، یعسوب الدین وغیرہ القاب سے آپ کو نوازا۔اس کے بعد عبد الحق بن سیف الدین دہلوی تحریر فرماتے ہیں : ” حضرت علی (ع) کی ولادت باسعادت خانہ کعبہ کے اندر ہوئی“ (۱)
اخطب خوارزمی:
موفق بن احمد جو اخطب خوارزمی سے مشہور ہیں اپنی کتاب ” مناقب“ میں تحریر فرماتے ہیں: ”علی بن ابی طالب علیہ السلام شب جمعہ ۱۳رجب ،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت اور بعثت سے ۱۰ یا ۱۲ سال پہلے مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے“ ۔ (2)
شیخ مومن بن حسن شبلنجی:
شیخ مومن بن حسن شبلنجی کہتے ہیں کہ حضرت علی ابن طالب (ع) حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچازاد بھائی اور خدا وند عالم کی برہنہ تلوار ہیں جو مکہ معظمہ خانہ کعبہ کے اندر ۱۳رجب الحرام جمعہ کے دن ۳۰ عام الفیل ہجرت کے ۲۳سال قبل خانہ خدا میں پیدا ہوئے ۔ (3)
عباس محمود عقاد :
عقاد کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پید ا ہوئے ۔ خدا وند عالم نے حضرت علی علیہ السلام کے چہرے کو پاک و پاکیزہ اور بلند قرار دیا تھا کہ وہ بتوں کا سجدہ نہ کریں لہٰذا وہ چاہتا تھا کہ ایک نئے انداز اور نئی جگہ ان کی ولادت ہو پس خانہ کعبہ کو انتخاب کیا جو عبادت گاہ تھی۔قریب تھا کہ علی علیہ السلام مسلمان پیدا ہوتے ۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مسلمان پیدا ہوئے ،لہٰذا ہم ان کی ولادت پر غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوئے کیوں کہ وہ بتوں کی پرستش سے ناواقف تھے اور نہ کبھی بتوں کی پوجا کی۔ وہ اس مبارک جگہ پیدا ہوئے جہاں سے اسلام کا آغاز ہوا۔ (4)
علامہ صفوری:
علامہ صفور ی کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام اپنی مادر گرامی کے بطن مبارک سے خانہ کعبہ کے اندر جس کو خدا نے شرف بخشا ہے پیدا ہوئے ۔ یہ وہ فضیلت ہے جس کو خدا وند عالم نے ان کے لئے مخصوص کر دیا تھا۔ (5)
علامہ برہان الدین حلبی شافعی:
علامہ برہان الدین حلبی شافعی نے حضرت علی ابن ابی طالب کی ولادت کے سلسلہ میں کافی طولانی بحث کی ہے مختصر یہ کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیداہوئے ۔ اس وقت حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمرمبارک تیس سال تھی۔ (6)
عبد الحمید خان دہلوی :
عبد الحمید خان دہلوی لکھتے ہیں: اکثر مو ¿رخین کا اتفاق و اعتقاد ہے کہ حضرت علی علیہ السلام مکہ معظمہ خانہ کعبہ کے اندر جمعہ کے دن ۱۳ رجب تیس عام الفیل کو پیدا ہوئے اُس سے پہلے اور اُس کے بعد کوئی بیت اللہ میں پیدا نہیں ہوا ۔ (7)
باکثیر حضرمی:
علی بن ابی طالب علیہ السلام ۱۳رجب ،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے“ (8)
مولوی اشرف
علی بن ابی طالب علیہ السلام ۱۳رجب ،۳۰عام الفیل، ۲۳سال قبل از ہجرت مکہ معظمہ میں خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے“ (9)
علّامہ سعید گجراتی:
علامہ سعید گجراتی اہل سنت کے بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں ،اپنی کتاب ” الاعلام با ¿ علام مسجد الحرام “ میں اس روایت کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ” حضرت علی (ع) ابو قبیس نامی پہاڑ کے دامن میں پیدا ہوئے“ جس کو دشمنان اہلبیت (ع) نے لکھا ہے۔
خدا یا! تو بہتر جانتا ہے کہ یہ بہتان دشمنان اہلبیت (ع) کی طرف سے ہے ۔ دشمنان علی (ع) نے اس واقعہ کو گڑھا ہے ۔ جب کہ متواتر روایتیں دلالت کرتی ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔ خدایا ! تو مجھے رسول اکرم (ص) کی سنت پر باقی رکھ اور ان کے اہلبیت (ع) کی دشمنی سے دور رکھ “ (10)
عبد المسیح انطاکی مصری:
