Saturday, May 28, 2016

واقعه فطرس ، حسین علیہ السلام کی دنیا پر آمد کی پہلی کرامت و سخاوت کی نشانی

فطرس ، حسین علیہ السلام کی دنیا پر آمد کی پہلی کرامت و سخاوت کی نشانی                                                                                             اجمالی جائزہ
ہم اس مقالے میں ملائک ِ الہی کے بارے میں اور انکی صفات و ذمہ داریوں اور انکی عصمت کے بارے میں بحث کریں گے کہ کیا تمام ملائکہ معصوم ہیں یا کچھ ملائکہ ؟ عصمت کے بارے میں شیعہ و سنی علماء کی آراء و مبانی کو ذکر کریں گے اور خصوصا ایک فرشتے جسکا نام روایات میں " فطرس " آٰیا ہے اسکے بارے میں اور اسکی وضعیت و گناہ جو اس سے سر زد ہوا اسکے بارے میں تفصیل سے بحث کریں گے کہ یہ فطرس فرشتہ تھا تو کونسے درجے کا فرشتہ تھا اور روایات میں جو اسکی خدائی حکم سے سرپیچی و کوتاہی کا ذکر آیا ہے وہ کیا تھی اور نتیجے میں اسکے پر جل گئے یا ختم ہوگئے اسکی تفصیل و امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے صدقے میں اور انسے توسّل کی وجہ سے اسکو وہ پر واپس مل گئے ، کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی جائے گی اور اس واقعے پر موجود اشکالات عقلی و کلامی و رجالی کو ذکر کیا جائے گا
کلیدی و اصلی کلمات : فرشتہ ، عصمت و مقامات ملائکہ ، ترک اولی و گناہ ، گناہِ منزلتی
نوٹ : تکراری یا مشابہ عبائر ( عبارتوں ) کا ترجمہ ایک ہی دفعہ کیا جائے گا باربار تکرار نہیں کیا جائے گا پہلے ترجمے کی طرف رجوع کیا جائے
مقدمہ
اس کائنات میں موجودات و مخلوقات میں سے ایک مخلوق کا نام فرشتہ بھی ہے جو دیگر مخلوقات کی طرح اللہ کی ایک مخلوق ہے علماءِ علم کلام بلکہ اکثر مسلمان علماء، فرشتوں کو (جسم لطیف سے) ایک جسمانی مخلوق سمجھتے ہیں، بعض عبارتوں میں فرشتوں کی تخلیق کے اصل مادّے کے عنوان سے لفظ ” نور“ آیا ہے اور اس مشہور عبارت میں جو بہت سی کتابوں میں تحریر ہے یہ جملہ دیکھنے میں آتا ہے: ”المَلَکُ جِسمٌ نوریّ“۔ اور کچھ علماء فرشتوں کی تقسیم کے قائل ہیں ان میں سے کچھ کو نوری مخلوق اور کچھ کو ناری مخلوق قرار دیتے ہیں اور اسی طرح فرشتوں کی عصمت کے بارے میں بھی دو نظریہ سامنے آتے ہیں

اول ۔ تمام ملائکہ معصوم ہین بنص قرآن
دوم ۔ معظم ( اکثر ) ملائکہ معصوم ہیں اور کچھ نے عصیان کیا ہے اور انکو سزا ملی
ہم ان دونوں نظریوں کو انکے قائلین کے اقوال کے ساتھ ذکر کریں گے اور یھاں میں یہ بات بھی کھنا چاہوں گا کہ مکتب شیعہ کے اکثر علماء تمام ملائکہ کی عصمت کے قائل ہیں اور جن ملائکہ کی معصیت کو دوسرے علماء نے بیان کیا ہے ان میں سے کچھ کو ملک یعنی فرشتہ ہی نہیں جاتے اور کچھ کے ترک اولیٰ کے قائل ہیں
قرآن کریم کی بہت سی آیات میں ملائکہ کی صفات، خصوصیات ،ان کے کام اور ذمہ داریاں بیان ہوئی ہیں جیسکہ بعض کے اوپر خداوندعالم کی جانب سے مہم وظائف اور مختلف قسم کی بہت سی ذمہ داریاں ہیں، اُن میں سے بعض حاملانِ عرش الٰہی، بعض مدبرات امر، بعض فرشتے روحوں کو قبض کرنے والے، بعض انسانوں کے اعمال پر نگران، کچھ فرشتے خطرات سے انسان کی خفاظت کرتے ہیں، بعض موٴمنین کے لئے جنگ کے میدان میں الٰہی مددگار ہوتے ہیں، کچھ فرشتے عذاب اور سرکش قوموں کو سزا دینے پر مقرر ہیں اور بعض فرشتے وحی کے مبلّغ، انبیاء کو الٰہی پیغام پہنچاتے اور ان کے لئے آسمانی کتابیں لاتے ہیں ۔ فرشتوں کے درجات مختلف ہیں، وہ سب ایک رتبہ میں نہیں ہوتے ۔
یہاں تک کہ ملائکہ پر ایمان رکھنے کو؛ خدا، انبیاء اور آسمانی کتابوں کی صف میں قرار دیا گیا ہے، جو اس مسئلہ کی اہمیت کی دلیل ہے: < آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا اٴُنزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلاَئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ > (1)”رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس پر نازل کی گئی ہیں اور سب مومنین بھی اللہ اور ملائکہ اور مرسلین پر ایمان رکھتے ہیں“۔
بے شک فرشتوں کا وجود ”غیبی“ چیزوں میں سے ہے جن کو ان صفات اور خصوصیات کے ساتھ پہچاننے کے لئے صرف قرآن و روایات ہی کو دلیل بنایا جاسکتا ہے، اور غیب پر ایمان لانے کے حکم کی وجہ سے ان کو قبول کیا جانا چاہئے۔
فرشتوں کی جو صفات قرآن میں ذکر ہوئے ہیں انمیں میں سے کچھ کو ذکر کرتے ہیں
۱۔ فرشتے ؛ صاحب عقل و شعور اور خدا کے محترم بندے ہیں، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے: بَلْ عِبَادٌ مُکْرَمُوْنَ (2)” بلکہ وہ سب اس کے محترم بندے ہیں“۔
2- ملائکہ؛ خداوندعالم کے حکم کی فوراً اطاعت کرتے ہیں اور کبھی بھی اس کی معصیت نہیں کرتے: لاٰ یَسْبَقُوْنَہُ بِالْقُوْلِ وَھُمْ بِاٴَمْرِہِ یَعْمَلُوْنَ (3)”جو کسی بات پر اس پر سبقت نہیں کرتے ہیں اور اس کے احکام پر برابر عمل کرتے ہیں“۔
۳۔ ملائکہ؛ خداوندعالم کی طرف سے مختلف قسم کی بہت سی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں:
ایک گروہ ؛ عرش کو اٹھائے ہوئے ہے۔ ( وَ الْمَلَكُ عَلىَ أَرْجَائهَا وَ يحَمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئذٍ ثمَانِيَة ) (4) ( اور فرشتے اس کے کنارے پر ہوں گے اور اس دن آٹھ فرشتے آپ کے رب کا عرش ان سب کے اوپر اٹھائے ہوں گے )
ایک گروہ ؛ مدبرات امر ہے۔ ( فَالْمُدَبِّراتِ أَمْرا ) (5) ( پھر امر کی تدبیر کرنے والے ہیں )
ایک گروہ ؛ قبض روح کرتا ہے۔ (حَتىَّ إِذَا جَاءَتهْمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنهَمْ ) (6) (چنانچہ جب ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ان کی قبض روح کے لیے آئیں گے )
ایک گروہ ؛ انسان کے اعمال کا نگران ہے۔ (7) (وَ إِنَّ عَلَيْكُمْ لَحافِظينَ * كِراماً كاتِبينَ * يَعْلَمُونَ ما تَفْعَلُونَ ) ( جبکہ تم پر نگران مقرر ہیں * ایسے معزز لکھنے والے * جو تمہارے اعمالوں کو جانتے ہیں )
ایک گروہ ؛ انسان کو خطرات اور حوادث سے محفوظ رکھتا ہے۔ ( وَ يُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَة )(اور تم پر نگہبانی کرنے والے بھیجتا ہے ) (8)
ایک گروہ؛ سرکش اقوام پر عذاب نازل کرتا ہے۔ ( وَ لَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سىِ‏ءَ بهِمْ وَ ضَاقَ بهِمْ ذَرْعًا وَ قَالَ هَاذَا يَوْمٌ عَصِيب‏)( اور جب ہمارے فرستادے لوط کے پاس آئے تو لوط ان سے رنجیدہ ہوئے اور ان کے باعث دل تنگ ہوئے اور کہنے لگے : یہ بڑا سنگین دن ہے ) (9)
ایک گروہ ؛ جنگوں میں مومنین کی امداد کرتا ہے ۔ ( يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ اذْكُرُواْ نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكمُ‏ْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيهْمْ رِيحًا وَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا )( اے ایمان والو! اللہ کی وہ نعمت یاد کرو جو اس نے تم پر کی جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر آندھی بھیجی اور تمہیں نظر نہ آنے والے لشکر بھیجے ) (10)
اور بعض انبیاء علیہم السلام پر وحی اور آسمانی کتابیں نازل کرنے والے ہیں۔ (11)
۴۔ ملائکہ؛ ہمیشہ خداوندعالم کی تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: وَالْمَلاَئِکَةُ یُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِی الْاٴَرْض ( اور فرشتے اپنے پروردگار کی ثناء کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اہل زمین کے لیے استغفار کرتے ہیں ) (12)
۵ ۔ ان تمام چیزوں کے باوجود انسان استعداد اور تکامل و ترقی کے لحاظ سے ان سے بلند و برتر ہے یہاں تک کہ سب فرشتوں نے جناب آدم کو سجدہ کیا اور جناب آدم علیہ السلام ان کے معلم قرار پائے۔ (13)
۶۔ ملائکہ؛ کبھی کبھی انسان کی صورت میں آجاتے ہیں اور انبیاء بلکہ غیر انبیاء کے سامنے ظاہر ہوجاتے ہیں، جیسا کہ سورہ مریم میں پڑھتے ہیں: <فَاٴَرْسَلْنَا إِلَیْہَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا>(14)” تو ہم نے اپنی روح (جبرائیل) کو بھیجا جو ان کے سامنے ایک اچھا خاصا آدمی بن کر پیش ہوا“۔
ایک دو سرے مقام پر جنا ب ابراہیم اور جناب لوط کے سامنے انسانی صورت میں آئے۔ (15) یہاں تک کہ درج ذیل آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قوم لوط نے ان کو انسانی شکل و صورت میں دیکھا تھا۔ (16)
* کیا انسانی شکل و صورت میں ظاہر ہونا ایک حقیقت ہے؟ یا صرف خیالی اور سمجھنے کی حد تک ؟ یہ ایک دوسرا بحث ہے جسکی دوسرے مقالے میں وضاحت کریں گے انشاء اللہ و باللہ التوفیق
۷۔ اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ کسی بھی انسان سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں ہے : جس وقت امام علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ فرشتوں کی تعداد زیادہ ہے یا انسانوں کی؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا : ” قسم اس خدا کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، زمین میں مٹی کے ذرات سے کہیں زیادہ آسمان میں فرشتوں کی تعداد ہے، آسمان میں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں پر کسی فرشتہ نے خداوندعالم کی تسبیح و تقدیس نہ کی ہو“ (17)
۸۔ وہ نہ کھانا کھاتے ہیں اور نہ پانی پیتے ہیں، اور نہ ہی شادی کرتے ہیں، جیسا کہ امام صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہوا ہے: ” فرشتے نہ کھانا کھاتے ہیں اور نہ پانی پیتے ہیں اور نہ ہی شادی کرتے ہیں بلکہ نسیم عرش الٰہی کی وجہ سے زندہ ہیں“ (18)
۹۔ وہ نہ سوتے ہیں ، نہ سستی اور غفلت کا شکار ہوتے ہیں، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں بیان ہو اہے ”ان میں سستی ہے اور نہ غفلت، اور وہ خدا کی نافرمانی نہیں کرتے ان کو نیند بھی نہیں آتی ان کی عقل کبھی سہو و نسیان کا شکار نہیں ہوتی، ان کا بدن سست نہیں ہوتا، اور وہ صلب پدر اور رحم مادر میں قرار نہیں پاتے۔ (19)
۱۰۔ ان کے مختلف مقامات اور مختلف درجات ہوتے ہیں، ان میں بعض ہمیشہ رکوع میں رہتے ہیں اور بعض ہمیشہ سجدہ کی حالت میں :< وَمَا مِنَّا إِلاَّ لَہُ مَقَامٌ مَعْلُومٌ * وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّون * وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ > (20)”اور ہم میں سے ہر ایک کے لئے ایک مقام معین ہے اور ہم اس کی بارگاہ میں صف بستہ کھڑے ہونے والے ہیں اور ہم اس کی تسبیح کرنے والے ہیں“۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: خداوندعالم نے کچھ فرشتوں کو ایسا خلق کیا ہے جو روز قیامت تک رکوع میں رہیں گے اور بعض فرشتے ایسے ہیں جوقیامت تک سجدہ کی حالت میں رہیں گے۔ (21)
اور حتی انکے ایمان کو انبیاء کے ایمان کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ’’آمَنَ الرَّسُولُ بِما أُنْزِلَ إِلَیْهِ مِنْ رَبِّهِ وَ الْمُؤْمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَ مَلائِکَتِهِ وَ کُتُبِهِ وَ رُسُلِهِ‘‘(22)
اگر ہم ان کے ایک ایک کام اور ذمہ داری کو شمار کرنا چاہیں تو بحث طولانی ہوجائے گی ملائکہ کے اوصاف اور ان کی اقسام و بعض ذمہ داریوں کو جاننے کے سلسلہ میں کتاب ”السماء و العالم“، بحار الانوار ”ابواب الملائکہ“جلد ۵۹ صفحہ ۱۴۴ تا ۳۲۶ پر رجوع فرمائیں، اسی طرح نہج البلاغہ خطبہ نمبر ا، ۹۱، ۱۰۹، ۱۷۱ پر رجوع فرمائیں
خلاصۃ یہ ملائکہ اللہ تبارک و تعالی کے افعال کو جو کائنات تکوین و تشریح میں انجام دیتے ہیں افعال الہی کے وسائط ہیں جیسا کہ صدرالدین شیرازی معروف بہ ملا صدرا فرماتے ہیں
’’ هو المحیی و الممیت و الرازق و الهادی و المضل و لکن المباشر للإحیاء ملک اسمه إسرافیل و للإماتة ملک اسمه عزرائیل یقبض الأرواح من الأبدان و الأبدان من الأغذیة و الأغذیة من التراب و للأرزاق ملک اسمه میکائیل یعلم مقادیر الأغذیة و مکائیلها و للهدایة ملک اسمه جبرئیل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ و لکل من هذه الملائکة أعوان و جنود من القوى المسخرة لأوامر الله و کذا فی سائر أفعال الله سبحانه و لو کان هو المباشر لکل فعل دنی لکان إیجاده للوسائط النازلة بأمره إلى خلقه عبثا و هباء تعالى الله أن یخلق فی ملکه عبثا أو معطلا. ‘‘(23)
’’ خدا ہی زندہ کرتا ہے اور خدا ہی مارتا ہے ، خدا ہی رزق دیتا ہے اور خدا ہی ہدایت کرتا ہے مگر ان کاموں کا فاعل مباشر کچھ فرشتے ہیں جیسے زندہ کرنے کے لئے ایک فرشتہ ہے جسکا نام اسرافیل ہے ، اور مارنے کے لئے بھی ایک فرشتہ ہے جسکا نام عزرائیل ہے جو روحوں کو جسموں سے نکالتا ہے اور جسموں کو غذا سے اور غذا کو مٹی سے نکالتا ہے ، اور اسی طرح رزق دینے کے لئے بھی ایک فرشتہ ہے جسکا نام میکائیل ہے کہ جو رزق کی مقدار و وزن کو جانتا ہے ( کہ کس کو کتنا دینا ہے ) اور اسی طرح ہدایت دینے کے لئے بھی ایک فرشتہ ہے جسکا نام جبرائیل ہے اور ان تمام فرشتوں کے لئے دوسرے فرشتے انکے مددگار ہیں جو اللہ کے حکم کے تابع ہیں اور اسیطرح خداوند متعال کے دوسرے افعال اور اگر خداوند متعال ان چھوٹے و ناچیز کاموں کا خود فاعل مباشر و مستقیم ہوتا تو ان وسائط ( فرشتے ) جوکہ اللہ کے ہی حکم سے اسکی مخلوق کی طرف نازل ہوتے ہیں ، کی خلقت و ایجاد عبث و بیہودہ ہوتی اور خداوند متعال اس بات سے بلند و بالا ہے کہ اپنی مملکت میں کوئی عبث و بیکار مخلوق کو خلق فرمائے ‘‘
اس مقدمہ کو ذکر کرنے کے بعد ہم اصلی نکتے کی طرف آتے ہیں کہ قرآن نے ملائکہ کو معصوم کھا ہے اور وہ حکم الہی سے سرپیچی نہیں کرتے جو انہی حکم دیا جاتا ہے اسکو انجام دیتے ہیں ان نصوص کے ساتھ یہ سوال البتہ پیدا ہوتا ہے کہ اولا جو علماء ملائکہ کے عصیان کے قائل ہوئے ہیں انکی دلیلیں کیا ہیں کیا یہ نظریہ شاذ علماء پر مبنی ہے اس کے قائلین علمی میدان میں کس حیثیت کے مالک تھے کیا انکی یہ راء اشتباہ علمی ہے یا دلائل کے ساتھ ایک پختہ مبنا ؟ اسکے بعد ہمارا دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جو ملائکہ معصوم ہیں ان ملائکہ کی عصمت اختیاری ہے یا اجباری ؟ یعنی اپنے اختیار و ارادہ کے ساتھ وہ خداوند معتال کی نافرمانی نہیں کرتے یا ان میں نافرمانی کرنے کی صلاحیت ہی نہیں
سب سے پہلے ہم خلاصتا یہ بیان کرتے چلیں کہ عصمت کی لغت میں کیا معنا کی گئی ہے
عصمت "عصم" کا اسم مصدرہے اور عصم کی لغت میں معنا منع کرنے یا دور رکھنے کے ہے ۔ یہ منع کرنا یا دور رکھنا کبھی اختیار کو سلب کرنے سے حاصل ہوتا ہے تو کبھی اس فعل کو انجام نا دینے یا اس سے دور رکھنے کے مقدمات کو فراہم کرکے اس شخص کو اپنے اختیار سے اسکو انجام نا دینے سے حاصل ہوتا ہے (24)ابن زجاج جوکہ لغت عرب کے بزرگان میں سے ہے و عصمت کو ایک رسّی کی معنا میں لیتے ہیں کہ اس کی اصلی معنا رسّی کی ہی اس کے بعد گزر زمان کے ساتھ اس لفظ نے معنائی اعتبار سے وسعت اختیار کی اور ہر اس چیز پر صدق کیا کہ جسکے ذریعے سے کوئی دوسری چیز کو محفوظ رکھا جاسکے (25)شيخ مفيد علیہ الرحمہ نے بھی عصمت کو رسّی کے معنا میں لیا ہے اور فرمایا ہے کہ عصمت کی معنا اسطرح کی ہے کہ جیسے کوئی شخص دریا میں غرق ہو رہا ہو ، اور اسکو ایک رسّی دی جائے کہ جس کے ذریعے سے وہ خود کو غرق ہونے سے بچا لے(26)اوپر بیان شدہ مطالب کی روشنی میں جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ عصمت کئ لغوی معنا میں دو۲چیزیں موجود ہیں
ایک : کسی غیر کی طرف سے مدد کہ دوسرے شخص کو کسی چیز سے بچائے مثلا رسّی دے کر
دوسرا : اس شخص کا اس رسّی کو اپنے اختیار کے ساتھ استعمال کرنا
. یہ معنا روایات کے ذریعے سے بھی تائید ہوتی ہے جیسے امير المؤمنين سے نقل ہوا ہے کہ «ان التقوى عصمة لك فى حياتك» «تقوی تجھ کو تیری زندگی میں تجھ کو بچانے کے لئے ہے »(27)اور اصطلاح میں عصمت ایک ایسی طاقت کا نام ہے کہ جو انسان کو خطا اور گناہ میں پڑنے سے روکتی ہے ،اور یہ طاقت انسان کی اندرونی و باطنی طاقت ہئ نا کہ ظاہری.دوسرے الفاظ میں اسطرح کھ سکتے ہیں کہ عصمت ایک نفسانی ملكہ ہے کہ جس سے وہ گناہ میں پڑنے سے باز رہتا ہے . فالعصمة من الله سبحانه إنما هي بإيجاد سبب في الإنسان النبي يصدر عنه أفعاله الاختيارية صوابا و طاعة و هو نوع من العلم الراسخ و هو الملكة كما مر. (28)بنابراين عصمت میں ایک طرف سے توفیق الہی بھی ہے تو دوسری طرف سے خود معصوم کا ختیار بھی ہے نا توفیق الہی علت تامہ ہے نا اختیار معصوم علت تامہ. (29)
جیسے کہ اوپر مقدمہ میں عرض کیا کہ ملائکہ کی عصمت کے بارے میں دو نظریہ موجود ہیں گرچہ اس وقت و قدما میں جو مشھور نظریہ ہے وہ یہ ہے کہ تمام ملائکہ معصوم ہیں پھر بھی یہ بات فائدے سے خالی نہیں کہ ہم دوسرے نظریے کو بھی ذکر کرتے چلیں گرچہ مختصر ہی کیوں نا ہو
نظریہ مشھور۔ تمام ملائکہ معصوم ہین بنص قرآن
نظریہ دوم ۔ معظم ( اکثر ) ملائکہ معصوم ہیں اور کچھ ملائکہ نے عصیان کیا ہے اور انکو سزا ملی
مکتب شیعہ کے کچھ علماء اور اھل سنت کے کافی علماء و مفسرین نے اس دوسرے نظریے کو اخذ کیا ہے
ظاہرا سب سے پہلے مکتب شیعہ میں اس نظریہ کو اخذ و تبیین کرنے والا شیخ الطائفہ و شیخ الفقھاء ابی جعفر محمد بن حسن طوسی معروف بہ شیخ طوسی علیہ الرحمہ ہیں جنہوں نے اس نظریے کو قبول کرتے ہوئے اسے مستدل انداز میں بیان فرمایا اور انکے بعد آنے والے علماء و مفسرین میں سے جس نے بھی یہ نظریہ قبول کیا ہے شاید شیخ طوسی سے متاثر ہوکر کیا ہے
( یہ بات قارئین پر ہے کہ وہ ان دلیلوں کو کتنا محکم سمجھتے ہیں ہم فقط نقل قول کی حد تک ہی اکتفاء کریں گے اور اس نظریے کے دوسرے قائلین میں سے فقط اہم شخصیات کے بیان کو ذکر کریں گے اور اہل سنت کے علماء و مفسرین و دوسرے قائلین کے فقط حوالہ جات ذکر کریں گے )
شیخ طوسی نے اپنی تفسیر میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 36 وَ إِذْ قُلْنا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْليسَ أَبى وَ اسْتَكْبَرَ وَ كانَ مِنَ الْكافِرينَ کی تفسیر میں اپنے اسلوب خاصہ سے بحث کرتے ہوئے ابلیس پر بحث فرماتے ہوئے کھتے ہیں علماء و مفسرین میں اختلاف ہے کہ ابلیس ملائکہ میں سے تھا یا نہیں اسکے بعد شیخ طوسی مختلف اقوال ذکر فرماتے ہیں اور خاص کر کے لفظ " إِلاَّ " میں بحث فرماتے ہیں کہ یہاں استثناء متصل ہے ( جو کہ استثناء کی اصلی حالت ہے ) یا استثناء منقطع ؟ اگر استثناء کو متصل مانا جائے تو ابلیس کا ملائکہ میں شامل ہونا بلا تکلف اور آسان ہے اور اگر استثناء منقطع مانا جائے تو کچھ اور دلیلوں سے ابلیس ملائکہ میں شامل ہے ہم یہاں شیخ کی اصلِ عبارت نیچے ذکر کرتے ہیں ( اشعار کو حذف کے ساتھ ) (30)
اختلفوا في إبليس هل كان من الملائكة ام لا؟
فقال ابن عباس و ابن مسعود و ابن المسيب و قتادة و ابن جريح و الطبري: إنه كان منهم بدلالة استثنائه من جملتهم هاهنا في قوله : «إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى‏ وَ اسْتَكْبَرَ وَ كانَ مِنَ الْكافِرِينَ» و قال: «ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ» مع قوله: «وَ إِذْ قُلْنا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ» و هو المروي عن أبي عبد اللَّه (عليه السلام) و الظاهرفي تفاسيرنا ،
ثم اختلف من قال : إنه كان منهم : فمنهم من قال : إنه كان خازناً على الجنان، و منهم من قال : كان له سلطان سماء الدنيا و سلطان الأرض، و منهم من قال : إنه كان يسوس ما بين السماء الى الأرض
و قال الحسن البصري و قتادة في رواية ابن زبد و البلخي و الرماني و غيره من المتأخرين :
انه لم يكن من الملائكة و ان الاستثناء في الآية استثناء منقطع كقوله تعالى: «ما لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّباعَ الظَّنِّ»   و قوله: «فَلا صَرِيخَ لَهُمْ وَ لا هُمْ يُنْقَذُونَ إِلَّا رَحْمَةً مِنَّا»   و كقوله : «لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَنْ رَحِمَ»          
و استدل الرماني على أنه لم يكن من الملائكة بأشياء : منها
اولیٰ– قوله : « لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُونَ » فنفى عنهم المعصية نفياً عاما.
