Tuesday, May 10, 2016

کیا رسول اکرم صلی الله علیه و آله کےوالدین دین ابراهیمی پرنهیں تهے کچه جاهل ان کو کافر کهتے هیں

ملحد Ali Almas کا فری تھنکرز کے پیج پر نبئ کریم ﷺ کے والدین کے بارے میں ھذیان ،، حسب معمول روایت کو دلیل بنایا گیا ھے !!
چند دن پہلے ایک دوست کے ساتھ اس کے دور کے رشتہ دار انکل سے ملنے کا اتفاق ہوا. انکل بہت ہی کٹر قسم کے اہل حدیث ہیں. اکثر میرے دوست کے والد کے لیے مزہبی کتب بیجھتے ہی رہتے ہیں.حسب سابق انہوں نے اپنی الماری سے دو عدد کتب نکالیں اور میرےدوست کو دے دیں. میں نے قدرے اشتیاق سے اس کے ہاتھوں میں کتب کو دیکھا تو اسے دیکھانے کو کہا۔ وہ دو کتب تصویر میں موجود کتب تھیں ایک مدر ڈے اور ایک فادرز ڈے پر۔ میری مسکرہٹ ہی نکل گئی۔ انکل بولے کیا ہوا بیٹا؟ میں نے قدرے سنجیدگی سے کہا کہ انکل اسلام میں ماں کی بڑی شان ہے۔ انہوں نے کہا بے شک ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ میں نے کہا انکل ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ یہ بات نبی نے بتائی لیکن انہوں نے اپنی ماں سے کوئی محبت نہین کی ۔ اس پر وہ بوکھلا کر بولے وہ کیسے ؟ میں نے کہا آپ کو پتا ہے کہ انہوں نے اپنی ماں کی قبر پر دعا نہیں کی تھی ۔ اس پر ان کو تو غصہ ہی چڑھ گیا۔ غررا کر بولے آپ کو کس نے کہا ہے کہ انہوں نے دعا نہیں کی تھی ۔ میں نے کہا غصے نہ کھائیں کسی عالم سے پوچھ لیں ۔ انہوں نے کہا ابھی کرتا ہوں اور لپک کر کسی مولانا کو فون ملانے لگ گئے ۔ ان کے دو بیٹے بھی پاس بیٹھے میری باتیں سن رہے تھے ۔ وہ بھی خاصے غصے میں لگے۔ اب سب خاموشی سے فون پر ہونے والی گفتگو کے منتظر تھے ۔ جند ہی لمحوں میں فون مل گیا ، انکل نے سلام دعا کےبعد پوچھا کہ مولانا کیا ںبی نے اپنی والدہ کے لیے دعا نہین کی تھی ۔ کیا وہ ان کی قبر سے بغیر دعا ہی لوٹ آئے تھے ؟ اس کے بعد جواب سن کر تو جیسے انھیں دھچکا ہی لگ گیا ۔ بڑے فکر مند لہجے میں بولے کیوں دعا نہین کی تھی ؟ کچھ دیر حیرت میں رہنے کے بعد اور کوئی جواب سن کر انہوں نے واقعہ بلمشافہ سننے کے لیے ٹائم سیٹ کر کے فون بند کر دیا ۔ ان کی اتارا ہوا چہرہ بتا رہا تھا کہ ا نھیں کوئی شدید دھجکا لگا ہے ۔ میں نے کریدتے ہوا پوچھا انکل کیا کہا مولانا نے ؟ بولے وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے دعا کرنے سے روک دیا تھا ۔ ایک لمحہ خاموشی کے بعد قدرے شرمندگی سے بولے میں نے 72 سال کی عمر میں یہ نہ سنا تھا ۔ آج پہلی بار سنا ہے ۔ امید ہے آپ سب نے 72 سال عمر ہونے سے پہلے محمد کی زندگی کا یہ پہلو پڑھ لیا ہو گیا ۔
الجواب !
حسبِ معمول قرآن کو دلیل بنایا گیا ھے !!!