عبد المسیح انطاکی مصری شاعر نے مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی ولادت سے متعلق تقریبا پانچ سو (۵۰۰) شعر کہیں ہیں کہ حضرت علی (ع) خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے ۔ میں ان تمام اشعار کو یہاں ذکر نہیں کر سکتا شاہد کے طور پر مطلع آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:
فی رحبۃ الکعبۃ الزھراء قد انبثقت
انوار طفل وضائت فی منافیھا (11)
۱۔ مدارج النبوہ ج۲ص۵۳۱
2 ۔ کفایۃ الطالب ، ص۴۰۷
3 ۔ نور الابصار ، ص۸۵
4 ۔ عبقریۃ الامام علی(ع) ،ص۴۳
5 ۔ نزھۃ المجالس ،ج۲ص۴۵۴
6 ۔ السیرۃ الحلبیۃ ،ج۱ص۱۳۹و ج۳ص۳۶۷
7 ۔ سیرہ خلفاءج ۸ ص ۲
8 ۔ وسیلۃ المال ،ص۱۴۵
9 ۔ ریاض الجنان ،ج۱ص۱۱۱
10 ۔ الاعلام الا ¾ علام مسجد الحرام خطی بہ نقل علی و کعبہ،ص۷۶
11 ۔ قصیدہ علویہ ص 61
حکیم بن حزام کی کعبہ میں ولادت کاافسانہ
حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونا تو یہ ایک جھوٹا افسانہ ہے جو دشمنی علی (ع) کی بناء پر ناصبیوں نے تراشا ہے تاکہ حضرت علی (ع) کی اس فضیلت کو کمزور کیا جا سکے حالانکہ جلیل القدر علماء نے ناقابل رد دلائل سے اس من گھڑت قصہ کی رد فرمائی ہے
امام حاکم نے اپنی مستدرک میں اور ذہبی کا تلخیص میں حکیم کے حالات میں اس کا کعبہ کے اندر پیدا ہونا کو رد کیا اور مولا علی (ع) کی ولادت کعبہ میں کو متواتر کا درجہ دیا . معلوم ہوا کہ امام حاکم کے نزدیک حکیم کا کعبہ پیدا ہونا جھوٹ ہے
مشہور محدث سبط ابن جوزی نے تذکرۃ الاخواص میں حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونے کو اس طرح رد کیا ہے
حکیم بن حزام کی ماں نے اسے کعبہ میں جنا ، اس بارے میں حافظ ابو نعیم اصبہانی نے ایک طویل روایت میں نقل کی ہے مگر اس کی سند میں روح بن صلاح ہے جس کی حافظ ابن عدی نے تضعیف کی ہے
تذکرۃ الخواص// سبط ابن جوزی// ص 30 // طبع نجف عراق
اورزبیرابن بکار متوفای 256 ھے اس سےپھلےکسی کتاب اھل سنت میں حکیم کی کعبہ میں ولادت کاذکرنہیں ھے
اس کےبعدبھی جس نےنقل کیایہ من گھڑت واقعہ اسی سےنقل کیاھےزبیربن بکاراس روایت کو مصعب بن عثمان بن مصعب بن عروہ بن الزبیربن العوام سےنقل کرتاھے
اوراس میں چنداشکال ھیں
1.مصعب بن عثمان مجھول ھےاور رجال کی کسی کتاب میں اس کانام تک نہیں
2.روایت مرسل ھےکیونکہ مصعب اس واقعہ کےدھائیوں بعدپیداھورھاھے وہ کیسےاس واقعہ کونقل کرسکتا ھے
3..یہ روایت زبیربن بکارکی گھڑی ھوئی ھے اوروہ دشمن اھل بیت تھااوراس روایت کودشمن اھل بیت ھی استعمال کررھےھیں آج تک
اس قصہ کو سب سے پہلے بیان کرنے والا زبیر بن بکار ہے اور زبیر کا خاندان ، اولاد علی کی عداوت میں مشہور تھا اور اس کے علاوہ خود زبیر بن بکار اپنی اھل بیت دشمنی اور بد عقیدتی سے سفاک متوکل عباسی اور اس کی اولاد کو درس دینے پر معین تھا اور اولاد علی (ع) سے دشمنی کی وجہ سے اس کو متوکل نے مکہ کا حاکم مقرر کر دیا تھا
چنانچہ حکیم کا کعبہ میں پیدا ہونا غلط ہے اور من کھڑت قصے سے زیادہ اھمیت نہیں رکھتا
پہلی بات یہ ہے کہ حکیم کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا ، من گھڑت قصہ ہے جس کو ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں اور امام حاکم ، سبط ابن جوزی جیسے افراد نے اس کا رد کیا ہے جبکہ امام علی (ع) کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا متواتر سے ثابت ہے اور یہ دعویٰٰ امام حاکم ،ذہبی ، ملا علی قاری جیسے لوگوں کا ہے
اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ اگر روایت متواتر ہوجائے تو اس کا ضعیف ہونا مضر نہیں کیونکہ روایت متواتر تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور اصول حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ متواتر کا انکار کرنے والا جاہل آدمی ہے