و الثانی - انه قال : « إِلَّا إِبْلِيسَ كانَ مِنَ الْجِنِّ » و متى اطلق لفظ الجن لم‏ يجز أن يعنى به إلا الجنس المعروف المباين لجنس الانس و الملائكة.
و الثالث - ان إبليس له نسل و ذرية. قال الحسن : إبليس ابو الجن كما أن آدم ابو الانس. و إبليس مخلوق من النار و الملائكة روحانيون خلقوا من الريح- في قول أبي علي- و قال الحسن : خلقوا من النار لا يتناسلون و لا يطعمون و لا يشربون . و قال اللَّه في إبليس و ولده: أَ فَتَتَّخِذُونَهُ وَ ذُرِّيَّتَهُ أَوْلِياءَ مِنْ دُونِي وَ هُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ .
و الرابع - و هو أقوى ما عنده - قوله تعالى: «جاعِلِ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنى‏ وَ ثُلاثَ وَ رُباعَ» فعمها بالوصف بالرسالة. و لا يجوز على رسل اللّه أن يكفروا أو يفسقوا كالرسل من البشر.
و الجواب عما ذكره أولا : إن قوله: «لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ» صفة لخزنة النيران، لا جميع الملائكة. يدل على ذلك قوله : «يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ ناراً وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الْحِجارَةُ عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُونَ». و ليس إذا كان هؤلاء معصومين وجب ذلك في جميعهم.
و الجواب عما ذكره ثانيا: ان قوله: كان من الجن معناه صار. ذكر ذلك الأخفش و جماعة من اهل اللغة. و قيل ايضاً: إن إبليس كان من طائفة من الملائكة يسمون جنا من حيث كانوا خزنة الجنة. و قيل سموا بذلك لاختفائهم عن العيون و قد قال اللَّه تعالى: «وَ جَعَلُوا بَيْنَهُ وَ بَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً» ، لأن قريشاً قالت: الملائكة بنات اللّه.
و الجواب عما ذكره ثالثاً من أن إبليس له نسل، طريقه الآحاد، و لو كان صحيحاً، لم يمنع ان يكون اللَّه ركب فيه شهوة النكاح تغليظاً عليه في التكليف و إن لم يكن ذلك في باقي الملائكة، فلا وجه لاستبعاده.
و الجواب عما ذكره رابعاً قوله «جاعِلِ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ» فمعارض بقوله: «اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا» فان كان ظاهر تلك يقتضي العموم فظاهر هذه يقتضي التخصيص، لأن (من) للتبعيض، و لو لم يكن كذلك، لجاز لنا أن نخص هذا العموم بقوله: (إلا إبليس) لأن حمل الاستثناء على أنه منقطع حمل له على المجاز. كما أن تخصيص العموم مجاز.
ترجمہ : علماء و مفسرین میں اختلاف ہے کہ ابلیس ملائکہ میں سے تھا یا نہیں ؟ ابن عباس و ابن مسعود و ابن المسيب و قتادة و ابن جريح و الطبری نے کھا ہے کہ وہ ملائکہ میں سے تھا کیونکہ اسکو ان آیات میں فرشتوں کے ساتھ سجدے کا حکم تھا اور انہی میں سے اسکو استثناء کیا گیا ہے « إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى‏ وَ اسْتَكْبَرَ وَ كانَ مِنَ الْكافِرِينَ » اور « ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ » و « وَ إِذْ قُلْنا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ اور امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت و ہماری تفاسیر اس بات کی دلیل ہین کہ وہ ملائکہ میں تھا اسکے تمرد اور عصیان کی وجہ سے اللہ نے اسکو ملائکہ میں سے نکال دیا
اسکے بعد یہ ( بحث ) ہے کہ اگر ابلیس ملائکہ میں سے تھا تو اسکا منصب کیا تھا بعض نے کہا ہے کہ وہ جنت کے خازنوں میں سے تھا کچھ کا کہنا ہے کہ وہ زمین و آسمان کا سلطان تھا کچھ کا کہنا ہے کہ وہ زمین و آسمان کے درمیان مدیریت کرتا تھا
اس نظریے کے مخالفین یعنی جو ابلیس کو ملائکہ میں سے قرار نہیں دیتے اور نتیجتا تمام ملائکہ معصوم ہیں ان میں متقدمین میں سے شیخ طوسی فرماتے ہیں کہ حسن البصري و قتادة سے ابن زبد اور بلخیاور رماني اور کچھ دوسرے متاخرین نے کچھ باتیں نقل کی ہیں
ابلیس ملائکہ میں سے نہیں تھا اور اس آیت یعنی ( الا ابلیس ) میں استثناء منقطع ہے ( یعنی وہ جنس ملائکہ میں شامل ہی نہیں تھا جیسے الا حمارا ) جیسے ان آیات میں استثناء منقطع ہے « ما لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّباعَ الظَّنِّ » (31)اور « فَلا صَرِيخَ لَهُمْ وَ لا هُمْ يُنْقَذُونَ إِلَّا رَحْمَةً مِنَّا » (32)یا « لا عاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَنْ رَحِمَ » (33)اور رمانی نے کچھ دلیلوں کے ذریعے سے بیان کیا ہے کہ ابلیس ملائکہ میں سے نہیں تھا
پہلی دلیل :
« لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُونَ » (34)( کہ وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں ) یہ آیت ملائکہ سے ہر معصیت کے صادر ہونی کی نفی کرتی ہے ( بنا بر این ابلیس نے نافرمانی کی تو معلوم ہوا وہ ملائکہ میں سے نہیں تھا )
دوسری دلیل : جب قرآن نے فرما دیا کہ « وَ إِذْ قُلْنا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلاَّ إِبْليسَ كانَ مِنَ الْجِن» (35)کہ ( اور ( یہ بات بھی ) یاد کریں جب ہم نے فرشتوں سے کہا : آدم کوسجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، وہ جنوں میں سے تھا ) قرآن میں جہاں بھی لفظ جن آیا ہے اس سے وہی معنا لی جائے جو معروف ہے اور سب کے ذہنوں میں ہے یعنی وہ مخلوق جو انسانوں اور ملائکہ کے مغایر ہے ایک دوسری مخلوق ہے نا کہ ملائکہ میں سے ہے
تیسری دلیل : شیطان کی آل و اولاد بھی ہے حسن بصری کہتا ہے کہ جسطرح جناب آدم علیہ السلام انسانوں کے باپ ہیں اسی طرح ابلیس ابوالجن ہیں یعنی جنوں کے باپ اور ابو علی کے قول کے مطابق ملائکہ روحانی مخلوق ہے جو ہوا سے پیدا ہوئی ہے جبکہ ابلیس آگ کی پیدایش ہے ، حسب بصری کہتا ہے کہ ابلیس و ملائکہ دونوں آگ کی پیدایش ہین فرق یہ ہے کہ ابلیس کی آل و اولاد ہوتی ہے جبکہ ملائکہ کی نا کوئی نسل ہوتی ہے نا وہ کھاتے ہیں نا پیتے ہیں ۔ قرآن نے ابلیس اور اسکی آل و اولاد کے لئے فرمایا ہے کہ « أَ فَتَتَّخِذُونَهُ وَ ذُرِّيَّتَهُ أَوْلِياءَ مِنْ دُونِي وَ هُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ» (36) کہ ( تو کیا تم لوگ میرے سوا اسے اور اس کی نسل کو اپنا سرپرست بناؤ گے )
چوتھی دلیل : ( یہ اس نظریے والوں کی قوی دلیل ہے ) قرآن نے ملائکہ کے لئے فرمایا ہے کہ « الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ جاعِلِ الْمَلائِكَةِ رُسُلاً أُولي‏ أَجْنِحَةٍ مَثْنى‏ وَ ثُلاثَ وَ رُباع »(37)کہ ( ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا ایجاد کرنے والا نیز فرشتوں کو پیام رساں بنانے والا ہے جن کے دو دو، تین تین اور چار چار پر ہیں ) خداوند جل جلالہ نے تمام ملائکہ کے لئے رسالت کی وصف دینے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ جسطرح انسانوں میں سے زمین پر بھیجے گئے رسولوں کا کفر و فسق سے دور ممکن نہیں اسی طرح ملائکہ کا بھی کفر و فسق ممکن نہیں
شیخ طوسی " و الجواب عما ذكره أولا" کی عبارت کے ذریعے سے ان چاروں دلیلوں کو رد فرماتے ہیں ( نتیجتا شیخ کی اپنی نظر و انکا نظریہ ثابت ہوجاتا ہے
پہلی دلیل کا جواب :ابلیس کے ملائکہ میں سے نا ہونے کا قائلین نے جو آیت ذکر کی ہے کہ : « لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ » (38)( کہ وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں )یہ آیت تمام ملائکہ کی صفت کو بیان نہین کر رہی ( کہ نتیجتا سب ملائکہ معصوم ہوجائیں اور ابلیس صف ملائکہ سے خارج ہوجائے ) بلکہ یہ فقط جھنم کے اوپر مامور ملائکہ کی صفت ہے کیونکہ اس آیت کا سباق کچھ اسطرح سے ہے« يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ ناراً وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الْحِجارَةُ عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُونَ »(39) ( اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے مقرر ہیںجو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں ) اگر یہ صفت تمام ملائکہ کی ہوتی تو سب ملائکہ کا معصوم ہونا واجب تھا ( جبکہ ایسے نہیں یہ فقط جھنم کا انتظام سنبھالنے والے ملائکہ کی صفت ہے )
دوسری دلیل کا جواب :دوسری دلیل میں سورہ کھف کی آیت کہ إِلاَّ إِبْليسَ كانَ مِنَ الْجِنمیں کھا گیا کہ وہ جنوں میں سے تھا یہ معنا تب درست ہے جب لفظ " كانَ"" تھا " کی معنا میں ہو جبکہ لفظ " كانَ "   "صار" یعنی " ہوگیا " کی معنا میں ہے یعنی وہ سجدے سے انکار کرنے کی وجہ سے جنوں میں سے ہوگیا ۔ یہ بات اخفش و لغت کے ماہرین نے بیان کی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابلیس ملائکہ کہ ایک ایسے گروہ سے تعلق رکھتا تھا جنکو " جِن "کہا جاتا تھا کیونکہ وہ جَنت کے انتظامات سنبھالتے تھے ، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان ملائکہ کو "جِن"اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ نظروں سے مخفی ہوتے ہیں ( لغوی معنا کی طرف اشارہ ) جیسے قرآن میں ارشاد رب العزۃ ہے کہ « وَ جَعَلُوا بَيْنَهُ وَ بَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً » (40) ( اور انہوں نے اللہ میں اور جنوں میں رشتہ بنا رکھا ہے ) کیونکہ قریش والے کہتے تھے کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں ( یعنی قریش والے ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے انہوں نے کبھی ملائکہ کو دیکھا نہیں تھا وہ انکی نظروں سے غائب تھے اور اسطرف اللہ جل شانہ فرماتا ہہ کہ وہ ( قریش ) جنوں کو اللہ کا رشتہ دار سمجھتے ہیں اور اسی طرح دوسری آیات میں لفظ ملائکہ بھی وارد ہوا ہے )
تیسری دلیل کا جواب :یہ بات کہ ابلیس کی نسل ہے یہ خبر واحد ہے ، اور اگر اسکو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس بات میں کوئی عیب یا ممانعت نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسمیں شھوت کا عنصر رکھ دیا ہو تاکہ اسکے مکلف ہونے کی دلیل بن سکے جبکہ دوسرے ملائکہ میں یہ چیز نا رکھی ہو اور یہ چیز غیر ممکن بھی نہیں
چوتھی دلیل کا جواب : آخری دلیل میں کھا گیا کہ قرآن نے ملائکہ کو ''رسل ''یعنی پیام رساں کہا ہے اور ملائکہ کے لئے رسالت کی وصف دینے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ جسطرح انسانوں میں سے زمین پر بھیجے گئے رسولوں کا کفر و فسق سے دور ممکن نہیں اسی طرح ملائکہ کا بھی کفر و فسق ممکن نہیں اس آیت کے معارض ( مد مقابل ) دوسری آیت بھی ہے جس میں ارشاد رب العرۃ ہوتا ہے کہ «اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَ مِنَ الناَسِ» (41) کہ اللہ فرشتوں اور انسانوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرتا ہے ۔ یعنی یہاں جو آیت میں من ہے وہ تبعیض کی معنا میں ہے ( یعنی جسطرح سب انساں رسول نہیں بلکہ ان میں سے بعض رسول ہیں اس آٰت مین خداوند قدوس فرما رہا ہے کہ ملائکہ میں سے سب ملائکہ پیام رساں نہیں بلکہ بعض ملائکہ رسل ہیں ) تو اگر وہ پہلے والی آیت عمومیت پر دلالت کر رہی ہے تو یہ دوسری آیت لفظ "مِن " کی وجہ سے اسکو تخصیص ( خاص موارد میں ) لگا رہی ہے اور اگر اس بات کو نا مانا جائے تو پھر ہم پہلی والی آیت یعنی جاعل الملائکۃ رسلا کو دوسری آیت یعنی (إلا إبليس) کے ذریعے سے تخصیص لگائیں گے کیونکی الا ابلیس کو استثناء منقطع پر حم کرنا مجاز ہے ( اور متصل ماننا حقیقت ) جیسے عموم کو تخصیص لگانا مجاز ہے ( آپ کی نظر میں )
اسکے علاوہ تفصیل طلب دوستان شیخ طوسی کی تفسیر کی طرف رجوع فرمائیں
اسکے علاوہ ہم کچھ دوسرے مفسرین کے آراء کو ذکر کرتے ہیں
* صدرالدین شیرازی معروف بہ ملا صدرا اپنی تفسیر میں شیخ طوسی کی طرح مخالفین و موافقین کے اقوال ذکر کرتے ہیں اور شیخ طوسی کی عبارتیں نقل کرتے ہیں یعنی دلائل مخالفین کو ذکر کرنے کے بعد انکو رد کرتے ہیں اور ملائکہ و جنات کے مادہ تخیلق ایک ہی ہونے کی تصریح کرتے ہیں فرق فقط اس مادہ کے مضی ( روشن ) اور مکدر ( غلیظ و آشفتہ ) ہونے میں ہے اور اسی طرح اانکی معروف کتاب اسفار اربعہ میں بھی اقسام ملائکہ میں عزازیل (ابلیس) کو اسی تقسیم کا حصہ قرار دیتے ہیں ملاحضہ فرمائیں (42)
فصل [إبليس من الملائكة أم لا؟]
اختلفوا في أن إبليس- لعنه اللّه- هل كان من الملائكة، أم لا ؟ فذهب‏ قوم إنّه كان منهم، وروي عن ابن عبّاس «إنّ من الملائكة ضربا يتوالدون يقال لهم : «الجنّ» و منهم إبليس. و هو المرويّ عن ابن مسعود و قتادة، و اختاره الشيخ أبو جعفر الطوسي- قدس اللّه روحه- قال: «و هو المرويّ عن أبي عبد اللّه عليه السّلام».
ثم اختلف من قال «إنّه كان من الملائكة» فمنهم من قال: «إنّه كان خازن طبقات الجنّة». و منهم من قال: «كان له سلطان سماء الدنيا و سلطان الأرض».
و منهم من قال: «إنّه كان يسوس ما بين السماء و الأرض».
و قال الشيخ المفيد أبو عبد اللّه محمّد بن محمّد بن النعمان- قدس اللّه سره-:
«إنّه كان من الجنّ، و لم يكن من الملائكة» قال: «و قد جاءت الأخبار بذلك متواترة عن أئمة الهدى، و هو مذهب الامامية».
و هو المرويّ عن الحسن البصري، و هو قول البلخي و غيره.
*** و احتجّوا على صحة هذا القول بأشياء:
أحدها قوله تعالى: إِلَّا إِبْلِيسَ كانَ مِنَ الْجِنِّ [18/ 50].
و ثانيها قوله تعالى: لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُونَ [66/ 6] نفي المعصية عنهم نفيا عامّا.
و ثالثها إن إبليس له نسل و ذريّة، قال تعالى: أَ فَتَتَّخِذُونَهُ وَ ذُرِّيَّتَهُ أَوْلِياءَ مِنْ دُونِي وَ هُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ [18/ 50] قال الحسن: إبليس أبو الجنّ، كما انّ آدم عليه السّلام أبو الإنس. و إبليس مخلوق من النار، و الملائكة روحانيّون خلقوا من الريح في قول بعضهم. و من النور في قول الحسن، لا يتناسلون و لا يطعمون و لا يشربون
و رابعها جاعِلِ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [35/ 1] و لا يجوز على رسل اللّه الكفر و لا الفسق. و لو جاز عليهم الفسق لجاز عليهم الكذب.
و ذكروا في توجيه الاستثناء وجوها:
أحدها ما ذكره صاحب الكشاف: «إن هذا استثناء متّصل، لأنّه كان جنّيا واحدا بين أظهر الألوف من الملائكة مغمورا بهم، فغلبوا عليه في قوله:
فَسَجَدُوا ثم استثني منهم استثناء واحد منهم».
و ثانيها إنّه كان مأمورا بالسجود معهم، فلمّا دخل معهم في الأمر جاز إخراجه بالاستثناء منهم.
و ثالثها إن هذا الاستثناء منقطع كقوله: ما لَهُمْ بِهِ [مِنْ‏] عِلْمٍ إِلَّا اتِّباعَ الظَّنِّ [4/ 157].
*** و أمّا من قال إنّه كان من الملائكة فإنّه احتجّ بأنّه لو كان من غيرهم لما كان ملوما بترك السجود و الجواب: إنّه كان من جملة المأمورين بالسجود و إن لم يكن من جملة الملائكة. دلّ على كونه مأمورا قوله تعالى: ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [7/ 12].
و هؤلاء الزاعمون إنّه كان من الملائكة أجابوا عن الاحتجاج الأوّل- و هو قوله: كانَ مِنَ الْجِنِّ بأنّ الجنّ جنس من الملائكة، سمّوا بذلك لاجتنانهم عن العيون، و قد قال تعالى: وَ جَعَلُوا بَيْنَهُ وَ بَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [37/ 158] أراد بها الملائكة، لأنّهم قالوا: «الملائكة بنات اللّه».
*** و أجابوا عن الثاني- و هو قوله: لا يَعْصُونَ [اللَّهَ‏] ما أَمَرَهُمْ بوجهين:
أحدهما بأن من الملائكة من ليس بمعصوم- و إن كان الغالب فيهم العصمة- كما إن من الإنس معصومين، و الغالب فيهم عدم العصمة و لعلّ ضربا من الملائكة لا يخالفهم بالذات، و إنّما يخالفهم بالعوارض و الصفات، كالبررة و الفسقة من الإنس و الجنّ يشملهما، و كان إبليس من هذا الصنف كما قاله ابن عبّاس، فلذلك صحّ عليه التغيّر من حاله و الهبوط عن محله، كما أشار اليه تعالى بقوله: كانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ [18/ 50].
و الثاني بأنه صفة لخزنة النيران لا لجميع الملائكة، فلا توجب عصمة لغيرهم من الملائكة.
*** و أجابوا عن الثالث بأنه يجوز أن يكون اللّه تعالى ركّب في إبليس شهوة النكاح تغليظا عليه في التكليف، و إن لم يكن ذلك في باقي الملائكة و يجوز أن يكون اللّه لمّا أهبطه إلى الأرض تغيّرت حاله عن حال الملائكة قالوا: كيف يصحّ ذلك و الملائكة خلقت من نور وَ خَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [55/ 15]؟
فأجيب بأنّه كالتمثيل لما ذكر، فإنّ المراد بالنور الجوهر المضي‏ء، أو النار كذلك، غير أنّ ضوئها مكدّر مغمور بالدخان محذور عنه بسبب ما يصحبه من فرط الحرارة و الإحراق، فإذا صارت مهذّبة مصفاة كانت محض نور، و متى نكصت عادت الحالة الاولى جذعة، و لا تزال تتزايد حتى ينطفي نورها و يبقي الدخان الصرف.