الحمد للہ نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین دینِ ابراھیم پر تھے اور دینِ ابراھیم توحید کا دین تھا اور اس بات کا کوئی ادنی سا ثبوت بھی کسی نے نہیں پیش کیا کہ نبیﷺ کے والد یا والدہ میں سے کسی نے شرک کیا ، اگر کسی کے پاس ثبوت ھے تو پیش کرے - اس قسم کے فرضی قصے جیسا کہ اس پوسٹ میں بنایا گیا ھے کہ فلاں مفتی سے پوچھا گیا ،،،،،،،،، ملحدوں کی شاطرانہ چال کے سوا کچھ نہیں - دینِ ابراھیمی توحید تھا ،جس کا ثبوت خود قرآن کریم میں اللہ پاک نے قیامت تک ثبت کر دیا ھے " ...... ثُمَّ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ اَنِ اتَّبِعۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہِیۡمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۲۳النحل ) پھر ھم نے وحی کی آپ کو کہ اتباع کیجئے ملتِ ابراھیم کا جو کہ مشرکین میں سے نہیں تھے -قرآن کے بعد تاریخی کہانیوں کی کوئی اھمیت نہیں ھے ،، رہ گئ یہ بات کہ اس زمانے میں یہود و نصاری دین ابراھیم پر تھے تو اس کی نفی اللہ پاک نے دو ٹوک انداز میں فرما دی ھے ،، یہود کہتے تھے کہ ابراھیم یہودی تھے اور نصاری کہتے تھے کہ ابراھیم نصرانی تھے ،، اللہ پاک نے فرمایا " ما كان إبراهيم يهوديا ولا نصرانيا ولكن كان حنيفا مسلما وما كان من المشركين 67 - آل عمران ) ابراھیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی تھے بلکہ یکسو مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے بھی نہیں تھے ،،،
تعجب کی بات یہ ھے کہ جس ھستی پہ قرآن نازل ھو رھا تھا خود اسی کو قرآن یاد نہ رھتا تھا ؟ جو زمین پر لوحِ محفوظ کا بیک اپ تھے ،، آپ ﷺ نے قرآن ھماری طرح چٹائی گھسا کر یاد نہیں کیا تھا بلکہ قرآن آپ ﷺ کے اندر اس طرح رواں دواں تھا جس طرح سانس ایک جاندار کے اندر رواں ھوتی ھے اور اسے لینا کوئی نہیں بھولتا بلکہ وہ سوتے میں بھی اس میں جاری و ساری ھوتی ھے ، اسی لئے اس ھستی کا دل نہیں سوتا تھا کیونکہ لوحِ محفوظ کی راتیں بھی جاگتی ھیں ،، اب قرآن کو دیکھ لیجئے کہ کسی کافر کے لئے دعا نی کرنے کا حکم سورہ ھود میں ھے اور وہ مکی سورت ھے جہاں حضرت نوح علیہ السلام سے کہا گیا ھے کہ جاھلوں جیسی بات مت کیجئے گا ، آپ کا بیٹا آپ کی فیملی میں سے نہیں ھے ،، انہ لیس من اھلک انہ عملۤ غیر صالح ، فلا تسئلنِ ما لیس لک بہ علم، انی اعظک ان تکون من الجاھلین،، کافر رشتے دار کے لئے سفارش یا دعا جہالت ھے ،، جس پر نوح علیہ السلام نے گڑگڑا گڑگڑا کر معافی مانگی اور یہ معافی محمد ﷺ پر ھی نازل ھوئی ، اس کوتاھی کے ازالے اور کفارے کے لئے نوح علیہ السلام نے خود آگے بڑھ کر کافروں کے لئے بددعا کر دی ، گویا دعا کا کفارہ بد دعا ،،، 1- کیا نبئ کریم ﷺ اس جہالت کا ارتکاب کر سکتے تھے اگر آپ جانتے تھے کہ آپ کے والدین کافر مرے تھے ؟ اور ایک بچہ جب آٹھ سال کی عمر تک والدہ کے ساتھ رھا ھے تو کیا وہ یہی نہیں جانتا کہ اس کی والدہ مسلمان تھی یا کافر ،، اگر وہ مشرک ھوتی تو آٹھ سال کے دوران کسی بت کی پناہ مانگی ھوتی یا کسی بت کے استھان پر سلام کے لئے بیٹا لے کر حاضر ھوئی ھوتیں یا اس بیٹے کے شکرانے میں کوئی بکرا چڑھایا ھوتا ؟ جب حضرت آمنہ علیہا السلام کی وفات تک نبئ کریم ﷺ نے دعوئ نبوت ھی نہیں کیا تھا تو حضور ﷺ کا کلمہ مسلمان ھونے کی شرط کیسے ھو گیا ؟ اور اگر حضورﷺ کی بعثت سے پہلے حضورﷺ کا کلمہ پڑھے بغیر کوئی مسلمان نہیں ھو سکتا تو خود حضور ﷺ اپنی بعثت سے پہلے کیا معاذ اللہ کافر تھے ؟ اعلانِ نبوت سے پہلے جو اسٹیٹس جناب نبئ کریم ﷺ کا تھا وھی بی بی آمنہ علیہا السلام کا بھی تھا اور جناب حضرت عبداللہ کا بھی تھا ،، اور یہ سارے شریعتِ ابراھیمی کے پیروکار تھے اور وھی ان کے کلمے کا جزو تھے ، لا الہ الا اللہ ، ابراھیم خلیل اللہ مکے والوں کا کملہ تھا ،، شرک و بدعات ضمنی چیزیں تھیں ،، اس لئے جناب نبئ کریم کو بھی بار بار ملتِ ابراھیم کا اتباع کرنے کا حکم ھوا ،، ملۃ ابیکم ابراھیم ھو سماکم مسلمین من قبل و فی ھذا ،( الحج )، یہ دین تمہارے باپ ابراھیم ھی کی ملت ھے ، اسی نے تمہارا نام مسلمان رکھا تھا ، پہلے بھی اور اس کتاب میں بھی تمہیں اسی دعا کا مصداق بنایا گیا ھے جس میں اس نے نام لے کر اپنی اور اپنے بیٹے اسماعیل کی اولاد میں سے امتِ مسلمہ مانگی تھی ،، لہذا اولادِ اسماعیل اپنی تمام تر بدعات اور خرابیوں کے باوجود امت مسلمہ ھی تھی،، پھر سورہ آل عمران میں فرمایا ،، قل صدق اللہ ، فاتبعوا ملۃ ابراھیم حنیفاً و ما کان من المشرکین ،، تو جناب اپنے سارے عرصہ نبوت کے دوران نبیﷺ کو پہلی دفعہ قبر پر جاکر پتہ چلا تھا کہ والدہ مشرکہ تھی ؟ پھر ابراھیم علیہ السلام اور ان کے والد کا معاملہ یہاں زیرِ بحث لایا ھی نہیں جا سکتا کیونکہ اس والد نے تو بیٹے کی بعثت کے بعد نہ صرف ان کی مخالفت کی بلکہ ان کو جلانے کی کوشش کرنے والوں کا ساتھ دیا ، اور وعدے کے مطابق تب تک اس کی مغفرت کی دعا کرتے رھے تا آنکہ اللہ پاک نے ان کو خبر دے دی کہ وہ مشرک مر گیا ھے ، جبکہ یہاں نبئ کریمﷺ کو اپنے والدین کے لئے دعا کا حکم دیا گیا ھے " و قل رب ارحمھما کما ربیانی صغیراً ( بنی اسرائیل ) اگر کوئی روایت یہ بتاتی ھو کہ نبئ پاک ﷺ قرآن کی صورت میں بیان کچھ اور کرتے تھے ، اور حدیث و سنت کی صورت میں اس کے خلاف کرتے یا چلتے تھے تو ایسی کوئی روایت کوئی حیثیت نہیں رکھتی چاھے کوئی اسے کعبے کی دیوار پر بھی لکھ دے#منقول

No comments:

Post a Comment