اگر بالفرض ولادت علی در کعبہ کی روایت ضعیف بھی ہے تو اھل علم جانتے ہیں کہ کسی روایت کا ضعیف ہونا الگ بات ہے اور اس کا موضوع یعنی بناوٹی ہونا الگ بات ہے نیز فضائل کے باب میں ضعیف روایت بھی معتبر ہوتی ہے جبکہ مولا علی (ع) کی ولادت کعبہ شریف میں متواتر سے ثابت ھے
حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونا تو یہ ایک جھوٹا افسانہ ہے جو دشمنی علی (ع) کی بناء پر ناصبیوں نے تراشا ہے تاکہ حضرت علی (ع) کی اس فضیلت کو کمزور کیا جا سکے حالانکہ جلیل القدر علماء نے ناقابل رد دلائل سے اس من گھڑت قصہ کی رد فرمائی ہے
امام حاکم نے اپنی مستدرک میں اور ذہبی کا تلخیص میں حکیم کے حالات میں اس کا کعبہ کے اندر پیدا ہونا کو رد کیا اور مولا علی (ع) کی ولادت کعبہ میں کو متواتر کا درجہ دیا . معلوم ہوا کہ امام حاکم کے نزدیک حکیم کا کعبہ پیدا ہونا جھوٹ ہے
مشہور محدث سبط ابن جوزی نے تذکرۃ الاخواص میں حکیم بن حزام کا کعبہ میں پیدا ہونے کو اس طرح رد کیا ہے
حکیم بن حزام کی ماں نے اسے کعبہ میں جنا ، اس بارے میں حافظ ابو نعیم اصبہانی نے ایک طویل روایت میں نقل کی ہے مگر اس کی سند میں روح بن صلاح ہے جس کی حافظ ابن عدی نے تضعیف کی ہے
تذکرۃ الخواص// سبط ابن جوزی// ص 30 // طبع نجف عراق
اورزبیرابن بکار متوفای 256 ھے اس سےپھلےکسی کتاب اھل سنت میں حکیم کی کعبہ میں ولادت کاذکرنہیں ھے
اس کےبعدبھی جس نےنقل کیایہ من گھڑت واقعہ اسی سےنقل کیاھےزبیربن بکاراس روایت کو مصعب بن عثمان بن مصعب بن عروہ بن الزبیربن العوام سےنقل کرتاھے
اوراس میں چنداشکال ھیں
1.مصعب بن عثمان مجھول ھےاور رجال کی کسی کتاب میں اس کانام تک نہیں
2.روایت مرسل ھےکیونکہ مصعب اس واقعہ کےدھائیوں بعدپیداھورھاھے وہ کیسےاس واقعہ کونقل کرسکتا ھے
3..یہ روایت زبیربن بکارکی گھڑی ھوئی ھے اوروہ دشمن اھل بیت تھااوراس روایت کودشمن اھل بیت ھی استعمال کررھےھیں آج تک
اس قصہ کو سب سے پہلے بیان کرنے والا زبیر بن بکار ہے اور زبیر کا خاندان ، اولاد علی کی عداوت میں مشہور تھا اور اس کے علاوہ خود زبیر بن بکار اپنی اھل بیت دشمنی اور بد عقیدتی سے سفاک متوکل عباسی اور اس کی اولاد کو درس دینے پر معین تھا اور اولاد علی (ع) سے دشمنی کی وجہ سے اس کو متوکل نے مکہ کا حاکم مقرر کر دیا تھا
چنانچہ حکیم کا کعبہ میں پیدا ہونا غلط ہے اور من کھڑت قصے سے زیادہ اھمیت نہیں رکھتا
پہلی بات یہ ہے کہ حکیم کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا ، من گھڑت قصہ ہے جس کو ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں اور امام حاکم ، سبط ابن جوزی جیسے افراد نے اس کا رد کیا ہے جبکہ امام علی (ع) کا خانہ کعبہ میں پیدا ہونا متواتر سے ثابت ہے اور یہ دعویٰٰ امام حاکم ،ذہبی ، ملا علی قاری جیسے لوگوں کا ہے
اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ اگر روایت متواتر ہوجائے تو اس کا ضعیف ہونا مضر نہیں کیونکہ روایت متواتر تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور اصول حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ متواتر کا انکار کرنے والا جاہل آدمی ہے
اگر بالفرض ولادت علی در کعبہ کی روایت ضعیف بھی ہے تو اھل علم جانتے ہیں کہ کسی روایت کا ضعیف ہونا الگ بات ہے اور اس کا موضوع یعنی بناوٹی ہونا الگ بات ہے نیز فضائل کے باب میں ضعیف روایت بھی معتبر ہوتی ہے جبکہ مولا علی (ع) کی ولادت کعبہ شریف میں متواتر سے ثابت ھے
No comments:
Post a Comment