و هذا أشبه بالصواب و أوفق للجمع بين النصوص
*** و أجابوا عن الرابع- و هو قوله تعالى: جاعِلِ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا بأنّ هذه الآية معارضة بقوله [تعالى‏]: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَ مِنَ النَّاسِ [22/ 75] لأنّ «من» للتبعيض
و أما قولكم «إن الجنّ يطعمون» فقد جاء عن العرب ما يدل على أنّهم لا يطمعون و لا يشربون. فهذا يدل على أنهم لا يأكلون و لا يشربون لأنّهم روحانيّون، و قد جاء في الأخبار النهي عن التمسّح بالعظم و الروث لأنّ ذلك طعامهم و طعام دوابّهم. و قد قيل : إنّهم يتشمّمون ذلك.
اور اسی طرح اپنی کتاب اسفار اربعہ میں شیطان کو لکھتے ہیں : " هو المحیی و الممیت و الرازق و الهادی و المضل و لکن المباشر للإحیاء ملک اسمه إسرافیل و للإماتة ملک اسمه عزرائیل یقبض الأرواح من الأبدان و الأبدان من الأغذیة و الأغذیة من التراب و للأرزاق ملک اسمه میکائیل یعلم مقادیر الأغذیة و مکائیلها و للهدایة ملک اسمه جبرئیل و للإضلال دون الملائكة جوهر شيطاني اسمه عزازيل) و لکل من هذه الملائکة أعوان و جنود من القوى المسخرة لأوامر الله و کذا فی سائر أفعال الله سبحانه و لو کان هو المباشر لکل فعل دنی لکان إیجاده للوسائط النازلة بأمره إلى خلقه عبثا و هباء تعالى الله أن یخلق فی ملکه عبثا أو معطلا. (43)
* اسی طرح ملا فتح اللہ کاشانی نے بھی عزازیل ( ابلیس ) کے فرشتے ہونے کی تصریح کی ہے ملاحضہ فرمائیں (44) اسی اختلاف اقوال کو ذکر کر نے کے بعد فرماتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ : در ابليس نيز اختلافست كه از جنس ملائكه است يا نه ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اكثر اهل تفسير بر اينند كه ابليس از ملائكه زمين است و كانَ مِنَ الْجِنِّ را تأويل مى‏كنند بلكه جن از اجتنانست بمعنى استتار و ملائكه مستترند از ابصار چنان كه گذشت
29 سطروں کے بعد فرماتے ہیں : مجاهد و طاوس نقل است كه ابليس پيش از آنكه مرتكب معصيت شود اسم او عزازيل بود و با جمعى از ملائكه كه ايشان را جن ميگفتند در زمين متوطن بود و چون تكبر كرد و از سجده ابا نمود او را ابليس نام نهادند و شكى نيست كه مذهب اول اصح و اظهر است و اجوبه كه مفسران گفته‏اند مأولند و بر خلاف مقتضاى ظاهر و مأموريت ابليس بسجود اگر چه از اين آيه مفهوم نميشود اما آيه أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ صريحا دلالت مى‏كند بر آن پس استثناى متصل باشد
* مقاتل بن سليمان زيدى بلخى اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں
و قوله: إِلَّا إِبْلِيسَ استثناء متصل لأنه كان من الملائكة على ما قاله الجمهور. و قال شهر بن حوشب و بعض الأصوليين: كانَ مِنَ الْجِنِّ الذين كانوا في الأرض (45)
* محیی الدین درویش اپنی کتاب اعراب القرآن و بیانہ میں لکھتا ہے
(إِلَّا) أداة استثناء (إِبْلِيسَ) مستثنى بإلا متصل إن كان إبليس في الأصل من الملائكة و قيل منقطع لأنه ليس منهم (46)
* بیضاوی اپنی تفسیر أنوار التنزيل و أسرار التأويل میں لکھتا ہے :
والآية تدل على أن آدم عليه السلام أفضل من الملائكة المأمورين بالسجود له، و لو من وجه، و أن إبليس كان من الملائكة و إلا لم يتناوله أمرهم و لا يصح استثناؤه منهم، و لا يرد على ذلك قوله سبحانه و تعالى: إِلَّا إِبْلِيسَ كانَ مِنَ الْجِنِّ لجواز أن يقال إنه كان من الجن فعلا و من الملائكة نوعا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ و أن من الملائكة من ليس بمعصوم و إن كان الغالب فيهم العصمة، كما أن من الإنس معصومين و الغالب فيهم عدم العصمة، و لعل ضربا من الملائكة لا يخالف الشياطين بالذات، و إنما يخالفهم بالعوارض و الصفات كالبررة و الفسقة من الإنس و الجن يشملهما. و كان إبليس من هذا الصنف كما قاله ابن عباس رضي اللّه تعالى عنهما فلذلك صح عليه التغير عن حاله و الهبوط من محله، كما أشار إليه بقوله عز و علا: إِلَّا إِبْلِيسَ كانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ (47)
* ابو حيان محمد بن يوسف اندلسی اپنی تفسیر البحر المحيط في التفسير میں اختلاف اقوال اور مخالفین کے دلائل کو ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے :
و الظاهر أنه استثناء متصل لتوجه الأمر على الملائكة، فلو لم يكن منهم لما توجه الأمر عليه، فلم يقع عليه ذم لتركه فعل ما لم يؤمر به. و أما جاعل الملائكة رسلا، و لا يعصون اللّه ما أمرهم، فهو عام مخصوص، إذ عصمتهم ليست لذاتهم، إنما هي بجعل اللّه لهم ذلك، و أما إبليس فسلبه اللّه تعالى الصفات الملكية و ألبسه ثياب الصفات الشيطانية. و أما قوله تعالى: كانَ مِنَ الْجِنِّ، فقال قتادة: هم صنف من الملائكة يقال لهم الجنة. و قال ابن جبير: سبط من الملائكة خلقوا من نار، و إبليس منهم، أو أطلق عليه من الجن لأنه لا يرى، كما سمي الملائكة جنة، أو لأنه سمي باسم ما غلب عليه، أو بما كان من فعله، أو لأن الملائكة تسمى جنا (48)
* ابوالمظفر شاهفور بن طاهر اسفراينى اپنی تفسیر تاج التراجم في تفسير القرآن للأعاجم میں لکھتا ہے :
بدان كه: نام ابليس، عزازيل بود، چون عاصى شد، نامش بگردانيدند، چنانكه صورتش بگردانيدند و وى را ابليس خواندند بدان معنى كه نوميد گشت از رحمت خداى عزّ و جلّ (49)
بحث کے طولانی ہونے کے خوف سے دوسرے مفسرین و علماء کے فقط حوالاجات عرض کر کے آگے بڑہتے ہیں اور انکے کی طرف رجوع کو آپ پر چھوڑتے ہیں
درج ذیل تفاسیر و انکے علاوہ کافی تفاسیر و کتب میں شیطان کے ملائکہ میں سے ہونے کی تصریح ہوئی ہے
* اسماعیل بن عمرو معرف بہ ابن کثیر دمشقی اپنی کتاب تفسير القرآن العظيم (ابن كثير)، میں (50)
* عبدالرحمن بن محمد ابن ابى حاتم اپنی کتاب تفسير القرآن العظيم ، میں (51)
* خطيب عبدالكريم اپنی کتاب التفسير القرآني للقرآن، میں (52)
* محمد ثناء الله‏ مظھری اپنی کتاب التفسير المظهري،میں (53)
* سيد محمود آلوسی اپنی تفسیر روح المعاني في تفسير القرآن العظيم، میں (54)
* ابو اسحاق احمد بن ابراهيم ثعلبى نيشابورى اپنی تفسیر الكشف و البيان عن تفسير القرآن، میں (55)
* علاء الدين على بن محمد بغدادى اپنی تفسیر لباب التأويل في معاني التنزيل، میں (56)
* محمد جمال الدين قاسمى اپنی تفسیر محاسن التأويل، میں (57)
اس باب کے تکملہ میں نھج البلاغہ میں امیر المومنین علی علیہ السلام کا خطبہ قاصعہ کا ذکر اور اسکی شرح کے کچھ جملات کا ذکر خالی از فائدہ نہیں
امام الکلام علی علیہ السلام اپنے خطبے کہ جسکا نام قاصعہ ہے اور 192 نمبر خطبہ ہے میں فرماتے ہیں : وَ مِنْ خُطْبَة لَهُ عَلَيْهِ السّلامُ الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذى لَبِسَ الْعِزَّ وَ الْكِبْرِياءَ، وَ اخْتارَهُما لِنَفْسِهِ دُونَ خَلْقِهِ، وَ جَعَلَهُما حِمًى وَ حَرَماً عَلى غَيْرِهِ، وَ   اصْـطَـفاهُـما لِـجَـلالِـه وَ جَعَلَ اللَّعْنَةَ عَلى مَنْ نازَعَهُ فيهِما مِنْ عِبادِهِ. ثُمَّ اخْتَبَرَ بِذلِكَ مَلائِكَتَهُ الْمُقَرَّبينَ لِيَميزَ الْمُتَواضِعينَ مِنْهُمْ مِنَ الْمُسْتَكْبِرينَ، . . .
ترجمہ ( سید ذیشان جوادی ) : ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جسکا لباس عزت و کبریائی ہے اور اس نے اِس کمال میں کسی کو شریک نہیں بنایا ہے ، اس نے ان دونوں صفتوں کو ہر ایک کے لئے حرام اور ممنوع قرار دے کر صرف اپنی عزت و جلال کے لئے منتخب کر لیا ہے اور جس نے بھی ان دونوں صفتوں میں اس سے مقابلہ کرنا چاہا ہے اسے ملعون قرار دے دیا ہے ۔ اسکے بعد اِسی رخ سے ملائکہ مقربین کا امتحان لیا ہے تاکہ تواضع کرنے والوں اور غرور رکھنے والوں میں امتیاز قائم ہوجائے ۔ ۔ ۔
ظاہر متن نھج البلاغہ اسی طرف مشعر ہے اسکی شرح کی طرف چلتے ہیں مکتب شیعہ کی مایہ ناز شرح نہج البلاغہ ابن میثم بحرانی ہیں جنہوں نے تین شرحین لکھی ہیں کبیر و صغیر و متوسط ہم انکی شرح کبیر یعنی مصباح سے مطالب نقل کرتے ہیں : ابن میثم بحرانی اس خطبے کے نکتہ مورد نظر کی شروع میں وہی ابحاث نقل کرتے ہین یعنی ابن عباس و غیرہ کے اقوال اسکے بعد اپنی رائ دیتے ہیں نص عبارت کا ملاحضہ فرمائیں : و قال جمهور المفسّرين و منهم ابن عبّاس: إنّه كان من ملائكة الأرض الّذين اهبطوا قبل آدم. حجّة الأوّلين قوله تعالى «إِلَّا إِبْلِيسَ كانَ مِنَ الْجِنِّ » و الجنّ لم يكونوا من الملائكة بدليل قوله تعالى للملائكة «أَ هؤُلاءِ إِيَّاكُمْ كانُوا يَعْبُدُونَ» و قول الملائكة «سُبْحانَكَ أَنْتَ وَلِيُّنا مِنْ دُونِهِمْ بَلْ كانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ» و احتجّ ۔ ۔ ۔ تا اینکہ فرماتے ہیں : بهذا البيان لا يبقي بين قول اللّه سبحانه «إلّا إبليس كان من الجنّ » و بين استثنائه من الملائكة المقتضي لدخوله فيهم و كونه منهم فرق بل هو من الملائكة باعتبار من الجنّ باعتبار و من الشياطين باعتبار، و الشيطان قد يكون ملكا في أصله ثمّ ينتقل إلى الشيطانيّة باعتبار فسوقه عن أمر ربّه و كذلك الجنّي و اللّه أعلم. (58)
اس مقدمہ کو بیان کرنے کے بعد ہم اصل مطلب کی طرف آتے ہیں کہ جسمیں روایات میں ایک فرشتے کا ذکر ملتا ہے کہ جسکا نام "فطرس" نقل ہوا ہے
ہمارے معاشرے میں اس کے بارے میں عجیب باتیں سننے میں آتی ہیں کہ جو حتما غیر علمی ہیں کہ جسکی وجہ سے بنیاد بنا کر اسکو ردّ بھی کیا جاتا ہے جو اس واقعے کے حساب سے اصلا غیر معتبر ہے کہ فطرس آسمانوں پر فخر و تکبّر کرتا تھا کہ مَن مِثلی تو خدا نے اسکے پروں کو جلا دیا اور ایک وادی میں اسیر کردیا اور کچھ بزرگوار اسی بات کو مبنا بنا کر فطرس کے واقعہ کو رد کرتے ہیں یا للعجب !!!!

ایک نکتہ :
قرآن و احادیث میں جو فرشتوں کے پروں کا ذکر آیا ہے ہے اس سے مراد انکے مراتب و منازل ہین نا کہ انکا وجود مادی ہے اور پھر بالتبع پر سے مراد مادی پر ہوں
درحالنکہ روایات میں جو فطرس کا اور اسکی خطا کا ذکر آیا ہے وہ کچھ اسطرح سے ہے
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : إن فطرس ملك کان یطیف بالعرش ، فتلکا في شيءٍ من أمر الله ، فقص جناحه ورمي به علی جزیرة ، فلمّا ولد الحسین هبط جبرئیل إلی رسول الله ( صلی الله علیه و آله ) تهنیة بولاة الحسین فمرَّ به ، فعاذ بجبریل فقال ، قد بعثت إلی محمدا اُهنیه بمولود ولد له ، فإن شئتَ حملتك إلیه ، فقال : قد شئتُ ، فحمله ، فوضعه بین یدي رسول الله ، و بصبص بإصبعه إلیه ، فقال له رسول الله ( صلی الله علیه و ‌آله ) : امسح جناحك بحسین ، فمسح جناحه بحسین ، فعرج (59)
فطرس ایک فرشتہ تھا کہ جو عرش کا طواف کرنے پر معمور تھا اس نے کسی امر خدا کو انجام دینے میں ( ’’ آنا ما ‘‘ ایک لحضہ کے لئے ہی ) اس امر کو انجام دینے میں سستی کی ( فتلکا ) تواسکے پروں کو کاٹ دیا گیا اور ایک جزیرہ میں پھینک دیا گیا اور جب امام حسین علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو جبریل علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کو مبارک باد دینے کے لئے بھیجا گیا تو وہ فطرس کے پاس سے گزرا تو فطرس بھی اسکے ساتھ مل گیا تو جبریل نے کھا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کو انکے فرزند کی ولادت کی مبارک باد دینے جا رھا ہوں اگر تم بھی چاہو تو میں تمہیں بھی وہاں لے چلوں اور جبریل اسکو لے آئے اور اسکو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے سامنے رکھا تو فطرس نے اپنی انگلی کو حرکت دے کر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے التجاء کی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : اپنے پروں کو حسین علیہ السلام سے مسح کرو جب اس نے مسح کیا تو ( اسکے پر نکل آئے اور ) آسمان کی طرف عروج کیا
فطرس کے بارے میں جوا روایات و متون ملے ہیں اسکے دو قسم ہیں
ایک : کچھ روایات میں فطرس کے واقعے کے بارے میں تفصیلاً ذکر آیا ہے
جیسے
1 - السرائر ابن ادریس حلی میں ہے کہ و عنه عن عنان مولى سدير عن أبي عبد الله ع و عن رجل من أصحابنا عن أبيه عن أبي عبد الله ع قال و ذكره غير واحد من أصحابنا عن أبي عبد الله قال إن فطرس ملك كان يطيف بالعرش فتلكأ في شي‏ء من أمر الله فقص جناحه و رمي به على جزيرة فلما ولد الحسين هبط جبرئيل إلى رسول الله ص تهنئة بولادة الحسين فمر به فعاذ بجبرئيل فقال قد بعثت إلى محمد أهنئه بمولود ولد له فإن شئت حملتك إليه فقال قد شئت فحمله فوضعه بين يدي رسول الله و بصبص بإصبعه إليه فقال له رسول الله امسح جناحك بحسين فمسح جناحه بحسين فعرج (60)
2 - امالی شیخ صدوق میں ہے کہ : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْعَطَّارُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَبَّاحٍ الْمُزَنِيِّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ شُعَيْبٍ الْمِيثَمِيِّ قَالَ سَمِعْتُ الصَّادِقَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ ع لَمَّا وُلِدَ أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ جَبْرَئِيلَ أَنْ يَهْبِطَ فِي أَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ فَيُهَنِّيَ رَسُولَ اللَّهِ ص مِنَ اللَّهِ وَ مِنْ جَبْرَئِيلَ قَالَ فَهَبَطَ جَبْرَئِيلُ فَمَرَّ عَلَى جَزِيرَةٍ فِي الْبَحْرِ فِيهَا مَلَكٌ يُقَالُ لَهُ فُطْرُسُ كَانَ مِنَ الْحَمَلَةِ بَعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِي شَيْ‏ءٍ فَأَبْطَأَ عَلَيْهِ فَكَسَرَ جَنَاحَهُ وَ أَلْقَاهُ فِي تِلْكَ الْجَزِيرَةِ فَعَبَدَ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى فِيهَا سَبْعَمِائَةِ عَامٍ حَتَّى وُلِدَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ع فَقَالَ الْمَلَكُ لِجَبْرَئِيلَ يَا جَبْرَئِيلُ أَيْنَ تُرِيدُ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْعَمَ عَلَى مُحَمَّدٍ بِنِعْمَةٍ فَبُعِثْتُ أُهَنِّئُهُ مِنَ اللَّهِ وَ مِنِّي فَقَالَ يَا جَبْرَئِيلُ احْمِلْنِي مَعَكَ لَعَلَّ مُحَمَّداً ص يَدْعُو لِي قَالَ فَحَمَلَهُ قَالَ فَلَمَّا دَخَلَ جَبْرَئِيلُ عَلَى النَّبِيِّ ص هَنَّأَهُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ مِنْهُ وَ أَخْبَرَهُ بِحَالِ فُطْرُسَ فَقَالَ النَّبِيُّ ص قُلْ لَهُ تَمَسَّحْ بِهَذَا الْمَوْلُودِ وَ عُدْ إِلَى مَكَانِكَ قَالَ فَتَمَسَّحَ فُطْرُسُ بِالْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع وَ ارْتَفَعَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَا إِنَّ أُمَّتَكَ سَتَقْتُلُهُ وَ لَهُ عَلَيَّ مُكَافَاةٌ أَلَّا يَزُورَهُ زَائِرٌ إِلَّا أَبْلَغْتُهُ عَنْهُ وَ لَا يُسَلِّمَ عَلَيْهِ مُسَلِّمٌ إِلَّا أَبْلَغْتُهُ سَلَامَهُ وَ لَا يُصَلِّيَ عَلَيْهِ مُصَلٍّ إِلَّا أَبْلَغْتُهُ صَلَاتَهُ ثُمَّ ارْتَفَع (61)
3 - دلائل الامامۃ طبری میں ہے کہ: و حدثني أبو المفضل محمد بن عبد الله قال حدثني أبو النجم بدر بن الطبرستاني قال حدثني أبو جعفر محمد بن علي الشلمغاني عمن حدثه عن أبي جعفر قال لما ولد الحسين هبط جبرئيل في ألف ملك يهنون النبي بولادته و كان ملك يقال له فطرس في جزيرة من جزائر البحر بعثه الله في أمر فأبطأ فكسر جناحه و أزاله عن مقامه و أهبطه إلى تلك الجزيرة فمكث فيها خمس مائة عام و كان صديقا لجبرئيل فلما رآهم قال لجبرئيل إلى أين قال نهنئ النبي محمدا بمولود ولد له في هذه الليلة فقال احملني إليه لعله يدعو لي فحمله و لما أدى جبرئيل التهنئة نظر النبي إلى فطرس فسأله جبرئيل عنه فأخبره بشأنه فالتفت إليه رسول الله و قال له امسح جناحك على هذا المولود يعني الحسين فمسح جناحه فعاد إلى حالته و رضي الله عنه و سمي عتيق الحسين و أمر أن يلزم أرض كربلاء فيخبر بكل مؤمن زاره إلى يوم القيام (62)
4 - اختیار معرفۃ الرجال معروف برجال الکشّی محمد بن عمر کشّی میں ذکر ہوا ہے کہ : حمدويه، قال: حدثنا أبوسعيد الادمي، عن محمد بن مر زبان، عن محمد بن سنان، قال: شكوت إلى الرضا عليه السلام وجع العين، فأخذ قرطاسا فكتب إلى أبي جعفر عليه السلام، وهو أقل من نيتي، فدفع الكتاب إلى الخادم وأمرنى أن أذهب معه وقال: أكتم، فأتيناه وخادم قد حمله، قال : ففتح الخادم الكتاب بين يدي أبي جعفر عليه السلام، فجعل أبوجعفر عليه السلام ينظر في الكتاب ويرفع رأسه إلى السماء، ويقول : ناج، ففعل ذلك مرارا، فذهب كل وجع في عيني، وأبصرت بصرا لا يبصره أحد.
قال : فقلت لابي جعفر عليه السلام : جعللك الله شيخا على هذه الامة، كما جعل عيسى ابن مريم شيخا على بني اسرائيل، قال، ثم قلت له : يا شبيه صاحب فطرس، قال: وانصرفت وقد أمرني الرضا عليه السلام أن أكتم، فما زلت صحيح البصر حتى أذعت ما كان من أبي جعفر عليه السلام في أمر عيني، فعاودني الوجع. قال، قلت لمحمد بن سنان: ما عنيت بقولك يا شيبه صاحب فطرس؟ فقال: ان الله تعالى غضب على ملك من الملائكة يدعى فطرس، فدق جناحه ورمي في جزيرة من جزائر البحر، فلما ولد الحسين عليه السلام بعث الله عزوجل جبريل إلى محمد صلى الله عليه واله ليهنئه بولادة الحسين عليه السلام، وكان جبريل صديقا لفطرس فمر به وهو في الجزيرة مطروح، فخبره بولادة الحسين عليه السلام وما أمر الله به، فقال له: هل لك أن أحملك على جناح من أجنحتي وأمضي بك إلى محمد صلى الله عليه واله ليشفع لك؟ قال، فقال فطرس : نعم . فحمله على جناح من أجنحته حتى أتى به محمدا صلى الله عليه واله، فبلغه تهنية ربه تعالى ثم حدثه بقصة فطرس، فقال محمد صلى الله عليه واله لفطرس: امسح جناحك على مهد الحسين وتمسح به، ففعل ذلك فطرس، فجبر الله جناحه ورده إلى منزله مع الملائكة. (63)
5 - عماد الدین محمد بن ابی القاسم طبری نے اپنی کتاب بشارۃ المصطفیٰ میں اسطرح ذکر کیا ہے
قال حدثنا عبد الله بن هشام قال حدثنا أبو الحسن علي بن موسى بن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده عن آبائه ع عن النبي ص قال كان ملك الكروبين يقال له فطرس و كان من الله عز و جل بمكان فأرسله برسالة فأبطأ فكسر جناحه فألقاه بجزيرة من جزائر البحر فلما ولد الحسين بن علي ع أرسل الله عز و جل جبرئيل في ألف من الملائكة يهنئون رسول الله ص بمولود و يخبرونه بكرامته على ربه عز و جل فمر جبرئيل بذلك الملك فكان بينهما خلة فقال فطرس يا روح الله الأمين أين تريد قال إن هذا النبي التهامي وهب الله عز و جل له ولدا استبشر به أهل السماوات و أهل الأرض فأرسلني الله تعالى إليه أهنئه و أخبره بكرامته على ربه عز و جل قال هل لك أن تنطلق بي معك إليه يشفع لي عند ربه فإنه سخي جواد فانطلق الملك مع جبرئيل ع فقال إن هذا ملك من الملائكة الكروبين كان له من الله تعالى مكان فأرسله برسالة فأبطأ فكسر جناحه و ألقاه بجزيرة من جزائر البحر و قد أتاك لتشفع له عند ربك قال فقام النبي ص فصلى ركعتين و دعا في آخرهن اللهم إني أسألك بحق كل ذي حق عليك و بحق محمد و أهل بيته أن ترد علي فطرس جناحه و تستجيب لنبيك و تجعله آية للعالمين فاستجاب الله تعالى لنبيه ص و أوحى إليه أن يأمر فطرس أن يمرر جناحه على الحسين ع فقال رسول الله لفطرس امرر جناحك الكسير على هذا المولود ففعل فسبح فأصبح صحيحا فقال الحمد لله الذي من علي بك يا رسول الله فقال النبي لفطرس أين تريد فقال إن جبرئيل أخبرني بمصرع هذا المولود و أني سألت ربي أن يجعلني خليفة هناك قال فذلك الملك موكل‏ بقبر الحسين ع فإذا ترحم عبد على الحسين أو تولى أباه أو نصره بسيف و لسانه انطلق ذلك الملك إلى قبر رسول الله ص فيقول أيها النفس الزكية فلان بن فلان ببلاد كذا و كذا يتولى الحسين و يتولى أباه و نصره بلسانه و قلبه و سيفه قال فيجيبه ملك موكل بالصلاة على النبي أن بلغه عن محمد السلام و قل له إن مت على هذا فأنت رفيقه في الجنة (64)
6 - مناقب آل ابی طالب میں محمد بن شھر آشوب دو طریق سے یہ روایت نقل کرتے ہیں
طریق اول : ابن عباس و الصادق ع إن الحسين لما ولد أمر الله جبرئيل أن يهبط في ألف من الملائكة فيهنئ رسول الله من الله تعالى و من جبرئيل قال فهبط جبرئيل فمر على جزيرة في البحر فيها ملك يقال له فطرس فكان من الحملة فبعثه الله في شي‏ء فأبطأ عليه فكسر جناحه و ألقاه في تلك الجزيرة فعبد الله سبعمائة عام حتى ولد الحسين فقال الملك لجبرئيل أين تريد قال إن الله عز و جل أنعم على محمد بنعمة فبعثت أهنئه من الله و مني فقال يا جبرئيل احملني معك لعل محمدا يدعو لي قال فحمله فلما دخل جبرئيل على النبي هنأه من الله و منه و أخبره بحال فطرس فقال له النبي ص قل له يتمسح بهذا المولود و عد إلى مكانك قال فتمسح فطرس بالحسين و ارتفع فقال يا رسول الله أما إن أمتك ستقتله و له علي مكافأة لا يزوره زائر إلا أبلغته عنه و لا يسلم مسلم إلا أبلغته سلامه و لا يصلي عليه مصل إلا أبلغته صلاته ثم ارتفع قال ابن عباس فالملك ليس يعرف في الجنة إلا بأن يقال هذا مولى الحسين بن علي ع (65)
اور اگلے صفحے پر محمد الحسن بن الطاہر قائنی ہاشمی کی کتاب سے دوسری روایت نقل فرماتے ہیں
7 - و في المسألة الباهرة في تفضيل الزهراء الطاهرة عن أبي محمد الحسن بن الطاهر القائني الهاشمي أن الله تعالى كان خيره من عذابه في الدنيا أو في الآخرة فاختار عذاب الدنيا و كان معلقا بأشفار عينيه في جزيرة في البحر لا يمر به حيوان و تحته دخان منتن غير منقطع فلما أحس الملائكة نازلين سأل من مر به منهم عما أوجب لهم ذلك فقال ولد للحاشر النبي الأمي أحمد من بنته و وصيه ولد يكون منه أئمة الهدى إلى يوم القيامة فسأل من أخبره أنه يهنئ رسول الله بتلك عنه و يعلمه بحاله فلما علم النبي ص بذلك سأل الله تعالى أن يعتقه للحسين ففعل سبحانه فحضر فطرس و هنأ النبي و عرج إلى موضعه و هو يقول من مثلي و أنا عتاقة الحسين بن علي و فاطمة و جده أحمد الحاشر
(66)
8 - محمد بن حسن بن فروخ صفار نے اپنی کتاب بصائر الدرجات میں اس طرح سے اس واقعے کو نقل کیا ہے
حدثنا أحمد بن موسى عن محمد بن أحمد المعروف بغزال مولى حرب بن زياد البجلي عن محمد أبي جعفر الحمامي الكوفي عن الأزهر البطيخي عن أبي عبد الله ع قال إن الله عرض ولاية أمير المؤمنين فقبلها الملائكة و أباها ملك يقال لها فطرس فكسر الله جناحه فلما ولد الحسين بن علي ع بعث الله جبرئيل في سبعين ألف ملك إلى محمد ص يهنئهم بولادته فمر بفطرس فقال له فطرس يا جبرئيل إلى أين تذهب قال بعثني الله محمدا يهنئهم بمولود ولد في هذه الليلة فقال له فطرس احملني معك و سل محمدا يدعو لي فقال له جبرئيل اركب جناحي فركب جناحه فأتى محمدا ص فدخل عليه و هنئاه فقال له يا رسول الله ص إن فطرس بيني و بينه أخوة و سألني أن أسألك أن تدعو الله له أن يرد عليه جناحه فقال رسول الله ص لفطرس أ تفعل قال نعم فعرض عليه رسول الله ص ولاية أمير المؤمنين ع فقبلها فقال رسول الله ص شأنك بالمهد فتمسح به و تمرغ فيه قال فمضى فطرس فمشى إلى مهد الحسين بن علي و رسول الله يدعو له قال قال رسول الله فنظرت إلى ريشه و إنه ليطلع و يجري منه الدم و يطول حتى لحق بجناحه الآخر و عرج مع جبرئيل إلى السماء و صار إلى موضعه (67)
9 - جعفر بن محمد بن قولويه نے اپنی کتاب کامل الزیارات میں اسطرح نقل فرمایا ہے
حدثني محمد بن جعفر القرشي الرزاز الكوفي قال حدثني خالي محمد بن الحسين بن أبي الخطاب قال حدثني موسى بن سعدان الحناط عن عبد الله بن القاسم الحضرمي عن إبراهيم بن شعيب الميثمي قال سمعت أبا عبد الله ع يقول إن الحسين بن علي ع لما ولد أمر الله عز و جل جبرئيل ع أن يهبط في ألف من الملائكة فيهنئ رسول الله ص من الله و من جبرئيل ع قال و كان مهبط جبرئيل ع على جزيرة في البحر فيها ملك يقال له فطرس كان من الحملة فبعث في شي‏ء فأبطأ فيه فكسر جناحه و ألقي في تلك الجزيرة يعبد الله فيها ستمائة عام حتى ولد الحسين ع فقال الملك لجبرئيل ع أين تريد قال إن الله تعالى أنعم على محمد ص بنعمة فبعثت أهنئه من الله و مني فقال يا جبرئيل احملني معك لعل محمدا ص يدعو الله لي قال فحمله فلما دخل جبرئيل على النبي ص و هنأه من الله و هنأه منه و أخبره بحال فطرس فقال رسول الله ص يا جبرئيل أدخله فلما أدخله أخبر فطرس النبي ص بحاله فدعا له النبي ص و قال له تمسح بهذا المولود و عد إلى مكانك قال فتمسح فطرس بالحسين ع و ارتفع و قال يا رسول الله ص أما إن أمتك ستقتله و له علي مكافاة أن لا يزوره زائر إلا بلغته عنه و لا يسلم عليه مسلم إلا بلغته سلامه و لا يصلي عليه مصل إلا بلغته عليه صلاته قال ثم ارتفع‏ (68)
10 – قطب الدین راوندی نے اپنی کتاب الخرائج و الجرائح میں اسطرح نقل فرمایا ہے :
و منها أنه لما ولد الحسين ع أمر الله تعالى جبرئيل أن يهبط في ملإ من الملائكة فيهنئ محمدا فهبط فمر بجزيرة فيها ملك يقال له فطرس بعثه الله في شي‏ء فأبطأ فكسر جناحه و ألقاه في تلك الجزيرة فعبد الله سبعمائة عام‏ فقال فطرس لجبرئيل إلى أين قال إلى محمد قال احملني معك إلى محمد لعله يدعو لي فلما دخل جبرئيل و أخبر محمدا بحال فطرس قال له النبي قل له يمسح بهذا المولود جناحه فمسح فطرس بمهد الحسين ع فأعاد الله عليه في الحال جناحه ثم ارتفع مع جبرئيل إلى السماء فسمي عتيق الحسين ع‏ (69)
11 - مرحوم حرّ عاملی نے اپنی کتاب اثبات الھداۃ میں اس واقعے کو الخرائج و الجرائح سے ذکر فرمایا ہے اور خود فرماتے ہیں کہ ’’ اقول : قد روی حدیث فطرس اکثر المحدثین فی کتبھم ‘‘
قال : و منھا : انّہ لما ولد الحسین علیہ السلام امر اللہ جبرئیل علیہ السلام ان یھبط فی ملاء من الملائکۃ فیھئن محمدا فھبط فمرّ بجزیرۃ فیھا ملک یقال لہ فطرس بعثہ اللہ تعالیٰ فی شیء فابطاہ فکسر جناحہ فالقاہ فی تلک الجزیرۃ فعبد اللہ سبعمائۃ سنۃ ، فقال فطرس لجبرئیل علیہ السلام : إلی این ؟ قال : إلی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ قال : فاحملنی معک إلیہ لعلہ یدعو لی فلما دخل جبرئیل و اخبر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ بحال فطرس ، قال لہ النبی : قل لہ یمسح بھذا المولود جناحہ ، فمسح فطرس بمھد الحسین علیہ السلام فاعاد اللہ تعالیٰ فی الحال جناحہ ثمّ ارتفع مع جبرئیل إلی السماء (70)
12 - ميرزا حسين‌ النوري‌ الطبرسی نے اپنی کتاب مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل میں اس روایت کو امالی شیخ صدوق سے نقل فرمایا ہے الصَّدُوقُ فِي الْأَمَالِي، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ عَنِ‏ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ السُّكَّرِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَكَرِيَّا عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ بَكَّارٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ع عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ ع عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَتْ لَمَّا سَقَطَ الْحُسَيْنُ ع مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ وَ ذَكَرَ قِصَّةَ فُطْرُسَ الْمَلَكِ إِلَى أَنْ قَالَ فَلَمَّا دَخَلَ جَبْرَئِيلُ عَلَى النَّبِيِّ ص هَنَّأَهُ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى وَ مِنْهُ وَ أَخْبَرَهُ بِحَالِ فُطْرُسَ فَقَالَ النَّبِيُّ ص قُلْ لَهُ تَمَسَّحْ بِهَذَا الْمَوْلُودِ وَ عُدْ إِلَى مَكَانِكَ قَالَ فَتَمَسَّحَ فُطْرُسُ بِالْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع وَ ارْتَفَعَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَا إِنَّ أُمَّتَكَ سَتَقْتُلُهُ وَ لَهُ عَلَيَّ مُكَافَأَةٌ أَلَّا يَزُورَهُ زَائِرٌ إِلَّا أَبْلَغْتُهُ عَنْهُ وَ لَا يُسَلِّمَ عَلَيْهِ مُسَلِّمٌ إِلَّا أَبْلَغْتُهُ سَلَامَهُ وَ لَا يُصَلِّيَ عَلَيْهِ مُصَلٍّ إِلَّا أَبْلَغْتُهُ صَلَاتَهُ ثُمَّ ارْتَفَع (71)
13 - بحار الانوار میں بھی علامہ مجلسی نے اس واقعے کو 9 مرتبہ مختلف طرق و کتب سے نقل فرمایا ہے جن سب کا ذکر اطالہ کلام کا باعث ہوگا فقط ایک مورد پر اکتفاء کرتے ہیں
روي أنه لما ولد الحسين عليه السلام أمر الله تعالى جبرئيل أن يهبط في ملاء من الملائكة فيهنئ محمدا ، فهبط فمر بجزيرة فيها ملك يقال له فطرس ، بعثه الله في شئ فأبطأ فكسر جناحه فألقاه في تلك الجزيرة ، فعبد الله سبعمائة عام ، فقال فطرس لجبرئيل : إلى أين ؟ فقال : إلى محمد ، قال : احملني معك لعله يدعو لي فلما دخل جبرئيل وأخبر محمدا بحال فطرس ، قال له النبي : قل يتمسح بهذا المولود ، فتمسح فطرس بمهد الحسين عليه السلام ، فأعاد الله عليه في الحال جناحه ثم ارتفع مع جبرئيل إلى السماء . (72)
دوسرا : کچھ علماء ْ نے اس واقعے کو مسلمات میں سے مانتے ہوئے فقط اسکی طرف اشارہ و تلمیح کی ہے
1 – ابن مشھدی اپنی کتاب المزار الکبیر میں اسطرح بیان کرتے ہیں
فخرج الى القاسم بن العلاء الهمداني وكيل ابي محمد عليه السّلام ان مولانا الحسين عليه السّلام ولد يوم الخميس لثلاث خلون من شعبان، فصمه مندوبا و ادع فيه بهذا الدعاء:
اللّهمّ إنّي أسألك بحقّ المولود في هذا اليوم، الموعود بشهادته قبل استهلاله و ولادته، بكته السّماء و من فيها، و الأرض و من عليها، و لمّا يطأ لابتيها قتيل العبرة، و سيّد الأسرة ، الممدود بالنّصرة يوم الكرّة، المعوّض من قتله انّ الأئمّة من نسله، و الشّفاء في تربته، و الفوز معه في أوبته، و الأوصياء من عترته بعد قائمهم و غيبته، حتّى يدركوا الأوتار و يثأروا الثأر ، و يرضوا الجبّار، و يكونوا خير أنصار صلّى اللّه عليهم مع اختلاف اللّيل و النّهار.
اللّهمّ فبحقّهم إليك أتوسّل، و أسأل سؤال مقترف معترف مسي‏ء إلى نفسه ممّا فرّط في يومه و أمسه، يسألك العصمة إلى محلّ رمسه، اللّهمّ فصلّ على محمّد و عترته، و احشرنا في زمرته، و بوّئنا معه دار الكرامة و محلّ الإقامة.
اللّهمّ و كما أكرمتنا بمعرفته فأكرمنا بزلفته، و ارزقنا مرافقته و سابقته، و اجعلنا ممّن يسلّم لأمره، و يكثر الصّلاة عليه عند ذكره، و على جميع أوصيائه و أهل أصفيائه، الممدودين منك بالعدد الاثني عشر، النّجوم الزّهر، و الحجج على جميع البشر.
اللّهمّ و هب لنا في هذا اليوم خير موهبة، و أنجح لنا فيه كلّ طلبة، كما وهبت الحسين لمحمّد جدّه، و عاذ فطرس بمهده، فنحن عائذون بقبره من بعده، نشهد تربته، و ننتظر أوبته، أمين ربّ العالمين (73)
2 – شیخ عزّ الدین سلیمان حلّی عاملی نے اپنی کتاب مختصر البصائر الدرجات میں اسطرح بیان فرماتے ہیں
رویت باسنادی المتصل إلی الشیخ أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسی رحمه الله علی من ذکره في کتاب مصباح المتهجد قال رحمه الله الیوم الثالث منه یعنی من شعبان فیه ولد الحسین بن علي ( علیه السلام ) خرج إلی أبی القاسم ابن العلا الهمداني وکیل أبی محمد ( علیه السلام ) ان مولانا الحسین علیه السلام ولد يوم الخميس لثلاث خلون من شعبان، فصمه مندوبا و ادع فيه بهذا الدعاء:
اللّهمّ إنّي أسألك بحقّ المولود في هذا اليوم، الموعود بشهادته قبل استهلاله و ولادته، بكته السّماء و من فيها، و الأرض و من عليها، و لمّا يطأ لابتيها قتيل العبرة، و سيّد الأسرة ، الممدود بالنّصرة يوم الكرّة، المعوّض من قتله انّ الأئمّة من نسله، و الشّفاء في تربته، و الفوز معه في أوبته، و الأوصياء من عترته بعد قائمهم و غيبته، حتّى يدركوا الأوتار و يثأروا الثأر ، و يرضوا الجبّار، و يكونوا خير أنصار صلّى اللّه عليهم مع اختلاف اللّيل و النّهار.
اللّهمّ فبحقّهم إليك أتوسّل، و أسأل سؤال مقترف معترف مسي‏ء إلى نفسه ممّا فرّط في يومه و أمسه، يسألك العصمة إلى محلّ رمسه، اللّهمّ فصلّ على محمّد و عترته، و احشرنا في زمرته، و بوّئنا معه دار الكرامة و محلّ الإقامة. اللّهمّ و كما أكرمتنا بمعرفته فأكرمنا بزلفته، و ارزقنا مرافقته و سابقته، و اجعلنا ممّن يسلّم لأمره، و يكثر الصّلاة عليه عند ذكره، و على جميع أوصيائه و أهل أصفيائه، الممدودين منك بالعدد الاثني عشر، النّجوم الزّهر، و الحجج على جميع البشر. اللّهمّ و هب لنا في هذا اليوم خير موهبة، و أنجح لنا فيه كلّ طلبة، كما وهبت الحسين لمحمّد جدّه، و عاذ فطرس بمهده، فنحن عائذون بقبره من بعده، نشهد تربته، و ننتظر أوبته، أمين ربّ العالمين (74)
3 – سید ابن طائوس اپنی کتاب اقبال الاعمال میں اسطرح رقم طراز ہیں
روينا ذلك بإسنادنا إلى جدّي أبي جعفر الطوسي فقال عند ذكر شعبان: اليوم الثالث منه فيه ولد الحسين بن علي عليهما السلام، خرج إلى القاسم بن العلاء الهمداني وكيل أبي محمد عليه السلام انّ مولانا الحسين عليه السلام ولد يوم الخميس لثلاث خلون من شعبان، فصم و ادع فيه بهذا الدعاء:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ هذا الْمَوْلُودِ فِي هذا الْيَوْمِ الْمَوْعُودِ بِشَهادَتِهِ قَبْلَ اسْتِهْلالِهِ وَ ولادَتِهِ، بَكَتْهُ مَلائِكَةُ السَّماءِ وَ مَنْ فِيها وَ الارْضُ وَ مَنْ عَلَيْها، وَ لَمّا يَطَأُ لابَتَيْها قَتِيلِ الْعَبْرَةِ وَ سَيِّدِ الاسْرَةِ، الْمَمْدُودِ بِالنُّصْرَةِ يَوْمَ الْكَرَّةِ، الْمُعَوَّضِ مِنْ قَتْلِهِ أَنَّ الأَئِمَّةَ مِنْ نَسْلِهِ، وَ الشِّفاءَ فِي تُرْبَتِهِ، وَ الْفَوْزَ مَعَهُ فِي اوْبَتِهِ ، وَ الأَوْصِياءَ مِنْ عِتْرَتِهِ بَعْدَ قائِمِهِمْ وَ غَيْبَتِهِ، حَتّى‏ يُدْرِكُوا الأَوْتارَ، وَ يَثْأَرُوا الثَّأرَ وَ يُرْضُوا الْجَبَّارَ، وَ يَكُونُوا خَيْرَ أَنْصارٍ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَعَ اخْتِلافِ اللَّيْلِ وَ النَّهارِ.
اللَّهُمَّ فَبِحَقِّهِمْ الَيْكَ أَتَوَسَّلُ، وَ اسْأَلُ سُؤَالَ مُعْتَرِفٍ مُقْتَرِفٍ مُسِي‏ء الى‏ نَفْسِهِ مِمَّا فَرَّطَ فِي يَوْمِهِ وَ امْسِهِ، يَسْأَلُكَ الْعِصْمَةَ الى‏ مَحَلِّ رَمْسِهِ، اللَّهُمَّ وَ صَلِّ عَلى‏ مُحَمَّدٍ وَ عِتْرَتِهِ وَ احْشُرْنا فِي زُمْرَتِهِ وَ بَوِّئْنا مَعَهُ دارَ الْكَرامَةِ وَ مَحَلِّ الإِقامَةِ.
اللَّهُمَّ وَ كَما أَكْرَمْتَنا بِمَعْرِفَتِهِ، فَاكْرِمْنا بِزُلْفَتِهِ، وَ ارْزُقْنا مُرافَقَتِهِ وَ سابِقَتِهِ، وَ اجْعَلْنا مِمَّنْ يُسَلِّمُ لِأَمْرِهِ، وَ يَكْثُرُ الصَّلاةَ عَلَيْهِ عِنْدَ ذِكْرِهِ، وَ عَلى‏ جَمِيعِ أَوْصِيائِهِ وَ اهْلِ اصْطِفائِهِ ، الْمَعْدُودِينَ مِنْكَ بِالْعَدَدِ الاثْنى عَشَرَ، النُّجُومِ الزُّهَرِ وَ الْحُجَجِ عَلى‏ جَمِيعِ الْبَشَرِ.
اللَّهُمَّ وَ هَبْ لَنا فِي هذَا الْيَوْمِ خَيْرَ مَوْهِبَةٍ، وَ انْجِحْ لَنا فِيهِ كُلَّ طَلِبَةٍ، كَما وَهَبْتَ الْحُسَيْنَ لِمُحَمَّدٍ جَدِّهِ وَ عاذَ فُطْرُسُ بِمَهْدِهِ، فَنَحْنُ عائِذُونَ بِقَبْرِهِ مِنْ بَعْدِهِ نَشْهَدُ تُرْبَتَهُ وَ نَنْتَظِرُ اوْبَتَهُ آمِينَ رَبَّ الْعالَمِينَ (75)
4 – شیخ الطائفہ شیخ طوسی اپنی کتاب مصباح المتھجد میں اسطرح بیان فرماتے ہیں
خرج إلى القاسم بن العلاء الهمداني وكيل أبي محمد ع أن مولانا الحسين ع ولد يوم الخميس لثلاث خلون من شعبان فصمه و ادع فيه بهذا الدعاء اللهم إني أسألك بحق المولود في هذا اليوم الموعود بشهادته قبل استهلاله و ولادته بكته السماء و من فيها و الأرض و من عليها و لما يطأ لابتيها قتيل العبرة و سيد الأسرة الممدود بالنصرة يوم الكرة المعوض من قتله أن الأئمة من نسله و الشفاء في تربته و الفوز معه في أوبته و الأوصياء من عترته بعد قائمهم و غيبته حتى يدركوا الأوتار و يثأروا الثار و يرضوا الجبار و يكونوا خير أنصار صلى الله عليهم مع اختلاف الليل و النهار اللهم فبحقهم إليك أتوسل و أسأل سؤال مقترف معترف مسي‏ء إلى نفسه مما فرط في يومه و أمسه يسألك العصمة إلى‏ محل رمسه اللهم فصل على محمد و عترته و احشرنا في زمرته و بوئنا معه دار الكرامة و محل الإقامة اللهم و كما أكرمتنا بمعرفته فأكرمنا بزلفته و ارزقنا مرافقته و سابقته و اجعلنا ممن يسلم لأمره و يكثر الصلاة عليه عند ذكره و على جميع أوصيائه و أهل أصفيائه الممدودين منك بالعدد الاثني عشر النجوم الزهر و الحجج على جميع البشر اللهم و هب لنا في هذا اليوم خير موهبة و أنجح لنا فيه كل طلبة كما وهبت الحسين لمحمد جده و عاذ فطرس بمهده فنحن عائذون بقبره من بعده نشهد تربته و ننتظر أوبته آمين رب العالمين‏ (76)
یہ تھے ان نفیس کتابوں میں حدیث فطرس کے حوالہ جات اور اسکے علاوہ بھی قدیم علماء نے اس واقعے کو اپنی کتابوں میں ذکر فرمایا ہے ہم نے اختصار کی بنیاد پر انکو ذکر کرنے سے پرہیز کی ہے جیسے
* محمد بن حسن فتّال نيشابور الشہید 508 ہجری قمری نے اپنی کتاب روضة الواعظين میں (77)
* ابراهيم بن على عاملى كفعمی نے اپنی کتاب المصباح میں (78)
* علامه زين الدين، على بن يونس نباطى بياضى، متوفاى 877 هجری نے اپنی کتاب الصراط المستقيم میں (79)
* محمد بن علی الطوسي، معروف به ابن حمزة الطوسي نے اپنی کتاب الثاقب في المناقب، میں (80)
اور آخری حوالا تبرکا عرض کرتا چلوں کہ جو خود اس واقعے کا منکر ہے اسی نے اس واقعے کو اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے میری مراد علامہ الشیخ محمد حسین ڈھکو صاحب ہیں جو اپنی کتاب سعادت الدارین فی مقتل الحسین میں (81) اس واقعے کی طرف تلمیح و اشارہ کیا ہے
اب ان روایات کی سند و متن میں بھی ( جسطرح ہم نے خطبۃ البیان کے بارے میں عرض کیا تھا ) دو ۲ طرح سے بحث ممکن ہے
1 – بحث سندی
2 – بحث محتوائی و دلالی
بحث سندی
(1)
حدیث اول ( السرائر والی حدیث ) کو ابن ادریس حلی نے جامع بزنطی سے نقل فرمایا ہے اور جیسے کہ معلوم ہے کہ بزنطی اصحاب اجماع میں سے بہی ہے تو مشایخ ثقات میں سے بہی یعنی وہ افراد جو بہی روایات چاہے مرسلہ ہو یا مسند ثقہ راوی کے علاوہ کسی نقل نہیں کرتے ۔ ان ان دو مبنائوں میں سے کسی بھی ایک کو قبول کیا جائے جیسا کہ مشھور نے ان دو مبنائوں کو قبول کیا ہے تو رجالی اعتبار سے اس روایت کا متن مورد قبول اور معتبر قرار پائے گا اور اگر اس روایت میں کوئی حکم فقہی ہوتا تو فقھاء اس سے حکم فقہی کا استنباط کرتے ہوئے فتوا دیتے اور اگر کوئی اشکال کرے کہ ابن ادریس نے جو روایت نقل کی ہے وہ مرسلہ ہے تو جیسا کہ علم رجال و تراجم کے ماھرین بیان فرماتے ہیں کہ ابن ادریس کا جامع بزنطی سے نقل کے طرق صحیح ہیں جیسے شیخ طوسی کا الفھرست میں جامع بزنطی کی طرف بیان شدہ طرق صحیح ہیں
(۲)
شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی بیان شدہ روایت کی سند اسطرح نقلہ ہے : حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الْعَطَّارُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَبَّاحٍ الْمُزَنِيِّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ شُعَيْبٍ الْمِيثَمِيِّ قَالَ سَمِعْتُ الصَّادِقَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ ع لَمَّا وُلِدَ ۔ ۔ ۔
اس میں احمد بن محمد بن یحییٰ العظار قمی جنکہ بارے میں اس طرح مطالب وارد ہوئے ہیں
(3)
المزار الکبیر والی روایت میں اولاْ خود مصنف کی گواہی کہ وہ ان روایات کو با وثوق راویوں سے ذکر کررہا ہے ، وثاقت عامہ کے مصادر میں سے ایک مورد ہے ثانیاْ مرحوم مشھدی کی یہ تعبیر کہ : « خرج الی القاسم بن العلاء الهمداني وکیل أبي محمّد ( علیه السلام )» اس بات کی حکایت کر رہی ہے کہ مصنف ( ابن مشھدی ) کے لئے اس دعا کا امام حسن عسکری علیہ السلام سے صادر ہونا انکے وکی قاسم بن علاء ھمدانی سے ایک واضح و حسّی امر ہے نا حدسی .
یہی تعبیر اس دعا میں ( اخبار کی صورت میں ) کتاب مختصر البصائر و مصباح المتهجد ( شیخ طوسی ) و اقبال الأعمال   ( سید ابن طاووس ) میں بیانگر لسان احراز ہے کہ یہ دعا امام معصوم علیہ السلام سے صادر ہوئی ہے اور کسی بھی مذکورہ عالم نے اس دعا کو ’’ رُوِیَ ‘‘ سے تعبیر نہیں فرمایا جو کہ خود ایک واضح دلیل ہے
(4)
اور اگر مذکورہ رجالی مبانی کو قبول نا بھی کیا جائے تو پھر بھی اس باب میں وارد شدہ روایات کہ جو حد تواتر سے کم سھی مگر بہ حدّ استفاضہ تک پہنچ چکی ہیں اور یہ ہمیں ان روایات کا معصوم علیہ السلام سے صادر ہونے کی وثاقت دلاتی ہیں اور بنا بر مبناء حجّیتِ اخبارِ مستفیضہ یہ روایات انکے متعلقہ احکامات میں معتبر ہیں جیسے مرسلات شیخ صدوق انکی کتابوں میں خصوصاْ مَن لایحضره الفقیه میں وہ مرسلات کہ جنکو شیخ نے لسان احراز کے ساتھ بطور مرسل ذکر فرمایا ہے ، اور اسی مبناء پر اسپر فتوا بھی دی ہے اور ان روایات کو اپنے اور اللہ کے درمیان حجت قرار دیا ہے اور اگر اس پر کوئی اشکال کرے کہ نحن مافیہ ( فطرس ) جوکہ کلامی بحث و امور اعتقادی میں سے ہے اس میں حتماْ و لازماْ احادیث قطعیہ کہ ذریعے سے اثبات کیا جائے نا کہ احادیث ظنّیہ کے ذریعے سے تو بیان کرتا چلوں کہ یہ باب فضائل و سیرت معصومین علیہم السلام ’’ فقہ ‘‘ کے محدودہ میں شامل ہے نا کہ کلام و عقائد کے کیونکہ یہ باب احکام عملی کے اثبات کے لئے عملی طور پر دلیل واقع ہو رہے ہیں اور فعل و تقریر معصوم علیہم السلام ہے اسی بنیاد پر کسی ایک روایت کی سند کا صحیح ہونا یا مستفیضہ ہونا کفایت کرتا ہے
(5)
اگر بالفرض ان روایات کی سند کو جعلی قرار دیا جائے تو نتیجتآ کہنا پڑے گا کہ یہ احادیث بھی جعلی و گڑہی ہوئی ہیں جبکہ اولاْ اگر ہم اگر روایات فطرس کے دونوں حصوں ( جہاں تفصیل سے واقعہ ذکر ہوا ہے اور جہاں اجمالاْ و تلمیحاْ ذکر ہوا ہے ) کو آپس میں ضمیمہ کریں تو ان روایات کا مستفیض ہونا اور زیادہ محکم و پختہ ہو جاتا ہے جو ان احادیث کے جعلی ہونے کے اشکال کو برطرف کرتا ہے اور ثانیاْ خود ان روایات کا محتوا و مفھوم بھی انکے جعلی ہونے کی نفی کر رہا ہے
(6)
اور اسطرح کی اور روایات بھی ہیں کہ جن میں ملائکہ کے لئے عقوبت کا ذکر ہے جیسے دردائیل و صلصائیل اور امام حسین علیہ السلام کی ولادت یا انکے شفاعت کی وجہ سے انکو سابقہ مقام واپس ملنے کا ذکر ہوا ہے یہ روایات بھی روایاتِ فطرس کی تائید کرتی ہیں انہی میں سے کچھ روایات کا ذکر کرتا چلوں
*عَنِ الصَّادِقِ ع أَنَّهُ قَالَ كَانَ مَلَكٌ بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ يُقَالُ لَهُ صَلْصَائِيلُ بَعَثَهُ اللَّهُ فِي بَعْثٍ فَأَبْطَأَ فَسَلَبَهُ رِيشَهُ وَ دَقَّ جَنَاحَيْهِ وَ أَسْكَنَهُ فِي جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ إِلَى لَيْلَةٍ وُلِدَ الْحُسَيْنُ ع فَنَزَلَتِ الْمَلَائِكَةُ وَ اسْتَأْذَنَتِ اللَّهَ فِي تَهْنِئَةِ جَدِّي رَسُولِ اللَّهِ ص وَ تَهْنِئَةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ فَاطِمَةَ ع فَأَذِنَ اللَّهُ لَهُمْ فَنَزَلُوا أَفْوَاجاً مِنَ الْعَرْشِ وَ مِنْ سَمَاءٍ سَمَاءٍ فَمَرُّوا بِصَلْصَائِيلَ وَ هُوَ مُلْقًى بِالْجَزِيرَةِ فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَيْهِ وَقَفُوا فَقَالَ لَهُمْ يَا مَلَائِكَةَ رَبِّي إِلَى أَيْنَ تُرِيدُونَ وَ فِيمَ هَبَطْتُمْ فَقَالَتْ لَهُ الْمَلَائِكَةُ يَا صَلْصَائِيلُ قَدْ وُلِدَ فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ أَكْرَمُ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِي الدُّنْيَا بَعْدَ جَدِّهِ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ أَبِيهِ عَلِيٍّ وَ أُمِّهِ فَاطِمَةَ وَ أَخِيهِ الْحَسَنِ وَ هُوَ الْحُسَيْنُ وَ قَدْ اسْتَأْذَنَّا اللَّهَ فِي تَهْنِئَةِ حَبِيبَةِ مُحَمَّدٍ ص لِوَلَدِهِ فَأَذِنَ لَنَا فَقَالَ صَلْصَائِيلُ يَا مَلَائِكَةَ اللَّهِ إِنِّي أَسْأَلُكُمْ بِاللَّهِ رَبِّنَا وَ رَبِّكُمْ وَ بِحَبِيبِهِ مُحَمَّدٍ ص وَ بِهَذَا الْمَوْلُودِ أَنْ تَحْمِلُونِي مَعَكُمْ إِلَى حَبِيبِ اللَّهِ وَ تَسْأَلُونَهُ وَ أَسْأَلُهُ أَنْ يَسْأَلَ اللَّهَ بِحَقِّ هَذَا الْمَوْلُودِ الَّذِي وَهَبَهُ اللَّهُ لَهُ أَنْ يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي وَ يَجْبِرَ كَسْرَ جَنَاحِي وَ يَرُدَّنِي إِلَى مَقَامِي مَعَ الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ فَحَمَلُوهُ وَ جَاءُوا بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ص فَهَنَّئُوهُ بِابْنِهِ الْحُسَيْنِ ع وَ قَصُّوا عَلَيْهِ قِصَّةَ الْمَلَكِ وَ سَأَلُوهُ مَسْأَلَةَ اللَّهِ وَ الْإِقْسَامَ عَلَيْهِ بِحَقِّ الْحُسَيْنِ ع أَنْ يَغْفِرَ لَهُ خَطِيئَتَهُ وَ يَجْبُرَ كَسْرَ جَنَاحِهِ وَ يَرُدَّهُ إِلَى مَقَامِهِ مَعَ الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ ص فَدَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ ع فَقَالَ لَهَا نَاوِلِينِي ابْنِيَ الْحُسَيْنَ فَأَخْرَجَتْهُ إِلَيْهِ مَقْمُوطاً يُنَاغِي جَدَّهُ رَسُولَ اللَّهِ ص فَخَرَجَ بِهِ إِلَى الْمَلَائِكَةِ فَحَمَلَهُ عَلَى بَطْنِ كَفِّهِ فَهَلَّلُوا وَ كَبَّرُوا وَ حَمَّدُوا اللَّهَ تَعَالَى وَ أَثْنَوْا عَلَيْهِ فَتَوَجَّهَ بِهِ إِلَى الْقِبْلَةِ نَحْوَ السَّمَاءِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ ابْنِيَ الْحُسَيْنِ أَنْ تَغْفِرَ لِصَلْصَائِيلَ خَطِيئَتَهُ وَ تَجْبُرَ كَسْرَ جَنَاحِهِ وَ تَرُدَّهُ إِلَى مَقَامِهِ مَعَ الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ فَتَقَبَّلَ اللَّهُ تَعَالَى مِنَ النَّبِيِّ ص مَا أَقْسَمَ بِهِ عَلَيْهِ وَ غَفَرَ لِصَلْصَائِيلَ خَطِيئَتَهُ وَ جَبَرَ كَسْرَ جَنَاحِهِ وَ رَدَّهُ إِلَى مَقَامِهِ مَعَ الْمَلَائِكَةِ الْمُقَرَّبِين‏ (82)
* رُوِيَ عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ قَالَ أُهْدِيَ إِلَى النَّبِيِّ ص قِطْفٌ مِنَ الْعِنَبِ فِي غَيْرِ أَوَانِهِ فَقَالَ لِي يَا سَلْمَانُ ائْتِنِي بِوَلَدَيَّ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ لِيَأْكُلَا مَعِي مِنْ هَذَا الْعِنَبِ قَالَ سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ فَذَهَبْتُ أَطْرُقُ عَلَيْهِمَا مَنْزِلَ أُمِّهِمَا فَلَمْ أَرَهُمَا فَأَتَيْتُ مَنْزِلَ أختهما [أُخْتِهَا أُمِّ كُلْثُومٍ فَلَمْ أَرَهُمَا فَجِئْتُ فَخَبَّرْتُ النَّبِيَّ ص بِذَلِكَ فَاضْطَرَبَ وَ وَثَبَ قَائِماً وَ هُوَ يَقُولُ وَا وَلَدَاهْ وَا قُرَّةَ عَيْنَاهْ مَنْ يُرْشِدُنِي عَلَيْهِمَا فَلَهُ عَلَى اللَّهِ الْجَنَّةُ فَنَزَلَ جَبْرَئِيلُ مِنَ السَّمَاءِ وَ قَالَ يَا مُحَمَّدُ عَلَامَ هَذَا الِانْزِعَاجُ فَقَالَ عَلَى وَلَدَيَّ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ فَإِنِّي خَائِفٌ عَلَيْهِمَا مِنْ كَيْدِ الْيَهُودِ فَقَالَ جَبْرَئِيلُ يَا مُحَمَّدُ بَلْ خِفْ عَلَيْهِمَا مِنْ كَيْدِ الْمُنَافِقِينَ فَإِنَّ كَيْدَهُمْ أَشَدُّ مِنْ كَيْدِ الْيَهُودِ وَ اعْلَمْ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ ابْنَيْكَ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ نَائِمَانِ فِي حَدِيقَةِ أَبِي الدَّحْدَاحِ فَصَارَ النَّبِيُّ ص مِنْ وَقْتِهِ وَ سَاعَتِهِ إِلَى الْحَدِيقَةِ وَ أَنَا مَعَهُ حَتَّى دَخَلْنَا الْحَدِيقَةَ وَ إِذَا هُمَا نَائِمَانِ وَ قَدِ اعْتَنَقَ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ وَ ثُعْبَانٌ فِي فِيهِ طَاقَةُ رَيْحَانٍ يَرُوحُ بِهَا وَجْهَيْهِمَا فَلَمَّا رَأَى الثُّعْبَانُ النَّبِيَّ ص أَلْقَى مَا كَانَ فِي فِيهِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَسْتُ أَنَا ثُعْبَاناً وَ لَكِنِّي مَلَكٌ مِنْ مَلَائِكَةِ اللَّهِ الْكَرُوبِيِّينَ غَفَلْتُ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي طَرْفَةَ عَيْنٍ فَغَضِبَ عَلَيَّ رَبِّي وَ مَسَخَنِي ثُعْبَاناً كَمَا تَرَى وَ طَرَدَنِي مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ وَ إِنِّي مُنْذُ سِنِينَ كَثِيرَةٍ أَقْصِدُ كَرِيماً عَلَى اللَّهِ فَأَسْأَلُهُ أَنْ يَشْفَعَ لِي عِنْدَ رَبِّي عَسَى أَنْ يَرْحَمَنِي وَ يُعِيدَنِي مَلَكاً كَمَا كُنْتُ أَوَّلًا إِنَّهُ عَلى‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ قَالَ فَجَثَا النَّبِيُّ ص يُقَبِّلُهُمَا حَتَّى اسْتَيْقَظَا فَجَلَسَا عَلَى رُكْبَتَيِ النَّبِيِّ ص فَقَالَ لَهُمَا النَّبِيُّ ص انْظُرَا يَا وَلَدَيَّ هَذَا مَلَكٌ مِنْ مَلَائِكَةِ اللَّهِ‏ الْكَرُوبِيِّينَ قَدْ غَفَلَ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ طَرْفَةَ عَيْنٍ فَجَعَلَهُ اللَّهُ هَكَذَا وَ أَنَا مُسْتَشْفِعٌ بِكُمَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى فَاشْفَعَا لَهُ فَوَثَبَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ ع فَأَسْبَغَا الْوُضُوءَ وَ صَلَّيَا رَكْعَتَيْنِ وَ قَالا اللَّهُمَّ بِحَقِّ جَدِّنَا الْجَلِيلِ الْحَبِيبِ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَى وَ بِأَبِينَا عَلِيٍّ الْمُرْتَضَى وَ بِأُمِّنَا فَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ إِلَّا مَا رَدَدْتَهُ إِلَى حَالَتِهِ الْأُولَى قَالَ فَمَا اسْتَتَمَّ دُعَاءَهُمَا فَإِذَا بِجَبْرَئِيلَ قَدْ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ فِي رَهْطٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ وَ بَشَّرَ ذَلِكَ الْمَلَكَ بِرِضَى اللَّهِ عَنْهُ وَ بِرَدِّهِ إِلَى سِيرَتِهِ الْأُولَى ثُمَّ ارْتَفِعُوا بِهِ إِلَى السَّمَاءِ وَ هُمْ يُسَبِّحُونَ اللَّهَ تَعَالَى ثُمَّ رَجَعَ جَبْرَئِيلُ إِلَى النَّبِيِّ ص وَ هُوَ مُتَبَسِّمٌ وَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ الْمَلَكَ يَفْتَخِرُ عَلَى مَلَائِكَةِ السَّبْعِ السَّمَاوَاتِ وَ يَقُولُ لَهُمْ مَنْ مِثْلِي وَ أَنَا فِي شَفَاعَةِ السَّيِّدَيْنِ السِّبْطَيْنِ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْن‏ علیہما السلام (83)
*حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ مَاجِيلَوَيْهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنِي عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْقَاسِمِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْبَرْقِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْقُرَشِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ إِنَّ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مَلَكاً يُقَالُ لَهُ دَرْدَائِيلُ كَانَ لَهُ سِتَّةَ عَشَرَ أَلْفَ جَنَاحٍ مَا بَيْنَ الْجَنَاحِ إِلَى الْجَنَاحِ هَوَاءٌ وَ الْهَوَاءُ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ فَجَعَلَ يَوْماً يَقُولُ فِي نَفْسِهِ أَ فَوْقَ رَبِّنَا جَلَّ جَلَالُهُ شَيْ‏ءٌ فَعَلِمَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مَا قَالَ فَزَادَهُ أَجْنِحَةً مِثْلَهَا فَصَارَ لَهُ اثْنَانِ وَ ثَلَاثُونَ أَلْفَ جَنَاحٍ ثُمَّ أَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَيْهِ أَنْ طِرْ فَطَارَ مِقْدَارَ خَمْسِينَ عَاماً فَلَمْ يَنَلْ رَأْسَ قَائِمَةٍ مِنْ قُوَّامِ الْعَرْشِ فَلَمَّا عَلِمَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِتْعَابَهُ أَوْحَى إِلَيْهِ أَيُّهَا الْمَلَكُ عُدْ إِلَى مَكَانِكَ فَأَنَا عَظِيمٌ فَوْقَ كُلِّ عَظِيمٍ وَ لَيْسَ فَوْقِي شَيْ‏ءٌ وَ لَا أُوصَفُ بِمَكَانٍ فَسَلَبَهُ اللَّهُ أَجْنِحَتَهُ وَ مَقَامَهُ مِنْ صُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ فَلَمَّا وُلِدَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ع وَ كَانَ مَوْلِدُهُ عَشِيَّةَ الْخَمِيسِ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ أَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَى‏ مَالِكٍ خَازِنِ النَّارِ أَنْ أَخْمِدِ النِّيرَانَ عَلَى أَهْلِهَا لِكَرَامَةِ مَوْلُودٍ وُلِدَ لِمُحَمَّدٍ وَ أَوْحَى إِلَى رِضْوَانَ خَازِنِ الْجِنَانِ أَنْ زَخْرِفِ الْجِنَانَ وَ طَيِّبْهَا لِكَرَامَةِ مَوْلُودٍ وُلِدَ لِمُحَمَّدٍ فِي دَارِ الدُّنْيَا وَ أَوْحَى اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى إِلَى حُورِ الْعِينِ تَزَيَّنَّ وَ تَزَاوَرْنَ لِكَرَامَةِ مَوْلُودٍ وُلِدَ لِمُحَمَّدٍ فِي دَارِ الدُّنْيَا وَ أَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنْ قُومُوا صُفُوفاً بِالتَّسْبِيحِ وَ التَّحْمِيدِ وَ التَّمْجِيدِ وَ التَّكْبِيرِ لِكَرَامَةِ مَوْلُودٍ وُلِدَ لِمُحَمَّدٍ فِي دَارِ الدُّنْيَا وَ أَوْحَى اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى إِلَى جَبْرَئِيلَ ع أَنِ اهْبِطْ إِلَى نَبِيِّي مُحَمَّدٍ فِي أَلْفِ قَبِيلٍ وَ الْقَبِيلُ أَلْفُ أَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ عَلَى خُيُولٍ بُلْقٍ مُسْرَجَةً مُلْجَمَةً عَلَيْهَا قِبَابُ الدُّرِّ وَ الْيَاقُوتِ وَ مَعَهُمْ مَلَائِكَةٌ يُقَالُ لَهُمُ الرُّوحَانِيُّونَ بِأَيْدِيهِمْ أَطْبَاقٌ مِنْ نُورٍ أَنْ هَنِّئُوا مُحَمَّداً بِمَوْلُودٍ وَ أَخْبِرْهُ يَا جَبْرَئِيلُ أَنِّي قَدْ سَمَّيْتُهُ الْحُسَيْنَ وَ هَنِّئْهُ وَ عَزِّهِ وَ قُلْ لَهُ يَا مُحَمَّدُ يَقْتُلُهُ شِرَارُ أُمَّتِكَ عَلَى شِرَارِ الدَّوَابِّ فَوَيْلٌ لِلْقَاتِلِ وَ وَيْلٌ لِلسَّائِقِ وَ وَيْلٌ لِلْقَائِدِ قَاتِلُ الْحُسَيْنِ أَنَا مِنْهُ بَرِي‏ءٌ وَ هُوَ مِنِّي بَرِي‏ءٌ لِأَنَّهُ لَا يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَدٌ إِلَّا وَ قَاتِلُ الْحُسَيْنِ ع أَعْظَمُ جُرْماً مِنْهُ قَاتِلُ الْحُسَيْنِ يَدْخُلُ النَّارَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ وَ النَّارُ أَشْوَقُ إِلَى قَاتِلِ الْحُسَيْنِ مِمَّنْ أَطَاعَ اللَّهَ إِلَى الْجَنَّةِ قَالَ فَبَيْنَا جَبْرَئِيلُ ع يَهْبِطُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ إِذْ مَرَّ بِدَرْدَائِيلَ فَقَالَ لَهُ دَرْدَائِيلُ يَا جَبْرَئِيلُ مَا هَذِهِ اللَّيْلَةُ فِي السَّمَاءِ هَلْ قَامَتِ الْقِيَامَةُ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا قَالَ لَا وَ لَكِنْ وُلِدَ لِمُحَمَّدٍ مَوْلُودٌ فِي دَارِ الدُّنْيَا وَ قَدْ بَعَثَنِيَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَيْهِ لِأُهَنِّئَهُ بِمَوْلُودِهِ فَقَالَ الْمَلَكُ يَا جَبْرَئِيلُ بِالَّذِي خَلَقَكَ وَ خَلَقَنِي إِذَا هَبَطْتَ إِلَى مُحَمَّدٍ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ وَ قُلْ لَهُ بِحَقِّ هَذَا الْمَوْلُودِ عَلَيْكَ إِلَّا مَا سَأَلْتَ رَبَّكَ أَنْ يَرْضَى عَنِّي فَيَرُدَّ عَلَيَّ أَجْنِحَتِي وَ مَقَامِي مِنْ صُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ فَهَبَطَ جَبْرَئِيلُ ع عَلَى النَّبِيِّ ص فَهَنَّأَهُ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ عَزَّاهُ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ ص تَقْتُلُهُ أُمَّتِي فَقَالَ لَهُ نَعَمْ يَا مُحَمَّدُ فَقَالَ النَّبِيُّ ص مَا هَؤُلَاءِ بِأُمَّتِي أَنَا بَرِي‏ءٌ مِنْهُمْ وَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بَرِي‏ءٌ مِنْهُمْ قَالَ جَبْرَئِيلُ وَ أَنَا بَرِي‏ءٌ مِنْهُمْ‏ يَا مُحَمَّدُ فَدَخَلَ النَّبِيُّ ص عَلَى فَاطِمَةَ ع فَهَنَّأَهَا وَ عَزَّاهَا فَبَكَتْ فَاطِمَةُ ع وَ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي لَمْ أَلِدْهُ قَاتِلُ الْحُسَيْنِ فِي النَّارِ فَقَالَ النَّبِيُّ ص وَ أَنَا أَشْهَدُ بِذَلِكَ يَا فَاطِمَةُ وَ لَكِنَّهُ لَا يُقْتَلُ حَتَّى يَكُونَ مِنْهُ إِمَامٌ يَكُونُ مِنْهُ الْأَئِمَّةُ الْهَادِيَةُ بَعْدَهُ ثُمَّ قَالَ ع وَ الْأَئِمَّةُ بَعْدِي الْهَادِي عَلِيٌّ وَ الْمُهْتَدِي الْحَسَنُ وَ النَّاصِرُ الْحُسَيْنُ وَ الْمَنْصُورُ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ وَ الشَّافِعُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ وَ النَّفَّاعُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَ الْأَمِينُ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ وَ الرِّضَا عَلِيُّ بْنُ مُوسَى وَ الْفَعَّالُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ وَ الْمُؤْتَمَنُ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَ الْعَلَّامُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَ مَنْ يُصَلِّي خَلْفَهُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ع الْقَائِمُ ع فَسَكَتَتْ فَاطِمَةُ ع مِنَ الْبُكَاءِ ثُمَّ أَخْبَرَ جَبْرَئِيلُ ع النَّبِيَّ ص بِقِصَّةِ الْمَلَكِ وَ مَا أُصِيبَ بِهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأَخَذَ النَّبِيُّ ص الْحُسَيْنَ ع وَ هُوَ مَلْفُوفٌ فِي خِرَقٍ مِنْ صُوفٍ فَأَشَارَ بِهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ بِحَقِّ هَذَا الْمَوْلُودِ عَلَيْكَ لَا بَلْ بِحَقِّكَ عَلَيْهِ وَ عَلَى جَدِّهِ مُحَمَّدٍ وَ إِبْرَاهِيمَ وَ إِسْمَاعِيلَ وَ إِسْحَاقَ وَ يَعْقُوبَ إِنْ كَانَ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ ابْنِ فَاطِمَةَ عِنْدَكَ قَدْرٌ فَارْضَ عَنْ دَرْدَائِيلَ وَ رُدَّ عَلَيْهِ أَجْنِحَتَهُ وَ مَقَامَهُ مِنْ صُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ فَاسْتَجَابَ اللَّهُ دُعَاءَهُ وَ غَفَرَ لِلْمَلَكِ وَ رَدَّ عَلَيْهِ أَجْنِحَتَهُ وَ رَدَّهُ إِلَى صُفُوفِ الْمَلَائِكَةِ فَالْمَلَكُ لَا يُعْرَفُ فِي الْجَنَّةِ إِلَّا بِأَنْ يُقَالَ هَذَا مَوْلَى الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ وَ ابْنِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ص‏
(84)
بحث محتوائی و دلالی
اس حصہ میں اولاْ ان روایات کو دیکھا جائے گا جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں اور جسطرح بیان ہوا کہ اوپر بیان شدہ روایات کہ جو ۱۳کہ قریب مہم مدارک و مدارک میں سے بیان ہوئی ہیں اگر مرزِ تواتر تک نا سہی مگر حدّ مستفیض تک پہنچ چکی ہیں
ان روایات کے مضمون پر جو اشکالات بزرگان نے بیان فرمائے ہیں وہ قابل مناقشہ و قابل حلّ ہیں مگر بصائر الدرجات میں ذکر شدہ روایت کے کہ جسکا مضمون کسی توجیہ عقلی و نقلی کے قابل نہیں اسی وجہ سے اس میں علماء نے خلط یا تدلیس یا اشتباہ راوی یا کاتب یا اختلال در نقل به معنا کی توجیہات کو ذکر کیا ہے
اشکال اول : یہ روایات کہ جن میں فطرس کے گناہگار ہونے پر دلالت کر رہی ہیں ان آیات و روایات سے منافات رکھتی ہیں کہ جن میں ملائکہ کی عصمت کو بیان کیا گیا ہے
یہ اشکال چند طریقوں کے ذریعے قابل دفع ہے
الف : روایات فطرس میں جو تعابیر ذکر ہوئی ہیں وہ اصلاْ فطرس کے گناہگار ہونے پردلالت نہیں کرتیں جو اس گناہ کا انکار کیا جائے اوپر بیان شدہ روایات میں جو تعابیر و عبائر روایات میں وارد ہوئی ہیں وہ یہ ہیں « أبطأ » یا « تلکّأ » جوکہ مترادف ہیں اور « سستی کرنے کی معنا میں ( نقیض اسراع ) » ہیں (85)
اور سورہ نازعات میں فرمان الہی ہے کہ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحيمِ‏ * وَ النَّازِعاتِ غَرْقاً * وَ النَّاشِطاتِ نَشْطاً * وَ السَّابِحاتِ سَبْحاً * فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً اور ان آیات میں وارد روایات و اقوال مفسرین شیعہ و اہل سنت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ اطاعت امر الہی کو انجام دینے کے لئے ایک دوسرے بر سبقت لیتے ہیں مفسرین نے ان امور میں سے کچھ کا ذکر کیا ہے ، تفصیل کا طالب تفاسیر کی طرف رجوع کریں اب روایات میں جو فطرس کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ اس نے اطاعت الہی و امر الہی کو انجام دینے میں جلدی نہیں کی اور اپنے مقام و منزلت کے اعتبار سے اسکو وہ کام قرب الہی کے حصول کے لئے جلدی میں انجام دینا تہا مگر اس نے لحضہ بھر سستی سے کام لیا جسکی وجہ سے وہ اس منزلت کے اعتبار سے اپنا مقام کھو بیٹھا اور ان مخصوص عنایات الہی سے کہ جو « عباد مکرمین » کو حاصل ہوتی ہیں کو حاصل نا کر سکا اور اپنی منزلت و مقام سے اسکا درجہ گر گیا جسکو فقط توبہ اور توسل سے ہی جبران کر سکتا ہے
ب : انصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو عصمت ملائکہ کے باب میں وارد یہ روایات فطرس و غیرہ کا شبھہ ان آیات و روایات کہ جو انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے ظاہرآ تنافی و خلاف میں وارد ہوئی ہیں کی طرح ہے اور شاید عصمت انبیاء میں وارد شبہات فطرس سے زیادہ شبہ انداز ہیں اور جسطرح ان آیات و روایات کا صدور کے بارے میں کسی کو تردید نہیں اور ان آیات و روایات کو شبہ کے عنوان سے توجیہ و تحلیل کیا جاتا ہے اور جو جواب وہاں دیا جائے گا بطور اولیٰ یہاں بھی بیان ہوگا
وضاحت : وہ آیات و روایات کہ جن میں معصومین علیہم السلام کے بارے میں ظاہری و بدوی اعتبار سے گناہوں کی نسبت بیان کی گئی ہے ان روایات و آیات و دلائل عقلی و نقلی کے ساتھ ظاہراْ منافات رکھتی ہیں کہ جن سے معصومین علیہم السلام کی عصمت کا اثبات ہوتا ہے ۔ امّا اگر اس منافات کو « گناهان منزلتی » پر حمل کیا جائے تو یہ عدم عصمت کی آیات و روایات سہولت کے ساتھ قابل دفع ہیں ؛
گناہانِ منزلتی
یہ بحث علماء کرام میں زمانِ قدیم سے چلی آ رہی ہے کہ معصومین علیہم السلام نے و انبیاء کے بارے میں جو آیات و روایات انکی عصمت کے ظاھرا خالف ہیں یا وہ دعائیں کہ جن میں گناہوں کی نسبت اپنی طرف دی ہے یا دوسری روایات و آیات میں گناہوں کی نسبت معصومین علیہم السلام کے دی گئی ہے اسکا آخر سرّ و راز کیا ہے جبکہ مکتب اہل بیت علیہم السلام میں انبیاء و ائمہ علیہم السلام ہر گناہ سے مبراٗ ہیں
ان میں سے کچھ متشابہ آیات کہ جنکو علماء نے ترک اولیٰ پر حمل کیا ہے کسی دوسرے موقع و محلّ پر بیان کریں گے یھاں فقط ان آیات و روایات و ادعیہ کی بررسی عرض کریں گے کہ جن میں گناہوں کی نسبت دی گئی مگر خارج میں کوئی ایسا عمل واقع نہیں ہوا گرچہ اس عنوان ’’ گناہانِ منزلتی ‘‘ کے ذریعے سے ہم نحن ما فیہ یعنی فطرس کے واقعہ پر بھی استدلال کریں گے مگر اولاْ خود اس موضوع کے روشن ہونے کے لئے فقط ذکر شدہ موارد ہی کو بیان کریں گے
ان آیات و روایات میں سے کچھ کا ذکر کرتے چلیں
عَفَا اللّهُ عَنکَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّى یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِینَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ الْکَاذِبِینَ (86)
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِی أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَیْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْهِ أَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِی فِی نَفْسِکَ مَا اللَّهُ مُبْدِیهِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ (87)
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (88)
إِنَّآ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ أَرَىٰكَ اللَّـهُ وَلَا تَكُن لِّلْخَآئِنِينَ خَصِيمًا * وَاسْتَغْفِرِ اللَّـهَ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا   (89)
يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (90)
اور کچھ احادیث کو ذکر کرتے ہیں
(۱) ابْنُ أَبِي جُمْهُورٍ فِي دُرَرِ اللآَّلِي، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلیٰ اللهُ علیهِ وَ‌ آلهِ أَنَّهُ قَالَ: إِنَّهُ لَيُغَانُ عَلَى قَلْبِي وَ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِي كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً وَ رُوِيَ: فِي كُلِّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّۃ (91)
(۲) امام زین العابدین علیه السلام مُنٰاجٰاةُ الذَاکِرِین میں فرماتے ہیں : ۔ ۔ ۔ و أستغفر ك من کل لذة بغیر ذکرك و من کل راحة بغیر انسك و من کل سرور بغیر قربك، و من کل شغل بغیر طاعتك (92)
(۳) عِدَّةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص كَانَ لَا يَقُومُ مِنْ مَجْلِسٍ وَ إِنْ خَفَّ حَتَّى يَسْتَغْفِرَ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَمْساً وَ عِشْرِينَ مَرَّةً (93)
(4) عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنِ ابْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمَّارٍ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ‏ الْمُغِيرَةِ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ص يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ فِي كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً وَ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ سَبْعِينَ مَرَّةً قَالَ قُلْتُ كَانَ يَقُولُ- أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَ أَتُوبُ إِلَيْهِ قَالَ كَانَ يَقُولُ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ سَبْعِينَ مَرَّةً وَ يَقُولُ وَ أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ وَ أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ سَبْعِينَ مَرَّة (94)
(4) كتاب حسين بن سعيد و النوادر إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي الْبِلَادِ قَالَ قَالَ لِي أَبُو الْحَسَنِ ع إِنِّي أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِي كُلِّ يَوْمٍ خَمْسَةَ آلَافِ مَرَّةٍ ثُمَّ قَالَ لِي خَمْسَةُ آلَافٍ كَثِير (95)
(5) مناجات شعبانیہ میں یہ جملات ملتے ہیںإِلَهِی وَ قَدْ أَفْنَیْتُ عُمُرِی فِی شِرَّةِ السَّهْوِ عَنْکَ وَ أَبْلَیْتُ شَبَابِی فِی سَکْرَةِ التَّبَاعُدِ مِنْکَ کہ ای میرے مالک میں نے اپنی پوری عمر میں تجھے بھلایا ہے اور اپنی جوانی تم سے دوری میں فنا کردی
باب عصمت میں وارد دلائل عقلیہ و نقلیہ کو بھی نظر میں رکھتے ہوئے اوپر بیان شدہ آیات و روایات و دعائوں کہ جن میں اجمالی طور پر معصومین علیہم السلام کی طرف نسبت دی گئی ہے یا انہوں نے خود اپنی طرف دی ہے انکے بارے میں دو ہی نظریہ قابل تصور ہیں
1 – یہ نسبت صحیح ہے یعنی ان سے گناہ سرزد ہوئے ہیں اور اس استغفار سے مراد اسکی معنائ حقیقی ہو
2 – یہ نسبت صحیح نہیں یعنی ان سے گناہ سرزد نہیں ہوئے اور اس استغفار سے مراد معنائ مجازی ہے
پہلے نظریہ کے بطلان پر متکلمین اسلامی نے عقلی و نقلی دلائل کے ذریعے سے اس نظریے کو باطل قرار دیا ہے ہم معصومین علیہم السلام کی عصمت کو ہی مبنا وہ مفروض عنہ لیتے ہوئے وہ دلائل یہاں بیان کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔
اب چلتے ہیں دوسرے نظریے کی طرف کہ یہ نسبت صحیح نہیں اور یہ استغفار مجازا ہے بطلان نظرئے اول کے ساتھ ہی دوسرا نظریہ خود بہ خود ثابت ہوجاتا ہے اور اس استغفار کی وجہ جو بیان ہوئی ہے اور زبان زدہ بھی ہے وہ یہ ہے کہ معصومین علیہم السلام فقط و فقط انسانیت و ہمیں تعلیم دے رہے ہین کہ کس طرح اپنے معبود کی دربار میں جاکر اس سے راز و نیاز کیا جاتا ہے خود کو ایک گناہگار بندے کی حیثیت سے اس کریم کی دربار میں کس طرح پیش کیا جاتا ہے کسطرح ایک گناہگار و مجرم کی طرح اپنی معبود سے گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے یعنی خلاصۃ وہ یہ ساری کام یہ ساری مناجات یہ سارے استغفار فقط مخلوق کی تعلیم کے لئے کرتے تھے
* متون روایاتِ استغفار و معصومین علیہم السلام سے منقول دعائوں کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ دوسرا نظریہ ہماری مشکل کو حل نہیں کرسکتا اور فقط یہ کھ کر اپنی جان چھڑائی جائے کہ یہ آئے ہی مخلوق کو معبود سے طرز تکلم و طرز مناجات سکھانے تھے اس اشکال و تشویش کو ملحوذ نظر رکھتے ہوئے ہم علماء کی طرف سے بیان کردہ راہ و تیسرا نظریہ عرض کرتے ہیں
تیسرا نظریہ
اس نظریہ کو گناہان منزلتی سے تعابیر کیا جاتا ہے جسکو کو بیان کرنے کے لئے مشھور عبارت کہ ’’ حَسَناتُ الابرَارِ سَیّئاتُ المقرّبینِ ‘‘ یعنی ( منزل ابرار جسکی طرف قرآن میں ہے کہ إِنَّ الْأَبْرارَ لَفِي نَعِيم کے حامل ) ابراروں کی نیکیاں و اچھے کام مقربین کی منزل پر فائز شخصیتوں کی نظر میں گناہ ہیں یعنی ایک ہی کام اگر ابرار و مخلص بندوں کی صف میں موجود بندہ کرے تو وہ اسکی نگاہ میں اور رب کی نگاہ میں نیکی ہے اور وہی کام مقربین کی اس بلند منزلت پر فائز شخصیت کی نگاہ عظیم میں اپنی حیثیت و مقام کی مناسبت سے رب کریم کے سامنے انجام دینا ( جو ابرار کے نزدیک اچھا کام تھا اور ہے ) اس معبود کی عظمت کے اعتبار سے گناہ سمجھا جاتا ہے
اسکے ہمارے معاشرے مین بھی کئی مثالیں ہیں اگر کوئی معنوی اعتبار سے کم حیثیت کا بندہ ایک اچھا کام کر رہا ہے تو وہ اسکی وہ زمانے کی و رب العزت کی نگاہ میں اچھا کام ہے اور وہی کام اگر بلند مذہبی شخصیت و معنویت کا حامل انجام دے تو وہی اچھا کام خود اسکی و رب العزت کی نگاہ میں اسکے ذات بابرکات کی شایان شان نہیں ہوتی ۔ یہ مقرب بندوں کی ہمیشہ سجیت و عادت رہی ہے کہ چاہے کتنا بھی معبود حقیقی کے سامنے جھکے رہے اور اسکی اِسطرح عبادت کی کے زمانے میں نا کوئی کر سکا ہے نا کرے گا کہ جسکو خود رب العزۃ یہ کہتا نظر آئے کہ يا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا (96) ائ میرے چادر اوڑہنے والے رات کو ( میری عبادت کیلئے ) اٹھو مگر تھوڑا کم آدھی رات یا اس سے بھی تھوڑا کم ، یہ ہستی اور اسکی اہلبیت علیہم السلام کہ جو مومن کی علامت و سجدوں کے سردار ہیں وہ اتنی عبادت کرنے کے باوجود خود کو اپنے معبود کے سامنے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’ مَا عَبَدْنَاكَ حَقَّ عِبَادَتِكَ وَ مَا عَرَفْنَاكَ حَقَّ مَعْرِفَتِك ‘‘(97) ’’ کہ ائ ہمارے مالک ہم نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا ہم نے تیری معرفت کا حق ادا نہیں کیا ‘‘
معصومین علیہم السلام کی مناجات پر نظر دوڑائی جائے تو دکھنے میں آتا ہے کہ وہ اکثر خداوند متعال کے ساتھ خلوت میں اور بہ انتہاء جدیت کے ساتھ انجام دیتے تھے وہ بہت ہی بلند معانی و مفاہیم کی حامل ہیں جنکو فقط انسانیت کو سکھانے کا اور انکو تعلیم دینے کے لئے بیان کرنے کے لئے پڑہنا ، قرار دینا انصاف سے خالی ہے اور جسطرح اوپر ذکر کیا کہ معصومین علیہم السلام جن باتوں کو خود سے منسوب کر کے انکی رب العزت سے معافی و استغفار کرتے تھے اور انکو گناہ و معصیت قرار دیتے ہیں وہ یہ عادی گناہ نہیں بلکہ بسا اوقات وہ کام و اعمال بھت فضیلت کے حامل ہین جنکو معصومین علیہم السلام معصیت کے عنوان سے بیان کر رہے ہیں ۔ انکا ان افعال با فضیلت کو گناہ اور ہم انکو احسن قرار دے رہے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی بندہ اس ذات واجب کی معرفت کے بحر میں جتنا جتنا تھ تک جاتا ہے اتنا ہی خود کو اس ذات واجب کی عبادت کا حق انجام دینے سے قاصر سمجھتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں ان ( با فضیلت کاموں کے ذریعے سے بھی ) افعال کو اسکی ذات ذی الشان کے سامنے اسکی حیثیت کے سامنے انجام دینا بھی گناہ سمجھتا ہوں اور میں حق عبادت انجام دینے سے قاصر ہوں اور اسی قصور کو توبہ و استغفار کے ذریعے سے جبران کرتا ہے اسکی بارگاہ میں ان کاموں کو اسکی شایانِ شان نا سمجھتے ہوئے ان کاموں سے استغفار کرتا ہے
یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ علمِ خداوند متعال کی صفات ذاتی میں سے ہے اور لا محدود ہے اسکی کوئی حد نہیں اور اولیاءِ الہی و معصومین علیہم السلام کے جیساکہ روایات میں وارد ہے ہر روز و ہر لمحے میں علم میں اضافہ و تکامل ہوتا رہتا ہے حقائق ہستی کے اسرار انکے سامنے کہلتے رہتے ہیں اور وہ پہلے مرتبے پر کی جانی والی عبادت کو دوسرے مرتبے پر آنے کے بعد اس ذات معبود کے لائق نہیں سمجھتے اور اسکو بندگی میں عبادت قرار نہین دیتے اور اسی عبادت سے استغفار کرتے ہیں کہ ہم اس سے بھتر کر سکتے تھے اوپر بیان شدہ کچھ روایات میں نص ہے کہ بغیر کسی گناہ کے بھی 70 یا 100 مرتبہ استغفار کرتے تھے اس باب میں احادیث بھت زیادہ ہیں اس حوالے کی طرف رجوع کر سکتے ہیں (98)
بنا بر این ممکن ہے کہ فطرس اپنے مقام و منزلت کی شانیت کے اعتبار سے سُستی کر بیٹھا ہو جو اسکو نہیں کرنی چاہئے تھی ۔ جبکہ سُستی معصیت مصطلحہ نہیں کہ جس سے ملائکہ کی عصمت زیر سوال آئے اور جو روایات میں جو فطرس کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ اس نے اطاعت الہی و امر الہی کو انجام دینے میں جلدی نہیں کی اور اپنے مقام و منزلت کے اعتبار سے اسکو وہ کام قرب الہی کے حصول کے لئے جلدی میں انجام دینا تہا مگر اس نے لحضہ بھر سستی سے کام لیا جسکی وجہ سے وہ اس منزلت کے اعتبار سے اپنا مقام کھو بیٹھا اور ان مخصوص عنایات الہی سے کہ جو « عباد مکرمین » کو حاصل ہوتی ہیں کو حاصل نا کر سکا اور اپنی منزلت و مقام سے اسکا درجہ گر گیا جسکو فقط توبہ ، استغفار اور توسل سے ہی جبران کر سکتا ہے
دوسرا اشکال : ممکن ہے کوئی کھے کہ اللہ نے ملائکہ کو عقل محض بنایا ہے وہ مقام اطاعت مین نا کوئی گناہ کر سکتے ہیں نا ہی کوئی سُستی کیونکہ انکی عصمت اجباری ہے اور وہ گناہ یا سستی کرنے پر قادر ہی نہیں اس لئے ان روایات کو ہم قبول نہیں کر سکتے
( روایات فطرس کے مخالفین کی طرف سے یہ اشکال گرچہ بیان نہیں ہوا مگر ہم اسکو بیان کر رہے ہیں )
اس اشکال کا جواب دینے سے پھلے کہ ملائکہ کی عصمت اجباری ہے ہم اوپر بیان شدہ عصمت کی تعریف کہ ’’ العصمة من الله سبحانه إنما هي بإيجاد سبب في الإنسان النبي يصدر عنه أفعاله الاختيارية صوابا و طاعة و هو نوع من العلم الراسخ و هو الملكة ‘‘ میں سے تین نکتوں کو عرض کرتے ہیں
اولاً : عصمت ایک ملکہ ہے . اور ملکہ حال کے مقابلہ میں ہوتا ہے اور یہ ملکہ ایک ایسی نفسانی راسخ صفت کا نام ہے کہ جو نا تو زوال پذیر ہوتی ہے اور نا ہی اسمیں کوئی تغیّر و تغییر حاصل ہوتا ہے بنا بر این یہ عصمت کا ملکہ انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے گرچہ اس انسان سے گناہ کو انجام دینے کی قوت کو اس سے سلب نہیں کرتا . (99)
ثانیاً : عصمت، انسان کو خطا و گناه سے بچاتا ہے . خطا اور اشتباہ سے مراد یہ ہے کہ وہ معصوم انسان خداوند متعال سے وحی کو لینے اور اسی وحی کی تبلیغ و رسالت اور اسی طرح کے افعال میں اشتباہ و خطا نہیں کرتا .اور گناہ کا مرتکب نا ہونے کا مقصد یہ ہے کہ کیونکہ گناہ کی معنا یہ ہے کہ اللہ جلّ جلالہ نے جو حدّ بندگی مقرّر کی ہے اسکو توڑ دینا مالک حقیقی کے دستورات سے سرپیچی کرنا چاہے زبان سے یا عمل کے ذریعے سے جوکہ مقام بندگی سے منافات رکھتا ہے , اور معصوم جو عصمت کے ملکہ کا حامل ہے اپنے اس مقام عصمت کے ذریعے اس مقام رذیل میں گرنے سے بچائے رکھتا ہے اور اسکو گناہ و اشتباہ سے محفوظ رکھتا ہے . (100)
ثالثاً : یہ ملکہ و طاقت فقط انھی افراد میں ہے کہ جو اسکی قابلیت و شائنیت رکھتے ہوں جیسے مثلا کھا جائے کہ کمپیوٹر کبھی غلطی نہیں کرتا کیونکہ اسمیں گناہ نا کرنا کا ملکہ موجود ہے یا جمادات کبھی گناہ نہیں کرتے بنا بر این عصمت کے زیور سے مزیّن کر کے معصوم بنایا ہے وہ اپنے اختیار و فیض الہی سے گناہوں سے بچے رہتے ہیں اور جیسا کہ واضح ہے علماء علم کلام و فلسفہ عصمت معصومین کو اختیاری قرار دیتے ہیں اور جسطرح قرآن کی آیات بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہیں وجعلنا منهم ائمه یهدون بامرنا لما صبروا و کانوا بایتنا یوقنون (101) اور دعاء پر فیض ندبہ میں بھی اسی کو بیان کیا گیا ہے " بَعْدَ اَنْ شَرَطْتَ عَلَیْهِمُ الزُّهْدَ فى دَرَجاتِ هذِهِ الدُّنْیَا الدَّنِیَّةِ، وَزُخْرُفِها وَزِبْرِجِها، فَشَرَطُوا لَکَ ذلِکَ،وَعَلِمْتَ مِنْهُمُ الْوَفآءَ بِهِ، فَقَبِلْتَهُمْ وَقَرَّبْتَهُمْ، وَقَدَّمْتَ لَهُمُ الذِّکْرَ الْعَلِىَّ،وَالثَّنآءَ الْجَلِىَّ، وَاَهْبَطْتَ عَلَیْهِمْ مَلآئِکَتَکَ، وَکَرَّمْتَهُمْ بِوَحْیِکَ، وَرَفَدْتَهُمْ "اس کے بعدکہ تو نے ان سے اس دنیائے دنی کے درجات میں اور اس کی آرائش و زیبائش کے سلسلہٴ زہد کی شرط کرلی اور تجھے معلوم تھا کہ وہ اپنے وعدہ کو وفا کریں گے۔ تو تو نے انہیں قبول کرلیا اور اپنے سے قریب تر بنا لیا اور ان کے لیے بلند ترین ذکر اور واضح تعریف کو پیش کردیا اور ان کے یہاں اپنے ملائکہ کو اتار دیا اور انہیں اپنی وحی کے ذریعہ محترم بنا دیا۔ اور اپنے علم سے نواز دیا ۔
نکتہ اول : اب ملائکہ بھی اسی اختیار سے و فیض الہی سے مزیّن ہیں کہ نہیں ؟ تو خلاصۃً عرض ہے کہ جہاں تک فیض الہی کا سوال ہے تو یہ آیات قرآنی سے واضح ہے کہ وہ اس فیض کے حامل ہیں
نکتہ دوم : کیا ملائکہ اختیار رکھتے ہوئے اللہ جلّ جلالہ کے اوامر و فرامین سے سرپیچی نہیں کرتے یا جبر الہی کی وجہ سے وہ ان اوامر کو انجام لاتے ہیں ؟
ملائکہ کی عصمت ان سے ان کا اختیار سلب نہیں کرتی اور وہ معصوم ہیں بالاختیار اسکی چند دلیلیں ذکر کرتے ہیں
آیہ اول : الَّذِينَ يحَمِلُونَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بحِمْدِ رَبهِّمْ وَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَ يَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شىَ‏ْءٍ رَّحْمَةً وَ عِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُواْ وَ اتَّبَعُواْ سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الجْحِيم‏ (102) جو فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے اردگرد ہیں سب اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور ان پر ایمان لائے ہیں اور ایمان والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں، ہمارے پروردگار! تیری رحمت اور علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے پس ان لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے کی پیروی کی ہے اور انہیں عذاب جہنم سے بچا لے۔
بیان و تقریر استدلال : اس آیت میں ملائکہ حمال العرش و غیرہ کی جو صفات بیان ہوئی ہیں جیسے تسبیح خدا و ایمان بہ خدا و مومنین کے لئے طلب مغفرت اور جھنم سے برئ قرار دینے کی دعا کرنا اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ ملائکہ اپنے وجود میں مستقل اور شعور و اراده رکھتے ہیں ، اور یہ صفات شعور و ارادہ مستقل کے علاوہ معنا نہیں رکھتے اور یہ بات بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ ملائکہ کا اختیار و ارادہ رکھنا انکی عصمت اور اطاعت محض و عدم نافرمانی کے درمیان کوئی منافات نہیں جیسے ائمہ اطھار علیہم السلام درحالنکہ اختیار رکھتے ہوئے بھی عصمت تامہ کے مالک تھے اور یہ جبر نھیں بلکہ انکے کمال شعور اور علم پر دلالت کرتا ہے .
آیہ دوم : ثمُ‏َّ اسْتَوَى إِلىَ السَّمَاءِ وَ هِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لهَا وَ لِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائعِين‏ (103) پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دہواں تھا پھر آسمان اور زمین سے کہا : دونوں آ جاؤ خواہ خوشی سے یا کراہت سے، ان دونوں نے کہا : ہم بخوشی آ گئے.
بیان و تقریر استدلال : جیسے کہ خود آیہ سے ہویدا ہے کہ تمام مخلوقات حتی کہ جنکو ہم خالی عن الشعور و الارادہ تصوّر کرتے ہیں وہ بھی تکوینی اعتبار سے شعور و ارادہ رکھتے ہیں اور اسی ارادے کے تحت امر الہی پر لبیک کھتے ہیں اور اسکو انجام دینے میں زرہ برابر کوتاہی نہیں کرتے تو جب اشرف خلائق جیسے ملائکہ کو خالی عن الارادہ و الشعور قرار دینا عقلی بات سے ماورا ہے
آیۃ اللہ سید عبد الحسین طیّب اپنی تفسیر اطیب البیان میں اس آیہ کی ذیل میں فرماتے ہیں کہ مفسرین ملائکہ و انسان و جنوں کے علاوہ دوسری تمام مخلوقات کو عادم الشعور قرار دیتے ہیں اسی وجہ سے اس آیت کی تاویل و توجیھات کو ذکر فرماتے ہیں درحالنکہ ہم نے کئی بار کھا ہے کہ نصوص قران اور اہلبیت علیہم السلام کی روایات جو حدّ متضافرہ تک ہیں اس چیز پر دلالت کرتی ہیں کہ تمام موجودات جیسے جمادات و نباتات و حيوانات شعور و ادراک رکھتے ہیں اور اپنی حد میں خداوند متعال کی معرفت و ذكر و عبادت رکھتے ہیں اور آسمان و زمین کے جواب کہ : قالَتا أَتَيْنا طائِعِينَ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام موجودات علوى و سفلى اپنے ارادہ و اختیار و رغبت کے ساتہ اطاعت کرتے ہیں (104)
آیۃ اللہ سید محمد حسین طباطبائی اپنی تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں کہ زمین و آسمان کا امر الہی کو قبول کرنا انکے ارادہ سے تھا نہ کہ قھرا و جبرا قوله: «ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً» كناية عن وجوب إتيانهما بلا مناص و أنه أمر لا يتخلف البتة أرادتا أو كرهتا سألتاه أو لم تسألا فأجابتا أنهما يمتثلان الأمر عن استعداد سابق و قبول ذاتي و سؤال فطري إذ قالتا : أَتَيْنا طائِعِينَ. (105)
اور صدر الدين محمد الشيرازي معروف بملّا صدرا اپنی کتاب الاسفار میں حرکت جوہری کہ جو انکا شہکار و ابتکاری نظریہ ہے کی اثبات میں تمام موجودات مادی و مجرد کے لئے ارادے و اختیار کو اثبات کرتے ہیں اور مجردات کے لئے تو بطور اولی کے قائل ہیں اور فرماتے ہیں کہ : واما رابعا فقولك هذا احداث مذهب لم يقل به حكيم كذب وظلم فأول حكيم قال في كتابه العزيز هو الله سبحانه وهو أصدق الحكماء حيث قال وترى الجبال تحسبها جامد وهي تمر مر السحاب وقال بل هم في لبس من خلق جديد وقوله إشارة إلى تبدل الطبيعة يوم تبدل الأرض غير الأرض وقوله تعالى فقال لها وللأرض ائتيا طوعا أو كرها قالتا اتينا طائعين وقوله كل اتوه داخرين وقوله على أن نبدل أمثالكم وننشئكم فيما لا تعلمون ۔ ۔ ۔ ( حرکت جوھری ) یہ کہنا کہ تمام موجودات اپنے اختیار سے عبادت الہی انجام دیتے ہیں ایک نیا نظریہ قائم کرنا ہے اور اسکے بارے میں کیس دانا نے نہیں کہا تو یہ غلط ہے کیونکہ جب حکیم اول اللہ سبحانہ و تعالیٰ کہ جو سب سے بڑا سچا حکیم و دانا ہے اپنی کتاب عزیز میں فرما چکے کہ تم ان پہاڑوں کو جامد و ساکن سمجھتے ہو درحالنکہ یہ بادلوں کی طرح دہیمی رفتار میں چلتے رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور آسمان و زمین کا اطاعت کرتے ہوئے آنا اس پر دلیل ہے لذا اگر یہ موجودات مادّی نفس مجرّد رکھتے ہوئے بھی صاحب اراده و اختیار ہیں تو ، ملائکہ تو مجرد محض و خالص ہیں و بطور اولیٰ یہ دو صفتیں ( ارادہ واختیار ) رکھتے ہیں کیونکہ یہ دو صفات ، صفات کمال میں سے ہیں (106)
آیہ سوم : سورہ تحریم میں ارشاد ربّ العزۃ ہے
يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ ناراً وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الْحِجارَةُ عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُونَ (107)
ای ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو اس آگ سے بچائو کہ جسکا ایندہن انسان و پتھر ہوں گے اس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے مقرّر ہیں کہ جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انھیں ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں
بیان و تقریب استدلال : اس آیہ شریفہ میں ملائکہ کے ایک گروہ کہ جو جھنم کے اوپر مامور ہین انکی وصف بیان کی گئی ہے کہ لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ کہ وہ حکم خدا کی نافرمانی نھیں کرتے اگر ہم عصمت ملائکہ کو جبری قرار دیں تو یہ آیہ کو سالبہ بانتفاء موضوع قرار دیا جائے گا اور اس آیہ کا ہونا لغو ہوگا جسکی ایک آسان مثال اس طرح بیان کی جا سکتی ہے کہ مثلا حضرت عیسی علیہ و علی نبینا السلام کا والد نا کھاتا ہے نا پیتا ہے تو سائل سوال کر سکتا ہے جب اس کا باپ ہی نھیں تو اس سے یہ صفات کھانا پینا سلب کرنا کوئی معنا نھیں رکھتا
اور اسی طرح یہ کھنا کہ یہ پتھر نا کوئی گناہ کر سکتا ہے نا کسی کو قتل کر سکتا ہے تو صاحبان عقل ضرور کھیں گے کہ جب اس میں ان کاموں کی صلاحیت ہی نھیں تو ان کاموں کی سلب و نفی کی نسبت بلکل عبث و فضول ہے اور فضول و عبث کلام اس ربّ حکیم سے صادر نہیں ہو سکتا اور یہ آیہ شریفہ بیانگر ہے کہ ملائکہ گرچہ تکلیف تکوینی کے مکلّف ہیں اور اس تکلیف میں نافرمانی خدا کو انجام نہیں دیتے اور یہ انجام نا دینا انکے اختیار سے ہے نا کہ وہ جبرا اس کام کو انجام دے رہے ہوں
آیت اله سید علی اکبر قرشی اپنی کتاب قاموس قرآن میں ملائکہ کو موجود مختار قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : جمله «لا يَعْصُونَ اللَّهَ ...» ظاهرا سالبه بانتفاء موضوع نيست بلكه ظهورش آنست كه قدرت بگناه دارند ولى نميكنند نه اينكه قادر نيستند و نميكنند. هكذا «يَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُونَ» نشان ميدهد كه قادر بگناه‏اند ولى‏ نميكنند. ولى اين آيه راجع بعموم ملائكه نيست و فقط وضع مأموران جهنّم را روشن ميكند آيات ديگرى در اين زمينه وارد است كه مفيد عموم‏اند
ترجمہ : «لا يَعْصُونَ اللَّهَ ...» یہ جملہ سالبہ بانتفاء موضوع نہیں ہے ( کہ اس صورت میں کلام لغو و بیہودہ ہوجائے ) بلکہ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ ملائکہ گناہ کرنے پر قدرت رکھتے ہیں مگر گناہ انجام نہیں دیتے اسطرح نہیں کہ وہ گناہ انجام نا دینے پر قادر ہی نا ہوں اور انجام نا دیتے ہوں ( اس صورت میں کلام سالبہ بانتفاء موضوع ہوجاتا ہے ) ۔ اور یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ آیت تمام ملائکہ کی عصمت کے بارے میں نہیں فقط و فقط ان ملائکہ کے بارے میں ہیں جو جھنم کے اوپر مآمور ہیں اس موضوع میں اور آیات موجود ہیں جو تمام ملائکہ کی عصمت کو بیان کرتی ہیں (108)
آیہ چھارم : وَ قالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمنُ وَلَداً سُبْحانَهُ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ . لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَ هُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ . يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ ما خَلْفَهُمْ وَ لا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضى‏ وَ هُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ . وَ مَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلهٌ مِنْ دُونِهِ فَذلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ (109)
اور وہ کہتے ہیں : اللہ نے بیٹا بنایا ہے، وہ پاک ہے (ایسی باتوں سے) بلکہ یہ تو اللہ کے محترم بندے ہیں * وہ تو اللہ (کے حکم) سے پہلے بات (بھی) نہیں کرتے اور اسی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں * اللہ ان باتوں کو جانتا ہے جو ان کے روبرو اور جو ان کے پس پردہ ہیں اور وہ فقط ان لوگوں کی شفاعت کر سکتے ہیں جن سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ کی ھیبت سے ہراساں رہتے ہیں * اور ان میں سے جو کوئی یہ کہدے کہ اللہ کے علاوہ میں بھی معبود ہوں تو ہم اسے جہنم کی سزا دیتے ہیں، چنانچہ ظالموں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں
بیان و تقریب استدلال : ان آیات میں خصوصا «لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَ هُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ» اور مخصوصا « وَ مَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلهٌ مِنْ دُونِهِ » ان دو جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ گناہ کرنے پر قادر ہیں مگر وہ گناہ علم و عصمت جو خدا کی طرف سے ودیعہ ہے ، کی وجہ سے انجام نہیں دیتے اور یہ دونوں آیات عموم ملائکہ کو شامل ہیں اور کیونکہ یہ جملہ کہ من یقل منھم جملہ شرطیہ ہے اور وہ خارج میں متحقق ہونے کی شرط نہیں رکھتا جیسے ان آیات میں ہے وَ لَقَدْ أُوحِىَ إِلَيْكَ وَ إِلىَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئنِ‏ْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُونَنَّ مِنَ الخْاسِرِين‏ (110) اور بتحقیق آپ کی طرف اور آپ سے پہلے انبیاء کی طرف یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضرور حبط ہو جائے گا اور تم ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤ گے
اور جیسا کہ روایات سے واضح ہے کہ فرشتوں کے بھی علم و معرفت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے جیسے خطبہ اشباح میں طھارۃ الملائکہ من الرذائل کے عنوان کے ذیل میں ہے کہ : یزدادون علی طول الطاعۃ علما و تزداد عزّۃ ربھم فی قلوبھم عظما اور انکی خلقت عقل سے ہے کہ جس میں ہوس و شہوت و غضب نہیں اسی بنیاد پر وہ عبادت خدا و امور مربوطہ کو احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں کہ جسکا خدا نے انکو امر کیا ہے اور اس عبادت و اوامر کی انجام دہی سے سرپیچی کرنے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے اور جیسا کہ معلوم ہے کہ نفس مستکملہ کا کمال و عروج اسکے اختیار سے وابسطہ ہے کہ جس کہ ذریعے سے وہ علم و کمال کی منزلیں طئ کرتا ہے
بنا بر این ملائکہ کی عصمت اختیاری ہے اور وہ معبود حقیقی کی عبادت اور اسکے فرامین کو بڑی ہی چاہت و ذوق و شوق سے نا صرف انجام دیتے ہیں بلکہ اسکو انجام دینے میں ایک دوسرے کے ساتھ مسابقہ و سبقت حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تاکہ اس فعل کو جلد سے جلد انجام دیا جائے جیے نص قرآن موجود ہے کہ : * فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا * (111) پھر (حکم کی بجا آوری میں) خود سبقت لے جاتے ہیں۔
تو ممکن ہے کہ جیسے اوپر ذکر کیا کہ فطرس و دردائیل یا صلصائیل نے امر الہی کو انجام دینے میں وہ سبقت نا دکھائی ہو جو ان کے مقام کی شایانِ شان تھی اور انہوں نے اپنے مقام کے برعکس ( گرچہ گناہ نہیں ) سستی کی ہو جیسے روایات میں وارد ہے اور عقوبت الہی کے مستحق قرار پائے یعنی یہ سستی انکے مقام کے حساب سے انکے شانیت کے خلاف تھی جیسے جناب نوح علیہ السلام کا اپنے بیٹے کے بارے میں کہ جو طوفان میں غرق ہورہا تھا سوال کرنا ملاحضہ فرمائیں : وَ أُوحِىَ إِلىَ‏ نُوح‏ أَنَّهُ لَن يُومِنَ مِن قَوْمِكَ إِلاَّ مَن قَدْ ءَامَنَ فَلاَ تَبْتَـئِسْ بِمَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ * وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا وَ لاَ تُخَاطِبْنِى فِى الَّذِينَ ظَـلَمُواْ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ (112)اور نوح کی طرف یہ وحی کی گئی کہ جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے علاوہ آپ کی قوم میں سے ہرگز کوئی اور ایمان نہیں لائے گا لہٰذا جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں آپ اس سے رنجیدہ نہ ہوں * اور ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے ایک کشتی بنائیں اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات ہی نہ کریں کیونکہ وہ ضرور ڈوبنے والے ہیں اور طوفان آگیا : وَ هِىَ تجَرِى بِهِمْ فىِ مَوْجٍ كاَلْجِبَالِ وَ نَادَى‏ نُوحٌ ابْنَهُ وَ كَانَ فىِ مَعْزِلٍ يَبُنىَ‏َّ ارْكَب مَّعَنَا وَ لَا تَكُن مَّعَ الْكَافِرِينَ * قَالَ سَاوِى إِلىَ‏ جَبَلٍ يَعْصِمُنىِ مِنَ الْمَاءِ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَن رَّحِمَ وَ حَالَ بَيْنهَمَا الْمَوْجُ فَكاَنَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ (113) اور کشتی انہیں لے کر پہاڑ جیسی موجوں میں چلنے لگی، اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو جو کچھ فاصلے پر تھا پکارا: اے بیٹا! ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو * اس نے کہا: میں پہاڑ کی پناہ لوں گا وہ مجھے پانی سے بچا لے گا، نوح نے کہا : آج اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں مگر جس پر اللہ رحم کرے، پھر دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہو گیا اسکے بعد نوح نے فریاد کی ’’ وَ نَادَى‏ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبّ‏ِ إِنَّ ابْنىِ مِنْ أَهْلىِ وَ إِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَ أَنتَ أَحْكَمُ الحْاكِمِين ‘‘اور نوح نے اپنے رب کو پکار کر عرض کی : اے میرے پروردگار! میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور یقینا تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے
تو پروردگار نے جواب دیا قَالَ يَنُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيرْ صَالِحٍ فَلَا تَسْلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنىّ‏ِ أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِين (114) ترجمہ فرمایا : اے نوح ! بے شک یہ آپ کے گھر والوں میں سے نہیں ہے، یہ غیر صالح عمل ہے لہٰذا جس چیز کا آپ کو علم نہیں اس کی مجھ سے درخواست نہ کریں، میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ مبادا نادانوں میں سے ہوجائیں
جب جناب نوح اپنے مقام و منزلت کے اعتبار و اپنی شائنیت سے ھٹ کر سوال کیا اور اسکا جواب پایا تو خود اسی طرف متوجہ ہوئے اور اس جلدبازی پر یوں فرمایا : قَالَ رَبّ‏ِ إِنىّ‏ِ أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْلَكَ مَا لَيْسَ لىِ بِهِ عِلْمٌ وَ إِلَّا تَغْفِرْ لىِ وَ تَرْحَمْنىِ أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِين ترجمہ : نوح نے کہا : میرے رب میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ ایسی چیز کا تجھ سے سوال کرو ں جس کا مجھے علم نہیں ہے اور اگر تو مجھے معاف نہیں کرے گا اور مجھ پر رحم نہیں کرے گا تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جاؤں گا
یہ جلد بازی و شتاب معصیت الہی نا تھی مگر جناب نوح علیہ السلام نے اپنی شان و منزلت کے اعتبار سے اسکو گناہ ( منزلتی ) سمجھا اور اس سے استغفار کیا
اشکال سوم : یہ روایت (فطرس) خبر واحد ہے اور غیر فقھی ہے اگر یہ ایک فقہی مورد ہوتا تو ہم اگر خبر واحد معتبر ہوتی تو اسکو قبول کرتے اور تعبدا اسپر عمل کرتے
جواب : جیسے کہ اوپر بیان شدہ احادیث فطرس وغیرہ کا ملاحضہ فرمائیں اور انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو اولا یہ روایات خبر واحد نہیں بلکہ حدِ تضافر تک پہنچ چکی ہیں اور ثانیا یہ روایات فقط سے ہی مربوط ہیں کہ جسمیں اگر فقیہ و مجتھد کو انکے صدور کا یقین ہوجائے تو وہ فتوا دئ سکتا ہے اور فقیہ اس کام کو پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی طرف نسبت دئ کر اس کو امام حسین علیہ السلام کے فضائل میں سے شمار کر سکتا ہے اور کیا اس سے فعل معصوم و تقریر معصوم کو استنباط کیا جاسکتا ہے یا نہیں
ہمارے ناقص بیانات سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ واضح ہے کہ فطرس اور دردائیل و غیرہ کا واقعہ صحیح ہے اس سے نا فرشتوں کی عصمت پر حرف آتا ہے جیسے انبیاء کے ترک اولیٰ سے انکی عصمت پر حرف نہیں آتا اور نا ہی یہ واقعہ بیان کرنے سے معصوم علیہ السلام کی طرف جھوٹی نسبت کا خدشہ باقی رہتا ہے
علماء نے اور کافی جوابات بھی دئے ہیں کہ جیسے سب ملائکہ برابر نہیں کچھ زمینی ملائکہ ہیں وہ ترک اولیٰ کر سکتے ہیں وغیرہ ہم اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ موجودہ و گذشتہ علماء کے اقوال نقل کرتے ہیں
علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کا نظریہ :
علامہ مجلسی ولادت امام حسین علیہ السلام کے باب میں اس دردائیل کے قصے ( کہ اس نے کھا تھا کہ کیا میرے رب سے بڑی کوئی چیز ہے ؟ ) کو تفصیلا ذکر کیا ہے اور اسکی توجیہ اسطرح سے ذکر کی ہے کہ : لعل هذا على تقدير صحة الخبر كان بمحض خطور البال من غير اعتقاد بكون البارئ تعالى ذا مكان أو المراد بقوله فوق ربنا شي‏ء فوق عرش ربنا إما مكانا أو رتبة فيكون ذلك منه تقصيرا في معرفة عظمته و جلالہ : اس روایت کے صحیح ہونے کی صورت میں اس کی توجیہ یہ ہے کہ دردائیل نے فقط ایک لحضہ سوچا تھا نا کہ اس کا عقیدہ تھا کہ اللہ رب العزۃ کا کوئی مادی مکان ہے اس نے سوچا یہ تھا کہ کیا اس عرش سے بڑی کوئی چیز ہے ؟ تو یہ سوچنا بھی اسکی عظمت و جلالت کے اعتبار سے تقصیر و غلطی تھی (115)
اور حقیقۃ الملائکہ کے باب میں دردائیل کے قصے کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : أقول تمامه في باب ولادة الحسين ع بيان أَ فَوْقَ رَبِّنَا جَلَّ جَلَالُهُ شَيْ‏ لعله كان ذلك بمحض خطور البال بغير شك لئلا ينافي العصمة و الجلالۃ ( میں مجلسی کہتا ہوں کہ اس قصے کو ہم نے ولادت امام حسین علیہ السلام کے باب میں پورا نقل کیا ہے اور یہ جو اللہ جلّ سلالہ نے دردائیل پر عقاب کیا تھا یہ اس وجہ سے تھا کہ اس نے فقط سوچا تھا نہ کے یہ عقاب کسی ایسی بات کی وجہ سے تھا جو اسکی شان و عصمت کے خلاف ہو (116)
آیت اللہ صادق روحانی دام ظلہ کا نظریہ :
السؤال : ما مدى صحّة رواية الملك فطرس ؟ وكيف يمكن توجيهها على فرض الصحّة بما لا ينافي العصمة الثابتة للملائكة ؟
الجواب :
بإسمه جلت اسمائه : في الخبر الموثّق عن الإمام الصادق (عليه السلام) « أنّ فطرس كان من حملة العرش ، فبُعث في أمر فأبطأ فيه ، فكُسِر جناحه » ،ومن الواضح أنّ الإبطاء ليس معصية من المعاصي ، وإنّما هو خلاف الاُولى ليس إلاّ ، ولم يكن كسر الجناح عقاباً وإنّما كان مجرّد أثر وضعي .
ترجمہ:
سوال: فطرس فرشتے والی روایت کیا صحیح ہے؟ اور اگر صحیح ہے تو پھر اس کی تاویل کیا ہوگی چونکہ فرشتے تو معصوم ہوتے ہیں؟
جواب : بإسمه جلت اسمائه
یہ ایک موثق اور قابل اعتماد خبر میں ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ فطرس عرش کے اٹھانے والوں میں سے تھا اور کسی کام کےلیے اسے ڈیوٹی دی گئی تو اس نے اس کام میں سستی کی (یعنی سستی کے ساتھ اس کام کو انجام دیا) جس کی وجہ سے اس کے پر ٹوٹ گئے۔ ۔۔۔۔۔ اور یہ ایک واضح سی بات ہے کہ سستی کرنا گناہ نہیں ہوتا بلکہ ایک غیر اولی کام یعنی غیر مناسب کام ہوتا ہے اور پھر پروں کا ٹوٹ جانا کوئی اللہ کی طرف سے عذاب نہیں ہے بلکہ اس سستی کا ایک طبیعی اور فطری اثر ہے۔
(انکی سائیٹ میں سوال کیا گیا تھا )
آیۃ اللہ مکارم شیرازی دام عزہ :
مجازات و تنبیه ملائکه در اثر " ترک اَولی" بوده است، نه گناه و معصیت. منظور از ترک اولی، این است که آنها در اجرای دستورات الاهی عملی را که دارای اولویت بیشتری بوده رها کردهاند و به سوی عمل کم اولویت رفته اند، یا انجام عمل را در وقتی و شرایطی که اولویت بیشتری داشته است، رها کرده و در شرایط و وقت دیگری به جا آوردهاند و به همین جهت مجازات و تنبیه شده اند
( در پرسش و پاسخهای حضوری ) لنک یہ ہے (http://www.hawzah.net/fa/question/questionview/63518)
اسکی تائید تفسیر نمونہ میں یہ جملات بھی کر رہے ہیں
سورہ انبیاء آیت 26 کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
به خاطر همين معرفت و آگاهى است كه" آنها تنها از او مى‏ترسند" و تنها ترس او را به دل راه مى‏دهند (وَ هُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ) آنها از اين نمى‏ترسند كه گناهى انجام داده باشند، بلكه از كوتاهى در عبادت يا ترك اولى بيم ناكند. ترجمہ یہ ملائکہ اسی معرفت کی وجہ اس سے ڈرتے ہیں اور اسی وجہ سے خوف الہی کو اپنی دل میں رکھتے ہیں وہ اس وجہ سے نہیں ڈرتے کہ کوئی گناہ انجام نا دے دیں بلکہ ( اس وجہ سے ڈرتے ہیں کہ ) اللہ کی عبادت میں کوئی کوتاہی نا ہو جائے اور ترک اولیٰ نا ہوجائے (117)
آیۃ اللہ جوادی آ ملی دام ظلہ
چنانچه درستی سند و فرشته بودن فطرس، هر دو اثبات شود، این امر با آیۀ "لا یَعْصُونَ اللّهَ"، منافاتی ندارد؛ زیرا فرشتگان یکسان نیستند. فرشتگان حامل عرش، حامل وحی و مقامی والا دارند: "وَ ما مِنّا إِلاّ لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ" فرشتگان حامل وحی معصوم اند و تکامل هم ندارند. دلیلی نداریم که تمام فرشتهها از یک سنخ باشند و فرشتهای همانند انسان که دارای نفس مستکمله باشد، نداشته باشیم!. پس امکان دارد که فطرس از فرشتگان زمینی به شمار آید و با فرشتگان آسمانی یا اخروی تفاوت داشته باشد (118)
آیۃ اللہ مرتضی مطھری قدس سرہ
استاد مطھری واقعہ فطرس کی توجیہ کے بعد فرماتے ہیں : داستان فطرس ملک، رمزی است از برکت وجود سیدالشهداء که بال شکسته ها با تماس به او صاحب بال و پر می شوند. افراد و ملت ها اگر به راستی خود را به گهواره حسینی بمالند از جزایر دور افتاده رهایی می یابند و آزاد می شوند (119)
علامہ محمد حسین ڈھکو :
علامہ محمد حسین ڈھکو اپنی کتاب سعادت الدارین فی مقتل الحسین علیہ السلام میں لکھتے ہیں : اس مولود مسعود ( امام حسین علیہ السلام ) کی برکت سے بعض فرشتوں کے ترک اولیٰ کا معاف ہونا بھی ثابت ہے (120)
حوالہ جات
  1. سورہ البقرہ آیت 285
  2. سورہٴ انبیاء ، آیت ۲۶
  3. سورہٴ انبیاء ، آیت ۲۷
  4. سورہ حاقہ ، آیت ۱۷
  5. سورہ نازعات ، آیت ۵
  6. سورہ اعراف ، آیت ۳۷
  7. سورہ انفطار ، آیت ۱۰ تا ۱۳
  8. سورہ انعام ، آیت ۶۱
  9. سورہ ہود ، آیت ۷۷
  10. سورہ احزاب ، آیت ۹
  11. سورہ نحل، آیت ۲
  12. سورہٴ شوریٰ ، آیت ۵
  13. سورہ بقرہ ، آیت ۳۰ تا ۳۴
  14. سورہٴ مریم ، آیت ۱۷
  15. سورہ ھود ، آیت ۶۹و۷۷
  16. سورہ ہود ، آیت ۷۸
  17. بحار الانوار ، جلد ۵۹، صفحہ ۱۷۶ حدیث ۷
  18. بحار الانوار، جلد ۵۹، صفحہ ۱۷۴ حدیث ۴
  19. بحار الانوار ، جلد ۵۹، صفحہ ۱۷۵
  20. سورہٴ صافات ، آیت ۱۶۴۔ ۱۶۶
  21. بحار الانوار ، جلد۵۹، صفحہ ۱۷
  22. سورہ بقره، ۲۸۵٫
  23. الأسفارالأربعة، ج‏۸، ص ۱۱۸ و ۱۱۹٫ کچہ عبارات کے حذف کے ساتھ جو نیچے بیان کریں گے
  24. معجم مقاييس اللغة ج : 4 ص : 331
  25. لسان العرب ج : 12 ص : 405
  26. اوائل المقالات شيخ مفيد، تصحيح‏ دكتر مهدى محقق، انتشارات دانشگاه تهران ص : 66
  27. غرر الحکم عبدالواحد آمدی ج : 2 ص : 509
  28. تفسیر المیزان ج : 2 ص :134 و 138تفسیر آیه 213 سوره بقره
  29. تفسیر المیزان ج : 2 ص : 445 ذیل آیه 286 بقره و ج : 5 ص : 162- 164 ذیل آیه 33 سوره یوسف
  30. التبيان في تفسير القرآن، ج‏1، ص: 151
  31. سورہ النساء : آيت 157
  32. سوره يس : آيت 43 و 44
  33. سوره هود : آيت 43
  34. سورہ تحریم آیت 6
  35. سورہ کھف آیت 50
  36. سورہ کھف آیت 50
  37. سورہ فاطر آیت 1
  38. سورہ تحریم آیت 6  
  39. سورہ تحریم آیت 6
  40. سورہ صافات آیت 158
  41. سورہ حج آیت 75
  42. تفسير القرآن الكريم (صدرا)، ج‏3، ص: 10
  43. الأسفارالأربعة، ج‏۸، ص ۱۱۸ و ۱۱۹٫
  44. تفسير منهج الصادقين في إلزام المخالفين، ج‏1، ص: 155 كاشانى ملا فتح الله
  45. تفسير مقاتل بن سليمان، ج‏1، ص: 98
  46. إعراب القرآن و بيانه، ج‏1، ص: 85
  47. أنوار التنزيل و أسرار التأويل، ج‏1، ص : 72 عبدالله بن عمر بيضاوى
  48. البحر المحيط في التفسير، ج‏1، ص: 248 اندلسى ابو حيان محمد بن يوسف‏
  49. تاج التراجم في تفسير القرآن للأعاجم، ج‏1، ص : 84
  50. تفسير القرآن العظيم (ابن كثير)، ج‏1، ص: 135
  51. تفسير القرآن العظيم ج‏1، ص : 85
  52. التفسير القرآني للقرآن، ج‏1، ص : 58
  53. التفسير المظهري، ج‏1، ص : 56
  54. روح المعاني في تفسير القرآن العظيم، ج‏1، ص : 232
  55. الكشف و البيان عن تفسير القرآن، ج‏1، ص : 181
  56. لباب التأويل في معاني التنزيل، ج‏1، ص : 38
  57. محاسن التأويل،ج‏1، ص : 291
  58. شرح‏ نهج البلاغۃ كمال الدین میثم بن علی بن میثم بحرانی (متوفای 679 هـ ) ج 1 صفحة 184
  59. السرائر الحاوی لتحریر الفتاوى،أبو عبد الله محمّد بن منصور بن أحمد بن إدريس العجلي الحلّي ، ج‏3، ص 580
  60. السرائر الحاوی لتحریر الفتاوى، أبو عبد الله محمّد بن منصور بن أحمد بن إدريس العجلي الحلّي ، ج‏3، ص 580
  61. أمالي الصدوق، المجلس الثامن و العشرون حدیث نمبر ۸ ص : 138
  62. دلائل الامامۃ محمد بن جریر طبری صفحہ 79 دار الذخائر للمطبوعات قم
  63. اختیار معرفۃ الرجال معروف برجال الکشّی محمد بن عمر کشّی حدیث :1092 صفحہ 582
  64. بشارۃ المصطفیٰ لشیعۃ المرتضیٰ عماد الدین محمد بن ابی القاسم طبری صفحہ 119 و120 انتشارات کتابخانہ حیدریہ نجف اشرف
  65. مناقب آل ابی طالب محمد بن شھر آشوب انتشارات علامہ قم جلد 4 صفحہ 74 فصل في معالي أموره
  66. مناقب آل ابی طالب محمد بن شھر آشوب انتشارات علامہ قم جلد 4 صفحہ 75 فصل في معالي أموره
  67. بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد علیہم السلام محمد بن حسن بن فروخ صفار القمی ، باب ما خص الله به الأئمة من آل محمد و ولاية الملائكة صفحہ 67 انتشارات کتاب خانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی
  68. أبي القاسم جعفر بن محمد بن جعفر بن موسى بن قولويه القمي متوفیٰ ٣٦8 کامل الزیارات الباب العشرون علم الملائكة بقتل الحسين صفحہ 140 تحقیق و چاپ نشر الفقاھۃ
  69. قطب الدين راوندى، سعيد بن هبة الله، متوفاى 573 ه ۔ ق الخرائج و الجرائح، ج‏1، ص : 253 با تحقیق سید محمد باقر موحد ابطحی
  70. محمد بن حسن الحر العاملی ، اثبات الھداۃ بالنصوص والمعجزات ج : 4 ص 45 موسسہ الاعلمی للمطبوعات
  71. نوري‌، حسين ‌بن‌ محمد تقي مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل ، ج‏10، ص : 411 موسسه تحقيقات و نشر معارف اهل البيت (ع)
  72. بحار الانوار للمجلسی ، ج44، ص182، ح7
  73. أبو عبد اللّه محمد بن جعفر بن علي المشهدي الحائري، المعروف بمحمد ابن المشهدي و ابن المشهدي المزار الكبير (للمشهدي)، ص : 398 دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرسين حوزه علميه قم
  74. الشیخ عزّ الدین ابی محمد الحسن بن سلیمان الحلی العاملی (کان حیا سنۃ 802) مختصرالبصائر الدرجات صفحہ 46 دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرسين حوزه علميه قم
  75. سيد بن طاووس، رضى الدين على بن موسی الإقبال بالأعمال الحسنة ( ط – الحديثة ) ، ج‏3، ص : 304
  76. ابو جعفر محمد بن حسن طوسی مصباح المتهجد، ص : 827 با تحقیق استاد على اصغر مرواريد و حجة الاسلام شيخ ابوذر
  77. روضة الواعظين ج : 1 ص : 15 انتشارات رضى، قم
  78. المصباحص : 544 انتشارات رضى (زاهدى)، قم
  79. الصراط المستقيمج : 2 ص : 179 انتشارات كتابخانه حيدريه، نجف اشرف
  80. الثاقب في المناقب ص338 انتشارات رضی
  81. سعادت الدارین فی مقتل الحسین صفحہ 58
  82. علامہ مجلسی بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار   ج‏43   ص 259   باب 11 ولادتهما و أسمائهما و عللها و نقش خواتيمهما صلوات الله عليهما
  83. علامہ مجلسی بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج‏43، ص : 314
  84. شيخ صدوق كمال الدين و تمام النعمة ج‏ 1ص282 حدیث 36 ناشر اسلاميه‏ تهران
  85. لسان العرب ابن منظور جلد 1 ص : 34
  86. سورہ توبه ، آیہ 43
  87. سورہ احزاب آیہ 37
  88. سورہ تحریم آیہ 1
  89. سورہ نساء آیہ 104 و105
  90. سورہ تحریم آیہ 8
  91. مستدرک الوسائل، ج5، ص320 بَابُ اسْتِحْبَابِ الِاسْتِغْفَارِ فِي كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً وَ لَوْ مِنْ غَيْرِ ذَنْب
  92. صحیفے سجادیہ مناجاۃ الذاکرین صفحہ 58
  93. الكافي، ج‏2، ص : 505 حدیث 4 بَابُ الِاسْتِغْفَار
  94. الكافي، ج‏2، ص : 505 حدیث 5 بَابُ الِاسْتِغْفَار
  95. بحار الأنوار، ج‏90، ص : 28 باب 15 الاستغفار و فضله و أنواع
  96. سورہ مزمل آیت 1 و 2
  97. بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار   ج‏68   23   باب 61 الشكر ..... ص : 18
    بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار   ج‏66 باب 37 صفات خيار العباد و أولياء الله و فيه ذكر بعض الكرامات التي رويت عن الصالحين ..... ص : 25
  98. الكافي، ج۲، ص۵۰۴، ح۴ و ۵؛ بحار الأنوار، ج۹۳، ص۲۸۲، ح۲۶۲
  99. پژوهشی در عصمت معصومان حسن یوسفیان و احمد حسین شریفی ص : 29
  100. تفسیر المیزان ج : 2 ص : 136
  101. سورہ سجده، آیه 24
  102. سورہ غافر، آيه 7
  103. سورہ فصلت آیہ 11  
  104. أطيب البيان في تفسير القرآن، آیۃ اللہ سید عبد الحسین طیّب ج‏11، ص : 417 انتشارات اسلام تھران
  105. سید محمد حسین طباطبائی الميزان في تفسير القرآن، ج‏17، ص : 367
  106. صدر الدين محمد الشيرازي الحكمة المتعالية فى الاسفار العقلية الاربعة، ج‏4، ص : 110
  107. سورہ التحريم : آیہ 6
  108. علی اکبر قرشی قاموس قرآن، ج‏6، ص : 283 دارالکتاب الاسلامیه‏ تھران
  109. سورہ انبياء : 26الی 29
  110. سورہ زمر آیت 65
  111. سوره نازعات، آيه 4
  112. سوره هود، آيه ۳۶ و ۳۷
  113. سورہ ھود آیت 42 و 43
  114. سورہ ھود آیت 46
  115. بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار ج‏43   باب 11 ولادتهما و أسمائهما و عللها و نقش خواتيمهما صلوات الله عليهما   ص : 237
  116. بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار   ج‏56  باب 23 حقيقة الملائكة و صفاتهم   وشئونهم و أطوارهم ص : 144
  117. تفسير نمونه، ج‏13، ص : 392
  118. توصیه ها، پرسش ها و پاسخ ها در محضر آیت الله جوادی آملی، ج 2، ص 88-87
  119. مجموعه آثار، ج 17 (یادداشت امام حسین (ع) و عیسی مسیح (ع) ) ص 564
  120. سعادت الدارین فی مقتل الحسین علیہ السلام صفحہ58

No comments:

Post a Comment